ممبئی حملے کے چھ برس مکمل ہونے پر آئیے ہم ایک عہد کریں


ٹھیک چھ برس پہلے انہی دنوں پڑوسی ملک بھارت ایک اعصاب شکن مرحلے سے گزر رہا تھا۔ بھارت کا تجارتی مرکز ممبئی دہشت گردی کا نشانہ بن گیا تھا اور ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کی شام انسانی لہو میں لت پت تھی۔ کچھ روز بعد جب کیلنڈر پر ۲۹ نومبر کا ہندسہ طلوع ہوا، تو کم و بیش سو افراد جان کی بازی ہار بیٹھے تھے۔ ہر منظر افسردہ اور توڑ کر رکھ دینے والا تھا۔ پورا بھارت سوگوار تھا۔



ٹھیک چھ برس پہلے کے یہی دن میرے وطن پاکستان کے لئے بھی کم ہولناک نہ تھے۔ پورا بھارتی میڈیا اور سرکار پاکستان کی جانب تلخ لہجہ اپنائے ہوئے تھے۔ ان کے تمام تر الزامات کی انگلی میرے ملک کی جانب اٹھ رہی تھی اور حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے بتایا جا رہا تھا۔ ایک جنگی جنون کی سی کیفیت تھی اور ہر پاکستانی یہی دعا کر رہا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق ان کی سرزمین سے نہ ہو۔

اس سانحے کے فوراََ بعد جو کچھ ہوا، وہ بھی کم پریشان کن نہ تھا۔

ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی تناؤ کا شکار تھے، برطانوی وزیر اعظم کے دورہء پاکستان سےمحض چند گھنٹے قبل، بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی۔


Mumbai-after-effects


 بھارتی حکومت نے لشکر طیبہ نامی پاکستانی تنظیم پر ممبئی حملے کا الزام لگایا اور پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی کاروائی نہ کئے جانے کی صورت میں سرجیکل سٹرائیکس یعنی پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر از خود حملے کرنے کی دھمکی دی۔ ایسا کئے جانا بذات خود ایک جنگی اقدام (ایکٹ آف وار) کہلاتا اور اس کے نتیجے میں دونوں ایٹمی طاقتوں کا براہ راست تصادم ناگزیر ہوجاتا۔

آنے والے دنوں میں حکومت پاکستان نے تحقیقات کے بعد یہ تسلیم کیا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں غیر ریاستی عناصر (نان اسٹیٹ ایکٹرز) نے پاکستان کی سرزمین کو جزوی استعمال کیا ہے۔

اس کے بعد کے حالات تاریخ کا حصہ ہیں جن سے سب ہی آگاہ ہیں۔

ممبئی حملے کے دردناک سانحے، جسے بھارت اپنا نائن الیون (9/11) بھی کہتا ہے، کے چھ برس مکمل ہونے پر ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے ہم درج ذیل سبق سیکھ سکتے ہیں:

۔۱۔ انسانی زندگی سب سے قیمتی ہے۔ اسے کسی مذہب یا قوم اور ملک سے مشروط نہیں کیا جانا چاہئیے۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب یا ملک سے ہو، وہ ایک ضمنی بات تصور کی جانی چاہئیے کیونکہ آپ اپنی جائے پیدائش، والدین یامذہب منتخب کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ آپ سب سے پہلے ایک انسان ہیں۔

۔۲۔ جب تک عالمی سیاسی تنازعات کا حل تلاش نہیں کر لیا جاتا، یہ دنیا جینے کے لئے ایک پر امن جگہ تصور نہیں کی جاسکتی۔

یہ تنازعات عسکریت پسندی کو ایندھن فراہم کرتے ہیں اور غیر ریاستی عناصر کو نظریاتی پختگی حاصل ہونے لگتی ہے۔ وہ ناانصافی، عالمی جبر اور طرح طرح کے سازشی نظریات کی بیساکھی کا سہارا لیتے ہوئے اپنے پیروکاروں اور جوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے نام نہاد جہاد اور قتال میں جھونک ڈالتے ہیں۔صورتحال اس وقت مزید پریشان کن ہو جاتی ہے جب ریاستیں بھی ان عناصر کو اپنی نیابت (پراکسی) کے طور پر اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے لگیں۔

مسئلہء کشمیر ان عالمی تنازعات میں سے ایک ہے جس نے دو جوہری طاقتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا ہوا ہے۔ اسی طرح اگر پانی کی تقسیم کے معاملے کو بھی احسن طور پر حل نہ کیا گیا تو وہ آنے والے برسوں میں صورتحال کو مزید سنگین بنادے گا اور دونوں ممالک باہم دست و گریبان رہیں گے۔

اگردونوں ممالک نے ان تنازعات کے حل کے لئے دیانتدارانہ کوششیں نہ کیں اور آنے والی نسلوں کے لئے پر امن حالات کی بنیاد نہ رکھی تو یہ تناؤ کی سی کیفیت کبھی ختم نہ ہو سکے گی اور ممبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے سانحے جنم لیتے رہیں گے۔

۔۳۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتی۔ جنگ سے کبھی یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ کون درست تھا، جنگ صرف میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں اور اپنے بیٹوں کی یاد میں تڑپتی ہوئی ماؤں کے دردناک منظرکا نام ہے۔

دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں اگرکوئی جنگ چھڑی تو وہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں لڑی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں کیا کیا ممکن ہے، اس کے لئے ہیروشیما اور ناگاساکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

دانائی اسی میں ہے کہ دونوں ریاستیں اور افراد آپس میں اعتماد کی فضا بحال کریں اور تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں تاکہ امن اور ہم آہنگی کا ماحول بنے ۔

۔۴۔ ہمیں اپنی داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر ریاستی عناصر کی سر کوبی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئیے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات ریاستی اداروں اورحکومتوں کے ذریعے ہی ہونے چاہئیں، ان میں غیر ریاستی عناصر کو کئی عمل دخل نہیں ہونا چائیے چاہے وہ اپنی کاروائیاں خود مختار ہوکر کریں یا کسی کی پراکسی بن کر۔

۔۵۔بحرانی حالات میں ایک مضبوط اورصاحب بصیرت قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم کا حوصلہ بلند رکھے اور درست فیصلے کرے۔ مزید یہ کہ حکومت اور فوج کے مابین ہم آہنگی اور ربط ہونا لازمی ہے۔

۔۶۔ ایک ثمر آورجمہوریت اورموثر سفارتکاری (ڈپلومیسی) دنیا میں آگے بڑھنے کا رستہ ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کو سفارتکاری کے میدان میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’کو اگزسسٹنس اور نو اگزسسٹنس‘‘ کا فلسفہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم رکھیں۔ بصورت دیگر عالمی تنہائی ہمارے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

۔۷۔ ہم ماضی کو بدل نہیں سکتے۔ ماضی کی تلخی کو پیچھے چھوڑ آنا ہی بہتر ہے۔ امن کی شاہراہ پر چل کر ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں۔ جب سابق صدر پرویز مشرف بنگلہ دیش کے دورے پر گئے تو انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی یادگار کی گیسٹ بک پر یہ لکھا

Courage needed to reconcile and compromise is far greater than that needed to oppose and confront

پاکستان اور بھارت کو بھی ہمت دکھانا ہوگی، جنگ اور ٹکرانے کی نہیں بلکہ صلح اور امن کے لئے آگے ہاتھ بڑھانے کی ہمت۔ اسی میں دونوں کا بھلا ہے۔



 یہاں یہ لکھنا بھی اہم ہے کہ پاکستان گزشتہ تیرہ برس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہراول دستہ ہے۔ ہم نے اس جنگ میں محض زبانی کلامی حصہ نہیں لیا بلکہ ہم نے دہشت گردوں کے ہاتھوں لگ بھگ پچاس ہزار پاکستانی بھی گنوائے ہیں، جن میں ہزاروں فوجی جوان بھی شامل ہیں۔ زخمی اور معذور ہونے والے ان کے علاوہ ہیں۔عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں کا احساس ہونا چاہئیے اور یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ ایک مستحکم پاکستان اس خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

