کیا ہم خود توہین کے مرتکب نہیں ہو رہے؟


یہ کہانی ایک شادی شدہ مسلمان جوڑے کی ہے، جن کے نام شہزاد اور شمع اور عمریں بمشکل تیس برس کے لگ بھگ تھیں۔ یہ دونوں بھارت کے شہر گجرات کے نواحی گاؤں رادھا کشن میں اینٹوں کے ایک بھٹے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ کا جہنم بھرتے تھے۔ غربت اور تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ انہیں ایک ایسے ماحول میں رہنا پڑ رہا تھا، جہاں وہ مذہبی اقلیت یعنی عملی طورپر تیسرے درجے کے شہری تھے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے سبب انہیں احساس تھا کہ اگر کسی بھی مرحلے پر کوئی مذہبی نوعیت کا الزام لگ گیا تو پولیس، انتظامیہ اور قانون انہیں تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہیں گے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ بھٹہ مزدوروں کی زندگیاں کس قدر دشوار ہیں۔ ان کا معاشی استحصال ہوتا رہتا ہے اور غریب مزدور اسے اپنی تقدیر کا لکھا سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان کی اولاد کسمپرسی کی وجہ سے تعلیم کی نعمت سے محروم رہتی ہے،انہیں حفظان صحت کی سہولت بھی نہیں ملتی اور حکومت کی طرف سے بھی انہیں کسی سوشل سیکورٹی کے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزدورآج کی نام نہاد مہذب دنیا میں بھی محض غلاموں کی سی زندگی گزارتے ہیں جہاں انہیں کسی قسم کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور ایک خوفزدگی کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے شہزاد اور شمع بھی بھٹہ مالک اور اس کے منشیوں کے ساتھ اپنی یومیہ اجرت کے معاملے میں محض صبر سے ہی کام لیتے چاہے ان کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہورہی ہوتی۔ جیسے تیسے زندگی کی گاڑی رواں تھی، ان کے چار پھول سے بچے تھے: سلمان آٹھ برس کا، ذیشان پانچ برس کا، سونیا چار برس اور پونم اٹھارہ ماہ کی۔ خدا نے ان پر ایک بار پھر فضل کیا اور شمع پھر امید سے ہوگئی۔ دونوں محض چار ماہ بعد اپنے آنگن میں ایک اور پھول کے کھلنے کے منتظر اور اپنے گھرانے کے بہتر مستقبل کے لئے سپنے بن رہے تھے کہ ایک روز وہی ہوا جس کا انہیں ڈر تھا۔

کسی نے کوئی افواہ اڑا دی اور ان پر یہ الزام لگا دیا گیا کہ انہوں نے ہندؤں کی مقدس کتاب ویداس کی بے حرمتی کی ہے ۔ یہ الزام لگنے کے بعد ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پولیس اور قانون ان کی مدد کرنے سے قاصر ہوں گے اور یہ بھی کہ چاہے وہ لاکھ اس الزام کی تردید کریں اور اپنی بے گناہی پر خدا کی قسمیں اٹھائیں، ہندو انتہا پسند اپنے غصے کی آگ بجھائے بغیر انہیں نہیں بخشیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ان پر توہین مذہب کا مقدمہ بن جائے اور وہ کال کوٹھری ہی میں کسی انتہا پسند گارڈ کی گولی کا نشانہ بن جائیں۔

اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی وہ مقدمے میں سزا سے نہیں بچ سکیں گے کیونکہ اول تو وہ وکیل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکیں گے، دوم ڈر کے مارے کوئی وکیل ان کے مقدمے کی پیروی ہی نہیں کرے گا، سوئم اگر کوئی وکیل راضی بھی ہوجائے تو اس کی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے گی، چہارم یہ کہ انتہا پسندوں کی دھمکیوں کی بنا پر جج بھی ان کے خلاف فیصلہ سنا دے گا۔

