ممبئی حملے کے چھ برس مکمل ہونے پر آئیے ہم ایک عہد کریں


ٹھیک چھ برس پہلے انہی دنوں پڑوسی ملک بھارت ایک اعصاب شکن مرحلے سے گزر رہا تھا۔ بھارت کا تجارتی مرکز ممبئی دہشت گردی کا نشانہ بن گیا تھا اور ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کی شام انسانی لہو میں لت پت تھی۔ کچھ روز بعد جب کیلنڈر پر ۲۹ نومبر کا ہندسہ طلوع ہوا، تو کم و بیش سو افراد جان کی بازی ہار بیٹھے تھے۔ ہر منظر افسردہ اور توڑ کر رکھ دینے والا تھا۔ پورا بھارت سوگوار تھا۔



ٹھیک چھ برس پہلے کے یہی دن میرے وطن پاکستان کے لئے بھی کم ہولناک نہ تھے۔ پورا بھارتی میڈیا اور سرکار پاکستان کی جانب تلخ لہجہ اپنائے ہوئے تھے۔ ان کے تمام تر الزامات کی انگلی میرے ملک کی جانب اٹھ رہی تھی اور حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے بتایا جا رہا تھا۔ ایک جنگی جنون کی سی کیفیت تھی اور ہر پاکستانی یہی دعا کر رہا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق ان کی سرزمین سے نہ ہو۔

اس سانحے کے فوراََ بعد جو کچھ ہوا، وہ بھی کم پریشان کن نہ تھا۔

ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی تناؤ کا شکار تھے، برطانوی وزیر اعظم کے دورہء پاکستان سےمحض چند گھنٹے قبل، بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی۔


Mumbai-after-effects


 بھارتی حکومت نے لشکر طیبہ نامی پاکستانی تنظیم پر ممبئی حملے کا الزام لگایا اور پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی کاروائی نہ کئے جانے کی صورت میں سرجیکل سٹرائیکس یعنی پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر از خود حملے کرنے کی دھمکی دی۔ ایسا کئے جانا بذات خود ایک جنگی اقدام (ایکٹ آف وار) کہلاتا اور اس کے نتیجے میں دونوں ایٹمی طاقتوں کا براہ راست تصادم ناگزیر ہوجاتا۔

آنے والے دنوں میں حکومت پاکستان نے تحقیقات کے بعد یہ تسلیم کیا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں غیر ریاستی عناصر (نان اسٹیٹ ایکٹرز) نے پاکستان کی سرزمین کو جزوی استعمال کیا ہے۔

اس کے بعد کے حالات تاریخ کا حصہ ہیں جن سے سب ہی آگاہ ہیں۔

ممبئی حملے کے دردناک سانحے، جسے بھارت اپنا نائن الیون (9/11) بھی کہتا ہے، کے چھ برس مکمل ہونے پر ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے ہم درج ذیل سبق سیکھ سکتے ہیں:

۔۱۔ انسانی زندگی سب سے قیمتی ہے۔ اسے کسی مذہب یا قوم اور ملک سے مشروط نہیں کیا جانا چاہئیے۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب یا ملک سے ہو، وہ ایک ضمنی بات تصور کی جانی چاہئیے کیونکہ آپ اپنی جائے پیدائش، والدین یامذہب منتخب کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ آپ سب سے پہلے ایک انسان ہیں۔

۔۲۔ جب تک عالمی سیاسی تنازعات کا حل تلاش نہیں کر لیا جاتا، یہ دنیا جینے کے لئے ایک پر امن جگہ تصور نہیں کی جاسکتی۔

یہ تنازعات عسکریت پسندی کو ایندھن فراہم کرتے ہیں اور غیر ریاستی عناصر کو نظریاتی پختگی حاصل ہونے لگتی ہے۔ وہ ناانصافی، عالمی جبر اور طرح طرح کے سازشی نظریات کی بیساکھی کا سہارا لیتے ہوئے اپنے پیروکاروں اور جوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے نام نہاد جہاد اور قتال میں جھونک ڈالتے ہیں۔صورتحال اس وقت مزید پریشان کن ہو جاتی ہے جب ریاستیں بھی ان عناصر کو اپنی نیابت (پراکسی) کے طور پر اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے لگیں۔

مسئلہء کشمیر ان عالمی تنازعات میں سے ایک ہے جس نے دو جوہری طاقتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا ہوا ہے۔ اسی طرح اگر پانی کی تقسیم کے معاملے کو بھی احسن طور پر حل نہ کیا گیا تو وہ آنے والے برسوں میں صورتحال کو مزید سنگین بنادے گا اور دونوں ممالک باہم دست و گریبان رہیں گے۔

