کچھ آنسو، کچھ گلے شکوے (اشتیاق احمد کی یاد میں)۔

کچھ آنسو، کچھ گلے شکوے (اشتیاق احمد کی یاد میں)۔

بچوں کے جاسوسی ادب کے نام ور مصنف اشتیاق احمد صاحب بروز سترہ نومبر 2015ء اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ محض سولہ برس کی عمر یعنی 1960ء میں اپنی پہلی کہانی ’’بڑا قد‘‘ اور 1973ء میں اپنے پہلے جاسوسی ناول ’’پیکٹ کا راز‘‘ سے اپنے تحریری کیریئر کا آغاز کرنے والے اشتیاق احمد کا کچھ ھی روز قبل آٹھ سواں (800) ناول شائع ھوا۔ اپنی مصروفیت کے باعث اسے خریدنے جانے کی مہلت بھی نہ مل پائی تھی کہ آج ان کی رحلت کی افسوس ناک خبر سننے کو ملی۔ اگرچہ مجھے ان سے کچھ معاملات میں بھرپور اختلاف تھا مگر یہ خبر دل پر ایک شدید صدمہ بن کر گری۔

Imran-ki-Waapsi

لائبریریاں، راولپنڈی صدر کے اتوار بازار میں سڑک کنارے لگے اسٹالز، پرانی کتابوں کی تمام دکانیں، ٹین ڈبے والی ریڑھیاں اور کباڑ خانے،الغرض ہر وہ مقام جہاں کوئی بھی کتاب مل سکتی ہو، تمام چھان مارنے کے بعد میں گزشتہ بیس برس میں پائی پائی جوڑ کر اور ایک ایک کتاب حاصل کر کے ان کے کل چھ سو ناول جمع کر پایا تھا جنہیں میں بیسیوں دفعہ پڑھ چکا ھوں، مگرپھر بھی دل بھرتا نہیں۔ اگر کسی تحریر سے اتنی محبت ھو، تو اس کے لکھاری سے بھی تو ایک رشتہ بن جاتا ھے۔

آپ نے انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی سیریز لکھیں، جن میں محمود، فاروق، فرزانہ، آفتاب، آصف، فرحت، اشفاق، مکھن اور شائستہ کے علاوہ پروفیسر داؤد، خان رحمان، منور علی خان، بیگم شیرازی، اکرام اور کچھ دیگر کردار شامل ھیں۔ ان کے مخالف کرداروں میں جیرال، سلاٹر، رے راٹا، ابظال، جی موف، سی مون، بگران اور شارا نمایاں ھیں۔ آپ کا سب سے ضخیم ترین ناول ’’غار کا سمندر‘‘ ھے جو دو ھزار (2000) صفحات پر مشتمل ھے۔ دیگر ضخیم ناولز میں پندرہ سو (1500) صفحات کا ’’دائرے کا سمندر‘‘، چودہ سو (1400) صفحات کا ’’سنہری چٹان‘‘اور اس کے علاوہ ’’بادلوں کے اس پار‘‘، ’’جزیرے کا سمندر‘‘ اور ’’قیامت کے باغی‘‘ وغیرہ شامل ھیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے باقاعدگی سے لکھنا اور بالخصوص اپنے ضخیم ناولزمیں اس قدر کرداروں کو کہانی میں ایک متناسب انداز میں سمونا ایک مشقت طلب کام ھے، جو آپ نے بخوبی انجام دیا۔ آپ نے اپنی پہلی تحریر سے آخری تک کسی موڑ پر یہ محسوس نہ ھونے دیا کہ آپ کا قلم جمود کا شکار ھو گیا ھے یا یہ کہ آپ کے تشکیل شدہ پلاٹ میں یکسانیت یا بوریت در آنے لگی ھے۔

کوئی تیرہ برس قبل جب آپ نے اپنے ناولز کی ساتویں سنچری مکمل کی تو میں نے انہیں مبارک باد کا خط لکھا۔ میری خواھش تھی کہ میں ان کی آٹھویں سنچری پر بھی انہیں خط لکھتا اور ان سے اپنے دل کی وہ باتیں کہتا جو میں پچھلی مرتبہ نہ کہہ سکا۔

