سائبر برین واشنگ

میں جب انٹرنیٹ، بالخصوص سوشل میڈیا کا جائزہ لیتا ھوں، تو مجھے شدید کرب کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔۔۔ ھمارے اپنے ھی لوگوں کا تخلیق کردہ مذھبی و فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی مواد اور ویب پیجز۔۔۔ دنیا بھر میں ھمیں تنہا کردینے کے لئے مغربی و دیگر اقوام کے خلاف پروپگنڈا۔۔۔ بقول اقبال ‘‘مست رکھو ذکر و فکر و صبح گاھی میں انہیں’’ کی عملی تفسیر والی پوسٹس۔۔۔ بغیر کسی حوالہ جات کے غیر مصدقہ، مضحکہ خیز اور عقل و دانائی کے بر خلاف تحاریر۔۔۔ فوٹو شاپ کے زریعے ولادت پانے والے معجزات۔۔۔ سازشی نظریات کی ایک منظم یلغاراور ان کی تشہیر۔۔۔ اور پھر ان سب سے بڑھ کر تحریک طالبان کے عزائم کو آگے بڑھانے والے بلاگز اور فیس بک پیجز۔۔۔ خود کش بمباروں اور دوسرے ممالک پر حملے کا عزم لئے نام نہاد مجاھدین۔۔۔ سابق صدر اور آرمی چیف کو ‘جہنم’ میں پہنچانے اور خود کش یا سنائپر حملے میں قتل کردینے کی دھمکی والی ویڈیو۔۔۔ نہتے شہریوں اور فوجیوں کے ساتھ بھیانک ترین سلوک ۔۔۔ اور بہت کچھ ایسا، جس کا یہاں ذکر کرنا شاید مناسب نہیں۔۔۔ یہ سب کچھ عین ھماری ریاست کی ناک کے نیچے جاری ھے۔۔۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (جو شاید پاکستان طالبان اتھارٹی کے طور پر عمل کر رھی ھے)، نے آج تک ان درندوں اور ان کی سائبر برین واشنگ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔۔۔ 

ھاں، مگر اسی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اگر کوئی شخص سوچنے سمجھنے کی بات کربیٹھے، عقل استعمال کرنے کی دعوت دے، ملائیت اور قدامت پسندی کے مدمقابل اپنی رائے رکھ دے، انسانوں کی برابری اور ریاستی معاملات اور مذھب میں تفریق لانے کی بات کر دے، تو سب کو آگ لگ جاتی ھے۔۔۔ ملت کی بقا مشکوک اور دین خطرے میں پڑتا دکھائی دینے لگتا ھے۔۔۔ پھر ھمارے دانش ور اور ملک کی تباھی کا نوحہ لکھنے والے غدار کہلائے جانے لگتے ھیں۔۔۔ 

میں سوچتا ھوں کہ معلومات تک رسائی رکھنے اور اپنے خیالات کے اظہار کے لئے تمام تر مواقع رکھنے کے بعد بھی ھماری اخلاقی اور ذھنی پستی کا یہ حال ھے، تو آج سے دھائیوں اور صدیوں قبل ھم لوگ کس قدر احمق اور جہالت کے پروردہ رھے ھوں گے؟

