پرویز مشرف کے خلاف اوریا مقبول جان کے کالم —امت مسلمہ کا مجرم— کا جواب

بزعم خود، قوم کے مصلح اور مذھبی فکر کے داعی جناب اوریا مقبول جان نے مورخہ ۱۱ جنوری 2014ء کو اپنا گمراہ کن کالم بعنوان ’’امت مسلمہ کا مجرم‘‘ لکھا اور سابق صدر پرویز مشرف کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ موصوف اس سے پہلے بھی سابق صدر کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رھے ھیں۔ اظہار رائے ان کا حق ھے، اور اس سے انہیں کوئی محروم نہیں کر سکتا۔ البتہ جب کالم نگار اپنے قلم کو مذھب کی سیاھی میں ڈبو کر کسی کی کردار کشی پر اتر آئیں اور قارئین کو جذباتی طور پر یرغمال بنا کر حقائق مسخ کرنے یا انہیں توڑ مروڑ کر پیش کریں، تو اس کا جواب تحریر کرنا، اور ان کو آئینہ دکھانا ھمارا حق ھے۔

یاد رھے کہ کچھ ماہ قبل، قوم کی ہونہار اور قابل فخر بیٹی ملالہ یوسف زئی کے خلاف موصوف اوریا مقبول جان نے نہایت ڈھٹائی سے ایک فریب آلود کالم لکھا اور اس کے بعد مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ملالہ کے خلاف لوگوں کو اکساتے رھے۔ گزشتہ دنوں، موصوف نے قائد اعظم کی ۱۱ اگست 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں کی گئی معرکتہ الآراء تقریر کو متنازعہ بنانے اور اسے سیکولر طبقے کی سازش قرار دینے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ ملالہ یوسف زئی کے معاملے میں اسی بلاگ پر ایک مدلل جواب تحریر کیا گیااور اوریا مقبول جان کے فریب کا پردہ چاک کیا گیا۔ اسی طرح بیشتر دوستوں نے قائد اعظم کی تقریر کے اصل حوالہ جات، تاریخی اور ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ پیش کئے اور موصوف کو بے نقاب کیا۔اپنی روایتی بد دیانتی کے تسلسل کو جاری رکھتے ھوئے ۱۱ جنوری کے کالم میں اوریا مقبول جان صاحب نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف عوام میں نفرت اور اشتعال دلوانے کے لئے نہ صرف حد درجے دروغ سے کام لیا، بلکہ حسب سابق مذھب کو اپنے اس مزموم مقصد کے لئے استعمال کیا۔ یہ تحریر موصوف کے گمراہ کن کالم کے جواب میں پیش کی جارھی ھے، جس میں ان کو ایک بار پھر آئینہ دکھا یا جائے گا۔

واضح رھے کہ اوریا مقبول جان کو اس بات سے غرض نہیں ھے کہ پرویز مشرف پر چلنے والا مقدمہ کتنا عرصہ چلتا ھے یا اس کا کیا نتیجہ نکلتا ھے، لہٰذا اس تحریر میں اس مقدمے اور اس کے سیاسی، جمہوری یا آئینی نکات اور پہلوؤں پر کوئی گفتگو نہیں کی جائے گی۔

کالم نگار نے اپنی تحریر کا آٖغاز ایمل کانسی کو امریکہ کا دشمن اور پاکستانی قوم کا ھیرو قرار دے کر کیا۔ گویا ان کے نزدیک اس بات کی ھرگز کوئی اھمیت نہیں کہ پاکستان کا کوئی شہری دوسرے ملک میں جا کر قانون کو اپنے ھاتھ میں لے اور قتل و غارت اور دھشت گردی کرتا پھرے۔اس کے بعد فرار ھو کر واپس پاکستان میں آچھپے اور دنیا بھر میں اپنے ملک کو شرمندہ کروائے۔ ان کے نزدیک ایسے افراد ھیرو ھیں۔ ان کی اس منطق کی بنیاد پر پاکستان کے جن نام نہاد سپوتوں نے دھشت گردی کے ذریعے دنیا بھر میں اس سرزمین کو ذلیل و خوار کیا ھے، وہ تمام بھی پھر ھیرو ھوئے۔ اگر اوریا مقبول جان کے فلسفے پر عمل کیا جائے، تو اس امر میں رتی بھر شبہ نہیں رھنا چاھئیے کہ پاکستان ایک عالمی دھشت گرد ملک ھے، جو دنیا بھر میں بدمعاشی، بدامنی اور قتل و غارت کرنے والے افراد کو اپنا ھیرو سمجھتا ھے۔ اگر یہ الزام اس قوم کو قبول ھے، تو بسم اللہ کیجئے اور اوریا مقبول جان کو امور سلطنت سونپ دیجئے۔