یہ وہ وقت ہے کہ ماضی کے ڈھانچے کھود نکالنے کا عمل ترک کر دیا جائے اور الزام تراشی اور بے اعتمادی کی روش سے دور رہا جائے۔ بصورت دیگر یہ ایک ایسی قبر کھودنے جیسا عمل ہوگا جس میں ہم اپنی آنے والی نسلیں اتار دیں گے اور وہ قبر گہری ہوتے ہوتے اس خطے اوربا لآخر پوری دنیا کو نگل لے گی۔

ممبئی حملے کے چھ سال مکمل ہونے پر آئیے ہم ان معصوم انسانی جانوں کی یاد میں عہد کریں کہ ہم پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے اپنے ملک اور خطے کو محفوظ اور پر امن بنائیں گے۔



(تحریر: سبز خزاں)

ڈاکٹر عبد السلام! میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں


 آج کا دن یعنی 21 نومبر، بیسویں صدی کے ایک عظیم طبیعات دان اور پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹرعبدالسلام کا یوم وفات ہے جو ہر برس کی طرح یوں خاموشی سے گزر جائے گا جیسے کہ سلام کا وجود اس معاشرے کے لئے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتا۔

پروفیسر عبدالسلام کی کامیابیوں اور ایوارڈز کی طویل فہرست دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پنجاب کے ایک نسبتاََ چھوٹے اور قدرے پسماندہ علاقے میں پیدا ہونے والے بظاہر ایک عام سے شخص میں اس قدر صلاحیتیں ہوسکتی ہیں۔ مگر ہیر اور رانجھا کے مدفن اور صوفی درویش سلطان باہو کی سرزمین جھنگ کی زرخیزی میں بھلا کیا شبہ ہوسکتا ہے، جس نے پاکستان کو پہلا نوبل انعام یافتہ سائنسدان دیا۔ یہ الگ بات کہ فرقہ وارانہ متشدد تنظیموں کی موجودگی، اس کی مٹی میں تعصب اور تنگ نظری کے سیم و تھور کی طرح ظاہر ہو رہی ہیں۔


Salam-1


چودہ برس کی عمر میں میٹرک کے امتحان میں پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر اول آنے والے اور محض اٹھارہ برس کی عمر میں اپنا پہلا تحقیقی پرچہ شائع کرنے والے عبدالسلام جانتے تھے کہ کسی بھی ملک کے آگے بڑھنے کا درست راستہ کیا ہے۔ آپ تیسری دنیا کے ممالک، بالخصوص پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ایک نظریہ رکھتے تھے اور آپ کے نزدیک ایسا سائنس کی ترویج کے ذریعے ممکن ہے۔ آپ نے اس کی تکمیل کے لئے عمر بھر جدوجہد کی۔ مثال کے طور پر آپ نے حکومت پاکستان کے مشیر برائے سائنس کی حیثیت سے کام کیا اور ملک میں سائنس کے انفرا سٹرکچر کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے ایٹمی اور خلائی پروگرام کی بنیاد کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔ آپ نے سپارکو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قیام کے لئے کوششیں کیں اور پاکستان ادارہ برائے جوہری سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے بھی اپنی خدمات سر انجام دیں۔ آپ ایٹم برائے امن کے خواہاں تھے اور آپ کی کاوشوں کے بغیر پاکستان مسلم امہ کا پہلا ایٹمی ملک نہیں بن سکتا تھا۔

یہ سب آپ کی خدمات کی طویل فہرست میں سے محض چند کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا سب سے بڑا خواب پاکستان میں عالمی ادارہ برائے تحقیق کا قیام تھا جس سے پاکستان کے طلباء کے لئے علم و تحقیق کے دروازے کھل جاتے۔ افسوس کہ پاکستان کی حکومتوں اور مقتدرہ حلقوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور بالآخر ڈاکٹر عبدالسلام کو عالمی ادارہ برائے نظری طبیعات اٹلی کے شہر ٹریسٹی میں بنانا پڑا،جس کا نام بعد میں عبدالسلام سینٹر برائے نظری طبیعات رکھ دیا گیا۔

یہ جولائی 2012ء کی بات ہے جب سائنس کی دنیا میں ہگز بوزوسن نامی ذرہ کی دریافت ہوئی۔ یہ ایک عظیم ترین پیش رفت تھی اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ذرہ کو گاڈ پارٹیکل کا نام دیا گیا۔ اس ذرے کی تحقیق اور نظریاتی فریم ورک کی تشکیل میں ڈاکٹر عبدالسلام کا کام بنیادی نوعیت کا ہے۔ لہٰذا اس ذرے کی دریافت کے بعد سائنس کی دنیا میں عبدالسلام کو شد و مد کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مگر دوسری طرف اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ انہیں ان کے اپنے وطن میں کس بے دردی سے رد کیا گیا، یہی وجہ تھی کہ دنیا کے مشہور خبر رساں ادارے سی این این نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عبدالسلام سائنس کی دنیا کا ایک وژنری تھا مگر ان کو اپنے ملک میں نظر انداز کیا گیا اور بھلا دیا گیا۔

یہ بحیثیت قوم ہمارے لئے کیسی شرمندگی کی بات ہے کہ جب پاکستان کا نام اس قدر تکریم سے آیا کہ ایک پاکستانی نے اس عظیم دریافت کے لئے بنیاد فراہم کی ہے، وہیں ہماری بے قدری کا تذکرہ بھی ناگزیر ٹھہرا۔ عبدالسلام نے عمر بھر اس وطن کے لئے اپنی خدمات سر انجام دیں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کا کام پاکستان کی عزت کا باعث بنتا رہا مگر ہمارے علم دشمن رویے نے ان کی بے توقیری کی۔


Salam-3


مہذب دنیا اپنے ہیروز کی پرستش کرتی ہے مگر ہم نے انہیں ٹھکرانا بہتر سمجھا۔ کیا اس قومی جرم کی پردہ پوشی کے لئے کوئی بھی توجیہہ کام آسکتی ہے؟ مجھے تاریخ کا وہ منظر یاد آتا ہے جب منگولوں نے بغداد پر یلغارکی تو علم کے پیش بہا خزانے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو مسمار کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ الکندی کے ذاتی کتب خانے کو ضبط کرنے کے بعد سر عام پچاس کوڑوں کی سزا دی گئی۔ الرازی کو سزا کے طور پر اس کے سر پر اس کی اپنی کتاب اس زور سے ماری گئی کہ اس کی بینائی چلی گئی۔ ابن سینا کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے۔ ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا گیا، اس کی قبر کھود کر مسمار کرنے اور اس کی کتابیں جلا دینے کی تجویز دی گئی۔ ابن رشد کو جلا وطن کیا گیا اور اس کی کتب قرطبہ چوک میں نذر آتش کی گئیں۔اسی طرح سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا، ارشمیدس کو رومن سپاہی نے قتل کر دیا۔ رومن کیتھولک کلیسا نے سائنسدانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے؛ گلیلیو کو نظر بند رکھا گیا، جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر مار ڈالا گیا۔ مگر یہ تو صدیوں پرانی باتیں ہیں، کیا آج کی دنیا میں بھی ایسی علم دشمنی کی کوئی گنجائش باقی ہے؟

کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جب سلام پاکستان واپس آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت اختیار کی تو انہیں ان کے حق سے محروم رکھتے ہوئے سرکاری رہائش گاہ نہیں دی گئی۔ سلام نے جب وزیر تعلیم عبدالحکیم دستی سے رابطہ کیا تو انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ اگر انہیں یہ ملازمت پسند نہیں تو وہ اسے ترک کر کے کہیں اور چلے جائیں۔ سلام نے حالات سے سمجھوتہ کرنے میں عافیت جانی۔ بعد میں سلام کو کالج کے پرنسپل نے ہاسٹل کے سپرانٹنڈنٹ یا کالج کی فٹ بال ٹیم کے انچارج کے طور پر کام کرنے کی دعوت دی۔ مگر یہ سب تو ابتداء تھی۔