Cyber brainwashing

تتلی اور طوفان

نظریہء انتشار یعنی ‘‘کیاس تھیوری’’، سائنس کی دنیا کا ایک دلچسپ فکری میدان ہے۔ یہ نظریہ ہماری توجہ ان عوامل کی جانب مبذول کراتا ہے جو بظاہر ایک معمولی دکھائی دینے والی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئیے اس بات کو کچھ مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرض کیجئے، آپ نے ٹھنڈے پانی سے بھری ہوئی کتیلی، چولہے پر رکھی۔ پانی ابلنے میں کچھ وقت لے گا۔ اگر تو آنچ ہلکی ہے تو ذیادہ وقت درکار ہوگا، اور اگر چولہے کو تیز آنچ پر رکھا جائے تو پانی قدرے کافی جلدی ابل جائے گا۔ ابتدائی حالت میں پانی ٹھنڈا تھا، جب کہ اپنی حتمی حالت میں پانی ابلا ہوا ملے گا۔ پانی کو ایک حالت سے دوسری حالت تک لے جانے کا انحصار چولہے کی آنچ پر ہے۔ ہم بہت آسانی سے یہ مشاہدہ اور انداز کر سکتے ہیں کہ پانی نے کب تک ابلنا شروع کر دینا ہے۔ یہ سارا عمل ہمارے قابو یا اختیار میں ہوگا۔ اب آئیے ہم ایک دوسری مثال لیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ کسی سیاسی اجتماع میں ہیں، جہاں آپ کے گرد ہزاروں کا مجمع ہے۔ اگر اس ہجوم میں کوئی ہلکی سی بد نظمی ہو جائے تو ممکن ہے کہ ایسی افراتفری پھیلے کہ لوگ ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے جائیں۔ پانی والی مثال کے برعکس یہاں ہمارے لئے کچھ بھی اندازہ لگانا دشوار ہے کہ آنے والے لمحے میں کیا صورت حال رونما ہو سکتی ہے اور یہاں ہمارے اختیار میں بہت کم حصہ ہے۔ اس مثال سے ہمیں نظریہء انتشار کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جیسا کہ آغاز میں لکھا گیا ہے یہ نظریہ ان عوامل کے بارے میں بحث اور استدلال کرتا ہے جو کسی معمولی سی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن حد تک مختلف نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہجوم میں افراتفری کی مثال آسان انداز میں تمہید باندھنے کی غرض سے تھی۔ اب ہم ایک نہایت دلچسپ اور غیر معمولی مثال سے جان سکیں گے کہ ایک سائنسدان کس باریک بینی سے قدرتی مظاہر کا مشاہدہ کرتاہے، اور اس کے نزدیک کائنات میں رونما ہونے والاہرعمل، کس طرح دوسرے عمل سے ایک گہری وابستگی رکھتا ہے۔

فرض کیجئے کہ امریکہ میں ایک تتلی، کسی باغ میں اڑتی چلی جارہی ہے۔ تتلی کے پروں کی پھرپھراہٹ سے ہوا کے ذرات میں انتشار پھیلے گا، اور وہ ذرات اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے کچھ آگے، پیچھے ہو نے لگیں گے۔ ایک ذرے کی حرکت سے دوسرے ذرے پر کچھ دباؤ پڑے گا اور وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ یہی عمل آگے کے ذرات پر بھی رونما ہو گا۔ذرا سوچئے کہ تبدیلی کا یہ عمل بالکل ویسا ہی رخ اختیار کر لیتا ہے، جیسا کہ اوپر دی گئی سیاسی اجتماع والی مثال میں ہوا، تو کیا ہوگا؟ جی ہاں، ہوا کے ذرات میں اس قدر افراتفری پھیل جائے گی کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ ممکن ہے ہوا کے دباؤ میں کمی بیشی کسی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو تبدیلی کی لہر مزید بڑھتے بڑھتے دوسرے علاقوں، شہروں یا ملکوں کا رخ بھی کرسکتی ہے۔ نظریہ انتشار کے مطابق اس عمل کو ‘‘بٹر فلائی افیکٹ’’ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کسی ایک جگہ پر تتلی کے اڑنے کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ہوا میں ایسا انتشار پھیلے جو بحر اوقیانوس تک میں طوفان لے آئے۔

گھبرائیے نہیں اور نہ ہی تتلیوں کے پر نوچ ڈالئے۔ اگر انسان کی تمام تر تخریبی کاروائیوں کے باوجود کائنات ابھی تک ناتمام ہے توکسی معصوم سی تتلی کی وجہ سے اس میں بھلا کوئی حرف کیوں آنے لگا۔ تاہم چوں کہ ہر عمل کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلتا ہے، تو ایسا ہونا محض ممکنات میں سے ایک ہے ۔دوسرے الفاظ میں ہم یہاں صرف ‘‘کاز اینڈ افیکٹ’’ کے قانون کا اطلاق کر رہے ہیں۔

