اگر ایدھی صاحب نہ ہوتے تو ہمارا کیا بنتا؟

یہ 2008 ء کے اواخر کی بات ہے۔ شام کا وقت تھا اور میں یونی ورسٹی سے تھکا ہارا گھر پہنچا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی چیخ اٹھی۔ دوسری جانب مجھے اسکول کے زمانے کے ایک دوست کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی، جو ان دنوں برطانیہ رہائش پزیر تھا۔

“یار! ابو کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔۔۔۔”

۔’’کیا ہوا، خیریت؟ تسلی سے پوری بات بتاؤ۔‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔

۔’’تجھے تو پتا ہے کہ ابو کی یادداشت کا مسئلہ ہے۔ ہم انہیں اکیلے باہر نہیں نکلنے دیتے کہ وہ راستہ بھول سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک دو بار ایسا ہوا کہ وہ خود سے باہر نکل گئے اور بمشکل واپس پہنچ سکے۔‘‘ دوست نے تفصیل بتانا شروع کی۔

۔’’آج دوپہر کو گھر والوں سے غفلت ہو گئی اور وہ گھر سے باہر نکل گئے۔ اب پاکستان میں شام کا وقت ہو گیا ہے اور ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ ابھی گھر بات ہوئی، امی سخت گھبرائی ہوئی ہیں۔ بھائی آفس سے آر ہا ہے، پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘۔

میں نے یہ سنتے ہی بائیں ہاتھ سے اپنی کن پٹی مسلنا شروع کی ۔ ایسا میں تب کرتا ہوں جب مجھے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کسی مسئلے کا حل سوچنا ہوتا ہے۔

۔’’تو فارغ ہے نا؟ یار، دادی کے ہاں چکر لگا کر میرے چچا سے مل لے۔‘‘۔

۔’’تم فکر نہ کرو۔ میں ابھی وہاں جا کر دیکھتا ہوں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ خیر رکھے گا، انکل مل جائیں گے۔‘‘ میں نے اپنے دوست کو تسلی دے کر فون بند کیا اور گھر سے باہر نکل گیا۔

وہ ایک اعصاب شکن شام تھی۔ میرے دوست کے والد الزائمر کا شکار تھے، یعنی ایک ایسی ہولناک اعصابی بیماری جس میں یادداشت ایسے کھو جاتی ہے کہ انسان اپنی اولاد تک کے بھی نام اور شکلیں بھول جاتا ہے۔ ایسے میں اپنا نام، پتا یاد رکھنا یا کسی کو کچھ سمجھا پانا کارِ ناممکن۔ میں نے ایک کاغذ پر تلاش گمشدہ کا اشتہار بنایا، اس پر تصویر لگانے کے بعد کافی تعداد میں فوٹو سٹیٹس کرا کے انہیں ہوٹلوں اور مساجد کی دیواروں پر چسپاں کر دیا۔ پھر پولیس اسٹیشنز اور ہسپتالوں میں معلوم کرنے کی باری آئی۔ اسی دوران میں نے اپنے علاقے میں موجود ایدھی سنٹر سے بھی معلوم کیا مگر کوئی امید کی خبر نہ مل سکی۔ اس کے بعد میں بوجھل قدموں سے شہر کی سڑکوں پر بے ترتیب چلتا رہا، کبھی ایک موڑ تو کبھی دوسرا موڑ، کبھی ایک سڑک تو کبھی دوسری گلی۔اس کے علاوہ اس وقت اور کیا بھی کیا جا سکتا تھا؟ شام کے چھ بجے سے رات کے ساڑھے گیارہ کا وقت ہو گیا۔ میں اپنے گھر سے کافی دور آ چکا تھا، سوچا کہ اب واپس چلنا چاہئے۔ راستے میں ایک پبلک کال آفس سے دوست کے بھائی کو فون کیا، مگر وہاں سے بھی ناکامی کی خبر ہی آئی۔ پھر میں نے ایدھی سنٹر کے نمبر پر کال ملائی۔

۔’’ذرا ان کی شناختی علامت دہرائیے گا۔ میں ذرا ریکارڈ میں چیک کر لوں۔‘‘ دوسری طرف سے یہ سن کر تھوڑی سی آس جاگی۔

۔’’قد قریب قریب پانچ فٹ، دس انچ۔ باریش ہیں، سفید داڑھی، عمر کوئی پچپن، ساٹھ برس۔۔۔۔‘‘ میں نے عجلت میں جواب دیا۔

