ایک نامور مذھبی شخصیت سے متعلق خبر اور اس سے منسلک تناقضہ پر میرا تبصرہ

 !سب سے پہلے کچھ اصولی سوالات

۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر کوئی بھی ھو، چھ ’’ک‘‘ کی موجودگی اس کی ساکھ کا سبب بنتی ھے؛ کیا، کب، کہاں، کیسے، کیوں اور کس کے ساتھ۔۔۔ یہ وہ بنیادی اصول ھے جسے صحافت کے ھر طالب علم کو مد نظر رکھنا چاھیئے۔ یہ درست ھے کہ ھر خبر میں ان سب اجزاء کا ھونا لازم نہیں مگر خبر کی نوعیت کی مناسبت سے جن ’ک‘ کی ضرورت ھو، اگر وہ بھی ناپید ھوں تو پھر کیا اس خبر کو پیمانہ بنایا جا سکتا ھے؟

۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر خبر رساں ادارہ خود ھی اپنی خبر کو درست قرار نہ دے اور اس پر معذرت کر لے یا اس کی سند پیش کرنے سے قاصر ھو، تو پھر کیا اس خبر کے سچ ھونے پر بضد ھونا درست کہلائے گا؟

۔3۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ایک خبر کسی شخصیت سے متعلق ھو اور اس کی کردار کشی کا سبب بھی بن رھی ھو، تو کیا اس شخصیت کی بھی اس پر رائے پیش کرنا متوازن صحافت کے لئے لازمی نہیں؟

زیر غور مسئلے میں ایک ایسی شخصیت کا معاملہ ھے جن سے مجھے صدھا اختلافات بھی ھیں اور جن کی عیب جوئی اور جگ ھنسائی میرے نفس کی تسکین کا سامان بھی۔ مگر جب میں ان پر لگنے والے الزام اور اس پر ان کا جواب پڑھتا ھوں اور اس سب کو فنِ صحافت اور اخلاقیات کے اصولوں کی کسوٹی پر پرکھتا ھوں، تو انہیں قصور وار نہیں پاتا۔

خبر میں الزام یہ لگایا گیا ھے کہ ان کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں برآمد ھوئیں اور اس کے نتیجے میں انہیں اسلام آباد میں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں انہیں ایک اینکر کی سفارش پر چھوڑ دیا گیا۔

یہ واقعہ کب پیش آیا؟ انہیں اسلام آباد میں کس جگہ گرفتار کیا گیا؟ انہیں کس تھانے میں لے جایا گیا؟ ان پر کس دفعہ کے تحت پرچہ کاٹا گیا، اور اگر نہیں کاٹا گیا تو کیوں؟ کس اینکر کی سفارش پر انہیں چھوڑ دیا گیا اور کس قانون کے تحت؟ کیا اس خبر کو سپورٹ کرنے کے لئے کوئی تصویری یا ویڈیو ثبوت موجود ھے؟ وغیرہ۔۔۔ ان سوالات کے درست جوابات کے بغیر یہ خبر تسلی بخش نہیں کہلا سکتی۔

سوشل میڈیا پر کئی جگہوں پر ایک تصویر پیش کی جا رھی ھے جس میں مولانا کو تھانے میں بوتلوں کے ھمراہ کھڑا دکھایا گیا ھے۔ اس تصویر میں روزنامہ ایکسپریس لاھور کا حوالہ دیا گیا ھے۔ افسوس یہ کہ ایکسپریس کے ایڈیشن چھان مارنے پر بھی بظاھر ایسی کوئی خبر یا تصویر نہیں ملی۔ تصویر فوٹو شاپ کی مرھون دکھائی دے رھی ھے اور اس میں پولیس اھلکاروں کی وردیوں کا رنگ بھی اسلام آباد پولیس کی وردیوں سے مختلف ھے۔ دوسری طرف مولانا، اپنے فیس بک اکاؤنٹ اور ٹوئٹر ھینڈل میں اس الزام کی مسلسل تردید کرتے ھوئے دعویٰ کر رھے ھیں کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے مکہ مکرمہ میں حج کی ادائیگی کے سلسلے میں قیام پزیر ھیں۔ پاکستان علماء کونسل کا دعویٰ ھے کہ اس خبر رساں ادارے نے غلط خبر نشر کرنے پر مولانا سے معافی بھی مانگ لی ھے۔

اب بتائیے کہ انصاف کا کیا تقاضہ ھے؟

چونکہ ان صاحب سے مجھے ھزار ھا اختلاف ھیں، لہٰذا مجھے ان کے خلاف ھی بولنا چاھیئے اور اگلے پچھلے سارے بدلے لینے چاھئیں اور ان کی پگڑی اچھلتے دیکھ کر خوش ھونا چاھیئے یا پھرمجھے انہیں شک کا فائدہ دے دینا چاھیئے؟

اب واقعہ یہ ھے کہ کچھ ماہ قبل فیس بک کے کچھ متعصب ترین اورنفرت انگیز پیجز پر میرے اپنے خلاف ایک نہایت گمراہ کن اور تکلیف دہ پروپگینڈا چلتا رھا ھے جو میرے سینے میں ایک پھوڑے کی طرح آج بھی دکھتا ھے۔ اس لئے میرے لئے یہ معاملہ صرف میرے ممدوح سے متعلق نہیں بلکہ اس میں مجھے اپنے دکھ کی بازگشت بھی سنائی دے رھی ھے۔ لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ میں اپنے حصے کی رائے دیتا چلوں۔

سورۃ المائدہ میں تعلیم دی گئی ھے کہ ’’اے ایمان والو! خدا کے لئے انصاف کی گواھی دینے کے لئے کھڑے ھو جایا کرو، اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف چھوڑ دو۔۔۔‘‘۔

میں آخر میں مولانا کے اُن تاثرات اور الفاظ پر شدید احتجاج کرتا ھوں جس میں انہوں نے ایک مذھبی مکتبہ فکر، اس کے پیشوا اور ماننے والوں کے لئے نہایت غیر مہذبانہ الفاظ ادا کئے ھیں۔ انہیں یہ تو حق تھا کہ وہ خبر شائع کرنے والے چینل یا ادارے پر اپنا غصہ اتارتے اور اپنی بے گناھی ثابت کرتے، مگر ایک اقلیتی طبقے پر بدکلامی اور نفرت کا اظہار انہیں ھرگز زیبا نہیں ھے اور نہ ھی ان کے منصب کے شایان شان۔

Al-Maidah