فکری و سائنسی پسماندگی، اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی جدوجہد

تعارف

سائنس اور معقولیت پسندی اسلامی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص، شرم ناک حد تک بدحالی کا شکار ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب انسان مریخ پر قدم رکھ رہا ہے اور سینکڑوں نوری سال کے فاصلے پر نت نئی دنیائیں دریافت کر رہا ہے، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے اور خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن الحکیم میں جگہ جگہ تفکر اور تسخیر کائنات کی دعوت دی گئی ہے، یہاں تک کہ پہلی وحی ، یعنی ’’اقراء‘‘ کے الفاظ بھی مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم تعلیم و ترقی کے تمام اشاریوں میں دنیا سے پیچھے ہیں۔ ہمارا یہ زوال راتوں رات نہیں آیا، اور نہ ہم ہمیشہ سے ایسے تھے۔ نویں سے تیرہوں صدی عیسوی تک مسلم دنیا نے چوٹی کے سائنسدان اور دانشور پیدا کئے۔ ہماری درس گاہیں اورکتب خانے دنیا بھر کے لئے حصول علم کا ذریعہ تھے۔ جب مغرب تاریک دور سے گزر رہا تھا، ہم اجالے کا استعارہ تھے۔ مگر پھر رفتہ رفتہ ہم خود جہالت اور تاریکی میں ڈوبتے چلے گئے، اور موجودہ حالت پر کڑھتے ہوئے اب تو گویا ’یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی۔‘‘۔

Courtesy: “Grieving Abdus Salam and the Muslim age of darkness” – The Express Tribune

سائنس کیا ہے؟

بہت مناسب رہے گا اگر آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لے لیا جائے کہ آخر سائنس کیا ہے۔ مختصراََ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس ایک طرز فکر کا نام ہے، جس میں عقل وخرد کو استعمال کرتے ہوئے کائنات اور مظاہر قدرت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں مشاہدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مشاہدہ حواس خمسہ کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے اور خودردبینوں، دوربینوں، حرارت پیما یا دوسرے ذرائع سے بھی۔ اس مشاہدے کی روشنی میں ایک سائنسدان غور و فکر کرتا ہے اور تجربات کی مدد سے مختلف مفروضوں کی پڑتال کرتا ہے تاکہ وہ کچھ حقائق تک پہنچ سکے۔ اس سارے عمل کے بعد وہ کوئی نظریہ پیش کر تا ہے جسے مزید جانچا جاتا ہے۔ یہ ایک سائنسی طریقہ کار ہے جو ہمیں مختلف سائنسی قوانین دریافت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ سائنس میں اگر کوئی شے مقدم ہے تو وہ یہی سائنسی طریقہ کار اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے معروضی حقائق ہیں۔ ان حقائق کا رد یا ان کی متبادل توجیح پیش کرنے کے لئے بھی سائنسی طریقہ کار ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں کوئی شے یا شخصیت مقدس نہیں۔ ہم کسی بات کو محض اس بنا پر تسلیم نہیں کر سکتے کہ اسے آئن اسٹائن یا نیوٹن نے کہا ہے۔ ہم معروضی حقائق کو سائنسی طریقہ کار سے جانچنے اور تمام تر سائنسی پیمانوں پر پورا اترنے کے بعد ہی تسلیم یا رد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کے قوانین کا اطلاق پاکستان کے دور دراز کے کسی گاؤں میں بھی ویسے ہی ہو گا جیسا کہ نیویارک یا افریقہ میں۔ اسی طرح سائنس کے قوانین اور سائنسی طریقہ کار تمام مذاہب کے ماننے والوں یا نہ ماننے والوں کے لئے بھی یکساں رہتے ہیں۔ سائنس کی انہیں خوبیوں کی بنا پر اس کی ترقی کی رفتار کبھی کم نہیں ہو پائی اور وہ روز بروز مزید سے مزید مستحکم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کے برعکس روایتی طرز فکر ان خوبیوں سے بے بہرہ ہونے کی بنا پر اپنا آپ منوا نہیں پاتی۔

Courtesy: Wikipedia

مسلم دنیا کی سائنس میں پسماندگی کے اسباب

آخر وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے مسلمان سائنس میں اپنا مقام قائم نہ رکھ سکے؟ یہ آج کے حالات کے تناظر میں نہایت اہم موضوع ہے۔ اس کے لئے ہمیں ماضی میں جانا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ کہاں ہم راستے سے بھٹکے۔ پہلی نظر میں منگولوں کا حملہ ، بغداد کی تباہی اوربیت الحکمہ کی تباہی کے مناظر ہمیں اپنے عروج کے اختتام کا نوحہ سناتے ہیں۔ یہ افسوس ناک تو ہے مگر ہم ان خارجی عوامل کو اپنے زوال کا سبب قرار نہیں دے سکتے۔ عمارتیں منہدم ہوتی ہیں اور اپنی شان میں پہلے سے بڑھ کر تعمیر ہو جاتی ہیں۔ ہم روایتی یا مذہبی اقدار سے دور ہونے کو بھی اس زوال کا سبب قرار نہیں دے سکتے کہ روایات مبدل ہیں اور سائنس کی ترقی کا پیمانہ مذہبی نہیں، بلکہ خالصتاََ عقلی اور معروضی تگ و دو ہے۔ سیاسی و اقتصادی حالات ہم پر یقیناًاثر انداز ہوئے، مگر آخر ہم ایک ہزار برس سے علم اور سائنس کے میدان میں مفلوک الحال ہیں تو اس کی وجہ اندورنی عوامل اوراپنے رویوں میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کا جائزہ یہ واضح کرتا ہے کہ جوں جوں مسلم معاشروں میں عدم رواداری بڑھتی گئی، توں توں خرد افروزی کے لئے ماحول ناسازگار ہوتا چلا گیا اور اسی تناسب سے سوال کرنے اور آزادانہ غور و فکر کی آزادی چھنتی چلی گئی۔ اس سب کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشروں میں کٹر پن بڑھتا گیا ۔ اسلام کی عظیم اور ہمہ گیر تہذیب بدقسمتی سے تنگ نظر ملائیت کا شکار ہو گئی اور پھر ہم زوال کی گھاٹیوں میں اترتے چلے گئے۔

مشاہیر اسلام پر کفر کے فتوے

تاریخ  کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کتنی ہی روشن دماغ ہستیاں، جن کا نام ہم آج فخر سے لیتے ہیں، اپنے اپنے دور میں ملائیت کے ہاتھوں زیر عتاب رہیں اور انہیں بدعتی، ملحد، منکر اور کافر قرار دے کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عرب دنیا کے ممتاز ترین فلسفی، الکندی (801 – 873)، کی مثال لیجئے جس نے منطق، طبیعات، ریاضی اور موسیقی جیسے علوم پر دو سو ساٹھ سے زیادہ کتب لکھیں۔ ایک تنگ نظر خلیفہ کے مسند اقتدار سنبھالنے پر اس عظیم عالم پر جینا تنگ کر دیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ اس کے حکم پر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر لیا گیا، بلکہ اسے بڑھاپے میں سر عام پچاس کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔ اسی طرح اپنے وقت کے عظیم ترین طبیب ، کیمیا دان اور فلسفی محمد ابن زکریا الرازی (854 – 925)  کو بھی قدامت پرست امیر نے کافر قرار دیا اور سزا میں الرازی کی اپنی ہی کتاب اس کے سر پر اس زور سے ماری گئی کہ وہ اپنی بینائی کھو بیٹھا اور پھر کچھ عرصہ بعد چل بسا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ محض دس برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے والے، اپنے دور کے عظیم ترین اور طبیب مفکر بو علی سینا  (980 – 1037) کو بھی منکر قرار دے دیا گیا۔ اس کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی اور اسے بھاگ کر اپنی جان بچانی پڑی۔ اسی طرح الفارابی  (872 – 950) کو بھی کافر کہا گیا، ابن رشد (1126 – 1198) پر الحاد کا الزام لگایا گیا، اوراس کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔  یہ علم دشمن رویہ محض سائنس دانوں تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ مذہبی مشاہیر بھی اس کی زد میں آئے۔  مثال کے طور پر  فقہ کے سب سے بڑے امام حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قید خانے میں وفات پائی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو بھی خلق قرآن کے مسئلے پر کوڑے مارے گئے۔  اولیائے کرام پر کفر کے فتوے لگاتے ہوئے انہیں واجب القتل قرار دیا گیا؛  شاعر مشرق علامہ اقبال کو زندیق کہا گیا اور بانی پاکستان کو کافر اعظم قرار دیا گیا۔