۔’’زردی مائل شلوار قمیض؟‘‘ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔

۔’’جی۔۔۔ زرد جوڑا۔‘‘ میں نے دھک دھک دل سے کہا۔

۔’’کوئی ایک گھنٹہ قبل ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن والے سنٹر پر کوئی صاحب ایک بزرگ کو چھوڑ کر گئے ہیں۔ وہ اپنا نام، پتا وغیرہ کچھ بتانہیں پا رہے۔ آپ آ کر دیکھ لیں، شناختی علامات سے بظاہر وہ آپ کے عزیز لگ رہے ہیں۔ ‘‘۔

میں نے فوراََ اپنے دوست کے گھر اطلاع دی کہ وہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایدھی سنٹر پر پہنچیں۔

میں رات سوا بارہ بجے اپنے گھر پہنچا۔ ساڑھے بارہ بجے میرے دوست کے بھائی کی کال آئی جس میں اس نے اپنے والد صاحب کے مل جانے کی خوشخبری دی اور میرا شکریہ ادا کیا۔ آدھے گھنٹے بعد برطانیہ سے دوست نے کال کی۔

۔’’یار اگر تو نہ ہوتا تو کیا بنتا۔۔۔۔‘‘اس نے جذباتی لہجے میں کہا۔

۔’’نہیں! میں نہیں۔۔۔۔ اگر ایدھی صاحب نہ ہوتے تو ہمارا کیا بنتا؟‘‘ میری لبوں سے بے ساختہ نکلا۔

اور یہی سچ ہے کہ اگر ایدھی صاحب نہ ہوں تو ہمارا کیا بنے؟

برسوں پرانا یہ واقعہ اور سوال میرے دماغ میں گزشتہ ایک ہفتے سے گونج رہا ہے، شاید اس لئے بھی کہ انہی دنوں میں نے ایدھی صاحب کی سوانح حیات پڑھی ہے اور یوں بھی کہ ان دنوں آپ کی علالت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

Edhi-biography

میمن برادری سے تعلق رکھنے والے عبدالستار ایدھی 1928ء کو بھارتی گجرات کے قصبے بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور والدہ انسان دوستی کا مظہر تھے، اور یوں آپ کی پرورش ان چھتناور درختوں کی آغوش میں ہوئی جو اپنے، پرائے سب کے لئے اپنا سایہ بانٹنا جانتے تھے۔ آپ کی والدہ انہیں جو پیسے دیتیں، اس پر یہ شرط رکھتیں کہ وہ اس کا نصف کسی ضرورت مند کو دیں۔ اگر کبھی ایسا نہ ہوتا، تو وہ شدید خفا ہوتیں ۔ یوں اپنے بچپن سے ہی انہیں دوسروں کی ضرورت کا احساس اور بانٹنے کا شعور بیدار ہو گیا۔ آپ نے جب قیام پاکستان کے بعد بے سروسامانی میں کراچی کے لئے ہجرت کی، تو اس سفر میں مفلوک الحال مسافروں کے ساتھ بھوک اور تنگ دستی کے اجتماعی تجربے نے انہیں انسانوں کے دکھوں سے مزید آشنا کر دیا۔

پاکستان بن گیا، مگر ایدھی ان خوابوں کو تعبیر میں ڈھلتے نہ دیکھ سکے جس کی آس میں انہوں نے ہجرت کی تھی۔ ایک نوزائیدہ مملکت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں تھی، اور تمام شہریوں کو اس میں ہاتھ بٹانا تھا۔ 1948ء میں ایدھی نے میٹھا در میں قائم ہونے والی بانٹوا میمن ڈسپنسری کے لئے خود کو ایک رضاکار کی حیثیت سے پیش کیا۔ انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ایدھی یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ڈسپنسری کے معاملات درست نہ چلیں، اس میں صرف اپنی برادری کے لوگوں کو سہولیات بہم پہنچائی جائیں اور وہاں کام کرنے والے پیسے کے معاملے میں بدعنوانی سے کام لیں۔ لہٰذا، آپ نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی۔ یہ بات کمیٹی کے ممبران اور دوسرے لوگوں کو ناگوار گزری۔ اس کے رد عمل میں نہ صرف یہ کہ ایدھی کو ڈسپنسری سے نکال دیا گیا بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر دی گئی۔