اس سب کے باوجود سلام نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر ان کی محنت اور صبر رنگ لائے اور آپ کو طبیعات میں نوبل انعام کا اہل قرار دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے دسمبر 1979ء میں جب سویڈن کے بادشاہ سے نوبل انعام وصول کیا تو آپ سفید پگڑی، سیاہ اچکن، سفید شلوار اور کھسوں میں ملبوس تھے۔ آپ نے اپنی تقریر میں قرآن پاک کی آیات کا بھی حوالہ دیا۔ کیا پاکستان کی اس سے بہتر نمائندگی ممکن تھی؟


Salam-4


Salam-5


پاکستان کو اپنی تاریخ کا پہلا نوبل انعام دلانے والے ڈاکٹر عبدالسلام جب اپنے وطن واپس آئے تو ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے کے لئے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ اگر ان کی جگہ کوئی شو بز کا فنکار، کوئی کھلاڑی یا کوئی سیاستدان ہوتا تو شائد وہاں لاکھوں کا مجمع لگ گیا ہوتا جو آنے والے کا گل پاشی سے استقبال کر رہا ہوتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام افسردہ قدموں سے تنہا ہی وہاں سے چل دئیے۔

اسلامی جمیعت طلبہ کی جانب سے تشدد کی دھمکیوں کے سبب ڈاکٹر عبدالسلام قائد اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد میں اپنا لیکچر دینے بھی نہ جا سکے۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ پاکستان کی دیگر یونی ورسٹیاں بھی ایسے ہی ہنگاموں کے خوف سے انہیں مدعو کرنے سے کتراتی رہیں۔ ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لئے کچھ صحافیوں نے طرح طرح کے افسانے تراش کر انہیں غدار، ملک دشمن ایجنٹ اور وطن فروش سائنسدان قرار دینے کی مہم چلائی اور یہ تشہیر کی کہ آپ نے پاکستان کے جوہری راز بھارت کو فروخت کئے ہیں۔


Salam-7


 ڈاکٹر عبدالسلام کے ذاتی صدمے اسی پر ختم نہیں ہوئے بلکہ انہیں سرکاری سطح پر بھی پریشان کیا گیا۔

یہ 1988ء کی بات ہے جب ڈاکٹر عبدالسلام کو اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملاقات کے لئے بلایا۔ آپ دو دن تک اپنے ہوٹل کے کمرے میں انتظار کرتے رہے مگر آخر میں انہیں فون کر کے اطلاع دی گئی کہ وزیر اعظم کے پاس ملاقات کے لئے فرصت نہیں۔

۔۔90 کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور کی ایک تقریب میں سابقہ قابل فخر طلباء کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت آسانی سے عبدالسلام کو نظر انداز کر دیا۔

افسوس کہ انہیں ان کی وفات کے بعد بھی نہیں بخشا گیا۔

ایک مقامی مجسٹریٹ کے حکم پر ان کی قبر کے کتبے سے ’مسلم‘ کا لفظ کھرچ ڈالا گیا۔ یہ عمل ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ان کی زندگی میں روا رکھے جانے والے سلوک کی تشریح کر دیتا ہے۔ انہیں ان کے عقیدے کی سزا دی گئی۔ ہر شخص کو اپنا عقیدہ رکھنے کا بنیادی حق ہے مگر ہم نے منفی رد عمل کی نفسیات پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے ہیرو کی عمر بھر تذلیل کی بلکہ اس عمل میں اپنے پاؤں پر بھی کلہاڑی ماری۔ اگر ہم آئن اسٹائن یا اسٹیفن ہاکنگ کوعزت دے سکتے ہیں تو سلام کو کیوں نہیں؟ مگر شاید ہم حسد کی ماری ہوئی قوم ہیں جسے اپنے کسی ہیرو کی قدر کرنا نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری نوبل انعام یافتہ ملالہ کو بھی اس کے ہم وطنوں نے طنز اور تضحیک کا نشانہ بنایا۔

اگرچہ ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کے اپنے ملک نے دھتکارا مگر دنیا بھر میں ان کا احترام کیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب انہیں بھارت آنے کی دعوت دی تو نہ صرف انہیں اپنے ہاتھوں سے چائے پیش کی بلکہ ان کے قدموں میں بھی بیٹھیں۔

جینیوا، سوئٹزر لینڈ میں ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے ایک سڑک منسوب کی گئی۔


Salam-8


بیجنگ میں چائنا کے صدر اور وزیر اعظم نے آپ کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور جنوبی کوریا کے صدر نے ڈاکٹر عبدالسلام سے درخواست کی کہ وہ کورین سائنسدانوں سے ملاقات کے لئے وقت نکالیں اور انہیں بھی نوبل انعام جیتنے کی تحریک دیں۔

اس کے علاوہ دنیا بھر میں ڈاکٹر عبدالسلام کو درجنوں اعزازی ڈگریوں اور ڈاکٹریٹ سے نوازاگیا۔

میں سوچتا ہوں اگر ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو قبول کر لیا ہوتا تو شاید ہم آج علم کے میدان میں کافی آگے ہوتے اور سائنسی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتے۔

افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ہم نے انہیں صدموں پر صدمے دئیے اور بالآخر فولادی اعصاب کا مالک سلام ہمت ہار گیا۔ وہ بولنے، چلنے سے محروم ہو کر وہیل چیئر کا محتاج ہو گیا اور ایک روز جلا وطنی کی زندگی میں چل بسا۔

شاید یہ بھی ’ہمت‘ کی بات تھی کہ ان کا تابوت وطن واپس لانے کی حکومتی ’اجازت‘ مل سکی، یہ اور بات کہ ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے بغیر ہوئی۔ یہ بھی ’غنیمت‘ ہے کہ 1988ء میں پاکستانی سائنسدانوں کی سیریز میں عبدالسلام کے نام کا ایک ڈاک ٹکٹ جاری ہوا۔ ہمیں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت اذان اور کلمہ پڑھنے پر قید کی سزا دینے والے آمر ضیاء الحق کا بھی شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے انہیں نشان امتیاز دینے کی زحمت کی۔

یہ سلام کی زندگی کے آخری ایام کی بات ہے۔ ٹریسٹی میں ہونے والی ایک تقریب میں انہیں یونی ورسٹی آف پیٹرزبرگ کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ کانفرنس ہال کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ درجنوں افراد قطار بنائے سلام کو مبارک دینے کا انتظار کر رہے تھے۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگتا رہا۔ پھر ایک پاکستانی طالب علم کی باری آئی۔ اس نے احتراماََ جھکتے ہوئے کہا، ’’سر، میں پاکستانی سٹوڈنٹ ہوں۔ ہمیں آپ پر فخر ہے۔۔‘‘۔


EACPE - Salam


سلام اپنے اعصابی عارضے کے سبب ایک بے جان وجود کی طرح اپنی وھیل چئیر پر بے حس و حرکت اور خاموش بیٹھے تھے۔ اپنے وطن پاکستان کا نام سنتے ہی ان کے کندھوں میں کچھ حرکت کے آثار دکھائی دئیے اور ان کے رخسار پر آنسوؤں کی ایک لکیر سے جھل مل ہونے لگی۔

سلام مزید جی سکتے تھے مگر افسوس کہ توڑ کر رکھ دینے والے ذاتی صدمات نے انہیں مار ڈالا۔ سلام اب کبھی واپس نہیں آئے گا مگر کیا ہم وقت کھو چکے ہیں؟ شاید ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ اگر پوپ جان پال دوئم کیتھولک چرچ کی جانب سے سترہویں صدی عیسوی میں گلیلیو کے ساتھ علم دشمن سلوک کرنے پر معافی کے خواستگار ہو سکتے ہیں تو کیا ہم بھی ایسا نہیں کر سکتے۔

