فکری و سائنسی پسماندگی، اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی جدوجہد

تعارف

سائنس اور معقولیت پسندی اسلامی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص، شرم ناک حد تک بدحالی کا شکار ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب انسان مریخ پر قدم رکھ رہا ہے اور سینکڑوں نوری سال کے فاصلے پر نت نئی دنیائیں دریافت کر رہا ہے، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے اور خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن الحکیم میں جگہ جگہ تفکر اور تسخیر کائنات کی دعوت دی گئی ہے، یہاں تک کہ پہلی وحی ، یعنی ’’اقراء‘‘ کے الفاظ بھی مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم تعلیم و ترقی کے تمام اشاریوں میں دنیا سے پیچھے ہیں۔ ہمارا یہ زوال راتوں رات نہیں آیا، اور نہ ہم ہمیشہ سے ایسے تھے۔ نویں سے تیرہوں صدی عیسوی تک مسلم دنیا نے چوٹی کے سائنسدان اور دانشور پیدا کئے۔ ہماری درس گاہیں اورکتب خانے دنیا بھر کے لئے حصول علم کا ذریعہ تھے۔ جب مغرب تاریک دور سے گزر رہا تھا، ہم اجالے کا استعارہ تھے۔ مگر پھر رفتہ رفتہ ہم خود جہالت اور تاریکی میں ڈوبتے چلے گئے، اور موجودہ حالت پر کڑھتے ہوئے اب تو گویا ’یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی۔‘‘۔

Courtesy: “Grieving Abdus Salam and the Muslim age of darkness” – The Express Tribune

سائنس کیا ہے؟

بہت مناسب رہے گا اگر آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لے لیا جائے کہ آخر سائنس کیا ہے۔ مختصراََ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس ایک طرز فکر کا نام ہے، جس میں عقل وخرد کو استعمال کرتے ہوئے کائنات اور مظاہر قدرت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں مشاہدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مشاہدہ حواس خمسہ کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے اور خودردبینوں، دوربینوں، حرارت پیما یا دوسرے ذرائع سے بھی۔ اس مشاہدے کی روشنی میں ایک سائنسدان غور و فکر کرتا ہے اور تجربات کی مدد سے مختلف مفروضوں کی پڑتال کرتا ہے تاکہ وہ کچھ حقائق تک پہنچ سکے۔ اس سارے عمل کے بعد وہ کوئی نظریہ پیش کر تا ہے جسے مزید جانچا جاتا ہے۔ یہ ایک سائنسی طریقہ کار ہے جو ہمیں مختلف سائنسی قوانین دریافت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ سائنس میں اگر کوئی شے مقدم ہے تو وہ یہی سائنسی طریقہ کار اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے معروضی حقائق ہیں۔ ان حقائق کا رد یا ان کی متبادل توجیح پیش کرنے کے لئے بھی سائنسی طریقہ کار ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں کوئی شے یا شخصیت مقدس نہیں۔ ہم کسی بات کو محض اس بنا پر تسلیم نہیں کر سکتے کہ اسے آئن اسٹائن یا نیوٹن نے کہا ہے۔ ہم معروضی حقائق کو سائنسی طریقہ کار سے جانچنے اور تمام تر سائنسی پیمانوں پر پورا اترنے کے بعد ہی تسلیم یا رد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کے قوانین کا اطلاق پاکستان کے دور دراز کے کسی گاؤں میں بھی ویسے ہی ہو گا جیسا کہ نیویارک یا افریقہ میں۔ اسی طرح سائنس کے قوانین اور سائنسی طریقہ کار تمام مذاہب کے ماننے والوں یا نہ ماننے والوں کے لئے بھی یکساں رہتے ہیں۔ سائنس کی انہیں خوبیوں کی بنا پر اس کی ترقی کی رفتار کبھی کم نہیں ہو پائی اور وہ روز بروز مزید سے مزید مستحکم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کے برعکس روایتی طرز فکر ان خوبیوں سے بے بہرہ ہونے کی بنا پر اپنا آپ منوا نہیں پاتی۔

