یہ کہانی ایک شادی شدہ مسلمان جوڑے کی ہے، جن کے نام شہزاد اور شمع اور عمریں بمشکل تیس برس کے لگ بھگ تھیں۔ یہ دونوں بھارت کے شہر گجرات کے نواحی گاؤں رادھا کشن میں اینٹوں کے ایک بھٹے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ کا جہنم بھرتے تھے۔ غربت اور تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ انہیں ایک ایسے ماحول میں رہنا پڑ رہا تھا، جہاں وہ مذہبی اقلیت یعنی عملی طورپر تیسرے درجے کے شہری تھے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے سبب انہیں احساس تھا کہ اگر کسی بھی مرحلے پر کوئی مذہبی نوعیت کا الزام لگ گیا تو پولیس، انتظامیہ اور قانون انہیں تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بھٹہ مزدوروں کی زندگیاں کس قدر دشوار ہیں۔ ان کا معاشی استحصال ہوتا رہتا ہے اور غریب مزدور اسے اپنی تقدیر کا لکھا سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان کی اولاد کسمپرسی کی وجہ سے تعلیم کی نعمت سے محروم رہتی ہے،انہیں حفظان صحت کی سہولت بھی نہیں ملتی اور حکومت کی طرف سے بھی انہیں کسی سوشل سیکورٹی کے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزدورآج کی نام نہاد مہذب دنیا میں بھی محض غلاموں کی سی زندگی گزارتے ہیں جہاں انہیں کسی قسم کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور ایک خوفزدگی کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے شہزاد اور شمع بھی بھٹہ مالک اور اس کے منشیوں کے ساتھ اپنی یومیہ اجرت کے معاملے میں محض صبر سے ہی کام لیتے چاہے ان کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہورہی ہوتی۔ جیسے تیسے زندگی کی گاڑی رواں تھی، ان کے چار پھول سے بچے تھے: سلمان آٹھ برس کا، ذیشان پانچ برس کا، سونیا چار برس اور پونم اٹھارہ ماہ کی۔ خدا نے ان پر ایک بار پھر فضل کیا اور شمع پھر امید سے ہوگئی۔ دونوں محض چار ماہ بعد اپنے آنگن میں ایک اور پھول کے کھلنے کے منتظر اور اپنے گھرانے کے بہتر مستقبل کے لئے سپنے بن رہے تھے کہ ایک روز وہی ہوا جس کا انہیں ڈر تھا۔
کسی نے کوئی افواہ اڑا دی اور ان پر یہ الزام لگا دیا گیا کہ انہوں نے ہندؤں کی مقدس کتاب ویداس کی بے حرمتی کی ہے ۔ یہ الزام لگنے کے بعد ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پولیس اور قانون ان کی مدد کرنے سے قاصر ہوں گے اور یہ بھی کہ چاہے وہ لاکھ اس الزام کی تردید کریں اور اپنی بے گناہی پر خدا کی قسمیں اٹھائیں، ہندو انتہا پسند اپنے غصے کی آگ بجھائے بغیر انہیں نہیں بخشیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ان پر توہین مذہب کا مقدمہ بن جائے اور وہ کال کوٹھری ہی میں کسی انتہا پسند گارڈ کی گولی کا نشانہ بن جائیں۔
اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی وہ مقدمے میں سزا سے نہیں بچ سکیں گے کیونکہ اول تو وہ وکیل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکیں گے، دوم ڈر کے مارے کوئی وکیل ان کے مقدمے کی پیروی ہی نہیں کرے گا، سوئم اگر کوئی وکیل راضی بھی ہوجائے تو اس کی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے گی، چہارم یہ کہ انتہا پسندوں کی دھمکیوں کی بنا پر جج بھی ان کے خلاف فیصلہ سنا دے گا۔
شہزاد اور شمع کے یہ خدشات تو غلط نکلے مگرجو ہوا، وہ ان سب سے زیادہ سفاک اور دردناک تھا۔ ایک روز سینکڑوں مشتعل ہندؤں نے ان کے بھٹے پر حملہ کردیا ۔ وہ فریاد کرتے رہ گئے کہ یہ سب الزامات غلط ہیں اور وہ بے قصور ہیں مگر جب ایسا ہجوم آتا ہے تو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے، چاہے وہ انصاف ہو، رحم ہو یا انسانیت۔ ان پر بے رحمی سے تشدد کیا گیا اور اس کے بعد انہیں اینٹوں کے جلتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا کر سفاکی سے قتل کردیاگیا۔ شہزاد اور شمع انصاف اور رحم کی بھیک مانگتے مانگتے اس معصوم بچے سمیت تڑپ تڑپ کر مر گئے جس نے ابھی اس دنیا میں ایک سانس بھی نہیں لیا تھا۔
میں اپنے قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ بھارت کی جگہ پاکستان، گجرات کی جگہ لاہور، انتہا پسند ہندؤں کی جگہ انتہا پسند مسلمان، ویداس کی جگہ قرآن پاک اور شہزاد اور شمع کو مسلمان کی بجائے مسیحی جوڑا تصور کرتے ہوئے اس کہانی کو ایک بار پھر سے پڑھیں اور سوچیں کہ اگر ایسی درندگی کسی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ہوتی تو وہ کیسا محسوس کرتے؟ جی ہاں، یہ دردناک اور انسانیت سوز واقعہ بھارت میں نہیں بلکہ پاکستان کے شہر لاہور کے نواحی گاؤں رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کے ساتھ پیش آیا۔ ان پرقرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا اور پھر خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بنتے ہوئے سینکڑوں مشتعل افرادنے انہیں زندہ جلا کر مار ڈالا۔
الزام لگانا تو دنیا کا سہل ترین کام ہے۔ کیا ویسا ہی الزام رمشا مسیح نامی کم سن لڑکی پر نہیں لگایا گیا تھا جو اپنے ذہنی عارضے کے سبب اس الزام کی حیثیت سمجھنے سے بھی قاصر تھی اور بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ ایک جھوٹا الزام تھا اور اس بچی کو یوں رسوا کرنے میں ایک مولوی صاحب براہ راست ملوث تھے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش بھی اسی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ایک مقامی مسجد کے پیش امام نے لوگوں کو مشتعل کر کے مسیحی جوڑے کے بے رحمانہ قتل پر اکسایا۔ ایسا پہلی بار ہوا اور نہ ہی آخری بار۔
میرے کانوں میں درویش منش شاعر مولانا الطاف حسین حالی کی شہرہ آفاق مسدس کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماوا
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولا
خطاکار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
Yaqeenan hum musalman murtaqib hoy hain toheen e risalat k
Aah ki hum sudhr jaty.
Mulla has hijacked our Deen e Rehmat and is using for its paet pooja at any cost…. shameful cruel act again provoked by Mulla
Pingback: Pareja cristiana es lanzada viva en un horno de fuego en Pakistán por “blasfemia” | Mateo10:26
Har fard yahan apne farz ko bhol k bus apne haqooq yad rakhta ha.
Khuda ki nazar mai na haq khoon kesi ka maaf nah chahy wo kesi mazhab ka banda kyu na ho
Magar yahan deen e Islam ko kam or apne qaid e qanon ko follow zeyada karty hai..
Jin ko deen phailany ki zimedari de hoti hai wo he dunia mai boraiyan phalata hai or hum bewaqoof Quran ko ignor kar k jali molla molvi k chakar mai pare hain