یاد رہے کہ جب تک اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرلیا جائے، اصلاح کی گنجائش ممکن نہیں۔ ہم نے ریاستی امور میں مذہب کی ملاوٹ تو کی ہی، ہم نے سائنس اور علم کی دنیا کو بھی تعصب کے عدسے سے دیکھا۔

سلام! ہم نے آپ کی قدر نہ کی۔ ہم نے آپ کے ساتھ برا سلوک روا رکھا اور نفرت کی آگ میں جلتے رہے۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے مگر میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے آپ سے اس روئیے کی معافی چاہتا ہوں۔


 اسی تحریر کا انگریزی ورژن پڑھنے کے لئے یہاں اور یہاں کلک کیجئے۔ شکریہ۔

(تحریر: سبز خزاں)

نام نہاد پاکستان سکول فیڈریشن کی ملالہ مخالف مہم کا جواب

یہ دس نومبر کی بات ہے جب حسب معمول انٹر نیٹ پر خبریں پڑھتے ہوئے دو سرخیوں نے میری خاص توجہ حاصل کی۔ پہلی سرخی نائجیریا کے ایک اسکول میں ہونے والے خود کش حملے کی تھی جس میں کم و بیش پچاس معصوم طلباء لقمہء اجل بن گئے، جس میں ایک مذہبی شدت پسند تنظیم بوکوحرام کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ دوسری خبر پاکستان اسکول فیڈریشن کی جانب سے منائے گئے ’’اینٹی ملالہ ڈے‘‘ یعنی ردِ ملالہ کے دن سے متعلق تھی جس کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ ملالہ نے ایک نہایت متنازعہ مصنف کی حمایت کرنے کا جرم کیا ہے۔

دوسری خبر مجھے ایک برس پیچھے لے گئی جب پاکستان کے نجی سکولوں کی کسی تنظیم نے ملالہ کی کتاب پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی تھی کہ اس میں اسلام مخالف اور پاکستان مخالف مواد شامل ہے۔

تاریخ سے شغف رکھنے والے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کیا تو عباسی سلطنت کے دور میں قائم ہونے والے ایک عظیم ادارے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو تباہ کر دیا جس میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی لائبریری اور علم و تحقیق کا بیش بہا خزانہ جمع تھا۔ کتاب پر پابندی اور رد ملالہ ڈے کا جان کر مجھے ذاتی صدمہ پہنچا اور میرے دماغ میں بغداد کا منظر گھومنے لگا۔ لائبریریاں اور سکول مسمار کرنا اور کتابیں جلانا یا ان پر پابندیاں لگانا ایک ایسا قومی جرم ہے، جس کی سزا نسلوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ملالہ پر طالبان کے قاتلانہ حملے کے فوراََ بعد سے شروع ہونے والا جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی پروپیگینڈا اب اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ تعلیم سے وابستہ ادارے بھی اس کی تشہیر اور تائید میں آگے آگئے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ایک ہونہار کم سن لڑکی، جس نے اپنی جان کی بازی لگا کر تعلیم کے لئے جدو جہد کی اور پاکستان جیسے معاشرے کو امن کا عظیم الشان نوبل انعام کا تحفہ دیا جسے بصورت دیگر دنیا ایک متشدد اور دہشت گرد معاشرے کے طور پر جانتی تھی، نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو اس کے خلاف اس قدر جھوٹ اور بہتان پر مبنی پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے؟

یوں لگتا ہے جیسے وہ ابھی تک اپنی جانب بڑھنے والی گولیوں سے اپنا آپ بچانے کی کوشش میں ہے، یہ اور بات کہ یہ گولیاں اب طالبان نہیں بلکہ اس کے اپنے ہم وطن چلا رہے ہیں، وہی ہم وطن جن کے لئے وہ دنیا بھر میں جدوجہد کر رہی ہے۔

چونکہ ملالہ کی کتاب پر لگنے والے الزامات کی نوعیت نہایت سنجیدہ ہے، یہ بہت مناسب ہو گا اگر اس کی کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کئے جائیں اور یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ کیا ان سے اسلام اور وطن کی محبت جھلک رہی ہے یا اس میں کوئی منفی لہجہ دکھائی دے رہا ہے۔

ملالہ اپنے قد میں اضافے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے۔

M-1جب ملالہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھی، اس کی والدہ کا قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

M-2

ملالہ کا آیت الکرسی پڑھنا اور بنی نوع آدم کی فلاح کی دعا کرنا۔

M-3

ملالہ کا اپنے ختم القرآن کا خوشی سے ذکر کرنا۔

M-4

ملالہ کا خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنا اور اشکبار ہو جانا۔

M-5

ملالہ کا ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس کے خلاف رائے دینا۔

M-6

ملالہ کا صدر اوبامہ اور پاکستان میں امریکہ کے امیج کے بارے میں اظہار خیال۔

M-7

ملالہ کا سابقہ آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو خراج تحسین۔

M-8

ملالہ پاکستان کا دنیا کی پہلی مسلم ریاست کے حیثیت سے فخر سے ذکر کرتے ہوئے۔

M-9

ملالہ کی مدینہ منورہ میں دعا کرتے ہوئے تصویر۔

 M-10

ملالہ کی بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کے لئے ڈرائنگ۔

M-11

عام تاثر کے برعکس کتاب کے اختتام پر دی جانے والی فرھنگ (گلاسری) کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں رسول اللہ کے ساتھ درود کے اظہار کے لئے ’پیس بی اپان ہم‘ بھی لکھا ہوا ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے دیگر مقامات میں ایسا نہیں ہے۔ پبلشنگ سے وابستہ افراد اس کی وجہ باآسانی جان سکتے ہیں۔ چونکہ یہ کتاب انگریزی میں ہے، لہٰذا اس کی ٹارگٹ آڈینس انگریزی بولنے، پڑھنے والے طبقے یا مغربی دنیا اور یورپ ہے،جو بنیادی طور پر غیر مسلموں پر مشتمل ہے، لہٰذا ایڈیٹر نے وہاں کے پبلشنگ اور ریڈنگ کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے اس صیغے کو صرف گلاسری میں لکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ ملالہ نے اس پر پہلے ہی معذرت کرتے ہوئے یقین دلایا ہوا ہے کہ اگلے ایڈیشنز میں یہ کمی دور کردی جائے گی۔ لہٰذا یہ ایسا کوئی اہم مسئلہ نہیں، جس کو جواز بنا کر اس کے خلاف طوفان مچایا جائے۔

M-12

اب باری آتی ہے پاکستان اسکول فیڈریشن کی جانب سے لگائے گئے سب سے سنگین ترین الزام کی، یعنی سلمان رشدی کی حمایت۔ اس پر مختصراََ یہ کہا سکتا ہے کہ ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘۔

مجھے اس موقع پر 28 فروری 2008ء کی وہ دوپہر یاد آرہی ہے، جب مجھے عالمگیر شہرت کی حامل مفکر اور مصنف کیرن آرمسٹرانگ کا براہ راست لیکچر سننے کا موقع ملا۔ سن اسی کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے کیرن آرمسٹرانگ نے سلمان رشدی کے متنازعہ ناول کے حوالے سے ایک اہم بات کی، جو کچھ یوں تھی

اس ناول کی اشاعت کے فوراََ بعد مسلم دنیا میں پر تشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اس کا تجزیہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اگرچہ اس عمل سے مسلم دنیا کا غم وغصہ تو دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے مگر اس سے مسلمانوں کے حق میں دور رس بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ناول کی اشاعت اور اس پر احتجاج کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کے لوگوں کا اسلام کے بارے میں تجسس بڑھا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے کتب خانوں کا رخ کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دانائی کا تقاضہ یہ تھا کہ اس شر انگیز ناول کے مقابلے میں مسلمان علماء اس موقع پر رسول اللہ کی سیرت اور اسلام کی تعلیمات پر کتب لکھ کر مغربی دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ جب (ناول کے رد میں) سیرت نبوی پر کوئی (نئی) کتاب سامنے نہیں آئی تو میں نے از خود اسے ایک چیلنج سمجھا اور اسے قبول کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کی سیرت پر اپنی کتاب لکھنا شروع کی۔