دوسری طرف اگر ہم یورپ کے تاریک دور (ڈارک ایجز) پر ایک نظر ڈالیں تو وہاں بھی ایک تکلیف دہ صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ گلیلیو گلیلی کو زندان میں پھینکے جانے کا واقعہ ہو یا جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر مار دینے کا سانحہ ، پرنٹنگ پریس پر پابندی ہو یا سائنس کی کتب کو ضبط کرنا، رجعت پسندی اور مذہبی قدامت پرستی کے ہاتھوں صدیوں تک یورپ جہالت میں ڈوبا رہا۔اپنی تمام تر سنگین غلطیوں کے باوجود یورپ بالآخر اس اندھیرے سے باہر آ ہی گیا اور وہاں سائنسی انقلاب کے رونما ہوتے ہی ان کی تقدیر بدل گئی۔ افسوس کہ مسلمان دنیا نے ملائیت کے ہاتھوں یرغمال بنے رہنا ہی مناسب سمجھا اور اس کے نتیجے میں ایک بدترین زوال ان کا مقدر بن گیاہے۔

دور حاضر میں تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ

اب ہم واپس اس تحریر کے ابتدائی حصے کا رخ کریں گے جہاں آج کے دور میں انسان کے مریخ پر قدم رکھنے اور سینکڑوں نوری سال کے فاصلے پر نت نئی دنیاؤں کی دریافت کا ذکر ہے۔ اور تو اور ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی مریخ پر اپنا خلائی جہاز منگلیان  بھیج چکا ہے، جب کہ ہم سائنس اور سائنس دانوں کے متعلق اسی تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جوایک ہزار برس قبل ہمارے زوال کا سبب بنا۔  یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہم نے پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کو کس طرح ٹھکرایا اور ابھی تک ان کا نام اور ان کی سائنس کے میدان میں خدمات کو سراہنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اسی طرح ان دنوں کچھ ناعاقبت اندیش احباب پاکستان کے ایک اور ممتاز سائنس دان، ماہر تعلیم اور دانش ور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔

جہاں بو علی سینا، الکندی، الفارابی اور الرازی جیسی عظیم شخصیات کو بدعتی اور منکر ہونے کی تہمت سہنی پڑی، وہاں پرویز ہود بھائی کی ناقدری ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ نوجوان یہ دریافت کرتے پائے گئے ہیں کہ پرویز ہود بھائی نے اس ملک کے لئے اور بالخصوص سائنس اور تعلیم کے لئے آخر کیا ہی کیا ہے، اور یہ کہ وہ سائنس کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بات کیوں کرتے ہیں، جب کہ وہ ان کا میدان نہیں؟ آج کی دنیا میں لاعلمی کوئی بہانہ نہیں اور نہ ہی کسی کی بے خبری سے کسی شخص کی خوبیوں اور خدمات سے انکار کا جواز بنتا ہے، البتہ بہت مناسب رہے گا کہ اس تحریر میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی اس ملک میں بہتری لانے اور سائنس کے فروغ کے لئے کی جانے والی خدمات اور جدوجہد کا ایک مختصر جائزہ پیش کر دیا جائے، اور ساتھ ساتھ وہ سیاسی و سماجی پس منظر بھی بیان کر دیا جائے، جس کے ہوتے ہوئے نہ صرف یہ کہ انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ سائنس کے علاوہ سیاسی، دفاعی  اور سماجی مسائل پر بھی اپنی رائے دیں، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ یہ ان پر لازم بھی ہے کہ وہ قوم کے سامنے اپنی رائے رکھیں تاکہ لوگ ان کے علم سے اور نکتہ نظر سے مستفید ہو سکیں۔

میرا جینا، مرنا پاکستان

دنیا کی صف اول کی درس گاہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے گریجویشن کے بعد آپ پاکستان لوٹ آئے اور قائد اعظم یونیورسٹی سے درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ بعد میں آپ نے جوہری طبیعات میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ راقم الحروف نے ایک موقع پر خود ان سے دریافت کیا کہ ایم آئی ٹی جیسے بہترین ادارے سے پی ایچ ڈی کے بعد انہوں نے امریکہ یا بیرون ملک ٹھہرنے اور بیرون ملک اپنا کیریئر بنانے کا کیوں نہ سوچا؟ انہوں نے یہ سن کر میری جانب قدرے حیرانی سے دیکھا اور جواب دیا کہ پاکستان ان کا ملک ہے، ان کے سامنے صرف اپنے ملک کی خدمت کرنے کا سوال تھا، اور وہ کسی صورت اپنے ملک کے مقابلے میں کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتے تھے۔ میں نے اپنے سوال کو ایک دوسرے رنگ میں یوں پیش کیا کہ کیا کبھی کسی بھی بات نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید ان کا باہر ٹھہرنا ہی ٹھیک رہتا؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ انہیں کبھی کبھی لوگوں کا رویہ دکھ تو دیتا ہے، مگر اپنے ملک سے دور ہونے کا کوئی سوال نہیں بنتا، اور یہ کہ وہ اس مٹی سے ہی وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ وطن کی محبت سے سرشار اس جواب کو ذرا آج کے طالب علموں کی سوچ سے موازنہ کر کے دیکھئے جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، یعنی سرکاری خرچے پر ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں او ر ان میں سے کتنے ہی ملک واپسی کا ارادہ یا خواہش نہیں رکھتے۔

ب سے بندوق، ج سے جہاد

اب ذرا آگے بڑھتے ہیں اور 80 کی دہائی میں جھانکتے ہیں۔ ملک میں آمریت کا راج ہے اور جنرل ضیاء الحق اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے اور اپنی سیاست کو مستحکم کرنے کے لئے بے دردی سے لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کر رہے ہیں۔ ڈالر زدہ جہاد کا نعرہ لگا کر نہ صرف نوجوانوں کو افغانستان میں جھونک دیا گیا ہے، بلکہ ساتھ ساتھ نصاب تعلیم کو بے رحمی سے مسخ کرتے ہوئے اس میں انتہا پسندی کے بیج بو دئیے گئے ہیں۔ اب اسکول کے قاعدوں میں بھی’ب‘ سے بم،’ ج‘ سے جہاد ، اور’ ش‘ سے شہادت کی منادی کر دی گئی ہے۔ بچوں کی معصومیت نوچتے ہوئے مذہبی انتہاپسندی کی ایک ایسی فصل بو دی گئی ہے جسے کاٹتے کاٹتے آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں سمیت پچاس ہزار سے زائد شہریوں کا جان سے جانا لکھا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی  80  کی دہائی کے ان دانشوروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ایک آمر کی غلط پالیسیوں، بالخصوص نصاب تعلیم سے چھیڑ چھاڑ، پر بھرپور تنقید کی اور اسے قوم کے مستقبل کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ آپ نے اپنے قلم کو استعمال کرتے ہوئے عملی طور پر مزاحمتی عمل میں حصہ لیا اور قوم کو خبردار کیا کہ ان پالیسیوں کا انجام اچھا نہیں۔