اگردونوں ممالک نے ان تنازعات کے حل کے لئے دیانتدارانہ کوششیں نہ کیں اور آنے والی نسلوں کے لئے پر امن حالات کی بنیاد نہ رکھی تو یہ تناؤ کی سی کیفیت کبھی ختم نہ ہو سکے گی اور ممبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے سانحے جنم لیتے رہیں گے۔

۔۳۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتی۔ جنگ سے کبھی یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ کون درست تھا، جنگ صرف میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں اور اپنے بیٹوں کی یاد میں تڑپتی ہوئی ماؤں کے دردناک منظرکا نام ہے۔

دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں اگرکوئی جنگ چھڑی تو وہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں لڑی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں کیا کیا ممکن ہے، اس کے لئے ہیروشیما اور ناگاساکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

دانائی اسی میں ہے کہ دونوں ریاستیں اور افراد آپس میں اعتماد کی فضا بحال کریں اور تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں تاکہ امن اور ہم آہنگی کا ماحول بنے ۔

۔۴۔ ہمیں اپنی داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر ریاستی عناصر کی سر کوبی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئیے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات ریاستی اداروں اورحکومتوں کے ذریعے ہی ہونے چاہئیں، ان میں غیر ریاستی عناصر کو کئی عمل دخل نہیں ہونا چائیے چاہے وہ اپنی کاروائیاں خود مختار ہوکر کریں یا کسی کی پراکسی بن کر۔

۔۵۔بحرانی حالات میں ایک مضبوط اورصاحب بصیرت قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم کا حوصلہ بلند رکھے اور درست فیصلے کرے۔ مزید یہ کہ حکومت اور فوج کے مابین ہم آہنگی اور ربط ہونا لازمی ہے۔

۔۶۔ ایک ثمر آورجمہوریت اورموثر سفارتکاری (ڈپلومیسی) دنیا میں آگے بڑھنے کا رستہ ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کو سفارتکاری کے میدان میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’کو اگزسسٹنس اور نو اگزسسٹنس‘‘ کا فلسفہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم رکھیں۔ بصورت دیگر عالمی تنہائی ہمارے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

۔۷۔ ہم ماضی کو بدل نہیں سکتے۔ ماضی کی تلخی کو پیچھے چھوڑ آنا ہی بہتر ہے۔ امن کی شاہراہ پر چل کر ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں۔ جب سابق صدر پرویز مشرف بنگلہ دیش کے دورے پر گئے تو انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی یادگار کی گیسٹ بک پر یہ لکھا

Courage needed to reconcile and compromise is far greater than that needed to oppose and confront

پاکستان اور بھارت کو بھی ہمت دکھانا ہوگی، جنگ اور ٹکرانے کی نہیں بلکہ صلح اور امن کے لئے آگے ہاتھ بڑھانے کی ہمت۔ اسی میں دونوں کا بھلا ہے۔



 یہاں یہ لکھنا بھی اہم ہے کہ پاکستان گزشتہ تیرہ برس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہراول دستہ ہے۔ ہم نے اس جنگ میں محض زبانی کلامی حصہ نہیں لیا بلکہ ہم نے دہشت گردوں کے ہاتھوں لگ بھگ پچاس ہزار پاکستانی بھی گنوائے ہیں، جن میں ہزاروں فوجی جوان بھی شامل ہیں۔ زخمی اور معذور ہونے والے ان کے علاوہ ہیں۔عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں کا احساس ہونا چاہئیے اور یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ ایک مستحکم پاکستان اس خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

یہ وہ وقت ہے کہ ماضی کے ڈھانچے کھود نکالنے کا عمل ترک کر دیا جائے اور الزام تراشی اور بے اعتمادی کی روش سے دور رہا جائے۔ بصورت دیگر یہ ایک ایسی قبر کھودنے جیسا عمل ہوگا جس میں ہم اپنی آنے والی نسلیں اتار دیں گے اور وہ قبر گہری ہوتے ہوتے اس خطے اوربا لآخر پوری دنیا کو نگل لے گی۔

ممبئی حملے کے چھ سال مکمل ہونے پر آئیے ہم ان معصوم انسانی جانوں کی یاد میں عہد کریں کہ ہم پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے اپنے ملک اور خطے کو محفوظ اور پر امن بنائیں گے۔



(تحریر: سبز خزاں)

Leave a comment