ایک غیر مسلم مفکر کے پر خلوص اور فکر انگیز الفاظ سن کر لیکچر ہال کی دیواریں تالیوں سے گونج اٹھیں۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ کسی بھی مسئلے یا سانحے کے جواب میں انسان دو طرح کا رد عمل دکھا سکتا ہے۔ پہلا رد عمل جذباتی جب کہ دوسرا رد عمل تعقل یعنی فکر پر مبنی ہوسکتا ہے ۔ کیرن آرمسٹرانگ نے دوسرے رد عمل کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی بات میں وزن تھا۔

جب میں ملالہ کی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ملالہ کے والد اگرچہ آزادی اظہار جیسے بنیادی انسانی حقوق کے حامی تھے مگر انہوں نے بھی رشدی کے متنازعہ ناول کو ناپسندیدہ پایا۔ تاہم ان کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ کسی کے شر انگیزی پر مبنی ناول سے اسلام جیسے کامل اور مضبوط دین کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ کیوں نہ ہم قلم کا مقابلہ قلم سے کریں اور اس ناول کے جواب میں اپنی کتابیں لکھیں۔

میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ رشدی کا پوسٹ مارڈرن فکشن پر مبنی یہ ناول انتہائی لغو اور سراسر شر انگیز تھا۔ اس کے نتیجے میں لازماََ مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہونا تھے اور ان میں غم وغصے کی لہر دوڑنا تھی۔ واضح رہے کہ رشدی کا ناول پاکستان میں بین کردئیے جانے کی بنا پر فروخت کے لئے میسر نہیں تھا، لہٰذا ایک عام پاکستانی کی اس کے مندرجات کے بارے میں معلومات محض اخباری کالمز یا سنی سنائی باتوں تک ہی محدود تھی۔ ملالہ کے والد کی ناول کا قلم سے مقابلہ کرنے کی تجویز ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جیسی کیرن آرمسٹرانگ کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ رشدی کی حمایت ہرگز ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ضیاء الدین یوسف زئی اس کے مقابلے میں کتاب تحریر کرنے کا مشورہ دیتے؟

M-13

مجھے یہ دیکھ کر کے نہایت دکھ ہوتا ہے کہ پاکستان کے کچھ نام نہاد تجزیہ کار اور صحافی، کتاب کا مطالعہ کئے بغیر، محض سی سنائی باتوں پر یا عین ممکن ہے کہ جان بوجھ کر بدنیتی پر مبنی کسی منصوبے کے تحت ملالہ کی کتاب کے بارے میں جھوٹے اور خود تراشیدہ اقتباسات پیش کر تے پھرتے ہیں۔ اس کے ایک مثال پچھلے برس اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کی ایک ٹی وی پروگرام میں ہونے والی وہ جھڑپ تھی، جس میں ڈاکٹر پرویز ھود بھائی یہ کہتے ہی رہ گئے کہ ملالہ کی کتاب میں ایسا کچھ درج نہیں ہے جو اول الذکر صحافی کہہ رہے ہیں۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی مسلسل اس قبیح کوشش میں مشغول رہے کہ وہ ملالہ اور ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کو توھین کے کیس میں الجھا سکیں۔ اوریا اور عباسی کے جھوٹ پر تفصیلی اور مدلل تجزیہ ایکسپریس ٹرائی بیون کے لئے لکھے گئے اس بلاگ اور سبز خزاں ہی پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں مل سکتا ہے۔ (کلک کیجئے اور سچ جانئے)۔

 M-16

اس پروپگینڈے میں سب سے مکروہ کردار اوریا مقبول جان اور انصار عباسی نے ہی ادا کیا۔ واضح رہے یہ وہ دو شخصیات ہیں جو القاعدہ اور طالبان کی حمایت میں کسی بھی حد تک جا تے رہتے ہیں۔ سوات میں ایک مظلوم عورت کو سر عام کوڑے مارے جانے کی ویڈیو کلپ ریلیز ہونے پر جب پورا پاکستان سراپا احتجاج بنا ہوا تھا، یہ انصار عباسی ہی تھے جنہوں نے طالبان کی حمایت میں ٹی وی پر لیکچر دئیے اور کالم لکھتے ہوئے سب کو بتایا کہ طالبان نے یوں کوڑے مار کر شریعت کا فرض ادا کیا ہے اور اس فعل پر انہیں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔

اسی طرح اوریا مقبول جان وہ شخصیت ہیں جو شام میں القاعدہ اور داعش کے ہاتھوں عام شہریوں کے سفاکانہ قتل عام کی حمایت میں لکھ لکھ کر عام مسلمانوں کو باور کرا رہے تھے کہ یہ سب کچھ امام مہدی کے نزول کے اسباب ہیں اور یہ کہ یہ دہشت گرد نہیں بلکہ امام مہدی کے سپاہی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے ان میڈیا نمائندگان سے یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ ایک سولہ سالہ لڑکی کے خلاف کردار کشی کی مہم میں گھٹیا پن پر اتر آئیں اور ایسا ہی ہوا۔ ظاہر یہ کہ یہ لوگ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف کوئی آواز بلند کرے۔

Orya column - VIII

Orya-bigotry-against-Malala

ہم لوگ نفرت، جھوٹ، ڈھٹائی اور بے قدری میں کس قدر گھٹیا درجے پر ہیں، اس کا مظاہرہ نیچے دی گئی تصویر کے کیپشن سے بخوبی ہوجائے گا۔ یہ جھوٹی پوسٹ اس پروپیگینڈے کا حصہ ہے جو ملالہ کے خلاف ایک عرصے سے جاری ہے۔ چونکہ فساد پھیلانا مقصود نہیں، اس لئے اس پر کراس کا نشان لگا دیا گیا ہے۔

M-14

اس میں کئے گئے جھوٹے دعویٰ کے بر عکس ملالہ کے سات کھڑا ہوا شخص ہرگز ہرگز رشدی نہیں ہے بلکہ یہ صاحب مارٹن شلز ہیں جو جرمنی کے ایک سیاست دان اور یورپی یونین کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اس تقریب سے لی گئی ہے جب ملالہ کو یورپی یونین کے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تسلیمہ نسرین کی وہاں موجودگی پر اعتراض کرنا ایک بچگانہ سی بات ہے۔ کسی بھی تقریب میں اگر سینکڑوں مہمان ہوں تو یہ کیا ضروری ہے کہ سب کے سب آپ کی پسند کے ہی ہوں۔

M-15

لگے ہاتھوں ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ تسلیمہ نسرین خود ملالہ کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے۔ امید ہے کہ اس سے ہماری جذبات پرستی کی حس کو کچھ قرار آجائے گا۔

M-17

کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے اصل حقائق کو توڑ مروڑ کر آگے پہنچانا آج کی انفارمیشن وار میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پروپگینڈا ایک مہلک ہتھیار سے کم نہیں، جسے بڑی بے دردی سے کسی کی ساکھ بحال کرنے یا برباد کرنے کئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ میں سے جس نے بھی ملالہ کے اوپر طالبان کے قاتلانہ حملے کے فوری بعد شروع ہونے والے ملالہ مخالف منفی پروپگینڈے کا مشاھدہ کیا ہو گا، اسے یاد ہوگا کہ کیسے سوشل میڈیا پر اس سے برقعے اور داڑھی سے متعلق ایک متنازعہ جملہ منسوب کردیا گیا، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

M-21

یونی سیف کی ایک پبلک تقریب کے دوران رچرڈ ہالبروک کے ساتھ لی گئی تصویر کو یوں پیش کیا گیا جیسے ملالہ کسی سازش میں شریک ہو۔ وہ جھوٹ بھی جلد ہی پکڑا گیا۔