Courtesy: Wikipedia

مسلم دنیا کی سائنس میں پسماندگی کے اسباب

آخر وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے مسلمان سائنس میں اپنا مقام قائم نہ رکھ سکے؟ یہ آج کے حالات کے تناظر میں نہایت اہم موضوع ہے۔ اس کے لئے ہمیں ماضی میں جانا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ کہاں ہم راستے سے بھٹکے۔ پہلی نظر میں منگولوں کا حملہ ، بغداد کی تباہی اوربیت الحکمہ کی تباہی کے مناظر ہمیں اپنے عروج کے اختتام کا نوحہ سناتے ہیں۔ یہ افسوس ناک تو ہے مگر ہم ان خارجی عوامل کو اپنے زوال کا سبب قرار نہیں دے سکتے۔ عمارتیں منہدم ہوتی ہیں اور اپنی شان میں پہلے سے بڑھ کر تعمیر ہو جاتی ہیں۔ ہم روایتی یا مذہبی اقدار سے دور ہونے کو بھی اس زوال کا سبب قرار نہیں دے سکتے کہ روایات مبدل ہیں اور سائنس کی ترقی کا پیمانہ مذہبی نہیں، بلکہ خالصتاََ عقلی اور معروضی تگ و دو ہے۔ سیاسی و اقتصادی حالات ہم پر یقیناًاثر انداز ہوئے، مگر آخر ہم ایک ہزار برس سے علم اور سائنس کے میدان میں مفلوک الحال ہیں تو اس کی وجہ اندورنی عوامل اوراپنے رویوں میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کا جائزہ یہ واضح کرتا ہے کہ جوں جوں مسلم معاشروں میں عدم رواداری بڑھتی گئی، توں توں خرد افروزی کے لئے ماحول ناسازگار ہوتا چلا گیا اور اسی تناسب سے سوال کرنے اور آزادانہ غور و فکر کی آزادی چھنتی چلی گئی۔ اس سب کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشروں میں کٹر پن بڑھتا گیا ۔ اسلام کی عظیم اور ہمہ گیر تہذیب بدقسمتی سے تنگ نظر ملائیت کا شکار ہو گئی اور پھر ہم زوال کی گھاٹیوں میں اترتے چلے گئے۔

مشاہیر اسلام پر کفر کے فتوے

تاریخ  کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کتنی ہی روشن دماغ ہستیاں، جن کا نام ہم آج فخر سے لیتے ہیں، اپنے اپنے دور میں ملائیت کے ہاتھوں زیر عتاب رہیں اور انہیں بدعتی، ملحد، منکر اور کافر قرار دے کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عرب دنیا کے ممتاز ترین فلسفی، الکندی (801 – 873)، کی مثال لیجئے جس نے منطق، طبیعات، ریاضی اور موسیقی جیسے علوم پر دو سو ساٹھ سے زیادہ کتب لکھیں۔ ایک تنگ نظر خلیفہ کے مسند اقتدار سنبھالنے پر اس عظیم عالم پر جینا تنگ کر دیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ اس کے حکم پر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر لیا گیا، بلکہ اسے بڑھاپے میں سر عام پچاس کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔ اسی طرح اپنے وقت کے عظیم ترین طبیب ، کیمیا دان اور فلسفی محمد ابن زکریا الرازی (854 – 925)  کو بھی قدامت پرست امیر نے کافر قرار دیا اور سزا میں الرازی کی اپنی ہی کتاب اس کے سر پر اس زور سے ماری گئی کہ وہ اپنی بینائی کھو بیٹھا اور پھر کچھ عرصہ بعد چل بسا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ محض دس برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے والے، اپنے دور کے عظیم ترین اور طبیب مفکر بو علی سینا  (980 – 1037) کو بھی منکر قرار دے دیا گیا۔ اس کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی اور اسے بھاگ کر اپنی جان بچانی پڑی۔ اسی طرح الفارابی  (872 – 950) کو بھی کافر کہا گیا، ابن رشد (1126 – 1198) پر الحاد کا الزام لگایا گیا، اوراس کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔  یہ علم دشمن رویہ محض سائنس دانوں تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ مذہبی مشاہیر بھی اس کی زد میں آئے۔  مثال کے طور پر  فقہ کے سب سے بڑے امام حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قید خانے میں وفات پائی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو بھی خلق قرآن کے مسئلے پر کوڑے مارے گئے۔  اولیائے کرام پر کفر کے فتوے لگاتے ہوئے انہیں واجب القتل قرار دیا گیا؛  شاعر مشرق علامہ اقبال کو زندیق کہا گیا اور بانی پاکستان کو کافر اعظم قرار دیا گیا۔

