اپنے اپنے بت

 نظریات اور افکار میں تبدیلی کا پیمانہ کبھی بھی گالم گلوچ اور لغو زبان نہیں ھوسکتا۔ میں دنیا کے ھر شخص، عقائد، سیاسی و مذھبی پیشواؤں اور ان کے پیروکاروں کے لئے اچھا گمان رکھتا ھوں، اور آخری حد تک یہ کوشش کرتا ھوں کہ کسی کے بارے میں تعصب یا جج منٹ اپنانے کے ناپختہ رویے سے گریز کروں۔

ھر فرد کے اپنے اپنے بت ھیں، جنہیں وہ سب سے برتر اور تنقید سے بالاتر سمجھتا ھے۔ اس خبط میں وہ دوسروں کے بتوں کو توڑکر اور ان پر تھوک کر اپنی خود ساختہ انا کی تسکین چاھتا ھے۔ ضروری نہیں کہ آپ کے اور میرے آدرش (آئیڈیل) اور اقدار حیات ایک سے ھوں۔ البتہ یہ بات عالمی و سماجی، ھر نوع کے اخلاقی اصولوں سے ھم آھنگ ھے کہ بد زبانی اور تضحیک آمیز رویہ، کبھی بھی دلیل کا متبادل نہیں ھو سکتا۔ ذیادہ سے ذیادہ ھم سب اپنی اپنی ایک رائے رکھتے ھیں، اور اس کے حق میں لاکھ تاویلیں پیش کرسکتے ھیں۔

واضح رھے کہ میری آراء تمام تر اخلاص کے باوصف، وقت، سوچ اور حالات کے ساتھ تبدیل ھوسکتی ھیں۔ اس لئے میں ایک مصلح نہیں ھوں اور نہ ھی آپ کو اس خود ساختہ منصب پر بیٹھتا دیکھ کر آپ کی چوکھٹ پر سر جھکاؤں گا۔

 اپنے اپنے بت

کیوںکہ میں، تم ھوں۔

(اختتام کا آغاز)

میں نے پہلے پہل ‘اسے’ ایک آئینے میں پایا۔
اور میں اپنا عکس دیکھتے ھی چونک اٹھا۔
میرا دائیاں پہلو، بائیاں ۔ اور بائیاں، دائیاں دکھائی دے رھا تھا۔
میں نے آنکھوں پر اپنی توجہ مرکوز کی۔
اور پھر جو رونما ہوا
اس نے مجھے حیرت میں ڈبو دیا۔
مجھے یہ چہرہ کسی اور میں ڈھلتا محسوس ھوا
اور اپنا آپ اجنبی سا لگنے لگا۔
میں گھبرا گیا۔
اور خوفزدگی میں واپس اپنے کمرے کا رخ کیا۔
سوچا کہ ایک بار پھر خود کو ھجر کا عادی بنا لوں۔

اسی شب، کسی نے میرے کانوں میں سرگوشی کی
تم سب سے بھاگ سکتے ہو؛ ’’
خدا سے، دنیا سے، انسانوں سے، اور ان سے منسوب رشتوں سے
مگر تم مجھ سے دور نہیں جا سکتے
‘‘ کیوں کہ میں ،تم ہوں۔

بے بسی میں، میں نے اپنے کمرے کو الوداع کہا
مگر میں جہاں بھی گیا، اسی آواز نے میرا تعاقب کیا۔
بالآخر میں نے اپنی شکست تسلیم کر لی
اور اپنے دروازے پر سفید علم لٹکا دیا۔
(اب میں کسی آئینے کی طرف نہیں دیکھتا۔)

(آغاز کا اختتام)

تحریر از: ۱۷ مارچ ۲۰۰۹ء

Broken_mirror_by_Moonbeam13

سوتیلا دوست

سوتیلا باپ، سوتیلی ماں، سوتیلے بہن بھائی وغیرہ۔ یہ سب کسی تعلق کو ظاھر کر رھے ھیں۔ عین ممکن ھے کہ یہ سوتیلے رشتے، نہایت ملنسار اور مخلص ثابت ھوں، اور سگوں سے بڑھ کر آپ کا خیال رکھیں۔ کیا کوئی مجھے یہ بات سمجھا سکتا ھے کہ یہ‘سوتیلا دوست’ کون ھوتا ھے؟ میں جتنا سوچتا ھوں، اسی نتیجے پر پہنچتا ھوں کہ کوئی دوست، کبھی سوتیلا نہیں ھو سکتا۔ یا تو وہ دوست ھوگا یا وہ نہیں ھوگا۔ اس میں کسی تیسری بات کی گنجائش نکالنا، میرے نزدیک ایک عجیب سی بات ھوگی۔ کچھ لوگوں کے ھاں، محبت کی طرح، دوستی کا جذبہ بھی شاید کم یا ختم ھو جاتا ھے۔ ایسے لوگوں کو صورت حال از خود واضح کر دینی چاھئیے، بجائے اس کے کہ دوسرے شخص کو ایک مسلسل کرب میں مبتلا رکھا جائے۔
جب کسی رشتے سے جی اکتانے لگے، اور انسان اپنے لئے کوئی اوراستہ منتخب کرلے، تو انسان کو سچائی سے کام لیتے ھوئے، سب بات بیان کردینی چاھئیے۔ سچ، اورصرف سچ۔
 Sotaila dost

وحشت اور جنون

میں پہلے اپنے ملک کے حالات پر بہت آزردہ اور شکستہ حال رہتا تھا۔ میں سوچتا اور کڑھتا رہتا کہ خدایا، یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ انسانیت کہاں گئی اور لوگ، امن اور سلامتی سے کیوں نہیں رہ سکتے۔ مگر اب میں خود کو بڑی حد تک لا پرواہ سا پاتا ہوں۔ میں مجھے اپنی پچھلی سوچیں اور غم کتابی سے لگنے لگے ہیں۔ شاید میرے ذھن نے یہ بات اچھی طرح جان لی ہے کہ جس معاشرے سے صبر، تحمل، برداشت، رواداری اور درگزر کی صفات چھن جائیں، وہاں وحشت اور جنون کے علاوہ رہ ہی کیا جاتا ہے؟

 Weshat