نام نہاد پاکستان سکول فیڈریشن کی ملالہ مخالف مہم کا جواب

یہ دس نومبر کی بات ہے جب حسب معمول انٹر نیٹ پر خبریں پڑھتے ہوئے دو سرخیوں نے میری خاص توجہ حاصل کی۔ پہلی سرخی نائجیریا کے ایک اسکول میں ہونے والے خود کش حملے کی تھی جس میں کم و بیش پچاس معصوم طلباء لقمہء اجل بن گئے، جس میں ایک مذہبی شدت پسند تنظیم بوکوحرام کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ دوسری خبر پاکستان اسکول فیڈریشن کی جانب سے منائے گئے ’’اینٹی ملالہ ڈے‘‘ یعنی ردِ ملالہ کے دن سے متعلق تھی جس کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ ملالہ نے ایک نہایت متنازعہ مصنف کی حمایت کرنے کا جرم کیا ہے۔

دوسری خبر مجھے ایک برس پیچھے لے گئی جب پاکستان کے نجی سکولوں کی کسی تنظیم نے ملالہ کی کتاب پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی تھی کہ اس میں اسلام مخالف اور پاکستان مخالف مواد شامل ہے۔

تاریخ سے شغف رکھنے والے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کیا تو عباسی سلطنت کے دور میں قائم ہونے والے ایک عظیم ادارے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو تباہ کر دیا جس میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی لائبریری اور علم و تحقیق کا بیش بہا خزانہ جمع تھا۔ کتاب پر پابندی اور رد ملالہ ڈے کا جان کر مجھے ذاتی صدمہ پہنچا اور میرے دماغ میں بغداد کا منظر گھومنے لگا۔ لائبریریاں اور سکول مسمار کرنا اور کتابیں جلانا یا ان پر پابندیاں لگانا ایک ایسا قومی جرم ہے، جس کی سزا نسلوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ملالہ پر طالبان کے قاتلانہ حملے کے فوراََ بعد سے شروع ہونے والا جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی پروپیگینڈا اب اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ تعلیم سے وابستہ ادارے بھی اس کی تشہیر اور تائید میں آگے آگئے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ایک ہونہار کم سن لڑکی، جس نے اپنی جان کی بازی لگا کر تعلیم کے لئے جدو جہد کی اور پاکستان جیسے معاشرے کو امن کا عظیم الشان نوبل انعام کا تحفہ دیا جسے بصورت دیگر دنیا ایک متشدد اور دہشت گرد معاشرے کے طور پر جانتی تھی، نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو اس کے خلاف اس قدر جھوٹ اور بہتان پر مبنی پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے؟

یوں لگتا ہے جیسے وہ ابھی تک اپنی جانب بڑھنے والی گولیوں سے اپنا آپ بچانے کی کوشش میں ہے، یہ اور بات کہ یہ گولیاں اب طالبان نہیں بلکہ اس کے اپنے ہم وطن چلا رہے ہیں، وہی ہم وطن جن کے لئے وہ دنیا بھر میں جدوجہد کر رہی ہے۔

چونکہ ملالہ کی کتاب پر لگنے والے الزامات کی نوعیت نہایت سنجیدہ ہے، یہ بہت مناسب ہو گا اگر اس کی کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کئے جائیں اور یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ کیا ان سے اسلام اور وطن کی محبت جھلک رہی ہے یا اس میں کوئی منفی لہجہ دکھائی دے رہا ہے۔

ملالہ اپنے قد میں اضافے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے۔

M-1جب ملالہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھی، اس کی والدہ کا قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

M-2

ملالہ کا آیت الکرسی پڑھنا اور بنی نوع آدم کی فلاح کی دعا کرنا۔

M-3

ملالہ کا اپنے ختم القرآن کا خوشی سے ذکر کرنا۔

M-4

ملالہ کا خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنا اور اشکبار ہو جانا۔

M-5

ملالہ کا ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس کے خلاف رائے دینا۔

