تتلی اور طوفان

نظریہء انتشار یعنی ‘‘کیاس تھیوری’’، سائنس کی دنیا کا ایک دلچسپ فکری میدان ہے۔ یہ نظریہ ہماری توجہ ان عوامل کی جانب مبذول کراتا ہے جو بظاہر ایک معمولی دکھائی دینے والی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئیے اس بات کو کچھ مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرض کیجئے، آپ نے ٹھنڈے پانی سے بھری ہوئی کتیلی، چولہے پر رکھی۔ پانی ابلنے میں کچھ وقت لے گا۔ اگر تو آنچ ہلکی ہے تو ذیادہ وقت درکار ہوگا، اور اگر چولہے کو تیز آنچ پر رکھا جائے تو پانی قدرے کافی جلدی ابل جائے گا۔ ابتدائی حالت میں پانی ٹھنڈا تھا، جب کہ اپنی حتمی حالت میں پانی ابلا ہوا ملے گا۔ پانی کو ایک حالت سے دوسری حالت تک لے جانے کا انحصار چولہے کی آنچ پر ہے۔ ہم بہت آسانی سے یہ مشاہدہ اور انداز کر سکتے ہیں کہ پانی نے کب تک ابلنا شروع کر دینا ہے۔ یہ سارا عمل ہمارے قابو یا اختیار میں ہوگا۔ اب آئیے ہم ایک دوسری مثال لیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ کسی سیاسی اجتماع میں ہیں، جہاں آپ کے گرد ہزاروں کا مجمع ہے۔ اگر اس ہجوم میں کوئی ہلکی سی بد نظمی ہو جائے تو ممکن ہے کہ ایسی افراتفری پھیلے کہ لوگ ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے جائیں۔ پانی والی مثال کے برعکس یہاں ہمارے لئے کچھ بھی اندازہ لگانا دشوار ہے کہ آنے والے لمحے میں کیا صورت حال رونما ہو سکتی ہے اور یہاں ہمارے اختیار میں بہت کم حصہ ہے۔ اس مثال سے ہمیں نظریہء انتشار کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جیسا کہ آغاز میں لکھا گیا ہے یہ نظریہ ان عوامل کے بارے میں بحث اور استدلال کرتا ہے جو کسی معمولی سی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن حد تک مختلف نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہجوم میں افراتفری کی مثال آسان انداز میں تمہید باندھنے کی غرض سے تھی۔ اب ہم ایک نہایت دلچسپ اور غیر معمولی مثال سے جان سکیں گے کہ ایک سائنسدان کس باریک بینی سے قدرتی مظاہر کا مشاہدہ کرتاہے، اور اس کے نزدیک کائنات میں رونما ہونے والاہرعمل، کس طرح دوسرے عمل سے ایک گہری وابستگی رکھتا ہے۔

فرض کیجئے کہ امریکہ میں ایک تتلی، کسی باغ میں اڑتی چلی جارہی ہے۔ تتلی کے پروں کی پھرپھراہٹ سے ہوا کے ذرات میں انتشار پھیلے گا، اور وہ ذرات اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے کچھ آگے، پیچھے ہو نے لگیں گے۔ ایک ذرے کی حرکت سے دوسرے ذرے پر کچھ دباؤ پڑے گا اور وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ یہی عمل آگے کے ذرات پر بھی رونما ہو گا۔ذرا سوچئے کہ تبدیلی کا یہ عمل بالکل ویسا ہی رخ اختیار کر لیتا ہے، جیسا کہ اوپر دی گئی سیاسی اجتماع والی مثال میں ہوا، تو کیا ہوگا؟ جی ہاں، ہوا کے ذرات میں اس قدر افراتفری پھیل جائے گی کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ ممکن ہے ہوا کے دباؤ میں کمی بیشی کسی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو تبدیلی کی لہر مزید بڑھتے بڑھتے دوسرے علاقوں، شہروں یا ملکوں کا رخ بھی کرسکتی ہے۔ نظریہ انتشار کے مطابق اس عمل کو ‘‘بٹر فلائی افیکٹ’’ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کسی ایک جگہ پر تتلی کے اڑنے کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ہوا میں ایسا انتشار پھیلے جو بحر اوقیانوس تک میں طوفان لے آئے۔