M-18

پھر کچھ عقلمندوں نے یہ تسلیم کرنے تک سے انکار کردیا کہ ملالہ کو گولی لگی بھی ہے۔ بعد میں جب تحریک طالبان پاکستان نے خود اس کی ذمہ داری قبول کرلی تو یہ نظریہ بھی اپنی موت آپ مارا گیا۔M-19

M-22

ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا میں ذیل میں دی گئی پروپگینڈا تصویر گردش میں نظر آئی جس میں کسی شر پسند نے از خود ہی کچھ متنازعہ جملے لکھ کراس کے ساتھ ملالہ کی تصویر لگا کر اس کی کردار کشی کی گھناؤنی کوشش کی۔

Anti-Malala- Propaganda

طالبان پرستوں کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک نہایت ہی مضحکہ خیز پروپگینڈا شروع کیا گیا کہ ملالہ پر حملہ امریکہ کی سازش ہے کیونکہ اس کی آڑ میں پاکستان کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن لانچ کرے۔ یعنی اسامہ بن لادن جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد کی پاکستان میں موجودگی یہ کافی بہانہ نہیں تھا کہ آپریشن شروع کردیا جائے، جو ایک پندرہ سالہ لڑکی کو شہید کرائے جانے کا منصوبہ بنایا جاتا؟ ایسی صورت میں جب کہ تحریک طالبان از خود ملالہ پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری لے چکے ہوں، اس طرح کے پروپگینڈے سے متاثر ہونے والے شاید اپنی عقل سلیپنگ موڈ میں رکھنے کے عادی ہیں۔

Anti-Malala-poster

مگر چلئے سوشل میڈیا پر ایسے جھوٹ پھیلانے والے لوگ تو کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی وابستگی کی بنا پر ایسا کر رہے ہوں گے، ممکن ہے وہ طالبان کے خیر خواہ ہوں یا لڑکیوں کی تعلیم انہیں گراں گزرتی ہو۔ دکھ تو یہ ہے کہ آخر کس بنا پر پاکستان کے سکولوں کی تنظیم اس جھوٹ میں شریک ہوگئی ہے؟ وہ ملالہ کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے نوجوان طلباء کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ سب طالبان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک نئی اور منظم کوشش تو نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ملالہ مخالف تمام پروپگینڈے کے توڑ کے لئے ریاست کی جانب سے سرے سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب ریاست کی رضامندی سے ہورہا ہے۔

میں نے اپنی تحریر کے آغاز میں جس پہلی خبر کا ذکر کیا تھا، وہ نائجیریا میں ایک سکول میں ہونے والا خود کش دھماکہ تھا جس میں بوکو حرام کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ میں سوچتا ہوں کہ پاکستان نے بھی بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیم، تحریک طالبان پاکستان کی کاروائیوں میں پچاس ہزار بے گناہ پاکستانی گنوائے ہیں، پاکستان میں بھی طالبان نے کوئی ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ سکول بم دھماکوں میں اڑائے ہیں۔ مجے دکھ ہے کہ اس سب کا شکار ہونے کے باوجود ہماری نظریاتی ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والی ملالہ کی کردار کشی کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو بے دردی سے ٹھکرانے کے بعد پاکستانی قوم نے جو سلوک اس مظلوم اور نہتی لڑکی کے ساتھ روا رکھا ہے، اس کے بعد مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستانی قوم اس قابل نہیں کہ اسے دنیا میں امن کے نوبل انعام جیسی تکریم سے نوازا جائے، بہتر یہی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے حوالے سے ہی یاد رکھا جائے کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ انتہا پسندی اس قوم کے ڈی این اے میں سرایت کی جا چکی ہے۔

 (تحریر: سبز خزاں)

:مزید پڑھئے

نہتی ملالہ یوسف زئی سے نام نہاد دانشوروں کی محاذ آرائی

ملالہ کے لئے

ملالہ کی ’’سازش‘‘ کیسے ناکام بنائی جائے؟

کیا ہم خود توہین کے مرتکب نہیں ہو رہے؟


یہ کہانی ایک شادی شدہ مسلمان جوڑے کی ہے، جن کے نام شہزاد اور شمع اور عمریں بمشکل تیس برس کے لگ بھگ تھیں۔ یہ دونوں بھارت کے شہر گجرات کے نواحی گاؤں رادھا کشن میں اینٹوں کے ایک بھٹے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ کا جہنم بھرتے تھے۔ غربت اور تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ انہیں ایک ایسے ماحول میں رہنا پڑ رہا تھا، جہاں وہ مذہبی اقلیت یعنی عملی طورپر تیسرے درجے کے شہری تھے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے سبب انہیں احساس تھا کہ اگر کسی بھی مرحلے پر کوئی مذہبی نوعیت کا الزام لگ گیا تو پولیس، انتظامیہ اور قانون انہیں تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہیں گے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ بھٹہ مزدوروں کی زندگیاں کس قدر دشوار ہیں۔ ان کا معاشی استحصال ہوتا رہتا ہے اور غریب مزدور اسے اپنی تقدیر کا لکھا سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان کی اولاد کسمپرسی کی وجہ سے تعلیم کی نعمت سے محروم رہتی ہے،انہیں حفظان صحت کی سہولت بھی نہیں ملتی اور حکومت کی طرف سے بھی انہیں کسی سوشل سیکورٹی کے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزدورآج کی نام نہاد مہذب دنیا میں بھی محض غلاموں کی سی زندگی گزارتے ہیں جہاں انہیں کسی قسم کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور ایک خوفزدگی کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے شہزاد اور شمع بھی بھٹہ مالک اور اس کے منشیوں کے ساتھ اپنی یومیہ اجرت کے معاملے میں محض صبر سے ہی کام لیتے چاہے ان کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہورہی ہوتی۔ جیسے تیسے زندگی کی گاڑی رواں تھی، ان کے چار پھول سے بچے تھے: سلمان آٹھ برس کا، ذیشان پانچ برس کا، سونیا چار برس اور پونم اٹھارہ ماہ کی۔ خدا نے ان پر ایک بار پھر فضل کیا اور شمع پھر امید سے ہوگئی۔ دونوں محض چار ماہ بعد اپنے آنگن میں ایک اور پھول کے کھلنے کے منتظر اور اپنے گھرانے کے بہتر مستقبل کے لئے سپنے بن رہے تھے کہ ایک روز وہی ہوا جس کا انہیں ڈر تھا۔

کسی نے کوئی افواہ اڑا دی اور ان پر یہ الزام لگا دیا گیا کہ انہوں نے ہندؤں کی مقدس کتاب ویداس کی بے حرمتی کی ہے ۔ یہ الزام لگنے کے بعد ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پولیس اور قانون ان کی مدد کرنے سے قاصر ہوں گے اور یہ بھی کہ چاہے وہ لاکھ اس الزام کی تردید کریں اور اپنی بے گناہی پر خدا کی قسمیں اٹھائیں، ہندو انتہا پسند اپنے غصے کی آگ بجھائے بغیر انہیں نہیں بخشیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ان پر توہین مذہب کا مقدمہ بن جائے اور وہ کال کوٹھری ہی میں کسی انتہا پسند گارڈ کی گولی کا نشانہ بن جائیں۔

اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی وہ مقدمے میں سزا سے نہیں بچ سکیں گے کیونکہ اول تو وہ وکیل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکیں گے، دوم ڈر کے مارے کوئی وکیل ان کے مقدمے کی پیروی ہی نہیں کرے گا، سوئم اگر کوئی وکیل راضی بھی ہوجائے تو اس کی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے گی، چہارم یہ کہ انتہا پسندوں کی دھمکیوں کی بنا پر جج بھی ان کے خلاف فیصلہ سنا دے گا۔