M-6

ملالہ کا صدر اوبامہ اور پاکستان میں امریکہ کے امیج کے بارے میں اظہار خیال۔

M-7

ملالہ کا سابقہ آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو خراج تحسین۔

M-8

ملالہ پاکستان کا دنیا کی پہلی مسلم ریاست کے حیثیت سے فخر سے ذکر کرتے ہوئے۔

M-9

ملالہ کی مدینہ منورہ میں دعا کرتے ہوئے تصویر۔

 M-10

ملالہ کی بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کے لئے ڈرائنگ۔

M-11

عام تاثر کے برعکس کتاب کے اختتام پر دی جانے والی فرھنگ (گلاسری) کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں رسول اللہ کے ساتھ درود کے اظہار کے لئے ’پیس بی اپان ہم‘ بھی لکھا ہوا ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے دیگر مقامات میں ایسا نہیں ہے۔ پبلشنگ سے وابستہ افراد اس کی وجہ باآسانی جان سکتے ہیں۔ چونکہ یہ کتاب انگریزی میں ہے، لہٰذا اس کی ٹارگٹ آڈینس انگریزی بولنے، پڑھنے والے طبقے یا مغربی دنیا اور یورپ ہے،جو بنیادی طور پر غیر مسلموں پر مشتمل ہے، لہٰذا ایڈیٹر نے وہاں کے پبلشنگ اور ریڈنگ کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے اس صیغے کو صرف گلاسری میں لکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ ملالہ نے اس پر پہلے ہی معذرت کرتے ہوئے یقین دلایا ہوا ہے کہ اگلے ایڈیشنز میں یہ کمی دور کردی جائے گی۔ لہٰذا یہ ایسا کوئی اہم مسئلہ نہیں، جس کو جواز بنا کر اس کے خلاف طوفان مچایا جائے۔

M-12

اب باری آتی ہے پاکستان اسکول فیڈریشن کی جانب سے لگائے گئے سب سے سنگین ترین الزام کی، یعنی سلمان رشدی کی حمایت۔ اس پر مختصراََ یہ کہا سکتا ہے کہ ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘۔

مجھے اس موقع پر 28 فروری 2008ء کی وہ دوپہر یاد آرہی ہے، جب مجھے عالمگیر شہرت کی حامل مفکر اور مصنف کیرن آرمسٹرانگ کا براہ راست لیکچر سننے کا موقع ملا۔ سن اسی کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے کیرن آرمسٹرانگ نے سلمان رشدی کے متنازعہ ناول کے حوالے سے ایک اہم بات کی، جو کچھ یوں تھی

اس ناول کی اشاعت کے فوراََ بعد مسلم دنیا میں پر تشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اس کا تجزیہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اگرچہ اس عمل سے مسلم دنیا کا غم وغصہ تو دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے مگر اس سے مسلمانوں کے حق میں دور رس بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ناول کی اشاعت اور اس پر احتجاج کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کے لوگوں کا اسلام کے بارے میں تجسس بڑھا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے کتب خانوں کا رخ کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دانائی کا تقاضہ یہ تھا کہ اس شر انگیز ناول کے مقابلے میں مسلمان علماء اس موقع پر رسول اللہ کی سیرت اور اسلام کی تعلیمات پر کتب لکھ کر مغربی دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ جب (ناول کے رد میں) سیرت نبوی پر کوئی (نئی) کتاب سامنے نہیں آئی تو میں نے از خود اسے ایک چیلنج سمجھا اور اسے قبول کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کی سیرت پر اپنی کتاب لکھنا شروع کی۔

ایک غیر مسلم مفکر کے پر خلوص اور فکر انگیز الفاظ سن کر لیکچر ہال کی دیواریں تالیوں سے گونج اٹھیں۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ کسی بھی مسئلے یا سانحے کے جواب میں انسان دو طرح کا رد عمل دکھا سکتا ہے۔ پہلا رد عمل جذباتی جب کہ دوسرا رد عمل تعقل یعنی فکر پر مبنی ہوسکتا ہے ۔ کیرن آرمسٹرانگ نے دوسرے رد عمل کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی بات میں وزن تھا۔