دوسری طرف اگر ہم یورپ کے تاریک دور (ڈارک ایجز) پر ایک نظر ڈالیں تو وہاں بھی ایک تکلیف دہ صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ گلیلیو گلیلی کو زندان میں پھینکے جانے کا واقعہ ہو یا جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر مار دینے کا سانحہ ، پرنٹنگ پریس پر پابندی ہو یا سائنس کی کتب کو ضبط کرنا، رجعت پسندی اور مذہبی قدامت پرستی کے ہاتھوں صدیوں تک یورپ جہالت میں ڈوبا رہا۔اپنی تمام تر سنگین غلطیوں کے باوجود یورپ بالآخر اس اندھیرے سے باہر آ ہی گیا اور وہاں سائنسی انقلاب کے رونما ہوتے ہی ان کی تقدیر بدل گئی۔ افسوس کہ مسلمان دنیا نے ملائیت کے ہاتھوں یرغمال بنے رہنا ہی مناسب سمجھا اور اس کے نتیجے میں ایک بدترین زوال ان کا مقدر بن گیاہے۔

دور حاضر میں تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ

اب ہم واپس اس تحریر کے ابتدائی حصے کا رخ کریں گے جہاں آج کے دور میں انسان کے مریخ پر قدم رکھنے اور سینکڑوں نوری سال کے فاصلے پر نت نئی دنیاؤں کی دریافت کا ذکر ہے۔ اور تو اور ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی مریخ پر اپنا خلائی جہاز منگلیان  بھیج چکا ہے، جب کہ ہم سائنس اور سائنس دانوں کے متعلق اسی تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جوایک ہزار برس قبل ہمارے زوال کا سبب بنا۔  یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہم نے پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کو کس طرح ٹھکرایا اور ابھی تک ان کا نام اور ان کی سائنس کے میدان میں خدمات کو سراہنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اسی طرح ان دنوں کچھ ناعاقبت اندیش احباب پاکستان کے ایک اور ممتاز سائنس دان، ماہر تعلیم اور دانش ور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔

جہاں بو علی سینا، الکندی، الفارابی اور الرازی جیسی عظیم شخصیات کو بدعتی اور منکر ہونے کی تہمت سہنی پڑی، وہاں پرویز ہود بھائی کی ناقدری ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ نوجوان یہ دریافت کرتے پائے گئے ہیں کہ پرویز ہود بھائی نے اس ملک کے لئے اور بالخصوص سائنس اور تعلیم کے لئے آخر کیا ہی کیا ہے، اور یہ کہ وہ سائنس کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بات کیوں کرتے ہیں، جب کہ وہ ان کا میدان نہیں؟ آج کی دنیا میں لاعلمی کوئی بہانہ نہیں اور نہ ہی کسی کی بے خبری سے کسی شخص کی خوبیوں اور خدمات سے انکار کا جواز بنتا ہے، البتہ بہت مناسب رہے گا کہ اس تحریر میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی اس ملک میں بہتری لانے اور سائنس کے فروغ کے لئے کی جانے والی خدمات اور جدوجہد کا ایک مختصر جائزہ پیش کر دیا جائے، اور ساتھ ساتھ وہ سیاسی و سماجی پس منظر بھی بیان کر دیا جائے، جس کے ہوتے ہوئے نہ صرف یہ کہ انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ سائنس کے علاوہ سیاسی، دفاعی  اور سماجی مسائل پر بھی اپنی رائے دیں، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ یہ ان پر لازم بھی ہے کہ وہ قوم کے سامنے اپنی رائے رکھیں تاکہ لوگ ان کے علم سے اور نکتہ نظر سے مستفید ہو سکیں۔