شہزاد اور شمع کے یہ خدشات تو غلط نکلے مگرجو ہوا، وہ ان سب سے زیادہ سفاک اور دردناک تھا۔ ایک روز سینکڑوں مشتعل ہندؤں نے ان کے بھٹے پر حملہ کردیا ۔ وہ فریاد کرتے رہ گئے کہ یہ سب الزامات غلط ہیں اور وہ بے قصور ہیں مگر جب ایسا ہجوم آتا ہے تو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے، چاہے وہ انصاف ہو، رحم ہو یا انسانیت۔ ان پر بے رحمی سے تشدد کیا گیا اور اس کے بعد انہیں اینٹوں کے جلتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا کر سفاکی سے قتل کردیاگیا۔ شہزاد اور شمع انصاف اور رحم کی بھیک مانگتے مانگتے اس معصوم بچے سمیت تڑپ تڑپ کر مر گئے جس نے ابھی اس دنیا میں ایک سانس بھی نہیں لیا تھا۔


World-Watch-Monitor


Remains


میں اپنے قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ بھارت کی جگہ پاکستان، گجرات کی جگہ لاہور، انتہا پسند ہندؤں کی جگہ انتہا پسند مسلمان، ویداس کی جگہ قرآن پاک اور شہزاد اور شمع کو مسلمان کی بجائے مسیحی جوڑا تصور کرتے ہوئے اس کہانی کو ایک بار پھر سے پڑھیں اور سوچیں کہ اگر ایسی درندگی کسی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ہوتی تو وہ کیسا محسوس کرتے؟ جی ہاں، یہ دردناک اور انسانیت سوز واقعہ بھارت میں نہیں بلکہ پاکستان کے شہر لاہور کے نواحی گاؤں رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کے ساتھ پیش آیا۔ ان پرقرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا اور پھر خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بنتے ہوئے سینکڑوں مشتعل افرادنے انہیں زندہ جلا کر مار ڈالا۔


BBC-report


الزام لگانا تو دنیا کا سہل ترین کام ہے۔ کیا ویسا ہی الزام رمشا مسیح نامی کم سن لڑکی پر نہیں لگایا گیا تھا جو اپنے ذہنی عارضے کے سبب اس الزام کی حیثیت سمجھنے سے بھی قاصر تھی اور بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ ایک جھوٹا الزام تھا اور اس بچی کو یوں رسوا کرنے میں ایک مولوی صاحب براہ راست ملوث تھے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش بھی اسی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ایک مقامی مسجد کے پیش امام نے لوگوں کو مشتعل کر کے مسیحی جوڑے کے بے رحمانہ قتل پر اکسایا۔ ایسا پہلی بار ہوا اور نہ ہی آخری بار۔


Fitna

 Broken-roof


wooden-shoes


میرے کانوں میں درویش منش شاعر مولانا الطاف حسین حالی کی شہرہ آفاق مسدس کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماوا
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولا
خطاکار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا

آہ۔۔۔ مگر ہم اسی رسول کا نام لے کر کیا کیا نہیں کر رہے۔ آپ غیروں کو اپنا بنانے آئے تھے اور ہم اپنوں کو بھی غیر بنا رہے ہیں۔ آپ درگزر فرماتے، رحم اور شفقت کے بہانے ڈھونڈتے مگر یہاں ہم وحشتیں بانٹتے پھر رہے ہیں۔ آپ مصیبت میں غریبوں کے کام آتے مگر ہم تو اوروں کے لئے دکھوں کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم کہاں اپنے پرائے کا غم کھاتے ہیں، ہم تو غم دیتے ہیں۔ ہم نے گلی گلی تکفیر کے کارخانے کھول رکھے ہیں جہاں ہم تھوک کے حساب سے کلمہ گو کافر تیار کر رہے ہیں۔ عدل، رحم اور درگزر کا لفظ ہماری لغت میں شامل نہیں۔ انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں، اللہ اکبر کے نعرے بلند کر کے نہتے اور بے بس لوگوں کو زبح کردیا جاتا ہے، کسی خود کش حملے میں سینکڑوں لوگوں کو قتل اور اپاہج بنا کر، غریب گھرانوں کے چراغ گل کر کے سمجھا جاتا ہے کہ دین کا بول بالا کیا جا رہا ہے۔ الحذر، الاماں کہ یہ سب کچھ دین مبیں کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ان کی مذمت کرنے، ان کے خلاف ایک لفظ بولنے، لکھنے سے پہلے ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ دوسری طرف آسیہ بی بی اور شمع اور شہزاد جیسے غیر مسلموں پر ظلم کرتے ہوئے ہم ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ ہم اپنے لئے کیا جہنم کما رہے ہیں۔

آہ، شہزاد اور شمع تو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کے کم سن یتیم بچے اب عمر بھر اپنے باپ کی جھلک اور ماں کے پیار کو یاد کرتے رہ جائیں گے۔ ان کی اٹھارہ ماہ کی بچی ماں کے دودھ کو ترستی رہ جائے گی۔ ان کے سر پر اب کون دست شفقت رکھے گا؟ انہیں کیا بتایا جائے گا کہ ان کے والدین کہاں گئے، کس نے انہیں قتل کیا، کیوں قتل کیا، کس جرم کی پاداش میں ایسا ہوا؟ ان یتیم بچوں کی سسکیاں کون سنے گا؟ ہائے افسوس کہ شہزاد اورشمع کے قتل کا روح فرسا جرم اسی پاک رسول کے نام پر کیا گیا جو خود ’’یتیموں کا والی‘‘ ہے۔


Kids-II


آخری خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے ان کے گھرانے کے لئے مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ کیا اس مالی امداد سے شہزاد اور شمع واپس آجائیں گے؟ کیا اس مالی امداد سے، بشرطیکہ چیک حسب روایت باؤنس نہ ہو جائے، مستقبل میں ایسے دردناک سانحے ہونا رک جائیں گے؟

کاش کہ حکومت، نفرت کی تجارت کرنے والوں کے خلاف کوئی واضح، دوٹوک اور عملی موقف اختیار کرے۔ کاش، ہمارے مذہبی طبقے معاشرے میں درگزر اور انسانیت کے پیغام کی ترویج بھی کریں۔ کاش کہ توہین کے متنازعہ قوانین پر ازسر نو نظر ثانی کر کے اس میں موجود ثقم دور کئے جائیں تاکہ کل کو کوئی بے گناہ کسی جھوٹے الزام کی پاداش میں جان سے نہ جائے اور کسی پیش امام کو اشتعال انگیز تقاریر کر کے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی جرات نہ ہو۔ واضح رہے کہ قرآن الحکیم میں فتنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔

کاش کہ دوسروں پر توہین کے جھوٹے الزام لگانے والے، نقص امن کرنے والے، فتنہ و فساد پھیلانے والے، شر انگیزی کرنے والے، مذہبی اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات کے خلاف مذہب کا نام استعمال کر کے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے توہین کے قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہو۔ کون نہیں جانتا کہ ایسا کس دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔ کسی کی جائیداد ہتھیانی ہو، کسی سے کاروباری رقابت ہو، کسی سے بدلہ لینا ہو، کوئی رشتہ دینے سے انکار کردے یا ایسی کوئی بھی دوسری وجہ ہو، نہایت آسانی سے توہین کا جھوٹا الزام لگا دیا جاتا ہے اور اس کے بعد متاثرہ فریق کی زندگی برباد کر کے رکھ دی جاتی ہے۔ کچھ جاہل، نفس پرست اور جذباتی افراد پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں، مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے اشتعال انگیز بیانات جاری ہونا شروع ہو جاتے ہیں، یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے، بغیر کسی تحقیق کے لوگ اس پر اندھا دھند یقین کر کے خون خرابا کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ لاٹھیوں، ڈنڈوں اور پٹرول کی بوتلوں سے لیس سینکڑوں، ہزاروں افراد پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم کے سامنے پولیس یا ریاستی مشینری بھلا کر ہی کیا سکتی ہے؟ اس کے بعد یا تو وہی ہوتا ہے جو شہزاد اور شمع کے ساتھ ہوا یا پھر پولیس مجبوراََ توہین کا پرچہ کاٹ کر ملزمین کو گرفتار کر کے حوالات لے جاتی ہے کہ کسی بہانے تو مجمع کو قابو میں لایا جائے اور متاثرہ فریق کی وقتی طور پر جان بچائی جا سکے۔