شہزاد اور شمع کے یہ خدشات تو غلط نکلے مگرجو ہوا، وہ ان سب سے زیادہ سفاک اور دردناک تھا۔ ایک روز سینکڑوں مشتعل ہندؤں نے ان کے بھٹے پر حملہ کردیا ۔ وہ فریاد کرتے رہ گئے کہ یہ سب الزامات غلط ہیں اور وہ بے قصور ہیں مگر جب ایسا ہجوم آتا ہے تو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے، چاہے وہ انصاف ہو، رحم ہو یا انسانیت۔ ان پر بے رحمی سے تشدد کیا گیا اور اس کے بعد انہیں اینٹوں کے جلتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا کر سفاکی سے قتل کردیاگیا۔ شہزاد اور شمع انصاف اور رحم کی بھیک مانگتے مانگتے اس معصوم بچے سمیت تڑپ تڑپ کر مر گئے جس نے ابھی اس دنیا میں ایک سانس بھی نہیں لیا تھا۔


World-Watch-Monitor


Remains


میں اپنے قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ بھارت کی جگہ پاکستان، گجرات کی جگہ لاہور، انتہا پسند ہندؤں کی جگہ انتہا پسند مسلمان، ویداس کی جگہ قرآن پاک اور شہزاد اور شمع کو مسلمان کی بجائے مسیحی جوڑا تصور کرتے ہوئے اس کہانی کو ایک بار پھر سے پڑھیں اور سوچیں کہ اگر ایسی درندگی کسی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ہوتی تو وہ کیسا محسوس کرتے؟ جی ہاں، یہ دردناک اور انسانیت سوز واقعہ بھارت میں نہیں بلکہ پاکستان کے شہر لاہور کے نواحی گاؤں رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کے ساتھ پیش آیا۔ ان پرقرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا اور پھر خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بنتے ہوئے سینکڑوں مشتعل افرادنے انہیں زندہ جلا کر مار ڈالا۔


BBC-report


الزام لگانا تو دنیا کا سہل ترین کام ہے۔ کیا ویسا ہی الزام رمشا مسیح نامی کم سن لڑکی پر نہیں لگایا گیا تھا جو اپنے ذہنی عارضے کے سبب اس الزام کی حیثیت سمجھنے سے بھی قاصر تھی اور بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ ایک جھوٹا الزام تھا اور اس بچی کو یوں رسوا کرنے میں ایک مولوی صاحب براہ راست ملوث تھے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش بھی اسی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ایک مقامی مسجد کے پیش امام نے لوگوں کو مشتعل کر کے مسیحی جوڑے کے بے رحمانہ قتل پر اکسایا۔ ایسا پہلی بار ہوا اور نہ ہی آخری بار۔


Fitna

 Broken-roof


wooden-shoes


میرے کانوں میں درویش منش شاعر مولانا الطاف حسین حالی کی شہرہ آفاق مسدس کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماوا
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولا
خطاکار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا

آہ۔۔۔ مگر ہم اسی رسول کا نام لے کر کیا کیا نہیں کر رہے۔ آپ غیروں کو اپنا بنانے آئے تھے اور ہم اپنوں کو بھی غیر بنا رہے ہیں۔ آپ درگزر فرماتے، رحم اور شفقت کے بہانے ڈھونڈتے مگر یہاں ہم وحشتیں بانٹتے پھر رہے ہیں۔ آپ مصیبت میں غریبوں کے کام آتے مگر ہم تو اوروں کے لئے دکھوں کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم کہاں اپنے پرائے کا غم کھاتے ہیں، ہم تو غم دیتے ہیں۔ ہم نے گلی گلی تکفیر کے کارخانے کھول رکھے ہیں جہاں ہم تھوک کے حساب سے کلمہ گو کافر تیار کر رہے ہیں۔ عدل، رحم اور درگزر کا لفظ ہماری لغت میں شامل نہیں۔ انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں، اللہ اکبر کے نعرے بلند کر کے نہتے اور بے بس لوگوں کو زبح کردیا جاتا ہے، کسی خود کش حملے میں سینکڑوں لوگوں کو قتل اور اپاہج بنا کر، غریب گھرانوں کے چراغ گل کر کے سمجھا جاتا ہے کہ دین کا بول بالا کیا جا رہا ہے۔ الحذر، الاماں کہ یہ سب کچھ دین مبیں کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ان کی مذمت کرنے، ان کے خلاف ایک لفظ بولنے، لکھنے سے پہلے ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ دوسری طرف آسیہ بی بی اور شمع اور شہزاد جیسے غیر مسلموں پر ظلم کرتے ہوئے ہم ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ ہم اپنے لئے کیا جہنم کما رہے ہیں۔