جب میں ملالہ کی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ملالہ کے والد اگرچہ آزادی اظہار جیسے بنیادی انسانی حقوق کے حامی تھے مگر انہوں نے بھی رشدی کے متنازعہ ناول کو ناپسندیدہ پایا۔ تاہم ان کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ کسی کے شر انگیزی پر مبنی ناول سے اسلام جیسے کامل اور مضبوط دین کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ کیوں نہ ہم قلم کا مقابلہ قلم سے کریں اور اس ناول کے جواب میں اپنی کتابیں لکھیں۔

میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ رشدی کا پوسٹ مارڈرن فکشن پر مبنی یہ ناول انتہائی لغو اور سراسر شر انگیز تھا۔ اس کے نتیجے میں لازماََ مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہونا تھے اور ان میں غم وغصے کی لہر دوڑنا تھی۔ واضح رہے کہ رشدی کا ناول پاکستان میں بین کردئیے جانے کی بنا پر فروخت کے لئے میسر نہیں تھا، لہٰذا ایک عام پاکستانی کی اس کے مندرجات کے بارے میں معلومات محض اخباری کالمز یا سنی سنائی باتوں تک ہی محدود تھی۔ ملالہ کے والد کی ناول کا قلم سے مقابلہ کرنے کی تجویز ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جیسی کیرن آرمسٹرانگ کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ رشدی کی حمایت ہرگز ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ضیاء الدین یوسف زئی اس کے مقابلے میں کتاب تحریر کرنے کا مشورہ دیتے؟

M-13

مجھے یہ دیکھ کر کے نہایت دکھ ہوتا ہے کہ پاکستان کے کچھ نام نہاد تجزیہ کار اور صحافی، کتاب کا مطالعہ کئے بغیر، محض سی سنائی باتوں پر یا عین ممکن ہے کہ جان بوجھ کر بدنیتی پر مبنی کسی منصوبے کے تحت ملالہ کی کتاب کے بارے میں جھوٹے اور خود تراشیدہ اقتباسات پیش کر تے پھرتے ہیں۔ اس کے ایک مثال پچھلے برس اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کی ایک ٹی وی پروگرام میں ہونے والی وہ جھڑپ تھی، جس میں ڈاکٹر پرویز ھود بھائی یہ کہتے ہی رہ گئے کہ ملالہ کی کتاب میں ایسا کچھ درج نہیں ہے جو اول الذکر صحافی کہہ رہے ہیں۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی مسلسل اس قبیح کوشش میں مشغول رہے کہ وہ ملالہ اور ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کو توھین کے کیس میں الجھا سکیں۔ اوریا اور عباسی کے جھوٹ پر تفصیلی اور مدلل تجزیہ ایکسپریس ٹرائی بیون کے لئے لکھے گئے اس بلاگ اور سبز خزاں ہی پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں مل سکتا ہے۔ (کلک کیجئے اور سچ جانئے)۔

 M-16

اس پروپگینڈے میں سب سے مکروہ کردار اوریا مقبول جان اور انصار عباسی نے ہی ادا کیا۔ واضح رہے یہ وہ دو شخصیات ہیں جو القاعدہ اور طالبان کی حمایت میں کسی بھی حد تک جا تے رہتے ہیں۔ سوات میں ایک مظلوم عورت کو سر عام کوڑے مارے جانے کی ویڈیو کلپ ریلیز ہونے پر جب پورا پاکستان سراپا احتجاج بنا ہوا تھا، یہ انصار عباسی ہی تھے جنہوں نے طالبان کی حمایت میں ٹی وی پر لیکچر دئیے اور کالم لکھتے ہوئے سب کو بتایا کہ طالبان نے یوں کوڑے مار کر شریعت کا فرض ادا کیا ہے اور اس فعل پر انہیں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔

اسی طرح اوریا مقبول جان وہ شخصیت ہیں جو شام میں القاعدہ اور داعش کے ہاتھوں عام شہریوں کے سفاکانہ قتل عام کی حمایت میں لکھ لکھ کر عام مسلمانوں کو باور کرا رہے تھے کہ یہ سب کچھ امام مہدی کے نزول کے اسباب ہیں اور یہ کہ یہ دہشت گرد نہیں بلکہ امام مہدی کے سپاہی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے ان میڈیا نمائندگان سے یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ ایک سولہ سالہ لڑکی کے خلاف کردار کشی کی مہم میں گھٹیا پن پر اتر آئیں اور ایسا ہی ہوا۔ ظاہر یہ کہ یہ لوگ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف کوئی آواز بلند کرے۔

Orya column - VIII

Orya-bigotry-against-Malala

ہم لوگ نفرت، جھوٹ، ڈھٹائی اور بے قدری میں کس قدر گھٹیا درجے پر ہیں، اس کا مظاہرہ نیچے دی گئی تصویر کے کیپشن سے بخوبی ہوجائے گا۔ یہ جھوٹی پوسٹ اس پروپیگینڈے کا حصہ ہے جو ملالہ کے خلاف ایک عرصے سے جاری ہے۔ چونکہ فساد پھیلانا مقصود نہیں، اس لئے اس پر کراس کا نشان لگا دیا گیا ہے۔

M-14

اس میں کئے گئے جھوٹے دعویٰ کے بر عکس ملالہ کے سات کھڑا ہوا شخص ہرگز ہرگز رشدی نہیں ہے بلکہ یہ صاحب مارٹن شلز ہیں جو جرمنی کے ایک سیاست دان اور یورپی یونین کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اس تقریب سے لی گئی ہے جب ملالہ کو یورپی یونین کے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تسلیمہ نسرین کی وہاں موجودگی پر اعتراض کرنا ایک بچگانہ سی بات ہے۔ کسی بھی تقریب میں اگر سینکڑوں مہمان ہوں تو یہ کیا ضروری ہے کہ سب کے سب آپ کی پسند کے ہی ہوں۔

M-15

لگے ہاتھوں ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ تسلیمہ نسرین خود ملالہ کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے۔ امید ہے کہ اس سے ہماری جذبات پرستی کی حس کو کچھ قرار آجائے گا۔

M-17

کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے اصل حقائق کو توڑ مروڑ کر آگے پہنچانا آج کی انفارمیشن وار میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پروپگینڈا ایک مہلک ہتھیار سے کم نہیں، جسے بڑی بے دردی سے کسی کی ساکھ بحال کرنے یا برباد کرنے کئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ میں سے جس نے بھی ملالہ کے اوپر طالبان کے قاتلانہ حملے کے فوری بعد شروع ہونے والے ملالہ مخالف منفی پروپگینڈے کا مشاھدہ کیا ہو گا، اسے یاد ہوگا کہ کیسے سوشل میڈیا پر اس سے برقعے اور داڑھی سے متعلق ایک متنازعہ جملہ منسوب کردیا گیا، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

M-21

یونی سیف کی ایک پبلک تقریب کے دوران رچرڈ ہالبروک کے ساتھ لی گئی تصویر کو یوں پیش کیا گیا جیسے ملالہ کسی سازش میں شریک ہو۔ وہ جھوٹ بھی جلد ہی پکڑا گیا۔

M-18

پھر کچھ عقلمندوں نے یہ تسلیم کرنے تک سے انکار کردیا کہ ملالہ کو گولی لگی بھی ہے۔ بعد میں جب تحریک طالبان پاکستان نے خود اس کی ذمہ داری قبول کرلی تو یہ نظریہ بھی اپنی موت آپ مارا گیا۔M-19

