“نفرت اور جھوٹ کے مد مقابل ڈٹ جانے والا “جاھل

(خصوصی تحریر: واجد جوئیہ)

چھبیس اکتوبر کی شام ملالہ یوسفزئی کی کتاب پر ایک براہ راست پروگرام نشر ھوا، جس میں ملت اسلامیہ کے بزعم خود دو عدد مجاھدین، یعنی جناب علامہ انصار عباسی اور مفتی مولانا اوریا مقبول جان، یا دوسرے الفاظ میں قلمی طالبان نے حصہ لے کر جہاد کا علم بلند کیا۔ ان کے مد مقابل ایک ‘جاھل’ یعنی پروفیسر ڈاکٹر پرویز ھود بھائی موجود تھے۔

اوریا مقبول جان نے آغاز ھی مبالغہ آرائی سے کیا اور ملالہ کی کتاب پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ آپ نے جھوٹ بولتے بولتے یہ تہمت تک لگا دی کہ ملالہ کی کتاب میں اس کے والد نے کہا کہ آزادیء رائے کے تحت سلمان رشدی کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی کتاب لکھتا۔ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ھوں کہ ملالہ کی کتاب میں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا ھوا۔ اوریا مقبول جان ایک روایتی ملا کے انداز میں جوش خطابت میں آگے بڑھتے چلے گئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ رشدی اپنی کتاب میں ھمارے پیغمبر کے لئے ’’۔۔۔۔۔‘‘ کا لفظ استعمال کیا ھے۔ (نوٹ: اوریا مقبول جان تو اس قدر بے حمیت ھو سکتے ھیں کہ ڈھٹائی کے ساتھ ایسا توھین آمیز لفظ قومی ٹیلی وژن پر سب کو سناتے پھریں، مگر ھم یہ ظلم نہیں کریں گے)۔ اینکر پرسن نے یہ لفظ سنتے ھی نعوذ باللہ کہا۔ اسے یہ کہتا سن کر اوریا مقبول جان کو بھی خیال آیا کہ انہیں بھی نعوذ باللہ کہنا چاہئے۔ اگر پروگرام کے میزبان نے ایسا نہ کیا ھوتا، تو شاید اوریا مقبول جان کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگتی۔ خدا کا شکر کہ یہ توھین کسی اور کی زبان سے نہیں ھوئی، وگرنہ اوریا مقبول جان اب تک اس شخص کے خلاف کالم لکھ مارتے اور اس پر توھین اسلام یا ‘بلاسفمی’ کا الزام لگا چکے ھوتے۔ میں اس بات پر بھی کافی دیر سوچتا رھا کہ اگر اوریا مقبول جان کی جگہ میں ھوتا، تو میں ایسا کچھ کہنے سے پہلے اپنے کانوں کو ھاتھ لگاتا، پھر نعوذ باللہ کہتا اور اس کے باوجود بھی مجھے ایسا لفظ کہنے کہ ھمت نہ ھو پاتی۔ مجھے حیرانی ھے کہ اوریا مقبول جان جیسے مذھبی دانشورکی زبان ایک لمحے کو بھی نہ لڑکھڑائی۔ انہوں نے تو پروگرام کے شروع میں یہ تک کہا کہ وہ اپنے ساتھ رشدی کی بدنام زمانہ کتاب لانا چاھتے تھے۔ حیرت بالائے حیرت کہ دوسروں کے ایمان پر تہمت لگانے والے شخص کا ضمیر ایسی کتاب کو اٹھائے پھرنا کیسے گوارا کر سکتا تھا؟

خیر اوریا مقبول جان کے بعد علامہ انصار عباسی کی باری آئی۔ عباسی صاحب نے کہا کہ یہ ان کا فرض بنتا ھے کہ وہ اٹھارہ کروڑ آبادی کو بتلائیں کہ ملالہ کی کتاب میں کیا کیا لکھا ھے۔ یہ ایک جائز بات تھی، مگر افسوس کہ عباسی صاحب اپنے اس فرض کی ادائیگی میں ملالہ کی کتاب پر ناحق الزامات لگاتے چلے گئے۔ اس کے بعد جب پروفیسر پرویز ھود بھائی کی باری آئی، تو انہوں نے حق کا ساتھ دیتے ھوئے ان دونوں کے بے سرو پا بہتانوں کی مذمت کرتے ھوئے کہا کہ یا تو ان اشخاص نے کتاب پڑھی ھی نہیں، یا پھر یہ صریحاً جھوٹ بول رھے ھیں۔ چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق، یہ سنتے ھی انصار عباسی بھڑک اٹھے اورانہوں نے فوراً سے پروفیسر ھود بھائی کے ساتھ بدتمیزی کرتے ھوئے انہیں ایک ھی جملے میں تین بار ’جاھل‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ پھر چراغوں میں روشنی نہ رھی اور ایک طوفان بدتمیزی پبا ھو گیا۔

