شمالی وزیرستان آپریشن 2011ء میں کیوں نہ ہوسکا؟

ان دنوں فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے سابقہ ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو کا بہت شورو غوغا ہے۔ ملک بھر کا میڈیا اور تجزیہ نگار، سابقہ سپہ سالار جنر ل اشفاق کیانی کی قوت فیصلہ پر تنقید کررھے ھیں اور اطہر عباس بظاہر ایک ایسے صاف گو فوجی کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں، جو اپنے ادارے اور اس کے سپہ سالار پر بھی تنقید کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

Athar

خوش شکل اور خوش گفتارہونے کے ساتھ ساتھ وہ صحافیوں کے تند و تیز اور چکمہ دیتے ہوئے سوالات کے جواب دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کی حیثیت سے وہ ان تمام تر دلائل سے لیس ہوتے تھے، جن سے فوج کی پالیسیوں کا دفاع کیا جا سکے۔ وہ اس زمانے میں بہت مہارت سے یہ ثابت کر تے رہے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن فی الوقت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب وہ یہ انکشاف کر رہے ہیں کہ آپریشن کا وقت پر نہ ہونے سے ملکی مفاد کو ٹھیس پہنچی ہے۔یہ ایک دلچسپ مگر پریشان کن صورت حال ہے اور اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اس ملک کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کرنا ناگزیر ہے۔ اس سے بڑھ کر طمانیت کی بات اور کوئی نہیں اگر یہ کام آج ہونے کی بجائے گزشتہ کل ہی ہو چکا ہوتا۔ البتہ ہمیں یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بسا اوقات کچھ تلخ حقائق کی بنا پر خواہشات اوران کی تکمیل کے بیچ میں ایک طویل خلیج حائل ہو جاتی ہے، جسے عبور کرنا آسان نہیں ہوتا۔

آئیے، ہم اطہر عباس ہی کے بی بی سی کو دئیے گئے انٹر ویو کی مدد سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ جنرل کیانی کے لئے آپریشن کا فیصلہ کرنے میں کون کون سے عوامل امر مانع رہے ہوں گے۔ ذیل میں ہم ان کے انٹرویو کے کچھ اہم اقتباسات پیش کر رہے ہیں؛

Athar-Abbas-interview

آئیے، ہم انٹرویو کے ان قتباسات کو جوڑ کر صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

اطہر عباس خود تسلیم کر رہے ہیں کہ فوج کی اعلیٰ قیادت آپریشن کے بارے میں منقسم تھی۔ کوئی بھی آپریشن کے خلاف نہیں تھا، مگر اس کے نکتہ آغاز کے بارے میں رائے کا اختلاف تھا ۔ چونکہ آپریشن کے خلاف ہونا اور آپریشن کو التوا میں رکھنا دو الگ الگ باتیں ہیں، ہم باآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اعلیٰ فوجی قیادت دہشت گردوں کو دہشت گرد سمجھنے کے معاملے میں یک سو تھی۔ لہٰذا اس سے ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو جانا چاہئے کہ پاکستان کی عسکری قیادت انہیں اپنا تزویراتی اثاثہ سمجھتی ہے۔

اطہر عباس کا ماننا ہے کہ آپریشن میں کامیابی کے لئے سیاسی حمایت ضروری ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ موجودہ آپریشن حکومت کے کہنے پر شروع کیا گیا ہے اور حکومت ہی اسے رکوا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ انہوں نے کچھ سیاسی جماعتوں کا نام لیتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کی حمایت بہت ضروری ہے اور یہ بھی کہ اگر آئی ڈی پیز کا مسئلہ یا جانی نقصانات کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا، تو سیاسی حمایت ختم ہوسکتی ہے اور یہ بھی کہ حکومت کو آپریشن روکنا بھی پڑ سکتا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر 2014ء میں جاری آپریشن کے دوران بھی یہ عدم یقینی کیفیت ہے کہ کسی ناگزیر صورت حال میں سیاسی حمایت کی غیر موجودگی میں آپریشن روکنا پڑ جاسکتا ہے، تو کیا یہی پریشانی آج سے تین برس پہلے نہیں تھی؟

جیسا کہ ہم تبصرے میں لکھ چکے ہیں کہ اصولی طور پر جتنا جلد اس ملک سے دہشت گردوں کا صفایا ہو سکے، یقیناً اتنا ہی بہتر ہے۔ اور یہی بات اطہر عباس بھی کہہ رہے ہیں کہ فوج میں یہ اصولی فیصلہ ہو بھی چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کی منظوری کس نے دی؟ ظاہر ہے کہ جنرل کیانی نے ہی دی ہوگی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ 2010ء سے 2011ء تک آپریشن کی تیاری کس کی سرپرستی میں ہوئی؟ ظاہر ہے کہ ایسا بھی جنرل کیانی کی سرپرستی میں ہی ہواہوگا۔ اب تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب آپریشن کا فیصلہ بھی ہوگیا اور اس کی تیاری بھی کر لی گئی، تو کس بات نے فوج کے سپہ سالار کو ایسا کرنے سے روکا؟ کیا یہ قیاس کرنا جائز ہوگا کہ جنرل کیانی میں قوت فیصلہ کی کمی تھی؟ آئیے کچھ حقائق کی مددسے ہم اس کا جائزہ لیں۔

Gen. Kiyani

جب جنرل کیانی فوج کے سپہ سالار بنے، تو ملک ایک سنگین بحران سے گزر رہا تھا۔ فوج اور دفاعی ادارے ہر طرف سے تنقید کی زد میں تھے اورصدر مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کو تھا۔ ملک میں خود کش حملوں کا ایک لامتناہی سلسہ شروع ہو چکا تھا، عام انتخابات سر پر تھے اور وکلاء تحریک کا جن قابو سے باہر تھا۔ بعد میں ممبئی میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان مزیدعالمی تنہائی کا شکار ہوگیا ۔