آئیے ان تمام تر مثالوں سے اب ہم اپنی زندگیوں کے لئے کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اپنی زندگی میں کچھ مقاصد لے کر آگے بڑھتے ہیں اور ہمارے سامنے ایک واضح لائحہ عمل بھی ہوتا ہے۔ ہم اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے وقت پر یا وقت سے بھی کہیں پہلے اپنے خواب، سچ کر دکھاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کیا حاصل کرنا ہے، اور ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے حصول میں کتنا وقت لگ سکتا ہے یا ہم کس انداز میں اسے جلد از جلد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں پانی کی کتیلی کی مثال صادر آتی ہے، جہاں پانی ابالنے کے لئے ہمیں معلوم ہے کہ چولہے کی کتنی آنچ، کتنے دورانئے کے لئے درکار ہے۔ اس طرح بعض اوقات، ہم حالات کی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو کر وقت اور پے در پے نازل ہونے والے بحرانوں کے سامنے ویسے ہی بے بس اور کمزور دکھائی دیتے ہیں، جیسے ایک سیاسی اجتماع میں افراتفری کا رزق بننے والے لوگ۔ ایسا صرف انفرادی زندگیوں میں ہی نہیں، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ بیشتر قومیں، اپنے مستقبل کے لئے ایک واضح تصور رکھتی ہیں اور اس تصور کو تصویر اور حقیقت کا روپ دینے کے لئے جہد مسلسل سے کام لیتی ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ٹھہراؤ اورایک سکون رہتا ہے۔ دوسری جانب بیشتر قومیں، بغیر کسی واضح لائحہ عمل کے ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتی ہیں، اور اس کے نتیجے میں بجائے آگے کی جانب سفر کرنے کے، پتھر کے دور میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ جذباتیت اور غیر منطقی استدلال کی پروردہ ایسی قومیں، ایک کے بعد دوسرے سراب کے پیچھے دوڑتی چلی جاتی ہیں، اورپھر تھک ہار کر جب گرنے لگتی ہیں تو، کسی اور کے کندھے پر اپنی ناکامی کا ملبہ ڈال دیتی ہیں۔ اپنی کوتاہ نظری کو چھپانے کے لئے، خود کو کسی عالمی سازش کا شکار سمجھنے لگتی ہیں اور اپنے انہی رہنماؤں کوشدت سے مطعون کرتی ہیں، جنہیں خود ہی بہت چاؤ سے مسند اقتدار پربٹھایا ہوتا ہے۔

بلا سوچے سمجھے، اور بغیر کسی دور اندیشی کے کئے جانے والے فیصلے، آغاز میں بظاہر ویسے ہی بے ضرر دکھائی دیتے ہیں، جیسا کسی تتلی کے پروں کی پھر پھراہٹ، مگر وہی فیصلے بعد میں، کئی نسلوں کے لئے روگ بن جاتے ہیں اور ایسے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں، جو اپنے ساتھ، خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے۔

(سبز خزاں)

Butterfly effect

ایک روٹی اور ایک ارب انسان

مادہ، کائنات میں بالعموم تین حالتوں میں پایا جاتا ہے؛ یعنی ٹھوس، مائع اور گیس۔ فرض کیجئے کہ آپ نے ایک اینٹ لی۔ یہ مادے کی ٹھوس حالت ہے۔ آپ نے اس اینٹ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ اینٹ اپنی اصل ساخت سے نصف، پھر مزیدنصف اور پھر مزید نصف ہوگئی۔ اگر آپ یہی عمل متواتر کرتے چلے جائیں تو ایک وقت آئے گا کہ وہ محض ایک کنکر کے برابر رہ جائے گی۔ اب یہاں سے سائنس کے سفرکا آغاز ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے بے پناہ تحقیق اور تجربات سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر تقسیم در تقسیم کا یہ عمل جاری رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم انسانی آنکھ کے لئے ایک غیر مرئی اکائی تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ اس اکائی کو ایٹم کہا جاتا ہے۔ گویا ایٹم ، مادہ کی بنیادی اکائی ہے۔ یونان کے فلسفہ دانوں کے نزدیک ایٹم، ایک ناقابل تقسیم ذرہ تصور کیا جاتا تھا، مگر سائنس میں ہونے والی مزید تحقیق نے اس امر کا انکشاف کیا کہ ایٹم بذات خود چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل ہے۔ 