اسلامی سائنس! –  مگر کیا سائنس  کے بھی مذاہب ہوتے ہیں؟

جنرل ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامائزیشن نے جہاں اور بہت سے ظلم ڈھائے، وہاں اس نے سائنس کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا۔ اس کی ایک مثال ’’اسلامی سائنس‘‘ کا طرح مصرعہ ہے، جس پر جو غزلیں لکھی گئیں، وہ شاعری کے تمام رموز و اوقاف سے بے بہرہ اور نہایت بے وزن تھیں۔ دوسرے الفاظ میں ’’اسلامی سائنس‘‘ کے عنوان کے تحت سائنس کے معروضی طریقہ کار کی بے حرمتی کی گئی اور خرد افروزی اور معقولیت کو جبری جلا وطن کر دیا گیا۔مثال کے طور پر اس کے نتیجے میں ’’باجماعت نماز کے ثواب‘‘، ’’خدا کا زاویہ‘‘، ’’جنت کے زمین سے دور جانے کی رفتار‘‘،’’دوزخ کا درجہ حرارت‘‘، ’’منافقت معلوم کرنے کا فارمولا‘‘، ’’جنات کی ماہیت‘‘ اور یہاں تک کہ ’’جنات کے ذریعے توانائی کے مسئلے کا حل‘‘ جیسی غیر معمولی ’تحقیقا ت‘ سامنے آئیں، جو آئن اسٹائن کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیں۔ اس نوعیت کی تحقیق سے مذہبی جذبات کی تو شاید تسلی ہو جاتی ہو، مگر اس کو سائنس قرار دینا گمراہ کن حد تک مضحکہ خیز ہے۔ اوپر سے ظلم یہ کہ یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہوتا رہا۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اس کے مد مقابل تن تنہا مزاحمت کی اور اخبارات اور جرائد میں مضامین لکھ کر اس نام نہاد ’’اسلامی سائنس‘‘ کا پول کھولا، جو نہ صرف سائنس کے ساتھ مذاق تھی، بلکہ اسلام کی بھی بے توقیری تھی۔ اس کے نتیجے میں سرکاری خرچے پر پروان چڑھائی جانے والی ’’اسلامی سائنس‘‘ کے کل پرزے آپ کے مخالف ہو گئے اور رنگ برنگے الزامات تراشنے لگے۔آپ نے اس ساری صورتحال کا مقابلہ ایک پر امن مفکر کی طرح اپنے قلم کے ذریعے کیا۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے سائنس کا فروغ

پاکستان میں سرکاری چینلز اور آزاد میڈیا کی موجودگی کے باوجود افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سائنس اور تعلیم کے فروغ کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صرف ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ہی ہیں جو ہر ممکنہ طریقے سے قوم میں سائنسی شعور جگانے کے لئے اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آپ نے 1988 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے ’’راستے علم کے‘‘ نامی  13  اقساط پر مبنی سیریز تیار کی، جس میں پاکستان کے تعلیمی نظام کے خامیوں اور ان کو درست بنانے کے لئے تجاویز پیش کی گئیں۔اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ قریباََ  30  برس گزر جانے کے بعد بھی صاحب اختیار ان خامیوں کو دور کرنے میں سنجیدہ نہیں۔

آپ نے 1994 ء میں پی ٹی وی سے ’’بزم کائنات‘‘ نامی سیریز پیش کی، جو سائنسی موضوعات پر عام فہم انداز میں معلومات بہم پہنچانے اور طلباء کی سائنس میں دلچسپی پیدا کرنے کی ایک بہترین کاوش تھی۔ مجھ سمیت نجانے کتنے ہی طلباء سائنس کے میدان میں آنے کے لئے ’’بزم کائنات‘‘ کے احسان مند ہیں۔ مجھے اپنے ابتدائی لڑکپن کا وہ منظر آج بھی یاد ہے جب میں اپنے پورے گھر کے ساتھ اس سیریز کو دیکھا کرتا تھا اور وی سی آر میں ریکارڈ بھی کرتا تھا۔

اسی سلسے کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے پی ٹی وی سے سن  2001 ء  میں  13  اقساط پر مبنی ’’اسرار جہاں‘‘ نامی سیریز کی، جو ایک طور سے ’’بزم کائنات‘‘ ہی کی توسیع تھی، اور طلباء کے لئے سائنس سیکھنے کا ایک بہترین موقع۔

گزشتہ برس، یعنی  2016 ء  میں آپ نے ریڈیو سے ایف ایم  105  کے لئے  16  ہفتہ وار پروگرام کئے، جس میں سماجی معاملات اور عالمی امور کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات پر بھی گفتگو کی گئی۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور مصنف

آپ چار کتابوں کے مصنف اور مدیر ہیں۔ آپ نے 1991ء میں

Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality

 نامی ایک معرکۃ الآرا کتاب تحریر کی، جس کا دنیا کی کئی زبانوں، بشمول عربی،ترکی،ہسپانوی، انڈونیشی، ملائشین اور اردو ، میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کتاب میں آپ نے مسلمان دنیا میں علمی پسماندگی، بالخصوص سائنس میں مفلوک الحالی، کا تفصیلی جائزہ لیا اور ایک نبض شناس کی طرح مسلم معاشروں کو لاحق بیماریوں کی تشخیص کی۔ اسی طرح  1991ء  میں

Proceedings of School on Fundamental Physics and Cosmology

  نامی کتاب کے شریک مدیر (کو ایڈیٹر)  رہے۔ 1998 ء میں

Education and the State – Fifty Years of Pakistan

کے مدیر رہے اور 2013 ء میں

Confronting the Bomb – Pakistani and Indian Scientists Speak Out

 نامی کتاب کو مدون کیا۔

سائنس برائے امن،  جوہری عدم پھیلاؤ اور تخفیف اسلحہ

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، سائنس برائے تعمیر یا ایٹم برائے امن کے خواہاں ہیں۔ آپ جوہری ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس ضمن میں ایک واضح اصولی موقف رکھتے ہیں۔ جوہری ہتھیار اور ایٹم بم، چاہے وہ امریکہ، اسرائیل، جنوبی کوریا، ایران، بھارت یا پاکستان، الغرض دنیا کی کسی بھی طاقت کے پاس ہوں، انسانیت کی تباہی کا سامان ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کی ایک جھلک ہم ہیروشیما اور ناگاساکی میں دیکھ چکے ہیں، جہاں پلک جھپکنے میں ایک پوری نسل ختم کر دی گئی۔ صرف یہی نہیں، تابکاری شعاؤں کے بداثرات نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں او ر نسل انسانی ایک نادیدہ عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔ آپ نے جوہری عدم پھیلاؤ اور دنیا کو تابکاری کی ہلاکت سے محفوظ بنانے کے لئے شعو اجاگر کرنے کی غرض سے ڈاکومینٹریز بنائیں ، مضامین لکھے اور تقاریر کیں ۔ آپ 2013 ء سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے جوہری تخفیف اسلحہ کی مجلس مشاورت (ایڈوائزری بورڈ) کے رکن کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور معلم