Memon-dispensary

آپ نے ہمت نہ ہاری اور 1951ء میں اپنی مدد آپ کے تحت میٹھا در میں پگڑی پر دکان لے کر وہاں اپنی ڈسپنسری قائم کردی۔ اس خدشے کے تحت کہ مخالفین ڈسپنسری کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، آپ نہ صرف یہ کہ پورا دن وہاں خود موجود رہتے بلکہ رات کو ڈسپنسری بند کر کے گرمی سردی کی پرواہ کئے بغیر اس کے باہر پڑے بنچ پر ہی سو رہتے۔ آہستہ آہستہ آپ کی ڈسپنسری آگے بڑھتی رہی اور خدا کے فضل سے اس میں میٹرنٹی ہوم اور نرسنگ کورسز کا اہتمام بھی ہو گیا۔ دوسری طرف آپ کی شفیق والدہ بہت کمزور اور بیمار رہنے لگیں۔ پھر ایک روز فالج کے حملے سے ان کے جسم کا بایاں حصہ متاثر ہو گیا۔ ایدھی نے ان کا ویسے ہی خیال رکھا جیسے ان کی والدہ نے ان کی پیدائش کے بعد ان کا رکھا۔ بعد میں ان کی والدہ دماغ کی رگ پھٹنے سے پانچ دن زندگی، موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ایدھی ٹوٹ کر رہ گئے، اور یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا جیسے انہوں نے اپنے والدہ کی خدمت کی ہے، وہ ویسے ہی تمام انسانیت کی بلاتخصیص نسل و مذہب خدمت کریں گے۔ وہ عظیم خاتون اپنی بہترین تربیت سے نوجوان ایدھی کے سینے میں ایک ایسی قیمتی تڑپ پیدا اور ایسا چراغ روشن کر گئیں، جس نے اپنی روشنی کل بنی نوع انسان کو بانٹنی تھی۔

Edhi-Mother-1

Edhi-Mother-2

ذرا سوچئے کہ ان گنت مسخ شدہ لاشیں جنہیں ان کے اپنے پیارے ہاتھ لگانا تو کجا، دورسے دیکھنے کی بھی ہمت نہ رکھیں، ایدھی کے ہاتھوں کفنائی اور دفنائی گئی ہیں۔ ہزار ہا ناقابل برداشت بد بو چھوڑتی لاشوں کو ایدھی نے غسل دیا ہے۔ ایدھی نے دن، رات ایمبولینس چلا کر اب تک اس سے بھی کئی گنا زیادہ فاصلہ طے کر لیا ہو گا جتنا اس زمین کا قطر ہے۔ کتنے ہی ذہنی مریضوں اور عقل و خرد سے بے گانہ مرد و زن کو ایدھی نے چھت اور عزت دی ہے۔ بے شمار لاوارث بچوں کو ایدھی کے سایہء شفقت میں پناہ ملی ہے۔ وہ بچے جو اپنے ماں کے مہربان لمس اور نام تک سے بے خبر ہیں، ان کے لئے دنیا میں اگر کوئی اپنا ہے تو وہ ان کے ’’مولانا ابو‘‘ ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں اگر ایدھی کا جھولا میسر نہ آتا تو بے دردی سے قتل کر دیئے جاتے۔ مساکین اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے اور انہیں باوقار زندگی کے مواقع فراہم کرنے والا کوئی اور نہیں، ایدھی ہی ہے۔ ایدھی صرف انسانوں ہی کے مسیحا نہیں بلکہ بے زبان جانوروں کے لئے بھی سراپا محبت ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے زخمی، بے ٓآسرا مویشیوں کے لئے بھی ہوسٹل اور ویٹرنری رضاکاروں کا انتظام کر رکھا ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کی روزی کا بندو بست کرنے کے لئے آٹو رکشہ روزگار سکیم بھی ایدھی کی مرہون ہے۔ طلباء کو تعلیم کی روشنی دینے کو ایدھی فاؤنڈیشن کے ایلیمنٹری اور پرائمری سکول کا سلسلہ جاری ہے۔ اولاد سے محروم جوڑے ایدھی فاؤنڈیشن کی مدد سے یہ نعمت حاصل کر سکتے ہیں۔ گمشدہ افراد کی تلاش میں بھی ایدھی فاؤنڈیشن پیش پیش ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آزمائش یعنی بھوک مٹانے کو مفت لنگر، معذور افراد کو ہنر سکھانے کو ورکشاپس اور اسی طرح میت خانے وغیرہ، یہ سب ایدھی کی انسانیت کے لئے خدمت کی اک مختصر اور ادھوری سی جھلک ہے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ کسی ناگہانی ضرورت کے موقع پر ایدھی فاؤنڈیشن کی امدادی کاروائیاں بیرون ملک بھی جاری رہتی ہیں۔ اگر ایدھی صاحب نہ ہوتے، تو یہ سب کچھ ممکن نہ ہو پاتا۔

Jhoola

?