اس کے بعد ان کو کوئی وکیل ملتا ہے اور نہ ہی انصاف۔ یاد رہے کہ توہین کے معاملے میں ملزم کو مجرم کے طور پر ہی لیا جاتا ہے چاہے وہ لاکھ بے گناہ اور مظلوم ہوں۔ جس کال کوٹھری میں ایسے ملزموں کو رکھا جائے، وہاں کا گارڈ بھی انہیں مشتعل ہو کر قتل کر سکتا ہے۔ اس صورت حال میں جج بھی ان کا کیس سننے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں ملزم کے حق میں جائز فیصلہ دینے کی صورت میں ان کی اپنی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اس کی ان گنت مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جیسا کہ حال ہی میں گجرات میں توہین کے ایک ملزم کو ایک پولیس مین نے کلہاڑی کے وار کر کے قتل کر دیا۔


 police-man-killed-accused


 اسی طرح جنید حفیظ نامی ایک نوجوان لیکچرر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اطلاعات کے مطابق یونی ورسٹی میں ان کے مخالین اساتذہ نے ان پر جھوٹا الزام لگا دیا اورانہیں گرفتار کر لیا گیا۔ دباؤ کی وجہ سے کوئی وکیل جنید حفیظ کے مقدمے کی پیروی کو تیار نہیں تھا۔بالآخر پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے کو آرڈی نیٹر اور ایک ماہر قانون راشد رحمان نے ان کی وکالت شروع کی مگر پاکستان جیسے معاشرے میں یہ موت کے جبڑوں میں سر دینے کے مترادف تھا، لہٰذا انہیں بھی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے، وطن کی خدمت کا جذبہ لے کر پاکستان لوٹنے والا جنید حفیظ اب نا امیدی کی کیفیت میں، اپنے مستقبل اور زندگی سے مایوس، حوالات میں گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے۔


 Rashid-Rehman


 اسی طرح ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا مقدمہ بھی ہمارے سامنے ہے جو پچھلے کئی برسوں سے حوالات میں ہے اور اس کی کم سن بیٹیاں اپنی ماں کو ایک نظر دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ کھیت میں کام کرتے ہوئے مسلمان ساتھی عورتوں نے آسیہ کو اس بنا پر پانی پینے سے روک کردیا کہ وہ غیر مسلم ہے اور اس بنا پر ان کا پانی ناپاک ہو جائے گا۔اپنی عزت نفس کی پامالی پر اس نے احتجاجاََ یا رد عمل میں اپنے عقیدے کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اس معمولی نوعیت کے غیر ضروری جھگڑے کی اطلاع جب مقامی مسجد کے امام کو ہوئی، تو اس نے اس سارے وقوعے کو آسیہ بی بی کے گھرانے سے کسی پرانے تنازعے کا بدلہ لینے کا سنہری موقع جانتے ہوئے ، توہین کا الزام لگا کر لوگوں کو مشتعل کردیا۔ اس کے نتیجے میں پولیس کو آسیہ کو گرفتار کرنا پڑا۔ وہ برسوں سے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی نفی کرتے ہوئے اپنی بے گناہی کی دہائی دیتی پھر رہی ہے، مگر ہم پتھر دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جب اس بے بس، مظلوم عورت کے لئے صدر پاکستان کے نام رحم کی اپیل کی کوشش کی تو وہ اپنے ہی گارڈ کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہو گئے۔ جب وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کو انصاف دلانے کی بات کی تو انہیں بھی بے دردی سے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یہ تحریر لکھنے پر خود میری اپنی زندگی بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ ان حالات میں جج سزائے موت کے پروانے پر دستخط نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ مگر کیا یہ انصاف ہوگا؟ کیا اس طرح ہم رسول اللہ کی رضامندی حاصل کرسکیں گے، جن کی حرمت کے نام پر ہمارا معاشرہ یہ جہالت اور ظلم روا رکھے ہوئے ہے؟


Asia-daughters


 ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بے حس اور انصاف سے عاری فراد پر مشتمل معاشرہ ہیں یا ہم میں انسانیت کوئی رمق باقی رہ گئی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں ہمیں ایک جنونی، متشدد اور انتہا پسند ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک طرف تو ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جا رہا مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا کہ ہم خود مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ یہ منافقت ہمارے لئے ایک ناسور بن کر رہ گئی ہے۔

ہم میں سے بیشتر شاید اس بات سے بے خبر ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسیحی خانقاہ  کے راہبوں کے نام اپنے خط میں مسیحی قوم کو ان کی جان، مال، عزت، آبرو کی مکمل ضمانت دیتے ہوئے لکھا تھا کہ مسلمان، مسیحیوں کے حقوق، وقار اور عبادت گاہوں کا تحفظ کریں گے اور ان پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے اس خط میں یہ بھی لکھا کہ مسیحی ان کے اپنے شہری ہیں اور یہ کہ آپ ایسے ہر اقدام کی مذمت کرتے ہیں جو مسیحیوں کو تکلیف پہنچائے۔

اسی طرح معاہدہ نجران میں بھی رسول اکرم نے مسیحی قوم، ان کی مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری لی اور یہاں تک کہا کہ اگر کسی مسیحی سے کوئی سنگین نوعیت کا جرم بھی ہو جائے، تو بھی مسلمان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ کسی تنازعے کی صورت میں مفاہمت کا راستہ ڈھونڈا جائے گا۔ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ مسیحی کو یا تو معاف کردیا جائے یا اس کی جانب سے تاوان بھرا جائے۔ یہ انسانی حقوق کا وہ عظیم الشان چارٹر ہے جس کی تاریخ میں کوئی اور مثال ملنا ناممکن ہے۔


Nijran-covenant


کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم اپنی جنونیت کو ترک کرتے ہوئے مہذب معاشرے کی طرح جینا سیکھیں، انسانیت کا احترام کریں اوراپنے اعمال سے دنیا کو اسلام کا پر امن چہرہ دکھائیں ۔ آئیے، خود سے سوال کیجئے کہ کیا ہم لوگوں نے گوجرہ اور بادامی باغ میں مسیحوں کی بستیاں نہیں جلائیں، کیا خود کش حملہ آوروں نے ان کے  گرجا گھروں میں قیامت نہیں ڈھائی، کیا آسیہ بی بی کو بے گناہ ہونے کے باوجود سزائے موت نہیں سنائی گئی۔


A demonstrator burns a cross during a protest in the Badami Bagh area of Lahore


دل پر ہاتھ رکھئیے اور خود سے سوال کیجئے کہ کیا ہم آخرت میں اپنے اس عظیم رسول کا سامنا کر پائیں گے جس نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن تک کو درگزر کر دیا،  وہ ہستی جس نے کوڑا پھینکنے والی عورت کی بھی تیمارداری کی، وہ ہستی جسے خود خالق کائنات نے رحمتہ اللعالمین کا لقب دیا۔ کیا ہمارے دین یا ہمارے پیغمبر کی حرمت کی پاسداری دوسروں پر توہین قرآن یا توہین رسالت کے جھوٹے الزام لگا کر، مشتعل ہو کر غریبوں کی بستیاں اجاڑ کر اور شمع اور شہزاد کے ساتھ ساتھ ان کے اس بچے کو زندہ جلا کر ہوگی، جو اپنی پیدائش سے پہلے ہی ہماری دردنگی کا شکار ہوگیا؟

یہ سب کر کے ہم نے مسیحیوں کے ساتھ کئے گئے اس معاہدے کو توڑ دیا ہے جس کی ضمانت خود رسول اللہ ﷺ نے مسیحی راہبوں کے نام اپنے خط میں دی تھی۔ کیا ایسا کر کے ہم خود توہین رسالت کے مجرم نہیں بن گئے؟


covenant


 (تحریر: سبز خزاں)