Profile of Dr. PHB

میں اس سوچ میں گم ھو گیا کہ آخر پروفیسر صاحب ’جاھل‘ کیسے ھوگئے۔ میں نے سوچا شاید پروفیسر صاحب کی تعلیم ان افراد سے کم ھے، تبھی تو یہ ‘جاھل’ ھیں۔ مگر ستم یہ کہ تھوڑی سی تلاش بسیار کے بعد یہ انکشاف ھوا کہ یہ دونوں شخصیات بلوچستان یونی ورسٹی، کوئٹہ سے فارغ التحصیل ھیں اور دوسری طرف پروفیسر پرویز ھودبھائی نے اپنی اعلیٰ تعلیم، دنیا کی صف اول کی یونی ورسٹی یعنی ماسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے مکمل کی ھوئی۔ نہ صرف یہ، بلکہ پروفیسر ھود بھائی کی سائنس کے میدان میں بہترین اور عالمی معیار کی کم و بیش70 تحقیقی اشاعتیں بھی ھیں ۔ صرف یہی نہیں، بلکہ آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام ایوارڈ، یونیسکو کلنگا ایوارڈ، فل برائٹ ایوارڈ، بیکر ایوارڈ اور فیض احمد فیض ایوارڈ سمیت جانے کتنے ھی مزید ایوارڈز حاصل کئے ھوئے ھیں۔ اس کے علاوہ آپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر ستارہء امتیاز بھی ملا، مگر آپ نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے ھوئے اسے وصول کرنے سے انکار کردیا۔ مجھے ذرا سی مزید تحقیق کرنے پر یہ بھی معلوم ھو اکہ پروفیسر صاحب کئی کتابوں کے مصنف بھی ھیں اور انہیں دنیا کی بہترین یونی ورسٹیوں میں بطور وزٹنگ پروفیسر بلایا بھی  جاتا ھے۔ پرویز ھود بھائی اقوام متحدہ کے لئے بھی منتخب ھوئے ھیں اور جوھری عدم پھیلاؤ کے موضوع پر سیکرٹری جنرل بانکی مون کے مشاورتی بورڈ کے بھی رکن ھیں۔آپ مشعل فاؤنڈیشن کے چئیرمین بھی ھیں اور گزشتہ تین سے ذائد دھائیوں سے پاکستان میں سائنس اور علم کے فروغ کے لئے کوشاں ھیں اور ساتھ ھی ساتھ دیگر بہت سے فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ھیں۔ دوسری طرف ان دو قلمی طالبانوں کے کریڈٹ میں مجھے سوائے کچھ جذباتی تحریروں اورقارئین کے مذھبی جذبات کا استحصال کرنے کے اور کچھ بھی قابل ذکر دکھائی نہیں دیا۔ مجھے بہت حیرت ھوئی کہ جن کے اپنے دامن میں علم کا نشان نہیں، وہ اس ڈھٹائی سے پروفیسر صاحب کو ‘جاھل’ کہہ سکتے ھیں؟ پھر اچانک میرے ذھن میں بجلی سی کوندی اور مجھے اس لفظ کی ایک ایسی تعریف مل گئی، جو دنیا میں لغت کی کسی کتاب میں نہیں مل سکتی۔ مجھے یہ ادراک ھو گیا کہ جو شخص بھی اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے دروغ گو لوگوں کو ان کے منہ پر جھوٹا کہنے کی ھمت رکھتا ھے، وہ نفرت اور جھوٹ کے ان بیوپاروں کی نظر میں ‘جاھل’ ھے۔ اس لفظ پر کچھ ھی لمحوں قبل مجھے افسوس ھو رھا تھا، مگر اب مجھے اسی لفظ پر فخر محسوس ھونے لگا، اور بے ساختہ میرے لبوں سے دعا نکلی کہ اگر سچ بولنا اور مظلوم کا ساتھ دینا ‘جہالت’ھے، تو اے کاش! میں بھی ایسا ھی ‘جاھل ’بنوں۔