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، گزشتہ قریباََ  45  برس سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ آپ نے قائد اعظم یونیورسٹی کو  70  کی دہائی میں بطور معلم اختیار کیا اور ابھی تک اس سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز  (لمز) میں بھی خدمات انجام دیں اور گزشتہ کئی برس سے فورمن کرسچن کالج  (ایف سی سی) میں بھی پڑھا رہے ہیں۔ انڈر گریجویشن اور بی ایس سی کے طلباء کی آسانی کے لئے آپ نے ورچوئل یونیورسٹی  (وی یو) کے اشتراک سے طبیعات (فزکس) کے  45  لیکچرز ریکارڈ بھی کرائے، اور انہیں بہتر طور سے سمجھنے کے لئے طلباء کے لئے ایک ہیلپنگ (نوٹس نما) کتاب بھی لکھی۔

اس کے علاوہ آپ نے گریجویشن کے طلباء کو کیلکولیس سکھانے کے لئے اردو اور انگریزی میں کل  60  ویڈیو لیکچرز ریکارڈ کرائے۔

اسی طرح آپ نے یونیورسٹی کے طلباء کے لئے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو تفصیل سے سمجھانے کے لئے اردو او انگریزی میں کل  16  ویڈیو لیکچرز ریکارڈ کرائے۔

آپ کی ٹی وی سیریز، فزکس، کیلکولس اور نظریہ اضافت پر یہ ویڈیو لیکچرز وہ صدقہ جاریہ ہیں، جن کے ہوتے ہوئے طلباء کو کسی ٹیوشن سنٹر میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ تمام لیکچرز وغیرہ بلا معاوضہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور دنیا بھر، بالخصوص پاکستان کے طلباء کی تعلیم میں مددگار ہیں۔

Courtesy: Eqbal Ahmad Centre for Public Education

جو خوش نصیب ان سے طبیعات پڑھ چکے ہیں، وہ میری اس بات سے مکمل اتفاق کریں گے کہ اپنے موضوع پر ان جیسی مہارت شاید ہی کسی اور استاد کو نصیب ہوئی ہو۔ عام طور پر اساتذہ کسی ایک مضمون میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کے تمام ترمضامین میں یکساں گرفت رکھتے ہیں، چاہے وہ کلاسیکی میکانیات ہو کہ کوانٹم میکانیات؛ چاہے وہ جوہری طبیعات ہوکہ ذراتی طبیعات، الغرض ان کی ان تمام تر مضامین پر مکمل کمانڈ ہے۔ ان کے لیکچرز میں صرف ان کے طلباء ہی نہیں، بلکہ دوسرے ڈیپارٹمنٹس، یہاں تک کہ دوسری یونیورسٹیوں کے طلباء ، اور فیکلٹی ممبران تک شریک ہوتے ہیں۔ ان کے لیکچرز میں کوئی بھی شخص، جو کسی بھی تعلیمی و سماجی پس منظر کا ہو، شریک ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنے تعلیمی کیریئر میں ان جیسا مخلص، انسان دوست، ہمدرد اور بے لوث استاد کبھی نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ جانے کتنے ہی سفید پوش طلباء کے تعلیمی اخراجات بھی آپ نے اٹھائے ہیں۔ میرے ایم ایس سی  کے زمانے کے برقی مقناطیسیت کے ایک استاد نے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے متعلق اپنا ایک ذاتی واقعہ سنایا جو میں نیچے نقل کر رہا ہوں۔

میرے گھریلو اور معاشی حالات نہایت خراب چل رہے تھے۔ پھر ایسا وقت آیا کہ میرے لئے پڑھائی جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ میں اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی سے فزکس میں ماسٹرز کر رہا تھا۔ اگلے سمسٹر کے لئے فیس جمع کرانے کی تاریخ سر پر کھڑی تھی، اور میں خالی جیب تھا۔ خودداری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی تھی اور نہ ہی کسی سے مدد ملنے کی توقع تھی۔ پھر ایسے میں مجھے ایک شخص کا خیال آیا اور میرے قدم اس کے آفس کی طرف اٹھ گئے۔ اس شخص نے خاموشی سے میری بات سنی، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھے میری ضرورت کی رقم اسی وقت دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی تعلیم کے اخراجات کے بارے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بس پڑھو، اپنا مستقبل سنوارو اور موجودہ اندھیروں سے باہر نکلو۔

اسی طرح ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنے طلباء کی اسائنمنٹس اور سرپرائز ٹیسٹس میں بھی ہر ممکن حد تک مدد کرتے رہے ہیں۔

آپ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک طویل عرصے سے بلا معاوضہ کلاسز لے رہے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو ہر ہفتے خصوصی طور پر لاہور سے اسلام آباد سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں طلباء سے خلوص کا ایسا اظہار اور علم بانٹنے کی لگن کی ایسی بے لوث مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کو ایک باوقار رتبہ دلانے میں پرویز ہود بھائی کے کردار سے انکار کرنا قطعی ناممکن ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور محقق

آپ کے 60  سے زائد مقالہ جات دنیا کے بہترین تحقیقی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کا تحقیقی کام نہایت پیچیدہ  موضوعات پر ہے، مثال کے طور پر “کوانٹم کرومو ڈائنامکس” طبیعات کا ایک مشکل ترین میدان تصور کیا جاتا ہے، اور پاکستان میں اس موضوع پر کام کرنے والے لوگ شاید ہی مل سکیں گے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطورمضمون نگاراور کالم نویس

آپ اہم موضوعات پر سینکڑوں مضامین اور کالمز لکھ چکے ہیں، جو پاکستان اور دنیا بھر کے اخبارات اور مجلوں میں اشاعت پزیر ہوئے ہیں۔آپ کے اکثر مضامین میں پاکستان کے تعلیمی نظام اور بالخصوص سائنس کے نصاب کی کمزوریوں اور خامیوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان میں بہتری کی تجاویز دی گئی ہیں۔یہ آپ کی دردمندی کا اظہار ہے کہ آپ پاکستان میں طلباء کو معیاری تعلیم حاصل کر کے کامیابی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور مشعل بکس

آپ گزشتہ کم و بیش 25 برس سے ایک غیر تجارتی اور غیر نفع بخش  ادارہ ’’مشعل بکس‘‘ بھی چلا رہے ہیں، جو اب تک سائنس، فلسفہ، تاریخ، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی امور، الغرض ہر موضوع پر سینکڑوں بہترین کتابیں شائع کر چکا ہے۔ ان میں زیادہ تر انگریزی زبان کی معیاری کتابوں کا ترجمہ ہے تاکہ پاکستانی عوام تک یہ عالمی کتب اردو میں پہنچ سکیں۔ ان میں سے بیشتر کتابیں اس ادارے کی ویب سائٹ پر مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کو رکھی ہوئی ہیں۔جدید فکری رجحانات، انسانی حقوق، ترقی میں خواتین کے کردار، ماحولیات، منشیات اور قومی و عالمی تخلیقی ادب مشعل کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے عہدے اور  ذمہ داریاں

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جن جن اداروں اور جن جن پوزیشنز اور عہدوں سے وابستہ ہیں یا رہ چکے ہیں، ان کی ایک طویل فہرست بنتی ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور عالمی اسپیکر

آپ ایک دانشور اور مفکر ہیں اور اس بنا پر دنیا بھر میں انہیں خطاب کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ آپ دنیا بھر کے ہزاروں انٹریوز، سیمینارز اور ورکشاپس میں عالمی امن، حقوق نسواں، انسانی حقوق، انسانی مساوات، فکری آزادی، سائنس اور تعلیم کے فروغ کے لئے آواز اٹھا چکے ہیں۔ آپ مسلم دنیا کی غلطیوں کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی پالیسیوں کے بھی ناقد ہیں اور اپنی تحریروں اور تقاریر میں بارہا اپنا موقف پیش کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ امریکی عوام کو تھامس جیفرسن اور ابراہام لنکن کے زریں اصولوں