آہ، شہزاد اور شمع تو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کے کم سن یتیم بچے اب عمر بھر اپنے باپ کی جھلک اور ماں کے پیار کو یاد کرتے رہ جائیں گے۔ ان کی اٹھارہ ماہ کی بچی ماں کے دودھ کو ترستی رہ جائے گی۔ ان کے سر پر اب کون دست شفقت رکھے گا؟ انہیں کیا بتایا جائے گا کہ ان کے والدین کہاں گئے، کس نے انہیں قتل کیا، کیوں قتل کیا، کس جرم کی پاداش میں ایسا ہوا؟ ان یتیم بچوں کی سسکیاں کون سنے گا؟ ہائے افسوس کہ شہزاد اورشمع کے قتل کا روح فرسا جرم اسی پاک رسول کے نام پر کیا گیا جو خود ’’یتیموں کا والی‘‘ ہے۔


Kids-II


آخری خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے ان کے گھرانے کے لئے مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ کیا اس مالی امداد سے شہزاد اور شمع واپس آجائیں گے؟ کیا اس مالی امداد سے، بشرطیکہ چیک حسب روایت باؤنس نہ ہو جائے، مستقبل میں ایسے دردناک سانحے ہونا رک جائیں گے؟

کاش کہ حکومت، نفرت کی تجارت کرنے والوں کے خلاف کوئی واضح، دوٹوک اور عملی موقف اختیار کرے۔ کاش، ہمارے مذہبی طبقے معاشرے میں درگزر اور انسانیت کے پیغام کی ترویج بھی کریں۔ کاش کہ توہین کے متنازعہ قوانین پر ازسر نو نظر ثانی کر کے اس میں موجود ثقم دور کئے جائیں تاکہ کل کو کوئی بے گناہ کسی جھوٹے الزام کی پاداش میں جان سے نہ جائے اور کسی پیش امام کو اشتعال انگیز تقاریر کر کے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی جرات نہ ہو۔ واضح رہے کہ قرآن الحکیم میں فتنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔

کاش کہ دوسروں پر توہین کے جھوٹے الزام لگانے والے، نقص امن کرنے والے، فتنہ و فساد پھیلانے والے، شر انگیزی کرنے والے، مذہبی اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات کے خلاف مذہب کا نام استعمال کر کے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے توہین کے قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہو۔ کون نہیں جانتا کہ ایسا کس دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔ کسی کی جائیداد ہتھیانی ہو، کسی سے کاروباری رقابت ہو، کسی سے بدلہ لینا ہو، کوئی رشتہ دینے سے انکار کردے یا ایسی کوئی بھی دوسری وجہ ہو، نہایت آسانی سے توہین کا جھوٹا الزام لگا دیا جاتا ہے اور اس کے بعد متاثرہ فریق کی زندگی برباد کر کے رکھ دی جاتی ہے۔ کچھ جاہل، نفس پرست اور جذباتی افراد پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں، مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے اشتعال انگیز بیانات جاری ہونا شروع ہو جاتے ہیں، یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے، بغیر کسی تحقیق کے لوگ اس پر اندھا دھند یقین کر کے خون خرابا کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ لاٹھیوں، ڈنڈوں اور پٹرول کی بوتلوں سے لیس سینکڑوں، ہزاروں افراد پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم کے سامنے پولیس یا ریاستی مشینری بھلا کر ہی کیا سکتی ہے؟ اس کے بعد یا تو وہی ہوتا ہے جو شہزاد اور شمع کے ساتھ ہوا یا پھر پولیس مجبوراََ توہین کا پرچہ کاٹ کر ملزمین کو گرفتار کر کے حوالات لے جاتی ہے کہ کسی بہانے تو مجمع کو قابو میں لایا جائے اور متاثرہ فریق کی وقتی طور پر جان بچائی جا سکے۔