ابھی حال ہی میں رونما ہونے والا ایک واقعہ ایدھی صاحب کی بے لوث شخصیت کے مزید پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ 2003ء میں محض گیارہ برس کی عمر میں کسی وجہ سے اپنے والدین سے بچھڑ جانے والی قوت سماعت اور گویائی سے محروم بھارتی بچی، جو غلطی سے سرحد عبور کر بیٹھی، کو لاہور رینجرز نے دریافت کیا اور امانتاََ ایدھی فاؤنڈیشن کے سپرد کر دیا۔ بلقیس ایدھی نے اس کا نام گیتا رکھا۔ گیتا کے والدین کی تلاش کی تمام تر کوششیں بے سود گئیں، اور وہ معصوم تیرہ برس تک ایدھی سینٹر ہی میں قیام پزیر رہی۔ اس کے مذہبی حقوق کے احترام میں اسے باقاعدہ عبادت کے لئے الگ کمرہ دیا گیا، جہاں وہ اپنے طریقے سے پوجا کرسکتی تھی۔

Geeta-with-Edhi

سڑک کنارے جھولی پھیلائے انسانیت کی خدمت کے لئے عطیات کی بھیک مانگتا یہ شخص، جس کا کل اثاثہ محض دو جوڑے کپڑے اور ایک پرانی جوتی ہے، سوچا جائے تو پاکستان کا سب سے امیر شخص ہے۔ اس کی امارت کی اس سے بڑھ کر کیا گواہی ہو سکتی ہے کہ لوگ اس کے ہاتھوں کو چومنا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں، اس کی عظمت اور ایمان داری کی قسم کھاتے ہیں، اور اسے اپنی زندگی تک لگ جانے کی دعا دیتے ہیں۔ یہ بے ربط سی تحریر ایدھی صاحب کی کل زندگی، ان کی بے مثال جدوجہد اور ان کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کی تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ اس کے لئے ایک عمر چاہئے کہ آپ گزشتہ سات سے زائد دہائیوں سے فلاح انسانیت کے لئے مصروف عمل ہیں۔ آپ نے سماجی بہبود کے لئے عملی طور پر اپنی مدد آپ کے تحت اور اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے آغاز کرنے والے ایدھی، مخالفین کے طعنوں اور پروپیگنڈوں کو سہتے ہوئے اپنے کام میں جتے رہے اور اب ایدھی فاؤنڈیشن کے سینکڑوں سینٹرز اور سینکڑوں ایمبولینسیں ملک کے طول و عرض میں دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے چوبیس گھنٹے اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ گزشتہ قریباََ بیس برس سے ایدھی فاؤنڈیشن، دنیا کی سب سے بڑی اور فعال رضاکارانہ ایمبولینس سروس ہے۔ اور یہ سب کچھ اس امداد کے تحت چل رہا ہے جو لوگ ایدھی کے امین ہونے پر یقین رکھتے ہوئے اس فاؤنڈیشن کو دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اور دیگر حکومتوں کی بڑی سے بڑی امداد تک لینے سے انکار کردیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ اعلانیہ یا خفیہ ایسی شرائط وابستہ ہوتی ہیں جو فاؤنڈیشن کے کام میں کسی نہ کسی حوالے سے رکاوٹ یا اعتراض کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کے حکمران اپنی کرپشن اور بیرون ملک بنک اکاؤنٹس میں چھپائے اربوں ڈالر کے اثاثوں سے جانے جاتے ہوں، وہاں ایدھی کا وجود ایک معجزے سے کم نہیں۔

Edhi-bheek-mission

یہ ایک نا انصافی ہوگی اگر اس تحریر میں ایک دوسری شخصیت کا ذکر نہ کیا جائے، جن کے بغیر ایدھی شاید اپنا مشن اس خوش bilquis-edhiاسلوبی اور استقامت سے انجام نہ دے پاتے۔ جی ہاں، بلقیس ایدھی! جیسے انگریزی زبان میں بیوی کو نصف بہتر کہا جاتا ہے، اسی طرح بلقیس، ایک دوسرے پیکر میں ایدھی صاحب کے آدھے وجود سے کم نہیں۔ ہر دکھ، درد میں بلقیس نے آپ کا ساتھ دیا، حوصلہ بڑھایا اور خدمت خلق میں بھرپور ساتھ دیا۔ اسی طرح آپ کے بیٹے اور بیٹیوں اور دیگر رضاکاروں اور عملے کے مخلص افراد نے اس مشن کو آگے بڑھانے میں تن دہی سے کام کیا ہے۔ ان سب کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

