قحط الرجال

جب کوئی قدرتی آفت نازل ھو یا قحط پڑے، تو ھم امداد اور بھیک مانگنے کے لئے دنیا بھر میں جھولی پھیلائے پھرتے ھیں کہ عوام کی زندگی کی قدر و قیمت، کسی نام نہاد غیرت کے تصور سے بہت برتر ھے۔۔۔ 

سوال یہ ھے کہ جب قحط الرجال آن پڑے، تو پھر کیا کریں؟ مرنے دیں اپنا ملک ؟

ملک کو ابتر معاشی حالت سے نکالنے کے لئے کسی انگوٹھا چھاپ کے سر پر تاج پہنادیں یا غیر ملکی اقتصادی اداروں کی طرف دیکھیں کہ اب وہ ھی ھماری مسیحائی کریں؟ اگر ملک بھر میں دھشت گرد دندناتے پھر رھے ھوں، ریاست سرنگوں ھو چکی ھو، آئے روز دھماکے اور خود کش حملوں ھو رھے ھوں، منبر و محراب سے صرف نفرت اور اشتعال پر اکسانے والی تقاریر نشر ھو رھی ھوں، اور ایسے میں عوام اور ‘‘دانشوروں’’ کی اکثریت، ان درندوں کو نظریاتی اساس اور سیاسی تحفظ فراھم کرنے میں مگن اورھماری مصلحتیں، ابھی بھی اسے کسی اور کی جنگ قرار دینے پر مصر ھوں۔۔۔ تو کیا کریں؟ اگر ھمارے حربی خلوت خانے، افسوس ناک داستانوں سے بھرے پڑے ھوں، تو کیا ھم ماضی کے ڈھانچے نکال نکال کر انہیں سر ِ بازار سجا دیں یا موجودہ حالات کی نزاکت سمجھتے ھوئے کچھ ذمہ داری کا مظاھرہ کریں؟ 

کیا یہ درست نہیں کہ یہ دھرتی بانجھ ھو چکی ھے۔ ۔۔؟ اسے اس قحط الرجال سے نکالنے کے لئے اگر کسی اور کی طرف دیکھا جائے، تو گالی کیوں دیتے ھو؟ کہیں قحط پڑے، تو عالمی ضمیر حرکت میں آجاتا ھے۔۔۔ سوال یہ ھے کہ جب کہیں قحط الرجال آن پڑے، تو پھر کیا دنیا، مرنے دے اس ملک کو ۔۔۔ یہ جانتے ھوئے کہ بھی مردہ بدن سے اٹھنے والی سرانڈ اور اس کے جرثومے کسی سرحد کے پابند نہیں رہ سکتے۔۔۔

Leadership