میرا جینا، مرنا پاکستان

دنیا کی صف اول کی درس گاہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے گریجویشن کے بعد آپ پاکستان لوٹ آئے اور قائد اعظم یونیورسٹی سے درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ بعد میں آپ نے جوہری طبیعات میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ راقم الحروف نے ایک موقع پر خود ان سے دریافت کیا کہ ایم آئی ٹی جیسے بہترین ادارے سے پی ایچ ڈی کے بعد انہوں نے امریکہ یا بیرون ملک ٹھہرنے اور بیرون ملک اپنا کیریئر بنانے کا کیوں نہ سوچا؟ انہوں نے یہ سن کر میری جانب قدرے حیرانی سے دیکھا اور جواب دیا کہ پاکستان ان کا ملک ہے، ان کے سامنے صرف اپنے ملک کی خدمت کرنے کا سوال تھا، اور وہ کسی صورت اپنے ملک کے مقابلے میں کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتے تھے۔ میں نے اپنے سوال کو ایک دوسرے رنگ میں یوں پیش کیا کہ کیا کبھی کسی بھی بات نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید ان کا باہر ٹھہرنا ہی ٹھیک رہتا؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ انہیں کبھی کبھی لوگوں کا رویہ دکھ تو دیتا ہے، مگر اپنے ملک سے دور ہونے کا کوئی سوال نہیں بنتا، اور یہ کہ وہ اس مٹی سے ہی وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ وطن کی محبت سے سرشار اس جواب کو ذرا آج کے طالب علموں کی سوچ سے موازنہ کر کے دیکھئے جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، یعنی سرکاری خرچے پر ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں او ر ان میں سے کتنے ہی ملک واپسی کا ارادہ یا خواہش نہیں رکھتے۔

ب سے بندوق، ج سے جہاد

اب ذرا آگے بڑھتے ہیں اور 80 کی دہائی میں جھانکتے ہیں۔ ملک میں آمریت کا راج ہے اور جنرل ضیاء الحق اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے اور اپنی سیاست کو مستحکم کرنے کے لئے بے دردی سے لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کر رہے ہیں۔ ڈالر زدہ جہاد کا نعرہ لگا کر نہ صرف نوجوانوں کو افغانستان میں جھونک دیا گیا ہے، بلکہ ساتھ ساتھ نصاب تعلیم کو بے رحمی سے مسخ کرتے ہوئے اس میں انتہا پسندی کے بیج بو دئیے گئے ہیں۔ اب اسکول کے قاعدوں میں بھی’ب‘ سے بم،’ ج‘ سے جہاد ، اور’ ش‘ سے شہادت کی منادی کر دی گئی ہے۔ بچوں کی معصومیت نوچتے ہوئے مذہبی انتہاپسندی کی ایک ایسی فصل بو دی گئی ہے جسے کاٹتے کاٹتے آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں سمیت پچاس ہزار سے زائد شہریوں کا جان سے جانا لکھا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی  80  کی دہائی کے ان دانشوروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ایک آمر کی غلط پالیسیوں، بالخصوص نصاب تعلیم سے چھیڑ چھاڑ، پر بھرپور تنقید کی اور اسے قوم کے مستقبل کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ آپ نے اپنے قلم کو استعمال کرتے ہوئے عملی طور پر مزاحمتی عمل میں حصہ لیا اور قوم کو خبردار کیا کہ ان پالیسیوں کا انجام اچھا نہیں۔