Life, Liberty and the Pursuit of Happiness

کا حوالہ دیتے ہوئے باور کراتے ہیں کہ  زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کا حق دنیا بھر کے تمام انسانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے اور یہ کہ امریکہ کو عالمی معاہدوں کو توڑتے ہوئے دوسرے ممالک پر جارحیت کا کوئی حق نہیں۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کشمیری عوام کی حق خود ارادیت اور ریاست پاکستان کے سرکاری موقف کی تائید کرتے ہیں، البتہ وہ کشمیر کاز کے حصول کے لئے اپنائی جانے والی پالیسی کے ناقد ہیں، کیونکہ اِس عمل نے کشمیر کاز کو عسکریت سے منسوب کر کے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح لندن میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں آپ نے مسلم معاشروں میں مذہبی انتہا پسندی کے اضافے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے توہین آمیز خاکوں اور موویز بنانے کے عمل کی بھی مذمت کی اور مغربی دنیا سے استدعا کی کہ ایسے ناپسندیدہ اقدامات سے اجتناب کیا جائے جو مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بنیں۔ ان کی عالمی فورمز پر کی جانے والی تقاریر انٹرنیٹ پر با آسانی دستیاب ہیں۔ اسی طرح آپ دنیا بھر میں سائنس اور طبیعات پر لیکچرز دینے کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں۔ ذیل میں ایک نامکمل فہرست دی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور عالمی ایوارڈز

ڈاکٹر پرویزہود بھائی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں دنیا بھر سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان میں الیکٹرانکس میں بیکر ایوارڈ، ریاضی میں عبدالسلام ایوارڈ، پاکستان میں تعلیم کے فروغ کی خدمات کے صلے میں فیض احمد فیض ایوارڈ، اٹلی میں واقع ترقی پذیر دنیا کی اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے روکاسا پرائز، امریکن فزیکل سوسائٹی کی طرف سے جوزف اے برٹن فورم ایوارڈ اور پاکستان میں سائنس کو فروغ دینے پر یونیسکو کی طرف سے کلنگا پرائز نمایاں طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ کو اپریل 2001 ء میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا، جسے آپ نے اصولی موقف اپناتے ہوئے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ 2011ء میں فارن پالیسی میگزین نے دنیا کے سو بہترین مفکرین کی فہرست شائع کی، جس میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی : قائد اعظم یونیورسٹی کے محسن

اب ایک اہم موضوع، جس سے شاید کم لوگ آگاہ ہیں۔ 1996 ء میں بے نظیر حکومت میں قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین ، جو طلباء کے مستقبل میں تعلیمی سرگرمیوں کی ضامن ہے، کے خلاف ایک سازش کا آغاز ہوا۔ اس کے تحت یونیورسٹی کی زمین کو ایم این ایز وغیرہ میں نہایت سستے نرخوں بانٹا جانا تھا، اور کسی قسم کے ممکنہ احتجاج یا رکاوٹ سے بچاؤ کی غرض سے یونیورسٹی کے پروفیسرز کو بھی زمینیں دینے کا لالچ دیا گیا۔ بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات بھی زمین کی اس بندر بانٹ میں اپنا حصہ لینے کو قطار میں لگ گئیں۔ یوں یونیورسٹی کی زمین، جس میں ریسرچ کے ادارے، نئے تعلیمی شعبے، کتب خانے اور تجربہ گاہیں تعمیر ہونی تھیں، سنگین خطرے سے دوچار ہو گئی۔ ایسے میں صرف دو اساتذہ، یعنی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر اے ایچ نیر، ایسے تھے جنہوں نے مزاحمت کی اور طلباء کے تعلیمی مستقبل کی حفاظت کی غرض سے تن تنہا حکومت اور دیگر مضبوط لابیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ نے لاہور ہائی کورٹ میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی او ر سخت نامساعد حالات میں اس کیس کو جاری رکھا۔ اس دوران آپ کو ہر طرح کے ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، آپ کو دھمکیوں سہنا پڑیں، یہاں تک کہ پتھر پھینکے جاتے، کھڑکیاں توڑ دی جاتیں اور ہر طرح سے حراساں کیا جاتا۔ اس سارے معاملے میں یونیورسٹی ایک سمسٹر کے لئے بند بھی رہی کیونکہ دیگر اساتذہ پلاٹس کی لالچ میں ہڑتال پر چلے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ ان کے عقائد اور حب الوطنی کے بارے میں سنگین غلط فہمیاں پھیلائی گئیں تاکہ وہ کمزور پڑ جائیں اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے کیس واپس لے لیں۔ صرف طلباء کے مستقبل کی خاطر آپ نے ان سنگین حالات کا سامنا کیا اور بالآخر ڈیڑھ سے دو برس کی اعصاب توڑ جدوجہد کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا کہ یونیورسٹی کی زمین طلباء کی تعلیمی سرگرمیوں کے لئے ہے اور اسے سیاستدانوں یا پروفیسروں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی سطح پر لوٹ مار کے اس منصوبے کو ناکام بنانے پر تمام تر طلباء کو پرویز ہود بھائی اور ان کے ساتھی ستاد عبدالحمید نیرکا احسان مند رہنا چاہئے۔ اس کے علاوہ عابد حسن منٹو بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں، جنہوں نے بلامعاوضہ اس کیس کی پیروی کی۔

یونیورسٹی کی زمین پر قبضے کی مکروہ کوششیں وقتاََ فوقتاََ بعد میں بھی جاری رہیں۔ گزشتہ برس یہ انکشاف ہوا کہ یونیورسٹی کی زمین کے ایک بڑے رقبے پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے، اور یہ کہ اس کے پیچھے ایک نامی گرامی سیاسی شخصیت کا ہاتھ ہے جو سینٹ کے سابقہ چیئرمین رہے ہیں، اور یونیوسٹی کی زمین پر باقاعدہ طور پر ایک محل نما کوٹھی تعمیر کرنے کے بعد اس سے منسلک سڑک کو ’’بخاری روڈ‘‘ کا نام تک دے چکے ہیں۔ اس موقع پر ایک بار پھر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنا کردار ادا کیا اوریونیورسٹی میں احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھی۔ آپ نے اس قضیے پر ایک اہم آرٹیکل لکھا، جس نے اس مسئلے کو مزید اجاگر کیا۔ اس سب کے نتیجے میں معاملہ میڈیا کی زینت بنا اور حکومت وقت اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوئی۔ بالآخر چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے پر سو موٹو نوٹس لے لیا اور اب امید ہے کہ یونیورسٹی کی زمین کا ایک بار پھر تحفظ ہو سکے گا۔ یوں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ایک بار پھر طلباء کے لئے ایک مسیحا کا کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کلمہ حق

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں، جہاں گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں پچاس ہزار سے زائد افراد انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بھلا اس میں کوئی شبہ ہے کہ اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پیچھے ایک قدامت پرست مذہبی بیانیہ کار فرما ہے، جس نے اسلام جیسے سلامتی کے دین کا دامن داغدار کر دیا ہے۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا اور حکومت کی اعلان کردہ تحریک رد الفساد میں اپنا حصہ ڈالنا ہر مسلمان اور ہر دردمند شہری کا فرض ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنا یہ فرض پہلے روز سے بخوبی نبھا رہے ہیں۔