M-22

ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا میں ذیل میں دی گئی پروپگینڈا تصویر گردش میں نظر آئی جس میں کسی شر پسند نے از خود ہی کچھ متنازعہ جملے لکھ کراس کے ساتھ ملالہ کی تصویر لگا کر اس کی کردار کشی کی گھناؤنی کوشش کی۔

Anti-Malala- Propaganda

طالبان پرستوں کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک نہایت ہی مضحکہ خیز پروپگینڈا شروع کیا گیا کہ ملالہ پر حملہ امریکہ کی سازش ہے کیونکہ اس کی آڑ میں پاکستان کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن لانچ کرے۔ یعنی اسامہ بن لادن جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد کی پاکستان میں موجودگی یہ کافی بہانہ نہیں تھا کہ آپریشن شروع کردیا جائے، جو ایک پندرہ سالہ لڑکی کو شہید کرائے جانے کا منصوبہ بنایا جاتا؟ ایسی صورت میں جب کہ تحریک طالبان از خود ملالہ پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری لے چکے ہوں، اس طرح کے پروپگینڈے سے متاثر ہونے والے شاید اپنی عقل سلیپنگ موڈ میں رکھنے کے عادی ہیں۔

Anti-Malala-poster

مگر چلئے سوشل میڈیا پر ایسے جھوٹ پھیلانے والے لوگ تو کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی وابستگی کی بنا پر ایسا کر رہے ہوں گے، ممکن ہے وہ طالبان کے خیر خواہ ہوں یا لڑکیوں کی تعلیم انہیں گراں گزرتی ہو۔ دکھ تو یہ ہے کہ آخر کس بنا پر پاکستان کے سکولوں کی تنظیم اس جھوٹ میں شریک ہوگئی ہے؟ وہ ملالہ کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے نوجوان طلباء کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ سب طالبان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک نئی اور منظم کوشش تو نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ملالہ مخالف تمام پروپگینڈے کے توڑ کے لئے ریاست کی جانب سے سرے سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب ریاست کی رضامندی سے ہورہا ہے۔

میں نے اپنی تحریر کے آغاز میں جس پہلی خبر کا ذکر کیا تھا، وہ نائجیریا میں ایک سکول میں ہونے والا خود کش دھماکہ تھا جس میں بوکو حرام کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ میں سوچتا ہوں کہ پاکستان نے بھی بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیم، تحریک طالبان پاکستان کی کاروائیوں میں پچاس ہزار بے گناہ پاکستانی گنوائے ہیں، پاکستان میں بھی طالبان نے کوئی ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ سکول بم دھماکوں میں اڑائے ہیں۔ مجے دکھ ہے کہ اس سب کا شکار ہونے کے باوجود ہماری نظریاتی ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والی ملالہ کی کردار کشی کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو بے دردی سے ٹھکرانے کے بعد پاکستانی قوم نے جو سلوک اس مظلوم اور نہتی لڑکی کے ساتھ روا رکھا ہے، اس کے بعد مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستانی قوم اس قابل نہیں کہ اسے دنیا میں امن کے نوبل انعام جیسی تکریم سے نوازا جائے، بہتر یہی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے حوالے سے ہی یاد رکھا جائے کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ انتہا پسندی اس قوم کے ڈی این اے میں سرایت کی جا چکی ہے۔

 (تحریر: سبز خزاں)

:مزید پڑھئے

نہتی ملالہ یوسف زئی سے نام نہاد دانشوروں کی محاذ آرائی

ملالہ کے لئے

ملالہ کی ’’سازش‘‘ کیسے ناکام بنائی جائے؟

3 thoughts on “نام نہاد پاکستان سکول فیڈریشن کی ملالہ مخالف مہم کا جواب

  1. Great Read! Great that you are bringing this awareness to your people, her haters, and the other ignorant. Thanks for sharing. Enjoyed reading it.

  2. Pingback: پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب – سبز خزاں

Leave a comment