اسلامی سائنس! –  مگر کیا سائنس  کے بھی مذاہب ہوتے ہیں؟

جنرل ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامائزیشن نے جہاں اور بہت سے ظلم ڈھائے، وہاں اس نے سائنس کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا۔ اس کی ایک مثال ’’اسلامی سائنس‘‘ کا طرح مصرعہ ہے، جس پر جو غزلیں لکھی گئیں، وہ شاعری کے تمام رموز و اوقاف سے بے بہرہ اور نہایت بے وزن تھیں۔ دوسرے الفاظ میں ’’اسلامی سائنس‘‘ کے عنوان کے تحت سائنس کے معروضی طریقہ کار کی بے حرمتی کی گئی اور خرد افروزی اور معقولیت کو جبری جلا وطن کر دیا گیا۔مثال کے طور پر اس کے نتیجے میں ’’باجماعت نماز کے ثواب‘‘، ’’خدا کا زاویہ‘‘، ’’جنت کے زمین سے دور جانے کی رفتار‘‘،’’دوزخ کا درجہ حرارت‘‘، ’’منافقت معلوم کرنے کا فارمولا‘‘، ’’جنات کی ماہیت‘‘ اور یہاں تک کہ ’’جنات کے ذریعے توانائی کے مسئلے کا حل‘‘ جیسی غیر معمولی ’تحقیقا ت‘ سامنے آئیں، جو آئن اسٹائن کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیں۔ اس نوعیت کی تحقیق سے مذہبی جذبات کی تو شاید تسلی ہو جاتی ہو، مگر اس کو سائنس قرار دینا گمراہ کن حد تک مضحکہ خیز ہے۔ اوپر سے ظلم یہ کہ یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہوتا رہا۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اس کے مد مقابل تن تنہا مزاحمت کی اور اخبارات اور جرائد میں مضامین لکھ کر اس نام نہاد ’’اسلامی سائنس‘‘ کا پول کھولا، جو نہ صرف سائنس کے ساتھ مذاق تھی، بلکہ اسلام کی بھی بے توقیری تھی۔ اس کے نتیجے میں سرکاری خرچے پر پروان چڑھائی جانے والی ’’اسلامی سائنس‘‘ کے کل پرزے آپ کے مخالف ہو گئے اور رنگ برنگے الزامات تراشنے لگے۔آپ نے اس ساری صورتحال کا مقابلہ ایک پر امن مفکر کی طرح اپنے قلم کے ذریعے کیا۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے سائنس کا فروغ

پاکستان میں سرکاری چینلز اور آزاد میڈیا کی موجودگی کے باوجود افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سائنس اور تعلیم کے فروغ کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صرف ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ہی ہیں جو ہر ممکنہ طریقے سے قوم میں سائنسی شعور جگانے کے لئے اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آپ نے 1988 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے ’’راستے علم کے‘‘ نامی  13  اقساط پر مبنی سیریز تیار کی، جس میں پاکستان کے تعلیمی نظام کے خامیوں اور ان کو درست بنانے کے لئے تجاویز پیش کی گئیں۔اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ قریباََ  30  برس گزر جانے کے بعد بھی صاحب اختیار ان خامیوں کو دور کرنے میں سنجیدہ نہیں۔

آپ نے 1994 ء میں پی ٹی وی سے ’’بزم کائنات‘‘ نامی سیریز پیش کی، جو سائنسی موضوعات پر عام فہم انداز میں معلومات بہم پہنچانے اور طلباء کی سائنس میں دلچسپی پیدا کرنے کی ایک بہترین کاوش تھی۔ مجھ سمیت نجانے کتنے ہی طلباء سائنس کے میدان میں آنے کے لئے ’’بزم کائنات‘‘ کے احسان مند ہیں۔ مجھے اپنے ابتدائی لڑکپن کا وہ منظر آج بھی یاد ہے جب میں اپنے پورے گھر کے ساتھ اس سیریز کو دیکھا کرتا تھا اور وی سی آر میں ریکارڈ بھی کرتا تھا۔

اسی سلسے کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے پی ٹی وی سے سن  2001 ء  میں  13  اقساط پر مبنی ’’اسرار جہاں‘‘ نامی سیریز کی، جو ایک طور سے ’’بزم کائنات‘‘ ہی کی توسیع تھی، اور طلباء کے لئے سائنس سیکھنے کا ایک بہترین موقع۔

گزشتہ برس، یعنی  2016 ء  میں آپ نے ریڈیو سے ایف ایم  105  کے لئے  16  ہفتہ وار پروگرام کئے، جس میں سماجی معاملات اور عالمی امور کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات پر بھی گفتگو کی گئی۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور مصنف

