ایک روٹی اور ایک ارب انسان

مادہ، کائنات میں بالعموم تین حالتوں میں پایا جاتا ہے؛ یعنی ٹھوس، مائع اور گیس۔ فرض کیجئے کہ آپ نے ایک اینٹ لی۔ یہ مادے کی ٹھوس حالت ہے۔ آپ نے اس اینٹ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ اینٹ اپنی اصل ساخت سے نصف، پھر مزیدنصف اور پھر مزید نصف ہوگئی۔ اگر آپ یہی عمل متواتر کرتے چلے جائیں تو ایک وقت آئے گا کہ وہ محض ایک کنکر کے برابر رہ جائے گی۔ اب یہاں سے سائنس کے سفرکا آغاز ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے بے پناہ تحقیق اور تجربات سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر تقسیم در تقسیم کا یہ عمل جاری رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم انسانی آنکھ کے لئے ایک غیر مرئی اکائی تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ اس اکائی کو ایٹم کہا جاتا ہے۔ گویا ایٹم ، مادہ کی بنیادی اکائی ہے۔ یونان کے فلسفہ دانوں کے نزدیک ایٹم، ایک ناقابل تقسیم ذرہ تصور کیا جاتا تھا، مگر سائنس میں ہونے والی مزید تحقیق نے اس امر کا انکشاف کیا کہ ایٹم بذات خود چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل ہے۔ 

اس ساری تمہید سے ایک بات جو ظاہر ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان، سائنس میں کافی ترقی کر چکا ہے، اور کائنات اور مادے کے اسرار اب پوشیدہ نہیں رہے۔ اب ہم ذرامزید آگے بڑھیں گے۔ اگر تو یہ سب تحقیق اور ترقی، بنی نوع انسان کی فلاح اور بہتری کے لئے استعمال ہوتی رہتی تو اس سے اچھا کام اور کوئی نہ ہوتا، مگر بد نصیبی کہ اس علم کو تباہی اور بربادی کی سمت موڑ دیا گیا۔ ایٹم کے اپنے اجزاء میں منتشر ہونے کی صورت میں ایک بہت بڑے پیمانے پر توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اس معلومات کی بنیاد پرایک بھیانک خیال وجود میں آیا۔ اس خیال کی تان کہاں جا کر ٹوٹی، اس کی ایک مثال دوسری جنگ عظیم کے آخرمیں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر، امریکہ کی جانب سے گرائے جانے والے ایٹم بم ہیں، جن میں کم از کم سوا دو لاکھ افراد زخمی یا زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ انسان کے جنون کی داستان یہیں پر اختتام پزیر نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بعد اس میں پے در پے اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ آئے روز، ہم ایک سے بڑھ کر ایک ہلاکت خیز ہتھیاروں کے نام سنتے آرہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب ہتھیار انسانوں پر ہی آزمائے جارہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ اس نوعیت کی چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں، قدرت بھی اپنے غصے، غضب اور ناپسندیدگی کا اظہار مختلف صورتوں میں کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال تابکاری کا اخراج ہے۔ ہماری فضا انتہائی مہلک اور نقصان دہ تابکاری مادہ سے آلودہ ہو چکی ہے۔ ان دکھائی نہ دینے والے شعاؤں سے، طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بسا اوقات تابکاری کی شعائیں کسی بھی جاندار کے خلیوں میں ایسی تبدیلیاں لے آتی ہیں، جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں، اور ایسی ایسی ناقابل علاج بیماریوں کا سبب بن جاتی ہیں، جن کا تصور بھی ہولناک ہے۔

ممکن ہے کہ آپ یہ سب پڑھ کرسائنس یا سائنسدانوں کے بارے میں بری رائے رکھنے لگے ہوں، مگر ٹھہرئیے، اب ہم ایک دوسرے زاوئیے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت پونے سات ارب کے قریب انسان بستے ہیں۔ اس برس کے تخمینے کے مطابق ان میں سے ایک ارب لوگ غزائی قلت کا شکار ہیں، یا یوں کہئے کہ انہیں کھانے کو کچھ میسر نہیں۔ اس کے برعکس دنیا کے سرمایہ دار اور امیر طبقے کے دستر خوان رنگ برنگے پکوان سے ہر وقت بھرے رہتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی غذائی کمپنیاں، سالانہ اپنی فالتو تیار کردہ خوراک، اس قدربڑی مقدار میں سمندر میں غرق کر دیتی ہیں،جس سے ان تمام لوگوں کی بھوک مٹانے کا سامان ہو سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں، ہم لوگ بھی اپنی اپنی جگہ پر اصراف کی بھرپور پیروی کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی تقریب میں چلے جائیں، وہاں خوراک کابے جا ضیاع کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف دانے دانے کو ترستے ہوئے انسان ہیں اور ایک طرف خوراک کی ایسی تذلیل۔

اگر آپ ان تمام مثالوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں توممکن ہے کہ آپ بھی میری طرح اسی نتیجے پر پہنچیں کہ یہ سب انسانی رویوں کا قصور ہے۔ سائنس دانوں نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا اور ایٹم جیسے نہ دکھائی دینے والے ذرات تک کو مزید اپنے اجزاء میں تقسیم کر کے رکھ دیا، مگردوسری طرف ہم نے اپنے دلوں کو اس حد تک تنگ کر لیا ہے کہ ہم اپنے حصے کی روٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کسی ضرورت مند کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ 

انسان کا کمال بڑے بڑے جہاز تعمیر کر لینے، مریخ کی سطح پر قدم رکھ لینے یا ایٹم کا سینہ چاک کر دینے میں نہیں، بلکہ انسانیت کی اصل معراج ، اپنے حصے کی روٹی کو اپنے بھوکے ہمسائے کے ہاتھ میں رکھ دینے میں پوشیدہ ہے۔ اگر بنی نوع انسان، ایٹم کی بجائے روٹی تقسیم کرنے اورایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کی راہ اپنا لے تو دنیا میں کوئی انسان بھوک کے ہاتھوں مرے گا اور نہ ہی کسی ہلاکت خیز ہتھیار سے۔ میرے پاس صرف ایک روٹی ہے، اور دنیا میں ایک ارب انسان بھوکے۔ کیا میں اس ایک روٹی کے ایک ارب ٹکڑے کر سکتا ہوں؟

(سبز خزاں / نیر آفاق)

World Hunger

Leave a comment