Orya - I

ذرا آگے چلئے، تو اوریا مقبول جان کا جذبہء جہاد و قتال سے بھرپور قلم یہ الفاظ اگلتا ھے

اسامہ بن لادن کی شہادت ابھی کل کی بات ھے۔

Orya - II

ناطقہ سر بگریباں ھے، اسے کیا کہیے؟ ایک عالمی دھشت گرد، جس نے دنیا بھر میں جہاد کے نام کو قتل و غارت کا ھم معنی بنا دیا، کی ھلاکت کو کالم نگار ‘‘شہادت’’ قرار دے رھے ھیں۔ امریکہ دشمنی اور طالبان پرستی، ایسے ھی تشدد پسند ذھن پیدا کرتی ھے، جو نہ صرف اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ محسود کو، بلکہ امریکہ کے ھاتھوں ھلاک ھونے والے کتے کو بھی شہید قرار دے ڈالیں۔

اوریا مقبول جان، کیا آپ کو معلوم ھے کہ اسامہ بن لادن، عالمی دھشت گرد تنظیم القاعدہ کا بانی تھا۔ کیا آپ جانتے ھیں کہ 1992ء میں جب سومالیہ میں پانچ لاکھ افراد قحط کے ھاتھوں مارے گئے، تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تابع وھاں ریلیف آپریشن کا آغاز ھوا۔ القاعدہ نے اس مشن میں حصہ لینے کے لئے جانے والے امریکی فوجیوں کو مارنے کی غرض سے دو بم دھماکے کرائے۔ ان میں کئی زخمیوں کے علاوہ ایک آسٹریلوی سیاح اور ایک ھوٹل ملازم ھلاک ھوگئے۔ بعد میں القاعدہ نے ایک فتویٰ جاری کیا اور دھشت گردی کی اس کاروائی کو اسلامی حوالے سے درست قرارد دیا۔

کیا آپ کو معلوم ھے کہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ھونے والے رمزی یوسف، جس نے 1993ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کرکے چھ افراد ھلاک اور ھزار سے زائد زخمی کئے، نے افغانستان میں واقع القاعدہ کے ٹریننگ سنٹر سے ٹریننگ لی تھی۔

کیا آپ کو یاد ھے کہ 1996ء میں اسامہ بن لادن نے امریکی صدر بل کلنٹن کے قتل کی منصوبہ بندی کی۔

کیا آپ بھول گئے کہ 1998ء میں اسامہ بن لادن نے امریکی فوجیوں اور شہریوں کے قتل عام کا فتویٰ جاری کیا اور اسے مسلمانوں پر فرض قرار دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے القرآن الحکیم کی متعدد آیات بھی پیش کیں اور گویا ثابت کیا کہ (نعوذ باللہ) اسلام ایسی درندگی اور قتل و غارت کا حکم دیتا ھے۔

اوریا مقبول جان صاحب! کیا آپ فراموش کر گئے کہ 1998ء میں امریکی ایمبیسیوں پر حملوں میں القاعدہ نے سینکڑوں افراد کو ھلاک اور ھزاروں کو زخمی کیا۔