آپ چار کتابوں کے مصنف اور مدیر ہیں۔ آپ نے 1991ء میں

Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality

 نامی ایک معرکۃ الآرا کتاب تحریر کی، جس کا دنیا کی کئی زبانوں، بشمول عربی،ترکی،ہسپانوی، انڈونیشی، ملائشین اور اردو ، میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کتاب میں آپ نے مسلمان دنیا میں علمی پسماندگی، بالخصوص سائنس میں مفلوک الحالی، کا تفصیلی جائزہ لیا اور ایک نبض شناس کی طرح مسلم معاشروں کو لاحق بیماریوں کی تشخیص کی۔ اسی طرح  1991ء  میں

Proceedings of School on Fundamental Physics and Cosmology

  نامی کتاب کے شریک مدیر (کو ایڈیٹر)  رہے۔ 1998 ء میں

Education and the State – Fifty Years of Pakistan

کے مدیر رہے اور 2013 ء میں

Confronting the Bomb – Pakistani and Indian Scientists Speak Out

 نامی کتاب کو مدون کیا۔

سائنس برائے امن،  جوہری عدم پھیلاؤ اور تخفیف اسلحہ

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، سائنس برائے تعمیر یا ایٹم برائے امن کے خواہاں ہیں۔ آپ جوہری ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس ضمن میں ایک واضح اصولی موقف رکھتے ہیں۔ جوہری ہتھیار اور ایٹم بم، چاہے وہ امریکہ، اسرائیل، جنوبی کوریا، ایران، بھارت یا پاکستان، الغرض دنیا کی کسی بھی طاقت کے پاس ہوں، انسانیت کی تباہی کا سامان ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کی ایک جھلک ہم ہیروشیما اور ناگاساکی میں دیکھ چکے ہیں، جہاں پلک جھپکنے میں ایک پوری نسل ختم کر دی گئی۔ صرف یہی نہیں، تابکاری شعاؤں کے بداثرات نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں او ر نسل انسانی ایک نادیدہ عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔ آپ نے جوہری عدم پھیلاؤ اور دنیا کو تابکاری کی ہلاکت سے محفوظ بنانے کے لئے شعو اجاگر کرنے کی غرض سے ڈاکومینٹریز بنائیں ، مضامین لکھے اور تقاریر کیں ۔ آپ 2013 ء سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے جوہری تخفیف اسلحہ کی مجلس مشاورت (ایڈوائزری بورڈ) کے رکن کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور معلم

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، گزشتہ قریباََ  45  برس سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ آپ نے قائد اعظم یونیورسٹی کو  70  کی دہائی میں بطور معلم اختیار کیا اور ابھی تک اس سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز  (لمز) میں بھی خدمات انجام دیں اور گزشتہ کئی برس سے فورمن کرسچن کالج  (ایف سی سی) میں بھی پڑھا رہے ہیں۔ انڈر گریجویشن اور بی ایس سی کے طلباء کی آسانی کے لئے آپ نے ورچوئل یونیورسٹی  (وی یو) کے اشتراک سے طبیعات (فزکس) کے  45  لیکچرز ریکارڈ بھی کرائے، اور انہیں بہتر طور سے سمجھنے کے لئے طلباء کے لئے ایک ہیلپنگ (نوٹس نما) کتاب بھی لکھی۔

اس کے علاوہ آپ نے گریجویشن کے طلباء کو کیلکولیس سکھانے کے لئے اردو اور انگریزی میں کل  60  ویڈیو لیکچرز ریکارڈ کرائے۔

اسی طرح آپ نے یونیورسٹی کے طلباء کے لئے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو تفصیل سے سمجھانے کے لئے اردو او انگریزی میں کل  16  ویڈیو لیکچرز ریکارڈ کرائے۔

آپ کی ٹی وی سیریز، فزکس، کیلکولس اور نظریہ اضافت پر یہ ویڈیو لیکچرز وہ صدقہ جاریہ ہیں، جن کے ہوتے ہوئے طلباء کو کسی ٹیوشن سنٹر میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ تمام لیکچرز وغیرہ بلا معاوضہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور دنیا بھر، بالخصوص پاکستان کے طلباء کی تعلیم میں مددگار ہیں۔