اور پھر اسی پروگرام میں لگ بھگ سترویں (۱۷) منٹ پر، میں نے اوریا مقبول جان کی زبانی یہ سنا کہ اٹھارہ کروڑ عوام خود دیکھ لے کہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب میں صفحہ نمبر تیس (۳۰) پر لکھا ھوا ھے کہ رشدی کو کتاب لکھنے کا حق حاصل تھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے انگریزی میں ایک جملہ بھی کاغذ سے پڑھا۔ یہ سنتے ھی میری روح تک لرز اٹھی اور میں نے اپنے پروردگار سے پناہ مانگی۔ اوریا مقبول جان تو بہتان تراشی اور نفرت کی تمام حدیں ھی عبور کر گئے۔ صفحہ نمبر ۳۰ھی کیا، پوری کی پوری کتاب میں ایسا کچھ تحریر نہیں ھے۔ یا الٰہی، تو نے اس بد نصیب ملک کو کیسے کیسے بد دیانت لوگ دئیے، جو مذھب کا لبادہ اوڑھ کرسادہ لوح عوام کو کھلا فریب دیتے ھیں۔ یہ لوگ اگر سچ نہیں بول سکتے تو نہ بولیں، مگر ایسا ھول ناک جھوٹ تو نہ بولیں، جس سے کسی معصوم کی جان، مال اور آبرو تک خطرے میں پڑ جائے۔ اسی طرح یہ دونوں قلمی طالبان یہ الزام لگا کر بھی اپنے سامعین کو اکساتے رھے کہ کتاب میں احمدیوں کی حمایت میں لکھا گیا ھے۔ یہ بات بھی مکمل جھوٹ پر مبنی ثابت ھوئی۔

میں اپنے تمام قارئین اوراحباب سے درخواست کروں گا کہ خدارا ان جیسے لوگوں کے مقاصد کو سمجھیں۔ ان کی ظاھریت پر نہ جائیں۔ یہ لاکھ خود کو ایسا ظاھر کرتے پھریں، مگر یہ اسلام کے مجاھدین ھرگز نہیں۔ یہ ریا کار لوگ ھیں اور ان کا کام معاشرے میں افراتفری پھیلا کر اپنا مطلب نکالنا ھے۔ ان کی مثال کسی گاؤں میں فساد مچانے والی ان عورتوں کی سی ھے، جن کا ذکر ھم اکثر محاروتاً کردیتے ھیں۔ خدارا ان کا کھیل سمجھیں۔ انہوں نے کھلم کھلا جھوٹ سے کام لے کر ملالہ اور پریز ھودبھائی کے خلاف مذھبی جزبات اکسا کر نفرت اور انتشار پھیلایا، اور ان دونوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ اللہ سبحان وتعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور عقیدت رکھنے والے افراد، رواداری اور امن کی بات کرتے ھیں۔ فتنہ و فساد ڈالنا تو منافقین کا کام ھے اور قرآن پاک میں فتنے کو قتل سے بھی بڑھ کر سنگیں اقدام کہا گیا ھے۔

میں اپنی تحریر کا اختتام اس عظیم تعلیم پر کرتا ھوں کہ کسی شخص کے جھوٹا ھونے کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ سنی سنائی بات آگے پھیلاتا پھرے۔ اور یہ بھی کہ جب  کوئی فاسق تم تک کوئی خبر لائے، تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ میں معذرت چاھتا ھوں اگر میری کوئی بات کسی کی دل آزاری کا سبب بنی ھو۔

Al-Quran

12 thoughts on ““نفرت اور جھوٹ کے مد مقابل ڈٹ جانے والا “جاھل

  1. Charya Namaaqol Joker is resident of Lahore but got Baluchistan domicile through unfair means and got a job in civil services on Baluchistan quota. He is a cheater.
    Ansar Abasi works in jang group but will not write a single article on geo tv obscene shows nor would he quit their job rather is using jang group media to black mail CDA officers and politician in getting plots (preferably corner plots) in Islamabad and elsewhere.

  2. I endorsed your well thought and considered views on the talk show. Such type of rigid mullas should never be invited

  3. Dr. pervaiz hood bhai ap hamari jahil qoum k legend hain or main hamesha se ap par rashak karta ayia houn. khuda apko umar e khizar ata farmaye or ap zayada se zayada ilm ki roshni ko phailla sakain.aameen. baki rahi yeh jahil log to har dour main rahay hain or islam ki aj ki masahk shuda shakal b aisay hi jahil mullahs ki waja se hi to hai jinhon ne tareek e islam ko apnay matlab or mafadat k liay istamal kia or hamesha jhoot suuna, bolo or likha. ae mairay kareem ALLAH hamaray is mulak ko in talbanoo, jahiloon, zalimoom or munafiqoon se azadi ata farma dy. Aameen

  4. buhat khob likha hai. i have read this book and i dint found any thing which ansar abbasi or orya maqbol jan said. ya one thing in this book Malala didnt write PBUH or SAWW with the name of Holy Prophet Hazrat Muhammad SAWW. but it is not a sin.

  5. Parvez Hoodhboy is an asset of Pakistan. If Pakistan wouldn’t respect him, other countries are more than willing to get their hands on such brilliant minds

Leave a comment