آئیے ان مشکل حالات میں جنرل کیانی کی قیادت میں ہونے والے کچھ اہم فوجی آپریشنز پر ایک نظر دوڑائیں۔

۔ جنوری سے مئی 2008ء تک جنوبی وزیرستان میں آپریشن زلزلہ۔
۔ اگست 2008ء سے فروری2009ء تک افغان سرحد پر باجوڑ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن۔
۔ جولائی 2008ء سے جولائی2009ء تک خیبر ایجنسی میں آپریشن صراط مستقیم۔
۔ مئی سے جولائی 2009ء تک سوات میں فیصلہ کن کاروائی کرتے ہوئے آپریشن راہ راست۔
۔ جون سے دسمبر2009ء تک جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات۔
۔ سن 2009ء سے 2010ء تک اورکزئی اور کرم ایجنسی میں آپریشن خاکھ بادے شم (بمعنی ’’میں تمہیں سبق سکھاؤں گا‘‘)۔
۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ٹائٹ سکریو (2012ء میں)۔
۔ اپریل سے جون2013ء تک تیراہ ویلی میں آپریشن راہ شہادت۔

ان فوجی آپریشنز کی موجودگی میں یہ گمان کرنا کہ جنرل کیانی قوت فیصلہ سے محروم تھے، درست دکھائی نہیں دیتا۔

اب سب سے اہم سوال کی باری آتی ہے، یعنی شمالی وزیرستان میں آپریشن2011ء میں کیوں نہیں ہوسکا۔ اس کے لیے ہمیں ان اہم واقعات پر ایک نظر ڈالنا ہوگی، جنہوں نے 2011ء اور2012ء کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

۔ دو مئی 2011ء کو سی آئی سے کا پاکستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کے خلاف براہ راست آپریشن۔
۔  26 نومبر2011ء میں پاک افغان سرحد پر نیٹو کا سلالہ چیک پوسٹ پر پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملہ۔
۔ سلالہ حملے کے فوراََ بعدبطور احتجان پاکستان کا نیٹو سپلائی لائن بند کرنا، امریکی فورسز کو شمسی ائیر فیلڈ خالی کرنے کے حکامات جاری کرنا اور افغانستان میں ہونے والی بون کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنا۔

یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اس زمانے میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تباہ کن نچلی سطح پر آ چکے تھے، نیٹو افواج کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں پڑ چکی تھیں اور افغانستان کی حکومت کا رویہ پاکستان کے لئے پریشانی کا سبب تھا۔یہ سمجھنا بھی کوئی مشکل کام نہیں کہ شمالی وزیرستان یا قبائلی علاقوں میں کسی بھی فوجی آپریشنز کے لیے نیٹو اور افغان فورسز کے ساتھ ورکنگ ریلیشنز اور انڈر سٹینڈنگ ناگزیر ہے، تاکہ دہشت گردافغانستان میں اپنی کمین گاہوں میں پناہ نہ حاصل کر سکیں۔ اگر تعلقات خراب سطح پر ہوں، تو ایسی صورتحال میں آپریشن کرناناکامی کو دعوت دینے کے مترادف ہو سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ 2011ء اور 2012ء میں چلنے والے میمو گیٹ سکینڈل کی وجہ سے فوجی اور حکومتی قیادت میں شدید دوریاں اور اختلافات آ چکے تھے اور ایسے میں شمالی وزیرستان آپریشن کے لیے سیاسی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ آپریشن کے لیے رائے عامہ ہموار کرنااور لاکھوں کی تعداد میں دربدر ہونے والے آئی ڈی پیز کا انتظام بنیادی طور پر حکومت کا کام ہے۔ ان حالات میں فوج اپنے طور پر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی تھی۔ پی این ایس مہران اور کامرہ ائیر بیس پر ہونے والے دہشت گرد حملوں اور ایک متنازعہ چیف جسٹس کی موجودگی میں، جو دفاعی اداروں کی طرف سخت رویہ اپنائے ہوئے تھے، کی وجہ سے فوج کا مورال بلند نہیں تھا۔ ایسے میں اگر شمالی وزیرستان میں فوج بھیج دی جاتی اور اس میں کامیابی حاصل نہ ہوتی، تو وہ افواج اور قوم کے لئے مزید بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا۔

اطہر عباس کا یہ کہنا درست ہے کہ شمالی وزیرستان میں 2011ء اور 2014ء کے حالات میں فرق نہیں ہے، مگر ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ 2011ء اور 2014ء کی پاکستانی قوم میں فرق ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب شروع ہو نے پر پوری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے، جس کی بنا پر جوانوں کا مورال بلند ہے اور پوری قوم نے دہشت گردوں کو مسترد کر دیا ہے۔ اطہر عباس پاکستان کا سرمایہ ہیں اور ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اطہر عباس کی طرح ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ شمالی آپریشن میں آپریشن جتنا جلد ہو جاتا، اتنا ہی اچھا تھا۔ البتہ اس تحریر میں بیان کردہ حقائق کی روشنی میں ان عوامل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جن کی وجہ سے ایسا بروقت نہیں ہوسکا۔ یقیناً اس سے ملک کو نقصان پہنچا،مگر اس کا ذمہ دار جنرل کیانی کو قرار دینا حقائق سے متصادم ہے اور موجودہ آپریشن کے دوران ایسی رائے دینے سے فوج کے مورال پر منفی اثر پڑنے کا امکان ہے۔

(تحریر: سبز خزاں)