یہ اکتوبر 1994ء کی ایک رات کا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر نسیم بابر، جو قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کے فیکلٹی ممبرتھے، کے گھر ایک نقاب پوش داخل ہوا اور انہیں گولیوں سے بھون دیا۔ ڈاکٹر نسیم بابر کا قصور محض یہ تھا کہ وہ ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔  ٹیچرز کالونی اس قاتلانہ حملے کے فوری بعد ان کی اہلیہ اور کم سن بیٹی کی چیخ و پکار سے گونج اٹھی۔ ایسے میں صرف ایک شخص ان کی مدد کو آگے بڑھا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے خون میں لت پت اور جاں کنی کے عالم میں تڑپتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بابر کو کندھے پر لادا اور اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال کا رخ کیا۔ افسوس کہ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ ان کے جنازے میں بھی سوائے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے کسی اور ٹیچر نے شرکت نہ کی۔ یہ الم ناک سانحہ آپ کے ذہن میں ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا کہ کیسے مذہبی اختلافات کے نتیجے میں ایک جیتے جاگتے شریف النفس انسان اور ایک قابل استاد کی زندگی چھین لی گئی۔

فرقہ وارانہ منافرت ہو کہ طالبان کی دہشت گردی، آپ نے پوری توانائی اور جرات کے ساتھ انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے بیانئے کی مذمت کی ہے۔ آپ انسانی مساوات اور انسانی حقوق کے علم بردار ہیں۔ آپ تمام پاکستانیوں کو برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔ آپ تکفیر کے رویے کی مذؐت کرتے ہیں، جس نے امت مسلمہ میں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی رسم کے ہاتھوں آپس کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا ہے۔ آپ بانی پاکستان، قائداعظم محم علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی مجلس قانون ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی روشنی میں تمام شہریوں کی مذہبی آزادی یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں۔ آپ کے ان نظریات کی مخالفت میں شر پسند اور ان کے ہمدرد آپ سے خائف رہتے ہیں، اور اسی بنا پر آپ کے بارے میں منفی پروپگنڈا کرتے پھرتے ہیں۔ پوری قوم کو ان عناصر سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف یہ بھی یاد رہے کہ تحریک طالبان پاکستان، جو پاکستان میں خود کش حملوں کی بھیانک مہم کی ذمہ دار اور نہتے شہریوں اور فوجیوں کو بے دردی سے شہید کرنے والی دہشت گرد تنظیم ہے، کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پاکستان کی ایک سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما نے اسے’’ شہید ‘‘ قرار دیا۔ اسی طرح پاکستان کے ایک اہم ادارے کے سربراہ تحریک طالبان پاکستان کے دوسرے سرغنہ یعنی بیت اللہ محسود  کو ’’حب الوطن‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ ان افسوس ناک اور تکلیف دہ حالات میں جب کہ دہشت گرد آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو بچوں کو شہید کرنے کے عمل کی بھی مذہبی توجیہات پیش کرتے پھر رہے ہوں ، یہ پوری قوم اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان کے جبر و استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنا یہ فرض ادا کر رہے ہیں، اور ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور اقبال احمد سنٹربرائے تعلیم عامہ

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے پاکستان میں فکری آزادی اور علم و دانش کو فروغ دینے اور نسل نو کو تعلیم اور خرد افروزی سے آراستہ کرنے کے لئے پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ سامراج مخالف، یگانہ روزگار دانشوراقبال احمد کی یاد میں اقبال احمد سینٹر فار پبلک ایجوکیشن کا آغاز کیا۔ آپ نے اس ادارے کے تحت تعلیم عامہ کے لئے بہت سے لیکچرز اور مضامین پیش کئے۔ اس کے علاوہ اس ادارے کے تحت نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور سالانہ انعامی مقابلوں کا انعقاد بھی کرایا گیا، جس کے تحت پاکستان کو بہتر بنانے کے موضوعات پر بہترین ڈاکومنٹریز اور شارٹ فلمز سامنے آ سکیں۔ اقبال احمد سینٹر فار پبلک ایجوکیشن نے کچھ ہی برسوں میں جو خدمات سرانجام دی ہیں،اس کا اعتراف نوم چومسکی جیسے دانشور بھی کر تے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بمقابلہ سُوڈو (جعلی) سائنس

ممکن ہے کہ کچھ قارئین یہ سوچ رہے ہوں کہ ایسی کون سی خاص بات ہے جو ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو طالب علموں میں سائنسی شعور اور معقولیت پسندی (ریشنالٹی) کے استعمال کی دعوت دینے پر مجبور کرتی ہے ، اور یہ کہ وہ کیونکر ایک طویل عرصے سے خود کو اس ضمن میں گویا وقف کئے ہوئے ہیں۔ اس کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم پر غور کرنا پڑے گا۔ ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب طلباء میں سیکھنے کی لگن پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ الٹا وہ طلباء کو تعلیم سے بد دل کرنے کے آلے کے طو ر پر کام کرتا ہے۔ تجسس (کیوراسٹی) کا مادہ جو علم کی جستجو کے لئے لازمی ہے، کو نہ صرف یہ کہ پروان نہیں چڑھنے دیا جاتا، الٹا اسے کچلنے کے لئے گویا معلومات کا ایک انبار ہے جسے طلباء پر لاد دیا جاتا ہے اور وہ اسے رٹنے پر مجبور ہوتے  ہیں۔اس سب کے نتیجے میں سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور کتابوں میں لکھی باتوں کو من و عن تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سائنس کے نصاب میں سائنسی استدلال اور طریقہ کار کی نفی کرتے ہوئے الٰہیات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا تعصب بھی حرکت میں آتا ہے اور طالب علم کو محض اطاعت کرنا سکھایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اسے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بگ بینگ کا نظریہ لامحالہ غلط ہے، یا یہ کہ نظریہ ارتقاء باطل ہے۔ اس نوعیت کے مذہبی رجحانات کے زیر اثر جب سائنس پڑھائی جائے گی یا ایک غیر معیاری نصاب تعلیم ترتیب دیا جائے گا تو ایسے میں سائنسی طرز فکر کو خاک فروغ ملے گا؟

ہم اس مضمون میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سرکاری سرپرستی میں متعارف کرائی گئی نام نہاد ’’اسلامی سائنس‘‘ کا ذکر کر چکے ہیں۔ ہم  بتا چکے ہیں کس طرح سائنس کے نام پر مضحکہ خیز ’’تحقیقی‘‘ کارنامے انجام دئے گئے، جیسا کہ زمین سے جنت کے دور جانے کی رفتار، خدا کا زاویہ، جنات کی آتشی فطرت کو استعمال میں لاتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کی تجویز وغیرہ۔ آئیے اب ایک نظر اس افسوس ناک حقیقت پر بھی ڈال لیں کہ سائنسی طرز فکر کی عدم موجودگی میں کس طرح ہمارے ہاں ایک متوازی مگر غیر معقول طرز کی ’سائنس‘ وجود میں آ ئی ہے، جسے جعلی (سُوڈو) سائنس کہنا بے جا نہ ہوگا۔ آئیے کچھ مثالوں سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