اب ایک دردناک سانحہ، جس کا ذکر کئے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔بلال، ایدھی صاحب کا نواسہ تھا، جو محض چار برس کی عمر میں چل بسا۔ ایک ایسی خاتون جس کا دنیا میں اور کوئی نہ تھا اور جو ذھنی طور پر مستحکم بھی نہ تھی، ایدھی سینٹر میں رہ رہی تھی۔ اس نے بلال پر نہلانے کی غرض سے پانی ڈالا اور اپنے ذھنی عارضے کی بنا پر اس بات کا احساس نہ کر سکی کہ وہ پانی ابل رہا تھا۔ معصوم بلال کا بدن جھلس کر رہ گیا۔ کئی ہفتوں تک زندگی، موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ ہمت ہار گیا۔ ایدھی صاحب، بلقیس ایدھی اور بلال کی والدہ کبریٰ کی عظمت دیکھئے کہ انہوں نے نہ صرف اس عورت کو معاف کر دیا بلکہ اس کا علاج بھی جاری رکھا۔ جس روز بلال نے آخری سانسیں لیں، اس روز بھی ایدھی صاحب نے اپنا فرض معمول کی طرح نبھایا۔ یہ ۹ جولائی 1992ء کی بات ہے، بلال جاں کنی کے عالم میں تھا مگر آپ یہ اطلاع ملنے پر کہ گھوٹکی کے مقام پر دو ریل گاڑیوں کا تصادم ہو گیا ہے، فوری طور پر اپنی ٹیم کے ہمراہ نکلے۔ راستے میں انہیں اطلاع دی گئی کہ بلال اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ایدھی صاحب نے اس عالم میں بھی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کو جائے حادثہ کو ہی جانے کو کہا۔

Pilot

Bilal

صرف یہی ایک سانحہ نہیں، آپ کی زندگی کا تو ایک ایک پل جذبہء ایثار سے سجا ہوا ہے۔ جس روز آپ کی شادی تھی، اس روز بھی آپ دوسروں کی مدد کو گھر سے باہر رہے۔ جب آپ کی بیٹی کی شادی تھی، تب بھی آپ نے انسانیت کا فرض نبھایا اور گھر میں موجود نہ رہے۔ آپ نے اپنے گھرانے میں ہمیشہ کفایت شعاری اور بچت کی ترغیب دی۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنی شریک حیات کے میک اپ کرنے کی معصومانہ خواہش اور بچوں کے لیے ٹی وی لانے کی فرمائش تک پر انکار کیا اور یوں اپنے مشن اور فلاح انسانیت کے جذبے کو اپنی ذات اور گھرانے پر ہمیشہ مقدم رکھا۔

Barat

۔1982ء میں جب انڈونیشیا کے صدر سوہارتو کراچی آئے تو ایدھی کو بھی حکومت پاکستان کی طرف سے ان کا استقبال کرنے کے لئے دعوت دی گئی۔ درویش منش ایدھی اپنے معمول کے ملیشیا رنگ کے جوڑے کے ساتھ وہاں پہنچے۔ انہیں ان کے سادہ لباس کی وجہ سے وہاں سے ہٹا دیا گیا کہ کہیں ان کی وجہ سے حکمرانوں کا تاثر مہمان صدر پر ناگوار نہ گزرے۔ اس سرکاری بے قدری پر دکھ ہی کیا جا سکتا ہے۔

Protocol

ایدھی نے ہمیشہ دل کی بات کہی۔ آپ نے اپنے سماجی فلاح کے فلسفے کو جب جب موقع ملا ایوان اقتدار پر براجمان ہمارے نام نہاد مسیحاؤں تک پہنچایا، مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔

Speech

اس تحریر کے اختتام پر میں اس سوچ میں ہوں کہ ہم ایسا کیا کریں کہ اپنی تمام عمر انسانیت کی خدمت کے لئے صرف کرنے والے ایدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ہم کبھی بھی ان کی بے لوث خدمات کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ سماجی بہبود کی اولین ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہماری صدا میں وہ سکت نہیں کہ حکمران اشرافیہ اور مقتدرہ حلقوں کے بلند و بالا محلات کی دیواروں تک پہنچ سکے اور نہ ہی ان کے سینوں میں ایدھی جیسا دل ہے کہ وہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنے کا سوچیں۔ چونکہ ایدھی صاحب نے رنگ، نسل، زبان، مذہب، سرحد اور کسی بھی قسم کے امتیاز کے بغیر انسانیت کی خدمت کی ہے، اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کو نوبل انعام برائے امن کے لئے نامزد کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایدھی صاحب جیسے مسیحا کے سامنے دنیاوی انعامات اور ایوارڈ اور حتیٰ کہ نوبل انعام بھی کوئی وقعت نہیں رکھتا، مگر ہم انہیں یہ وصول کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے اور جس کا نام عالمی خبروں میں عمومی طور پر منفی حوالے سے ہی آتا ہے، اگر اس ملک کے ماتھے پر ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسفزئی کے بعد ایک اور نوبل انعام کا جھومر سج جائے، تو یہ کس قدر خوشی کی بات ہو گی۔ اور یہ بھی کہ اس سے دنیا بھر، بالخصوص ہمارے معاشرے کو، یہ اہم پیغام بھی پہنچ سکے گا کہ انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنانا اور اس کے لئے اپنی زندگی صرف کرنا ہی خدا کی خوشنودی اور دنیا بھر میں حقیقی عزت کا سبب ہے۔

Malala-Abdus-Salam

حال ہی میں عالمی تعلیم کے لئے اقوام متحدہ کے نامزد خصوصی مشیر، ضیاء الدین یوسف زئی صاحب اور ان کی ہونہار بیٹی، دنیائے عالم کی کم سن ترین اور پاکستان کی دوسری نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسف زئی نے اس ضمن میں عملی قدم اٹھایا ہے اور ایدھی صاحب کو نوبل انعام کے لئے نامزد کرنے کے لئے ایک آن لائن مہم کا آغاز کیا ہے۔ وہ تمام احباب جو ایسا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، ان سے استدعا ہے کہ وہ اس لنک پر کلک کر کے آن لائن پٹیشن کے ویب پیج پر جائیں، اور اس پر اپنا ووٹ دیں۔ اس میں محض چند سیکنڈز لگیں گے، مگر ہماری آواز دنیا تک پہنچ جائے گی کہ ہم اپنے محسن اور مسیحا کے لئے محبت اور تکریم کے جذبات رکھتے ہیں۔

Nobel4Edhi

ایدھی کو کہاں کہاں اور کیسے کیسے دکھ نہیں پہنچائے گئے، یہ موضوع ایک الگ تحریر کا تقاضہ کرتا ہے۔ آپ کو سیاسی پریشر گروپ کے ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی بھی سازشیں کی گئیں، جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں آپ کی جان کو خطرات لاحق تھے۔ اس پریشانی سے آپ کو یہ ملک عارضی طور پر چھوڑنا پڑا۔ آپ کو کافر، گمراہ، چور، لالچی، یہودیوں کا ایجنٹ اور جانے کیا کیا نہیں کہا گیا۔ آپ کے خلاف منبر و مینار سے فتاویٰ نشر کئے گئے۔ آپ پر یہ توہین آمیز الزام تک لگایا گیا کہ ایدھی فاؤنڈیشن مردوں کے اعضاء نکال لیتی ہے وغیرہ۔۔۔۔ مگر یہ مردِ درویش اپنی ہی دھن میں مست مخلوقِ خدا کے زخموں پر مرہم رکھتا چلا گیا۔ ایدھی کی ایمبولینس خدا کی سنت پر عمل کرتی ہے۔ جیسے خدا کی نعمتیں کسی تعصب اور تنگ نظری کے بغیر تمام بنی نوع انسان کے لئے ہیں، ویسے ہی ایدھی کی ایمبولینس سروس اور دیگر سہولیات بھی تمام انسانوں کے لئے اپنا دروازہ کھولے رکھتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لوگ اپنے بادشاہوں کو’ظل الٰہی‘ کے لقب سے پکارتے تھے۔ کہاں بے رحم، عیاش پرست بادشاہ اور کہاں یہ لقب۔ یہ لقب تو ایدھی پر جچتا ہے، کیا نہیں؟

Humanity

اس پیغام کو آگے پہنچا کر ایدھی صاحب کو نوبل انعام کے لئے نامزد کرنے میں ہماری مدد کیجئے۔

Nobel4Edhi

(تحریر: سبز خزاں)

One thought on “اگر ایدھی صاحب نہ ہوتے تو ہمارا کیا بنتا؟

Leave a comment