امریکی انتخابات پر ایک مختصر تبصرہ

 انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد کی دنیا الگ ہوتی ہے۔ ایک امیدوار منتخب ہونے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، جیسا کہ جذباتیت کا مظاہرہ کر کے، پاپولر باتیں کر کے یا سہانے سپنے دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور ان کے ووٹ حاصل کرنا۔ البتہ منتخب ہونے کے بعد اس امید وار کو معلوم ہوتا ہے کہ اب اسے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ وہ اب ایک پوری قوم کا سرکاری طور پر نمائندہ ہے، اور یہ کہ ہر رنگ، نسل، مذہب اور پس منظر کے افراد اس کی رعیت ہیں جن کا وہ رکھوالا اور ذمہ دار ہے۔ عوامی اجتماع سے خطاب کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور ایوان اقتدار میں اپنی کابینہ کی مشاورت اور انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں فیصلے کرنا ایک الگ معاملہ۔ یہاں کسی بھی رہنما کے اعصاب کا کڑا امتحان ہوتا ہے اور اسے ایک تکلیف دہ تنہائی (آئیزولیشن) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری پالیسیاں محض چہرے بدلنے سے فوری طور پر تبدیل نہیں ہو جاتیں؛ ان کے پیچھے خوب عرق ریزی شامل حال ہوتی ہے جس کے تحت کوئی بھی ریاست اپنے مفادات کا حصول یقینی بناتی ہے، چاہے اس کے لئے اسے کیسے ہی منفی ہتھکنڈے کیوں نہ استعمال کرنے پڑیں۔

تمام تر تحفظات کے باوجود میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ تمام امریکیوں کی مساوی طور پر نمائندگی کریں اور ایک اچھے حکمران اور منتظم کے طور پر ابھریں۔ ساتھ میں یہ بھی کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ درست خطوط میں تعلقات قائم کریں۔ میں یہ بھی امید رکھتا ہوں کہ ہیلری کلنٹن باوقار انداز میں صدر ٹرمپ کو منتخب ہونے پر مبارک باد دیں اور ملک کے لئے اپنی خدمات دینے کی یقین دہانی کرائیں ۔ یہی ایک دانا قوم اور مہذب جمہوریت کی علامت ہے۔

آخر میں یہ کہ اگر صدر ٹرمپ نے ذمہ دارانہ انداز میں اپنے منصب کا استعمال نہ کیا تو یہ ایک نہایت افسوس ناک بات ہو گی۔ تاریخ کا یہ سبق واضح ہے کہ قومیں بیرونی حملوں سے تباہ نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دراصل اپنے اندر ہونے والی شکست و ریخت کی بنا پر کمزور پڑتی ہیں اور اپنا مقام کھو دیتی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں بیشتر مواقع پر افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کیا، جس کی گونج بہت دور تک سنائی دیتی رہے گی۔ ان کے اور امریکہ کے مستقبل کا فیصلہ اب وقت کے ہاتھوں میں ہے۔ مزید برآں مسلمان معاشروں کے لئے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ جن باتوں اور رویوں کی بنا پر وہ صدر ٹرمپ کو رد کرتے رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ برا رویہ اور سلوک ہمارے ہاں اپنی مذہبی اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات کے ساتھ برسوں سے جاری ہے۔

امریکی انتخابات پر تو ہم سب محض ایک آبزرور کے طور پر ہی تبصرہ کر سکتے ہیں، البتہ ہم پر لازم ہے کہ ہم پہلے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں جو بہر حال ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں تاریخ کا تبصرہ کیا ہو گا، یہ ابھی پردہ میں ہے، تاہم ہمارے اپنے بارے میں تاریخ جو تبصرہ لکھ چکی ہے، وہ سب کے سامنے ہے اور شرمندہ کر دینے کو کافی ہے۔

trump-vs-clinton

Leave a comment