کچھ برس پہلے پاکستان میں ایک دعوے نے راتوں رات پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آغا وقار نامی ایک صاحب کا کہنا تھا کہ وہ پٹرول یا سی این جی کی بجائے محض سادہ پانی سے گاڑی چلا سکتے ہیں۔نہ صرف گاڑی بلکہ ان کی بنائی ہوئی واٹر کٹ سے ریل گاڑیاں بھی چلائی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی دعویٰ تھا اور اس نے فوری طور پر لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔ آغا وقار کو میڈیا میں مہمان خصوصی کے طور پر پزیرائی ملنا شروع ہو گئی۔ عام افراد کے لئے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی کہ اب ان کے توانائی کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میڈیا کے نامی گرامی اینکرز نے آغا وقار کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا۔ یہاں تک کہ سرکاری سطح پر اس موضوع پر اجلاس بھی ہوئے کہ اس قومی اثاثے سے کیسے مستفید ہوا جائے۔ ایسے میں کچھ آوازیں اٹھیں، جن کے مطابق ایسا کوئی بھی دعویٰ حر حرکیات (تھرموڈائنامکس) کے اصولوں سے متصادم ہے اور سائنسی پیمانوں پر پورا نہیں اترتا۔ ان میں سب سے اولین اور سب سے توانا آواز پرویز ہود بھائی کی تھی۔ دوسری طرف آغا وقار سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ ان کا پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ بقائے توانائی کے قانون (لاء آف کنزرویشن آف انرجی) کی نفی کر رہا ہے تو آغا وقار نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ ان کی بنائی ہوئی واٹر کار نے دراصل طبیعات کے اس قانون کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ ایک عام آدمی اور اینکر تو چلئے سائنس دان نہیں ہوتے کہ کسی کے دعویٰ کو ٹھیک طور پہ پرکھ سکیں، مگر اس المیے کو کیا نام دیں کہ کئی نامی گرامی سائنسی شخصیات نے بھی آغاوقار کو ایک مسیحا کے طور پر تسلیم کر لیا اور اپنے علم کا کھوکھلا پن ظاہر کیا۔ ان میں سب سے افسوس ناک مثال ڈاکٹر عبد القدیر خان کی ہے۔ آپ نے ٹی وی پر پورے وثوق سے کہا کہ اس معاملے میں کوئی فراڈ نہیں اور یہ کہ دنیا میں ناممکنات بھی ممکن ہو جاتے ہیں۔ گویا کہ سائنس کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ظاہر ہوتی دیکھنے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ صرف یہ کہ کوئی سوال نہیں اٹھایا بلکہ اس غلط دعویٰ کی توثیق بھی کر دی۔ یہ سب سائنسی طریقہ کار کو نظر انداز کرنے کا لازمی نتیجہ تھا۔ جہاں غور وفکر کئے اور سوال اٹھائے بغیر ظاہری چیزوں کو تسلیم کرنے کی رسم چل پڑے، وہاں سائنسی پسماندگی اپنا ڈیرہ لگا لیتی ہے۔ بعد میں آغا وقار کا ابتدائی دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا اور اس نے خود بھی یہ تسلیم کیا کہ پہلے وہ غلط بیانی کر رہا تھا۔ اسی طرح ایک دوسری مثال دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سازشی نظریے کو تسلیم کرنے والے افراد کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے زلزلے اور سیلاب دراصل بیرونی سازش ہیں، اور یہ کہ امریکہ ہارپ ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے جس کے ذریعے وہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پا چکا ہے وغیرہ۔ اس سازشی نظریہ سے متاثر ہو کر ایچ ای سی کے سابقہ چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمان، جو ایک اچھے سائنسدان ہیں، نے بھی ایک کالم لکھ ڈالا، جس سے عام قارئین میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔ بعد میں اس سازشی نظریے کو جب سائنسی طریقہ کار سے پرکھا گیا تو یہ بھی درست ثابت نہ ہو سکا۔

Courtesy: The Express Tribute

ایسے میں جب سینئر اور نامی گرامی سائنسدان بھی سائنسی طرز فکر کا درست اطلاق نہ کریں، وہاں نوجوانوں کے لئے بھلا کیا رہنمائی میسر آنی ہے؟ کتنے ہی ذہین طلباء، ایک فرسودہ نصاب تعلیم کے ہاتھوں اپنی ذہانت گنوا بیٹھتے ہیں اور سائنس کو اپنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ نوجوان محض اپنے تصورات اور شاعرانہ خیالات کو سائنسی تھیوری سمجھتے ہوئے بڑے بڑے دعویٰ کر ڈالتے ہیں۔ انہیں اپنے دوستوں یا غیر سائنسی حلقوں کی کی طرف سے کچھ حمایت مل جاتی ہے، جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے مگر جب سائنسی پیمانوں پر تولا جائے تو ان کے دعویٰ ریت کی طرح ہاتھوں سے سرک جاتے ہیں۔

Courtesy: Waqt News/ Youtube.

اس ضمن میں ہم ایک اور رجحان کا ذکر کرنا چاہیں گے جو روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کا تعلق مذہبی عقائد اور سائنس کو آپس میں گڈمڈ کرنا ہے۔ ہر شخص جو کوئی بھی مذہبی عقیدہ رکھتا ہوں، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسے درست ثابت کرسکے۔ اس کے لئے وہ اکثر سائنس کا سہارا بھی لے لیتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسا کر کے وہ سائنس کی کوئی خدمت کر رہا ہوتا ہے اور نہ ہی مذہب کی۔  انسان کے مذہبی عقائد کی بنیاد اس کا یقین اورایمان ہوتا ہے، جب کہ سائنس یقین کی بجائے تشکیک سے کام لیتی ہے۔ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا کوئی بھی مذہبی و روحانی عقیدہ رکھے یا نہ رکھے۔ سائنس کسی فرد سے اس کا یہ حق نہیں چھینتی، او ر نہ ہی سائنس شخصی آزادی میں دخل اندازی کی قائل ہے۔ البتہ جب کوئی فرد اپنی عقیدت کے معاملات میں سائنس کو داخل کرے گا، تو ایسے میں سائنس مجبور ہے کہ اس کے دعویٰ کو معروضی طریقہ کار اور استدلال کے ساتھ پرکھے۔ سائنس کسی جذباتی، مذہبی یا روحانی عقیدے کا نام نہیں، بلکہ ایک طرز فکر کا نام ہے جو عقل کی حاکمیت قبول کرتی اور مادی اور معروضی حقائق سے واسطہ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر اکثر لوگ جو سائنس سے گہری واقفیت بھی نہیں رکھتے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآله وسلم) کے سفر معراج کو آئن اسٹائن کے خصوصی نظریہ اضافیت کی روشنی میں دیکھنے لگتے  ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس نظریے کی رو سے کسی مادی جسم کی رفتار میں اضافے سے اس کے لئے وقت آہستہ چلنے لگتا ہے  (ٹائم ڈائلیشن) اور یہ کہ جب اس مادی جسم کی رفتار روشنی کی رفتار کے نزدیک پہنچ جائے تو عملی طور پر اس کے لئے وقت رک جاتا ہے۔ پہلی نظر میں یہ دل کو لبھانے والی دلیل لگتی ہے کہ ہم ایک معجزے کو سائنسی حوالے سے ثابت کرنے جا رہے ہیں، مگر جو شخص سائنس کا طالب علم ہو، وہ نظریہ اضافیت کے ’’جڑواں (ٹوئن) پیراڈاکس‘‘ کی رو سے جانتا ہے کہ اگرچہ تیز رفتاری سے حرکت پزیر مادی جسم کے لئے وقت کی رفتار  ہلکی پڑ جائے گی، مگر جو جسم ویسی رفتار سے حرکت نہیں کر رہا، یعنی زمین یا زمین کے  باشندے،  ان کے لئے وقت نارمل رفتار سے ہی چلتا رہے گا۔ گویا اس حساب سے ہم یہ ثابت نہیں کر سکے کہ زمین پر وقت ساکن ہوا۔ ایسے میں آپ خود فیصلہ کر لیں کہ بلا سوچے سمجھے نظریہ اضافیت کا سہارا لے کر ہم نے کوئی خدمت انجام دی یا خود کو آزمائش میں ڈالا؟