میں انہیں بتانا چاھتا تھا کہ مجھے ایک بہتر انسان بنانے میں ان کی اولین تحریروں کا اہم کردار ھے۔ ایمان داری، حب الوطنی، خودداری، بڑوں کا احترام، کسی حالت میں ھمت نہ ھارنا، ذھانت کا استعمال وغیرہ، مجھے ان کے ناولز سے یہ سب اوصاف سیکھنے کو ملے۔ میں نے انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا کے کرداروں اور ان کے گھرانوں میں اس جذباتی آسودگی کو ڈھونڈا جس سے میں اپنی حقیقی زندگی میں محروم تھا۔ میں نے ھمیشہ چاھا کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات قائم کر سکوں، مگر ایسا نہ ھو سکا۔ ایسے میں مجھے ان ناولز نے نفسیاتی سہارا دیا۔ میں ایک اچھا بیٹا تو نہ بن سکا مگر مجھے لگا کہ انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا کی صورت میں مجھے وہ رول ماڈل ضرور مل گئے ھیں جو مجھے مستقبل میں خود کو ایک اچھا باپ بنانے میں مدد دے سکتے ھیں۔ البتہ ان سب اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ مجھے ان کے کرداروں میں کچھ خامیاں بھی دکھائی دیں۔ میں انہیں بتانا چاھتا تھا کہ جتنا جلد ممکن ھو، انہیں اپنے کرداروں کی ان خامیوں سے پیچھا چھڑا کر اس کی تلافی کرنی چاھئیے۔

Ishtiaq-Ahmed-Novelsاشتیاق احمد بلاشبہ ایک تاریخ ساز مصنف ھیں مگر ان کے قلم نے کچھ ٹھوکریں بھی کھائیں، جن پر مجھے شدید تحفظات رھے اور جن کا ذکر کئے بغیر یہ تحریر غیر جانب دار نہ ھو سکے گی۔ مجھے خدشہ ھے کہ ان کی بنا پر ان کے ادبی رتبے پر بہر حال ایک سوالیہ نشان ضرور لگ جاتا ھے۔ اس کی وضاحت سے پہلے بہت مناسب ھو گا اگر میں ادب، بالخصوص بچوں کے ادب سے متعلق اپنا نظریہ مختصرطور پر پیش کر سکوں۔

بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے لئے لکھنا نہ صرف بہت کٹھن بلکہ زیادہ ذمہ داری کا کام بھی ھے۔ بچوں کی کردار سازی ھمیشہ آفاقی اصولوں پر ھونی چاھئیے۔ اچھا ادب انہیں بھائی چارہ، خیر سگالی، درگزرکرنا، سچ بولنا اور انسانیت کو مقدم رکھنا سکھاتا ھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اچھا ادب انہیں کچھ چیزیں نہیں بھی سکھاتا۔ مثال کے طور پر وہ انہیں نفرت کرنا، دوسروں کے بارے میں بدگمانی رکھنا، خود کو اوروں سے ارفع سمجھنا اور مذھبی انتہا پسندی نہیں سکھاتا، بلکہ ایسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرتا ھے۔

یہی وہ مقام ھے جہاں انہوں نے ٹھوکر کھائی ھے اور یہ سب کہتے ھوئے میں اپنا دل بھاری ھوتا محسوس کرتا ھوں۔ مسیحیوں، احمدیوں اور شیعہ برادری کے بارے میں اشتیاق احمد صاحب کی مذھبی فکر چاھے کچھ بھی ھو، انہیں اسے رکھنے اور اظہار کرنے کا حق حاصل تھا، مگر اس کے لئے عمدہ پیرائیہ اور مناسب پلیٹ فارم ھونا ضروری تھا۔ جب آپ نے اپنے ناولز کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو اس سے ان کے قارئین کے ناپختہ ذہنوں میں وہ زہر بھرنا شروع ھوا جسے آج آپ فرقہ واریت کہتے ھیں۔ اسی فرقہ واریت کی کوکھ سے انتہا پسندی جنم لیتی ھے۔ جی، وھی انتہا پسندی جس کا اگلا قدم دھشت گردی کی صورت میں ظاھر ھوتا ہے۔ کاش کہ وہ یہ غلطی نہ کرتے۔