Courtesy: Eqbal Ahmad Centre for Public Education

جو خوش نصیب ان سے طبیعات پڑھ چکے ہیں، وہ میری اس بات سے مکمل اتفاق کریں گے کہ اپنے موضوع پر ان جیسی مہارت شاید ہی کسی اور استاد کو نصیب ہوئی ہو۔ عام طور پر اساتذہ کسی ایک مضمون میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کے تمام ترمضامین میں یکساں گرفت رکھتے ہیں، چاہے وہ کلاسیکی میکانیات ہو کہ کوانٹم میکانیات؛ چاہے وہ جوہری طبیعات ہوکہ ذراتی طبیعات، الغرض ان کی ان تمام تر مضامین پر مکمل کمانڈ ہے۔ ان کے لیکچرز میں صرف ان کے طلباء ہی نہیں، بلکہ دوسرے ڈیپارٹمنٹس، یہاں تک کہ دوسری یونیورسٹیوں کے طلباء ، اور فیکلٹی ممبران تک شریک ہوتے ہیں۔ ان کے لیکچرز میں کوئی بھی شخص، جو کسی بھی تعلیمی و سماجی پس منظر کا ہو، شریک ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنے تعلیمی کیریئر میں ان جیسا مخلص، انسان دوست، ہمدرد اور بے لوث استاد کبھی نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ جانے کتنے ہی سفید پوش طلباء کے تعلیمی اخراجات بھی آپ نے اٹھائے ہیں۔ میرے ایم ایس سی  کے زمانے کے برقی مقناطیسیت کے ایک استاد نے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے متعلق اپنا ایک ذاتی واقعہ سنایا جو میں نیچے نقل کر رہا ہوں۔

میرے گھریلو اور معاشی حالات نہایت خراب چل رہے تھے۔ پھر ایسا وقت آیا کہ میرے لئے پڑھائی جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ میں اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی سے فزکس میں ماسٹرز کر رہا تھا۔ اگلے سمسٹر کے لئے فیس جمع کرانے کی تاریخ سر پر کھڑی تھی، اور میں خالی جیب تھا۔ خودداری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی تھی اور نہ ہی کسی سے مدد ملنے کی توقع تھی۔ پھر ایسے میں مجھے ایک شخص کا خیال آیا اور میرے قدم اس کے آفس کی طرف اٹھ گئے۔ اس شخص نے خاموشی سے میری بات سنی، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھے میری ضرورت کی رقم اسی وقت دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی تعلیم کے اخراجات کے بارے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بس پڑھو، اپنا مستقبل سنوارو اور موجودہ اندھیروں سے باہر نکلو۔

اسی طرح ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنے طلباء کی اسائنمنٹس اور سرپرائز ٹیسٹس میں بھی ہر ممکن حد تک مدد کرتے رہے ہیں۔

آپ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک طویل عرصے سے بلا معاوضہ کلاسز لے رہے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو ہر ہفتے خصوصی طور پر لاہور سے اسلام آباد سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں طلباء سے خلوص کا ایسا اظہار اور علم بانٹنے کی لگن کی ایسی بے لوث مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کو ایک باوقار رتبہ دلانے میں پرویز ہود بھائی کے کردار سے انکار کرنا قطعی ناممکن ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور محقق

آپ کے 60  سے زائد مقالہ جات دنیا کے بہترین تحقیقی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کا تحقیقی کام نہایت پیچیدہ  موضوعات پر ہے، مثال کے طور پر “کوانٹم کرومو ڈائنامکس” طبیعات کا ایک مشکل ترین میدان تصور کیا جاتا ہے، اور پاکستان میں اس موضوع پر کام کرنے والے لوگ شاید ہی مل سکیں گے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطورمضمون نگاراور کالم نویس

آپ اہم موضوعات پر سینکڑوں مضامین اور کالمز لکھ چکے ہیں، جو پاکستان اور دنیا بھر کے اخبارات اور مجلوں میں اشاعت پزیر ہوئے ہیں۔آپ کے اکثر مضامین میں پاکستان کے تعلیمی نظام اور بالخصوص سائنس کے نصاب کی کمزوریوں اور خامیوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان میں بہتری کی تجاویز دی گئی ہیں۔یہ آپ کی دردمندی کا اظہار ہے کہ آپ پاکستان میں طلباء کو معیاری تعلیم حاصل کر کے کامیابی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور مشعل بکس