اس کے بعد ان کو کوئی وکیل ملتا ہے اور نہ ہی انصاف۔ یاد رہے کہ توہین کے معاملے میں ملزم کو مجرم کے طور پر ہی لیا جاتا ہے چاہے وہ لاکھ بے گناہ اور مظلوم ہوں۔ جس کال کوٹھری میں ایسے ملزموں کو رکھا جائے، وہاں کا گارڈ بھی انہیں مشتعل ہو کر قتل کر سکتا ہے۔ اس صورت حال میں جج بھی ان کا کیس سننے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں ملزم کے حق میں جائز فیصلہ دینے کی صورت میں ان کی اپنی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اس کی ان گنت مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جیسا کہ حال ہی میں گجرات میں توہین کے ایک ملزم کو ایک پولیس مین نے کلہاڑی کے وار کر کے قتل کر دیا۔


 police-man-killed-accused


 اسی طرح جنید حفیظ نامی ایک نوجوان لیکچرر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اطلاعات کے مطابق یونی ورسٹی میں ان کے مخالین اساتذہ نے ان پر جھوٹا الزام لگا دیا اورانہیں گرفتار کر لیا گیا۔ دباؤ کی وجہ سے کوئی وکیل جنید حفیظ کے مقدمے کی پیروی کو تیار نہیں تھا۔بالآخر پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے کو آرڈی نیٹر اور ایک ماہر قانون راشد رحمان نے ان کی وکالت شروع کی مگر پاکستان جیسے معاشرے میں یہ موت کے جبڑوں میں سر دینے کے مترادف تھا، لہٰذا انہیں بھی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے، وطن کی خدمت کا جذبہ لے کر پاکستان لوٹنے والا جنید حفیظ اب نا امیدی کی کیفیت میں، اپنے مستقبل اور زندگی سے مایوس، حوالات میں گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے۔


 Rashid-Rehman


 اسی طرح ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا مقدمہ بھی ہمارے سامنے ہے جو پچھلے کئی برسوں سے حوالات میں ہے اور اس کی کم سن بیٹیاں اپنی ماں کو ایک نظر دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ کھیت میں کام کرتے ہوئے مسلمان ساتھی عورتوں نے آسیہ کو اس بنا پر پانی پینے سے روک کردیا کہ وہ غیر مسلم ہے اور اس بنا پر ان کا پانی ناپاک ہو جائے گا۔اپنی عزت نفس کی پامالی پر اس نے احتجاجاََ یا رد عمل میں اپنے عقیدے کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اس معمولی نوعیت کے غیر ضروری جھگڑے کی اطلاع جب مقامی مسجد کے امام کو ہوئی، تو اس نے اس سارے وقوعے کو آسیہ بی بی کے گھرانے سے کسی پرانے تنازعے کا بدلہ لینے کا سنہری موقع جانتے ہوئے ، توہین کا الزام لگا کر لوگوں کو مشتعل کردیا۔ اس کے نتیجے میں پولیس کو آسیہ کو گرفتار کرنا پڑا۔ وہ برسوں سے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی نفی کرتے ہوئے اپنی بے گناہی کی دہائی دیتی پھر رہی ہے، مگر ہم پتھر دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جب اس بے بس، مظلوم عورت کے لئے صدر پاکستان کے نام رحم کی اپیل کی کوشش کی تو وہ اپنے ہی گارڈ کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہو گئے۔ جب وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کو انصاف دلانے کی بات کی تو انہیں بھی بے دردی سے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یہ تحریر لکھنے پر خود میری اپنی زندگی بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ ان حالات میں جج سزائے موت کے پروانے پر دستخط نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ مگر کیا یہ انصاف ہوگا؟ کیا اس طرح ہم رسول اللہ کی رضامندی حاصل کرسکیں گے، جن کی حرمت کے نام پر ہمارا معاشرہ یہ جہالت اور ظلم روا رکھے ہوئے ہے؟


Asia-daughters


 ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بے حس اور انصاف سے عاری فراد پر مشتمل معاشرہ ہیں یا ہم میں انسانیت کوئی رمق باقی رہ گئی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں ہمیں ایک جنونی، متشدد اور انتہا پسند ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک طرف تو ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جا رہا مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا کہ ہم خود مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ یہ منافقت ہمارے لئے ایک ناسور بن کر رہ گئی ہے۔