یہاں ایک اصولی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سائنس کا تعلق مادی اور معروضی حقائق سے ہے، نہ کہ روحانیات سے۔ وہ آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب تو دے سکتی یا اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش تو کر سکتی ہے، مگر سائنس کو ’’کیوں‘‘ کا جواب دینے کی مشکل میں نہ ڈالئے کہ یہ اس کا کام نہیں ہے۔ سائنس آپ کو یہ تو بتا سکتی ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی مگر اس سے یہ نہ توقع نہ رکھئے کہ وہ آپ کو اس کا جواب بھی دے کہ یہ کائنات کیوں یا کس ارفع مقصد کے لئے وجود میں آئی۔ جب ہم اپنے مذہبی جذبات کے تابع سائنس کو استعمال کرنا چاہیں تو یہ سائنس کا کام نہیں کہ وہ اپنا طریقہ کار بدل کر ہماری خواہش کی تعمیل کرے۔ اس کے برعکس سائنس ایک معروضی طریقہ کار سے چلے گی اور ایسے میں آپ کو بھی عقلیت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا کرنا دشوار ہے تو ہمیں ان دو معاملات کو باہم ملانے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے۔

اسی طرح اگر آپ مشاہدہ کریں تو دیکھیں گے کہ انٹرنیٹ پر اکثر فوٹو ایڈیٹنگ سافٹ ویئرز یعنی جعل سازی کے ذریعے تصاویر میں رد و بدل کر کے عجیب و غریب دعویٰ پیش کر دیئے جاتے ہیں۔ اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے اس میں مذہبی جذبات کی آمیزش بھی کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کا کام آسان ہے کہ اکثر لوگ عقیدت کے ہاتھوں ایسے دعووں پر یقین کر لیتے ہیں۔ اگر آپ عقلیت اور سائنسی استدلال کا اطلاق نہیں کریں گے تو پھر عین ممکن ہے کہ آپ بھی دھوکہ کھا جائیں۔ ’’حجر معلق‘‘ کی مثال لے لیں۔ فوٹو ایڈیٹنگ ٹولز کی مدد سے زمین پر ٹکے ہوئے ایک چٹان نما پتھر کو یوں پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ ہوا میں معلق ہے۔

Courtesy: Google Search

اب ذرا اوپر کی مثالوں کو جنرل ضیاء الحق کے دور کی ’’اسلامی سائنس‘‘ سے ملا کر پڑھئے۔ اور اسی طرح انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس جواب سے ملا کر دیکھیں کہ ’’(آغا وقار) کوئی فراڈ نہیں کر رہے۔۔۔۔۔ بہت سی چیزیں ایسی لگتی ہیں کہ وہ ناممکن ہیں، مگر وہ ممکنات میں ہو جاتی ہیں‘‘ تو آپ کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ ہو گا کہ کس طرح عقل و استدلال کی عدم موجودگی نے ہمارے معاشرے میں سائنس کو فروغ پانے سے روک رکا ہے۔ دوسری طرف جو شخص اپنے ذہن کا استعمال کرتے ہوئے سوال کرے اور کسی بات کو سمجھنے کے لئے عقل و خرد سے کام لے، تو بہت آسانی سے اس کے ایمان پر سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے اور اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں فکری آزادی اور سائنس کیسے فروغ پا سکتی ہے؟ اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں ہم اپنے زوال سے باہر کیونکر آ سکتے ہیں؟

یہ وہ نظریاتی محاز ہے جس پر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی تن تنہا لڑ رہے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے  کہ سائنس کو اپنے انداز میں ایک خاص طریقہ کار سے کام کر نے دیا جائے اور اسے زبردستی مذہبی لبادہ نہ پہنایا جائے کیونکہ ایسا کرنا سائنس کے ساتھ بھی زیادتی ہے،  اور یہ طرز عمل مذہب کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ آپ عقل اور استدلال سے مظاہر قدرت پر غور و فکر کرنے پر زور دیتے ہیں کہ یہی سائنس میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے، اور قرآن پاک میں بھی تفکر اور تسخیر کائنات پر زور دیا گیا ہے۔

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

اس مضمون میں تفصیل کے ساتھ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی خدمات اور ان کے کام کی اہمیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سائنس کیا ہے، سائنسی طریقہ کار کیا ہے، جعلی (سُوڈو) سائنس سے کیا مراد ہے وغیرہ، جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں یہ بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک اہم آواز ہیں، اور یہ کہ  شر پسند عناصر ان کے بارے میں منفی باتیں پھیلاتے ہیں، جس سے رائے عامہ متاثر ہوتی ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر اکثر نکات کو محض سرسری طور پر سامنے رکھا گیا ہے، البتہ پوری کوشش کی گئی ہے کہ اس مضمون میں مثالوں کی مدد سے اپنی بات واضح کی جا سکے۔ امید ہے کہ اس سب کی روشنی میں ہمیں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی کاوشوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ آپ کی پاکستان سے محبت اور سائنس اور تعلیم کے فروغ کے لیے خدمات کسی سند کی محتاج نہیں ہیں۔ آپ تن تنہا وہ جدوجہد کر رہے ہیں جو دراصل ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے، اور افسوس کہ ریاست اسے ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

ہم نے اس مضمون کے ابتدائی حصے میں ان عظیم سائنسدانوں اور مفکرین کا حوالہ دیا تھا، جنہیں اپنے دور میں بدعتی قرار دے کر ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ آج ہم انہی مشاہیر کو مسلمان دنیا کے بہترین دماغ مانتے اور ان کی علمی خدمات پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کہیں ہم انجانے میں اپنے ہم عصر دانشوروں کے ساتھ بھی ویسا ہی برا سلوک تو روا نہیں رکھے ہوئے؟

دنیا میں ہر سوچ اور نظریئے کے ماننے والے موجود ہیں، اور اس تنوع  سے ہی زندگی کا حسن ہے۔ جو دوست ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے مختلف سوچ رکھتے ہیں، انہیں یقینی طور پر اس کا حق حاصل ہے۔ البتہ اختلاف کو آداب اور حقائق کے دائرے تک ہی محدود رہنا چاہئے اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ شائستگی، احترام، اخلاق، رواداری اور علم دوستی جیسی خوبیاں رکھنے والے افراد دوسروں کے محاسن کا اعتراف کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ مثال کے طور پر احمد جاوید صاحب، جو مذہبی فکر کی نمائندہ ایک بزرگ اور باوقار شخصیت ہیں، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو اپنے پسندیدہ معاصرین میں شمار کرتے ہیں اور ان کے لئے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

Courtesy: “Qissa Ahmad Javaid Sb se Mulaawat ka.” (Danish.pk)

اس خوش آئند رویے کے برعکس سوشل میڈیا میں اکثر پیجز پر ہمارے کچھ نوجوان ایک افسوسناک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے متعلق نازیبا باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا دین بدگمانی سے منع فرماتا ہے، اور حکم دیتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کسی کے بارے میں منفی رائے قائم نہ کرو۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جیسی صاحب علم شخصیت کی کردار کشی کرنا، ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا اور ان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانا ان کے ساتھ تو ناانصافی ہے ہی، مگر پاکستان کے ساتھ بھی زیادتی کے مترادف ہے۔ دعا ہے کہ ہم صاحب علم شخصیات کی قدر کرنا سیکھیں اور ظالموں میں شمار نہ ہوں۔

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

(تحریر: سبز خزاں)