میرا گمان ھے کہ اپنے آخری برسوں میں انہیں اس غلطی کا کچھ نہ کچھ احساس ھونا شروع ھو گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ھے کہ پہلے کے مقابلے میں اب ان کے رویے میں بھی لچک آنا شروع ھو گئی تھی۔ مثال کے طور پر آپ نے اپنے ناولز کے سرورق پر ایک بار پھر سے انسانی شکل چھاپنا قبول کر لیا تھا، جسے وہ اس سے قبل اپنی مذھبی فکر کے مطابق درست نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ نے حالیہ برسوں میں ٹی وی کے لئے کچھ مختصر انٹرویو بھی دئیے، جو اس سے قبل انہیں پسند نہیں تھا۔ آپ نے اپنے ایک انٹر ویو میں اس خواھش کا بھی اظہار کیا کہ ان کے ناولز پر بھی فلمیں بنائی جائیں، تو وہ باھر کی انڈسٹری کا مقابہ کر سکتی ھیں۔ آپ کے ناولز میں جدید سائنس اور ٹکنالوجی کا تذکرہ بھی بھرپور طور پر آنے لگا تھا۔ مجھے اس سب سے خوشی ھوئی اور مجھے لگنے لگا کہ اٹلانٹس پبلی کیشنز کے روح رواں، فاروق احمد صاحب، اشتیاق احمد صاحب کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب ھو رھے ھیں۔ میں گزشتہ ایک ھفتے سے اسی سوچ میں تھا کہ فاروق صاحب کو فیس بک پر ایک عدد پیغام لکھ کر ان کی وساطت سے اشتیاق احمد صاحب تک اپنی رائے پہنچا سکوں۔

افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی۔ آٹھ سو ناولز، جو قرین قیاس ھے کہ ایک عالمی ریکارڈ ھے، کے خالق آج اپنے پروردگار کے ھاں لوٹ گئے۔ ان کے مداح، ان سے محبت کرنے والے اور میری طرح کچھ گلے شکوے رکھنے والے قارئین، یہ سب اب بہت پیچھے رہ گئے ھیں۔ یہ خواھش کہ وہ ایک ھزار ناولز پورے کر سکیں تو اب پوری نہیں ھو سکتی، البتہ آٹھ سو ناولز ان کی بچوں کے ادب کے لئے خدمات کا منہ بولتا ثبوت ھیں۔ آپ کا آخری شائع شدہ ناول ’’عمران کی واپسی‘‘ ابن صفی مرحوم کے لئے خراج تحسین تھا، جو انہوں نے فاروق احمد صاحب کے ساتھ مل کر لکھا۔ اس پر فیس بک پر بہت سے احباب نے خوشی اور بہت سوں نے ناگواری کا مظاھرہ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کسی اور کے کرداروں پر لکھنا ’’دو نمبر‘‘ کام ھے۔ مجھے ایسے تبصرات سے دکھ پہنچا۔ شاید اشتیاق احمد نے بھی اسے دل پر لیا ھو۔ مجھے لگتا ھے کہ آپ ’’عمران کی واپسی‘‘ پر اپنے ناقدین کی آراء سے زیادہ ابن صفی مرحوم کے براہ راست تبصرے کے خواھش مند تھے اور شاید اسی لئے خدا نے انہیں وھیں بلا لیا جہاں یہ دونوں عظیم مصنفین اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسروں سے اپنے دل کا حال کہہ سکیں۔

کہا جاتا ھے کہ جب کوئی دنیا سے چلا جائے تو اس کی اچھائیاں یاد کرنی چاھئیں۔ مجھے بھی آج یا کل اپنی تمام تر خطاؤں سمیت اس دنیا سے چلے جانا ھے۔ میں اپنے عزیز مصنف کی کوتاھیوں، غلطیوں اور لغزشوں پر اللہ سے مغفرت طلب کرتے ھوئے ان کے لئے دعا گو ھوں۔

بقول جون ایلیا

لمحہ لمحہ پڑھا کرے انسان ۔۔۔۔ نوحہؑ کُلُّ مَن عَلَیھَا فَانِِ

Verse-3-185

(تحریر: سبز خزاں)