ہم میں سے بیشتر شاید اس بات سے بے خبر ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسیحی خانقاہ  کے راہبوں کے نام اپنے خط میں مسیحی قوم کو ان کی جان، مال، عزت، آبرو کی مکمل ضمانت دیتے ہوئے لکھا تھا کہ مسلمان، مسیحیوں کے حقوق، وقار اور عبادت گاہوں کا تحفظ کریں گے اور ان پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے اس خط میں یہ بھی لکھا کہ مسیحی ان کے اپنے شہری ہیں اور یہ کہ آپ ایسے ہر اقدام کی مذمت کرتے ہیں جو مسیحیوں کو تکلیف پہنچائے۔

اسی طرح معاہدہ نجران میں بھی رسول اکرم نے مسیحی قوم، ان کی مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری لی اور یہاں تک کہا کہ اگر کسی مسیحی سے کوئی سنگین نوعیت کا جرم بھی ہو جائے، تو بھی مسلمان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ کسی تنازعے کی صورت میں مفاہمت کا راستہ ڈھونڈا جائے گا۔ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ مسیحی کو یا تو معاف کردیا جائے یا اس کی جانب سے تاوان بھرا جائے۔ یہ انسانی حقوق کا وہ عظیم الشان چارٹر ہے جس کی تاریخ میں کوئی اور مثال ملنا ناممکن ہے۔


Nijran-covenant


کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم اپنی جنونیت کو ترک کرتے ہوئے مہذب معاشرے کی طرح جینا سیکھیں، انسانیت کا احترام کریں اوراپنے اعمال سے دنیا کو اسلام کا پر امن چہرہ دکھائیں ۔ آئیے، خود سے سوال کیجئے کہ کیا ہم لوگوں نے گوجرہ اور بادامی باغ میں مسیحوں کی بستیاں نہیں جلائیں، کیا خود کش حملہ آوروں نے ان کے  گرجا گھروں میں قیامت نہیں ڈھائی، کیا آسیہ بی بی کو بے گناہ ہونے کے باوجود سزائے موت نہیں سنائی گئی۔


A demonstrator burns a cross during a protest in the Badami Bagh area of Lahore


دل پر ہاتھ رکھئیے اور خود سے سوال کیجئے کہ کیا ہم آخرت میں اپنے اس عظیم رسول کا سامنا کر پائیں گے جس نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن تک کو درگزر کر دیا،  وہ ہستی جس نے کوڑا پھینکنے والی عورت کی بھی تیمارداری کی، وہ ہستی جسے خود خالق کائنات نے رحمتہ اللعالمین کا لقب دیا۔ کیا ہمارے دین یا ہمارے پیغمبر کی حرمت کی پاسداری دوسروں پر توہین قرآن یا توہین رسالت کے جھوٹے الزام لگا کر، مشتعل ہو کر غریبوں کی بستیاں اجاڑ کر اور شمع اور شہزاد کے ساتھ ساتھ ان کے اس بچے کو زندہ جلا کر ہوگی، جو اپنی پیدائش سے پہلے ہی ہماری دردنگی کا شکار ہوگیا؟

یہ سب کر کے ہم نے مسیحیوں کے ساتھ کئے گئے اس معاہدے کو توڑ دیا ہے جس کی ضمانت خود رسول اللہ ﷺ نے مسیحی راہبوں کے نام اپنے خط میں دی تھی۔ کیا ایسا کر کے ہم خود توہین رسالت کے مجرم نہیں بن گئے؟


covenant


 (تحریر: سبز خزاں)

5 thoughts on “کیا ہم خود توہین کے مرتکب نہیں ہو رہے؟

  1. Pingback: Pareja cristiana es lanzada viva en un horno de fuego en Pakistán por “blasfemia” | Mateo10:26

  2. Har fard yahan apne farz ko bhol k bus apne haqooq yad rakhta ha.
    Khuda ki nazar mai na haq khoon kesi ka maaf nah chahy wo kesi mazhab ka banda kyu na ho
    Magar yahan deen e Islam ko kam or apne qaid e qanon ko follow zeyada karty hai..
    Jin ko deen phailany ki zimedari de hoti hai wo he dunia mai boraiyan phalata hai or hum bewaqoof Quran ko ignor kar k jali molla molvi k chakar mai pare hain

Leave a comment