گھبرائیے نہیں اور نہ ہی تتلیوں کے پر نوچ ڈالئے۔ اگر انسان کی تمام تر تخریبی کاروائیوں کے باوجود کائنات ابھی تک ناتمام ہے توکسی معصوم سی تتلی کی وجہ سے اس میں بھلا کوئی حرف کیوں آنے لگا۔ تاہم چوں کہ ہر عمل کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلتا ہے، تو ایسا ہونا محض ممکنات میں سے ایک ہے ۔دوسرے الفاظ میں ہم یہاں صرف ‘‘کاز اینڈ افیکٹ’’ کے قانون کا اطلاق کر رہے ہیں۔

آئیے ان تمام تر مثالوں سے اب ہم اپنی زندگیوں کے لئے کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اپنی زندگی میں کچھ مقاصد لے کر آگے بڑھتے ہیں اور ہمارے سامنے ایک واضح لائحہ عمل بھی ہوتا ہے۔ ہم اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے وقت پر یا وقت سے بھی کہیں پہلے اپنے خواب، سچ کر دکھاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کیا حاصل کرنا ہے، اور ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے حصول میں کتنا وقت لگ سکتا ہے یا ہم کس انداز میں اسے جلد از جلد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں پانی کی کتیلی کی مثال صادر آتی ہے، جہاں پانی ابالنے کے لئے ہمیں معلوم ہے کہ چولہے کی کتنی آنچ، کتنے دورانئے کے لئے درکار ہے۔ اس طرح بعض اوقات، ہم حالات کی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو کر وقت اور پے در پے نازل ہونے والے بحرانوں کے سامنے ویسے ہی بے بس اور کمزور دکھائی دیتے ہیں، جیسے ایک سیاسی اجتماع میں افراتفری کا رزق بننے والے لوگ۔ ایسا صرف انفرادی زندگیوں میں ہی نہیں، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ بیشتر قومیں، اپنے مستقبل کے لئے ایک واضح تصور رکھتی ہیں اور اس تصور کو تصویر اور حقیقت کا روپ دینے کے لئے جہد مسلسل سے کام لیتی ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ٹھہراؤ اورایک سکون رہتا ہے۔ دوسری جانب بیشتر قومیں، بغیر کسی واضح لائحہ عمل کے ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتی ہیں، اور اس کے نتیجے میں بجائے آگے کی جانب سفر کرنے کے، پتھر کے دور میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ جذباتیت اور غیر منطقی استدلال کی پروردہ ایسی قومیں، ایک کے بعد دوسرے سراب کے پیچھے دوڑتی چلی جاتی ہیں، اورپھر تھک ہار کر جب گرنے لگتی ہیں تو، کسی اور کے کندھے پر اپنی ناکامی کا ملبہ ڈال دیتی ہیں۔ اپنی کوتاہ نظری کو چھپانے کے لئے، خود کو کسی عالمی سازش کا شکار سمجھنے لگتی ہیں اور اپنے انہی رہنماؤں کوشدت سے مطعون کرتی ہیں، جنہیں خود ہی بہت چاؤ سے مسند اقتدار پربٹھایا ہوتا ہے۔

بلا سوچے سمجھے، اور بغیر کسی دور اندیشی کے کئے جانے والے فیصلے، آغاز میں بظاہر ویسے ہی بے ضرر دکھائی دیتے ہیں، جیسا کسی تتلی کے پروں کی پھر پھراہٹ، مگر وہی فیصلے بعد میں، کئی نسلوں کے لئے روگ بن جاتے ہیں اور ایسے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں، جو اپنے ساتھ، خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے۔

(سبز خزاں)

Butterfly effect

Leave a comment