واضح رھے کہ القاعدہ کی دھشت گردی کی یہ چند مثالیں 9/11 کے سانحے سے پہلے کی ھیں۔ بعد میں ھونے والے فساد کے بارے میں سب ھی جانتے ھیں، لہٰذا ان کا ذکر پھر کسی وقت پر موقوف کئے دیتے ھیں۔ اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے کر اوریا مقبول جان نے ان تمام دھشت گرد کاروائیوں کو درست اور عین جہاد قرار دیا ھے۔ ھمیں امید ھے کہ وہ خود یا کم از کم وہ اپنے بچوں کو بھی ایسا ھی مجاھد بنانا پسند کریں گے۔ اگر آج بد قسمتی سے دین اسلام کو دھشت گردی سے منسوب کیا جاتا ھے یا اسلامی دھشت گردی کی تکلیف دہ اصطلاح وجود میں آئی ھے، تو اس کا سہرہ اوریا مقبول جان جیسے مبصرین اور ان کے پسندیدہ دھشت گردوں کے سر جاتا ھے۔

اپنے گمراہ کن کالم کو جاری رکھتے ھوئے موصوف، سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کو امت مسلمہ کا ملزم قرار دیتے ھوئے لکھتے ھیں

اگر یہ امت زندہ ھوتی، تو مشرف جمہوریت کے نہیں امت مسلمہ کے ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ھوتا۔

Orya - III

حیرت بالائے حیرت۔ اوریا صاحب! اگر یہ امت زندہ ھوتی، تو آج آپ کا نام و نشان بھی مٹ چکا ھوتا کہ کیسے دیدہ دلیری سے ایک شخص دین اسلام کا لبادہ اوڑھے، جھوٹ اور منافقت کی ملمع کاری کئے اس قوم کو فریب دے رھا ھے اور اپنے قلم کی آبرو بیچ کر ایک انتہا پسندانہ نسل کی آبیاری کر رھا ھے۔ اگر یہ امت زندہ ھوتی، تو آپ کو کبھی عالمی دھشت گردوں کو شہید کہنے کی جراءت نہ ھوتی۔ اگر یہ امت زندہ ھوتی، توآپ کو کبھی میرے دین اور رسول برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پاکیزہ اور انسانیت پرست تعلیمات کو قتل و غارت سے آلودہ کرنے والی دھشت گردی کو جہاد کہنے کی جسارت نہ ھوتی۔ اگر یہ امت زندہ ھوتی، تو میرے پچاس ھزار ھم وطنوں کو شہید کرنے والی تحریک طالبان کی تعریف میں کالم لکھتے ھوئے اوریا مقبول جان کو بیس مرتبہ سوچنا پڑتا۔ اگر یہ امت زندہ ھوتی، تو موصوف کوشام میں بغاوت کرنے والے القاعدہ کے بے رحم جنگ جوؤں کو حضرت امام مہدی کا سپاھی قرار دینے کی ھمت نہ ہو پاتی۔ یہی تو رونا ھے کہ یہ امت زندہ نہیں۔ اس امت کا زندہ نہ ھونا ھی آپ جیسے بے ضمیر اور فریبی لکھاریوں کے لئے آکسیجن ھے۔

پرویز مشرف پر وار کرتے ھوئے اوریا مقبول جان لکھتے ھیں

تم نے چار سو سے ذائد مسلمانوں کو پیسے لے کرآگے بیچااور پھر اس پر اتراتے بھی رھے۔

Orya - IV

آپ کی پیشہ وارانہ اور عیارانہ چال بازی پر افسوس۔ گویا آپ کے نزدیک پاکستان، کسی طوائف کا کوٹھا ھے کہ جب جس کا جی چاھے ، چلا آئے اور اپنی ھوس مٹا کر لوٹ جائے۔

