آج کا دن یعنی 21 نومبر، بیسویں صدی کے ایک عظیم طبیعات دان اور پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹرعبدالسلام کا یوم وفات ہے جو ہر برس کی طرح یوں خاموشی سے گزر جائے گا جیسے کہ سلام کا وجود اس معاشرے کے لئے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتا۔
پروفیسر عبدالسلام کی کامیابیوں اور ایوارڈز کی طویل فہرست دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پنجاب کے ایک نسبتاََ چھوٹے اور قدرے پسماندہ علاقے میں پیدا ہونے والے بظاہر ایک عام سے شخص میں اس قدر صلاحیتیں ہوسکتی ہیں۔ مگر ہیر اور رانجھا کے مدفن اور صوفی درویش سلطان باہو کی سرزمین جھنگ کی زرخیزی میں بھلا کیا شبہ ہوسکتا ہے، جس نے پاکستان کو پہلا نوبل انعام یافتہ سائنسدان دیا۔ یہ الگ بات کہ فرقہ وارانہ متشدد تنظیموں کی موجودگی، اس کی مٹی میں تعصب اور تنگ نظری کے سیم و تھور کی طرح ظاہر ہو رہی ہیں۔
چودہ برس کی عمر میں میٹرک کے امتحان میں پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر اول آنے والے اور محض اٹھارہ برس کی عمر میں اپنا پہلا تحقیقی پرچہ شائع کرنے والے عبدالسلام جانتے تھے کہ کسی بھی ملک کے آگے بڑھنے کا درست راستہ کیا ہے۔ آپ تیسری دنیا کے ممالک، بالخصوص پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ایک نظریہ رکھتے تھے اور آپ کے نزدیک ایسا سائنس کی ترویج کے ذریعے ممکن ہے۔ آپ نے اس کی تکمیل کے لئے عمر بھر جدوجہد کی۔ مثال کے طور پر آپ نے حکومت پاکستان کے مشیر برائے سائنس کی حیثیت سے کام کیا اور ملک میں سائنس کے انفرا سٹرکچر کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے ایٹمی اور خلائی پروگرام کی بنیاد کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔ آپ نے سپارکو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قیام کے لئے کوششیں کیں اور پاکستان ادارہ برائے جوہری سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے بھی اپنی خدمات سر انجام دیں۔ آپ ایٹم برائے امن کے خواہاں تھے اور آپ کی کاوشوں کے بغیر پاکستان مسلم امہ کا پہلا ایٹمی ملک نہیں بن سکتا تھا۔
یہ سب آپ کی خدمات کی طویل فہرست میں سے محض چند کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا سب سے بڑا خواب پاکستان میں عالمی ادارہ برائے تحقیق کا قیام تھا جس سے پاکستان کے طلباء کے لئے علم و تحقیق کے دروازے کھل جاتے۔ افسوس کہ پاکستان کی حکومتوں اور مقتدرہ حلقوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور بالآخر ڈاکٹر عبدالسلام کو عالمی ادارہ برائے نظری طبیعات اٹلی کے شہر ٹریسٹی میں بنانا پڑا،جس کا نام بعد میں عبدالسلام سینٹر برائے نظری طبیعات رکھ دیا گیا۔
یہ جولائی 2012ء کی بات ہے جب سائنس کی دنیا میں ہگز بوزوسن نامی ذرہ کی دریافت ہوئی۔ یہ ایک عظیم ترین پیش رفت تھی اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ذرہ کو گاڈ پارٹیکل کا نام دیا گیا۔ اس ذرے کی تحقیق اور نظریاتی فریم ورک کی تشکیل میں ڈاکٹر عبدالسلام کا کام بنیادی نوعیت کا ہے۔ لہٰذا اس ذرے کی دریافت کے بعد سائنس کی دنیا میں عبدالسلام کو شد و مد کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مگر دوسری طرف اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ انہیں ان کے اپنے وطن میں کس بے دردی سے رد کیا گیا، یہی وجہ تھی کہ دنیا کے مشہور خبر رساں ادارے سی این این نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عبدالسلام سائنس کی دنیا کا ایک وژنری تھا مگر ان کو اپنے ملک میں نظر انداز کیا گیا اور بھلا دیا گیا۔
یہ بحیثیت قوم ہمارے لئے کیسی شرمندگی کی بات ہے کہ جب پاکستان کا نام اس قدر تکریم سے آیا کہ ایک پاکستانی نے اس عظیم دریافت کے لئے بنیاد فراہم کی ہے، وہیں ہماری بے قدری کا تذکرہ بھی ناگزیر ٹھہرا۔ عبدالسلام نے عمر بھر اس وطن کے لئے اپنی خدمات سر انجام دیں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کا کام پاکستان کی عزت کا باعث بنتا رہا مگر ہمارے علم دشمن رویے نے ان کی بے توقیری کی۔
Thanks for this great writing about dr Abdul Salam . I met him only once at Chicago airport while he was on wheel chair. It was a great honour as a pakistani.He was the only pakistani and the only scientist who actually proved the existence of God thru physics.Some of the nonbelievers in scientific community in Europe used to say about him.LOOK AT THIS GUY HE BELIEVES IN GOD. No matter how pakistani government and mullahs treated him i can answer them that He will find the fame in this world always just like the laws of physics sayTHE WATER FINDS AND OCCUPIES THE AVAILABLE SPACE IN A CONTAINER NO MATTER HOW MANY PEBBLES YOU THROW IN THAT CONTAINER.