میں جب یونی ورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ھوتا ھوں، تو سب سے پہلے میری نظر سٹوڈنٹ نوٹس بورڈ پر پڑتی ھے۔ وھاں عام طور پر کسی نہ کسی کو سالگرہ مبارک کہنے کے لئے کوئی نہ کوئی چارٹ سجا ھوتا ھے۔ میں اسے دیکھ کر مسکراتا ھوں، اور سوچتا ھوں کہ شاید کبھی میرے لئے بھی کوئی ایسا چارٹ لکھ سکے۔ پھر میرے پاؤں دائیں طرف مڑ جاتے ھیں، اور میں سیڑھیاں چڑھنے لگتا ھوں۔ میں جب ڈیپارٹمنٹ کی اوپر والی منزل پر پہنچتا ھوں، تو ایک تکلیف دہ منظر میری بینائی کا مذاق اڑانے لگتا ھے۔ سامنے دیوار پر لکھا ھوا ایک بے رحم لفظ جیسے میرے قدموں کی زنجیر بن کر مجھے روک سا لیتا ھے۔ ایک ایسا لفظ، جو مجھے شدید خوفزدہ کردیتا ھے، اور میں خود کو اس ماحول میں نا صرف اجنبی، بلکہ غیر محفوظ بھی محسوس کرنے لگتا ھوں۔
یوں لگتا ھے کہ اسے کسی نے مٹانے کی کوشش کی ھے، تبھی تو نہایت بڑے حروف میں لکھا ھونے کے باوجود بھی وہ لفظ واضح طور پر دکھائی نہیں دیتا، اور شاید اس پر میرے علاوہ کسی نے کبھی توجہ بھی نہ دی ھو۔ مگر وہ اپنی جگہ پر برسوں سے موجود ھے، اوراس معاشرے کی متروک اخلاقی قدروں کا مذاق اڑاتا رھتا ھے۔ میں چاھوں بھی تو اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ وہ لفظ جیسے میرا گریبان پکڑ کر مجھے شہر بھرکی گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں گھسیٹتا پھرتا ھے۔ میرے چہرے پر تھوکتا ھے، اور مجھے شدید ترین ذلت کے احساس سے دوچار کرانے کے بعد ابدی جہنم کے کسی گڑھے میں دھکیل دیتا ھے۔
وہ لفظ ھے ‘‘کافر’’۔
خدا جانے کسی نے وہ لفظ کیوں لکھا،اور کس نے اسے ایسا لکھنے کا اختیار دیا؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ لفظ کس کو مخاطب کر کے لکھا گیا ھے؟
بھلا کون ھے، جو اس معاشرے میں کسی نہ کسی دوسرے کے لئے کافر نہیں ھے؟ بھلا کون ھے، جو خود کو ناجی فرقے سے وابستہ نہیں سمجھتا، اور کون ھے، جو دوسروں کو جہنم کا ایندھن نہیں گردانتا۔ میں ایک اذیت ناک سوچ میں گم ھو جاتا ھوں کہ میں اس کے علاوہ کر ھی کیا سکتا ھوں۔ مجھے اپنے ارد گرد گزرنے والا ھرشخص بیک وقت اس لفظ کا لکھاری بھی لگنے لگتا ھے، اور اس لفظ کا مخاطب بھی۔
میں سوچتا ھوں کہ اس ملک کی بنیاد میں ایک میثاق شامل ھے، جس کی ضمانت 11اگست 1947ء کو پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے اپنی زبان سے خود دی تھی۔
آپ آزاد ھیں۔ آپ آزاد ھیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے۔ آپ آزاد ھیں اپنی مساجد یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے۔ چاھے آپ کا تعلق کسی بھی عقیدے، مذھب یا نسل سے ھو، اس سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں۔ ھم اس بنیادی اصول سے آغاز کر رھے ھیں کہ ھم سب اس ریاست کے برابر کے شہری ھیں۔ اگر ھم اس اصول کو اپنے سامنے رکھیں گے، تو کوئی ھندو، ھندو نہیں رھے گا اور نہ کوئی مسلمان، مسلمان۔ مذھبی اعتبار سے نہیں کہ یہ ھر فرد کا ذاتی اور نجی معاملہ ھے، بلکہ سیاسی اعتبار سے یوں کہ یہاں سب اس ریاست کے برابر کے شہری ھوں گے۔