محترم! پاکستان ایک جوھری طاقت ھے، کوئی عام رہ گزر نہیں۔ کسی غیر ملکی اور بالخصوص کسی بھی دھشت گرد کو ھرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سرحد عبور کر کے یہاں اپنی کمین گاھیں بنائے اور یہاں سے کسی دوسرے ملک میں تخریب کاری کرتا پھرے۔ کیا آپ مجھے یہ حق دیں گے کہ میں آپ کے گھر کا دروازہ پھلانگ کر آپ کی اجازت کے بغیر اندر داخل ھو جاؤں اور وھیں اپنا ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاؤں؟ افغانستان اور دوسرے ممالک سے عسکریت پسند اور دھشت گرد، بغیر کسی دستاویز کے غیر قانونی طور پر جب پاکستان میں داخل ھوں، تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جانا چاھئیے۔ یہی پرویز مشرف نے بھی کیا۔ اور ایسے دھشت گرد جن کی عالمی اداروں اور حکومتوں کی جانب سے باؤنٹی یا سر کی قیمت لگی ھوئی تھی، ان کو بر وقت کاروائی کر کے پکڑا گیا ۔ ایسے تمام دھشت گرد عناصرکو جب ان کے اپنے ممالک نے واپس لینے سے انکار کیا، تو انہیں ان عالمی اداروں یا حکومتوں کے حوالے کر دیا گیا، جنہیں وہ مطلوب تھے۔ ظاھر ھے کہ ایسا ھی کرنا چاھیئے تھا۔ مگر کیا کریں کہ اوریا مقبول جان، کمال معصومیت سے اسے ایک ھی جملے میں یہ کہہ کر ختم کردیتے ھیں کہ پرویز مشرف نے پیسے لے کر مسلمانوں کو آگے بیچا۔

In the line of fire - Page 237

حقائق سے کوسوں دور اور طفلانہ جذبات سے مغلوب کالم نگار آگے لکھتے ھیں

اس مملکت خداد پاکستان میں اور یہاں بسنے والی امت مسلمہ کے اخلاق و اقدار کو بگاڑنے، ان کے اندر فحش کو عام کرنے، ان کے مدرسوں اور مسجدوں پر ٹینکوں سے حملہ کرنے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو بموں کی آتش میں بھوننے کے الزامات اس سے سوا ھیں، لیکن ان پر کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔

Orya - V

یہ جملے لکھتے ھوئے کالم نگار مبالغہ گوئی کی سیڑھی پر کافی اوپر تک چڑھے ھوئے محسوس ھوتے ھیں۔ بہتر ھوتا کہ وہ ان نام نہاد الزامات کی کچھ تفصیل بھی لکھ ڈالتے، تاکہ ھمیں اس کا تجزیہ کرنے میں سہولت رھتی۔ خیر،ھم اوریا مقبول جان صاحب سے یہ پوچھنا چاھیں گے کہ معصوم اور نا پختہ ذھنوں میں جنت کے باغات اور شہد کی نہروں کے کنارے پر بیٹھی ھوئی توبہ شکن حوروں کا اشتباہ انگیز تصور ڈالنے والوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ھے۔ ان حوروں کے لمس اور صحبت کو پانے کی ھوس میں خود کش حملہ آور بن جانا کیسا فعل ھے؟ اگر تو یہ سب بہت اچھا اور عین اسلامی ھے، تو آپ اس جہاد میں عملی طور پر حصہ کیوں نہیں لیتے۔ کیا آپ پر جہاد فرض نہیں ھے؟ کیا وجہ ھے کہ آج تک آپ کے کسی بیٹے نے جہاد کے میدان میں خود کش حملہ نہیں کیا یا تحریک طالبان کے وحشیوں کی طرح کسی کو زبح نہیں کیا؟

اور اگر یہ سب کچھ بہت برا اور غلط ھے اور اسلام کی تعلیمات کے منافی ھے، تو پھر آپ کا قلم ان نام نہاد جہادیوں اور خود کش حملہ آوروں کی تعریفیں کرتا تھکتا کیوں نہیں ھے؟ آپ کو پرویز مشرف کی وجہ سے امت مسلمہ کا اخلاق و اقدرابگڑتا ھوا تو دکھائی دیتا ھے، مگر مساجد، امام بارگاھوں، مزاروں، گرجا گھروں اور بازاروں میں دندناتے ھوئے خود کش حملہ آوروں سے دین اسلام کا چہرہ اور اقدار مسخ ھوتی محسوس نہیں ھوتیں؟