اس ساری تمہید سے ایک بات جو ظاہر ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان، سائنس میں کافی ترقی کر چکا ہے، اور کائنات اور مادے کے اسرار اب پوشیدہ نہیں رہے۔ اب ہم ذرامزید آگے بڑھیں گے۔ اگر تو یہ سب تحقیق اور ترقی، بنی نوع انسان کی فلاح اور بہتری کے لئے استعمال ہوتی رہتی تو اس سے اچھا کام اور کوئی نہ ہوتا، مگر بد نصیبی کہ اس علم کو تباہی اور بربادی کی سمت موڑ دیا گیا۔ ایٹم کے اپنے اجزاء میں منتشر ہونے کی صورت میں ایک بہت بڑے پیمانے پر توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اس معلومات کی بنیاد پرایک بھیانک خیال وجود میں آیا۔ اس خیال کی تان کہاں جا کر ٹوٹی، اس کی ایک مثال دوسری جنگ عظیم کے آخرمیں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر، امریکہ کی جانب سے گرائے جانے والے ایٹم بم ہیں، جن میں کم از کم سوا دو لاکھ افراد زخمی یا زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ انسان کے جنون کی داستان یہیں پر اختتام پزیر نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بعد اس میں پے در پے اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ آئے روز، ہم ایک سے بڑھ کر ایک ہلاکت خیز ہتھیاروں کے نام سنتے آرہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب ہتھیار انسانوں پر ہی آزمائے جارہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ اس نوعیت کی چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں، قدرت بھی اپنے غصے، غضب اور ناپسندیدگی کا اظہار مختلف صورتوں میں کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال تابکاری کا اخراج ہے۔ ہماری فضا انتہائی مہلک اور نقصان دہ تابکاری مادہ سے آلودہ ہو چکی ہے۔ ان دکھائی نہ دینے والے شعاؤں سے، طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بسا اوقات تابکاری کی شعائیں کسی بھی جاندار کے خلیوں میں ایسی تبدیلیاں لے آتی ہیں، جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں، اور ایسی ایسی ناقابل علاج بیماریوں کا سبب بن جاتی ہیں، جن کا تصور بھی ہولناک ہے۔

ممکن ہے کہ آپ یہ سب پڑھ کرسائنس یا سائنسدانوں کے بارے میں بری رائے رکھنے لگے ہوں، مگر ٹھہرئیے، اب ہم ایک دوسرے زاوئیے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت پونے سات ارب کے قریب انسان بستے ہیں۔ اس برس کے تخمینے کے مطابق ان میں سے ایک ارب لوگ غزائی قلت کا شکار ہیں، یا یوں کہئے کہ انہیں کھانے کو کچھ میسر نہیں۔ اس کے برعکس دنیا کے سرمایہ دار اور امیر طبقے کے دستر خوان رنگ برنگے پکوان سے ہر وقت بھرے رہتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی غذائی کمپنیاں، سالانہ اپنی فالتو تیار کردہ خوراک، اس قدربڑی مقدار میں سمندر میں غرق کر دیتی ہیں،جس سے ان تمام لوگوں کی بھوک مٹانے کا سامان ہو سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں، ہم لوگ بھی اپنی اپنی جگہ پر اصراف کی بھرپور پیروی کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی تقریب میں چلے جائیں، وہاں خوراک کابے جا ضیاع کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف دانے دانے کو ترستے ہوئے انسان ہیں اور ایک طرف خوراک کی ایسی تذلیل۔

اگر آپ ان تمام مثالوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں توممکن ہے کہ آپ بھی میری طرح اسی نتیجے پر پہنچیں کہ یہ سب انسانی رویوں کا قصور ہے۔ سائنس دانوں نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا اور ایٹم جیسے نہ دکھائی دینے والے ذرات تک کو مزید اپنے اجزاء میں تقسیم کر کے رکھ دیا، مگردوسری طرف ہم نے اپنے دلوں کو اس حد تک تنگ کر لیا ہے کہ ہم اپنے حصے کی روٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کسی ضرورت مند کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ 

انسان کا کمال بڑے بڑے جہاز تعمیر کر لینے، مریخ کی سطح پر قدم رکھ لینے یا ایٹم کا سینہ چاک کر دینے میں نہیں، بلکہ انسانیت کی اصل معراج ، اپنے حصے کی روٹی کو اپنے بھوکے ہمسائے کے ہاتھ میں رکھ دینے میں پوشیدہ ہے۔ اگر بنی نوع انسان، ایٹم کی بجائے روٹی تقسیم کرنے اورایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کی راہ اپنا لے تو دنیا میں کوئی انسان بھوک کے ہاتھوں مرے گا اور نہ ہی کسی ہلاکت خیز ہتھیار سے۔ میرے پاس صرف ایک روٹی ہے، اور دنیا میں ایک ارب انسان بھوکے۔ کیا میں اس ایک روٹی کے ایک ارب ٹکڑے کر سکتا ہوں؟

(سبز خزاں / نیر آفاق)

World Hunger