Lal Masjid

آپ کا ذھن رسا مدرسوں اور مساجد پر ٹینکوں سے حملے ھوتا ھوا تو دیکھ لیتا ھے، مگر افسوس کے ان کے اندر براجمان تکفیری دھشت گرد دکھائی نہیں دیتے۔ بات بے بات مذھب کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے دلیل کے طور پر استعمال کرنے والا کالم نگار ،مسجد ضرار کا واقعہ کیوں بھول جاتا ھے، جہاں میرے رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرا رب خود یہ کہتا ھے کہ اس مسجد سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا رھا ھے۔ کیا موصوف اوریا مقبول جان کو یہ معلوم نہیں کہ لال مسجد اور ان جیسی کتنی ھی مساجد اور مدرسوں میں ھزاروں افراد کو دھشت گردی کی تربیت دی گئی اور پاکستان بھر میں خود کش حملے کرنے کے لئے پھیلایا گیا۔

Al-Quran - Surah Al-Tauba

پرویز مشرف کو امت مسلمہ کا مجرم قرار دیتے ھوئے اوریا مقبول جان یہ کیوں بھول جاتے ھیں کہ سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ھے، ‘‘اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔’’ کیا کالم نگار کو یہ معلوم نہیں کہ پرویز مشرف اپنے دور حکومت میں پاکستان کے اولوالامر تھے؟ کوئی انہیں پسند کرے یا نہ کرے، ان کی پالیسیاں درست ھوں کہ غلط ھوں، ان سب سے قطع نظر، وہ اس مملکت کے صاحب اختیار تھے ۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ اسلام میں یونٹی آف کمانڈ کی کتنی اھمیت ھے۔ اگر آپ کی طرح ھر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر دوسروں پر یا حاکم وقت کے خلاف فتوے دینا شروع کر دے، تو کیا یہ وطن کی خدمت ھے یا قوم کو تقسیم کرنے کی سازش؟

Al-Quran - Surah Al-Nisa

کیا موصوف کو معلوم نہیں کہ سورہ المائدہ میں اللہ تعالیٰ ایک انسان کے قتل کو کل انسانیت کا قتل قرار دیتا ھے؟ کیا موصوف یہ نہیں جانتے کہ سورہ البقرہ میں فتنے کو قتل سے بھی بدتر جرم قرار دیا گیا ھے۔ کیا موصوف کو یاد دلانا پڑے گا کہ ان واضح احکامات کی موجودگی میں دھشت گرد کتنے قبیح جرائم کا ارتکاب کر رھے ھیں؟ کیا ایسے درندوں کو صرف اس بنیاد پر درگزر کر دیا جائے کہ وہ اوریا مقبول جان کے حمایت یافتہ ھیں یاموصوف کی خود ساختہ مذھبی تشریح کے مطابق کوئی بہت نیک فریضہ انجام دے رھے ھیں۔

ھمیں اس سے ھرگز کوئی غرض نہیں ھے کہ آپ پرویز مشرف سے اختلاف رکھیں اور اپنی تحریر کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ ترقی پسند معاشرے میں آزادیء رائے کی بہت اھمیت ھے۔ تاھم ایسی صورت حال میں جب ھمارا ملک حالت جنگ میں ھے اور ھماری بقا خطرے کے نشان تک پہنچ چکی ھے، آپ کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ آپ اس قوم کو دھشت گردوں کی حمایت کے لئے اکساتے پھریں۔

Orya column - VIII

اوریا مقبول جان صاحب! اگر آپ میں انسانیت اور دین کی سچی رمق موجود ھوتی، تو آپ پرویز مشرف صاحب کے بارے میں ایسے لغو الزامات نہ لگاتے۔ اس کے برعکس، آپ دھشت گردوں کو امت مسلمہ کا مجرم قرار دیتے۔ ابھی بھی وقت ھے کہ سنبھل جائیے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے، تو کہیں ایسا نہ ھو کہ بروز حشر، آپ کے اوپر بھی کوئی فرد جرم عائد ھو جائے ۔ ڈرئیے اس وقت سے جب بذات خود آپ کوھی امت مسلمہ کا مجرم قرار دے دیا جائے۔ ایسا مجرم، جس نے قرآن کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے دھشت گردوں کو اپنا ھیرو قرار دیا اور اسلام کو دھشت گردی سے جوڑنے کے لئے اپنے قلم کی حرمت پامال کر ڈالی۔

The Noble Quran

( تحریر: سبز خزاں)