آپ گزشتہ کم و بیش 25 برس سے ایک غیر تجارتی اور غیر نفع بخش  ادارہ ’’مشعل بکس‘‘ بھی چلا رہے ہیں، جو اب تک سائنس، فلسفہ، تاریخ، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی امور، الغرض ہر موضوع پر سینکڑوں بہترین کتابیں شائع کر چکا ہے۔ ان میں زیادہ تر انگریزی زبان کی معیاری کتابوں کا ترجمہ ہے تاکہ پاکستانی عوام تک یہ عالمی کتب اردو میں پہنچ سکیں۔ ان میں سے بیشتر کتابیں اس ادارے کی ویب سائٹ پر مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کو رکھی ہوئی ہیں۔جدید فکری رجحانات، انسانی حقوق، ترقی میں خواتین کے کردار، ماحولیات، منشیات اور قومی و عالمی تخلیقی ادب مشعل کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے عہدے اور  ذمہ داریاں

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جن جن اداروں اور جن جن پوزیشنز اور عہدوں سے وابستہ ہیں یا رہ چکے ہیں، ان کی ایک طویل فہرست بنتی ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بطور عالمی اسپیکر

آپ ایک دانشور اور مفکر ہیں اور اس بنا پر دنیا بھر میں انہیں خطاب کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ آپ دنیا بھر کے ہزاروں انٹریوز، سیمینارز اور ورکشاپس میں عالمی امن، حقوق نسواں، انسانی حقوق، انسانی مساوات، فکری آزادی، سائنس اور تعلیم کے فروغ کے لئے آواز اٹھا چکے ہیں۔ آپ مسلم دنیا کی غلطیوں کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی پالیسیوں کے بھی ناقد ہیں اور اپنی تحریروں اور تقاریر میں بارہا اپنا موقف پیش کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ امریکی عوام کو تھامس جیفرسن اور ابراہام لنکن کے زریں اصولوں

Life, Liberty and the Pursuit of Happiness

کا حوالہ دیتے ہوئے باور کراتے ہیں کہ  زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کا حق دنیا بھر کے تمام انسانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے اور یہ کہ امریکہ کو عالمی معاہدوں کو توڑتے ہوئے دوسرے ممالک پر جارحیت کا کوئی حق نہیں۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کشمیری عوام کی حق خود ارادیت اور ریاست پاکستان کے سرکاری موقف کی تائید کرتے ہیں، البتہ وہ کشمیر کاز کے حصول کے لئے اپنائی جانے والی پالیسی کے ناقد ہیں، کیونکہ اِس عمل نے کشمیر کاز کو عسکریت سے منسوب کر کے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح لندن میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں آپ نے مسلم معاشروں میں مذہبی انتہا پسندی کے اضافے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے توہین آمیز خاکوں اور موویز بنانے کے عمل کی بھی مذمت کی اور مغربی دنیا سے استدعا کی کہ ایسے ناپسندیدہ اقدامات سے اجتناب کیا جائے جو مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بنیں۔ ان کی عالمی فورمز پر کی جانے والی تقاریر انٹرنیٹ پر با آسانی دستیاب ہیں۔ اسی طرح آپ دنیا بھر میں سائنس اور طبیعات پر لیکچرز دینے کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں۔ ذیل میں ایک نامکمل فہرست دی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور عالمی ایوارڈز

ڈاکٹر پرویزہود بھائی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں دنیا بھر سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان میں الیکٹرانکس میں بیکر ایوارڈ، ریاضی میں عبدالسلام ایوارڈ، پاکستان میں تعلیم کے فروغ کی خدمات کے صلے میں فیض احمد فیض ایوارڈ، اٹلی میں واقع ترقی پذیر دنیا کی اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے روکاسا پرائز، امریکن فزیکل سوسائٹی کی طرف سے جوزف اے برٹن فورم ایوارڈ اور پاکستان میں سائنس کو فروغ دینے پر یونیسکو کی طرف سے کلنگا پرائز نمایاں طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ کو اپریل 2001 ء میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا، جسے آپ نے اصولی موقف اپناتے ہوئے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ 2011ء میں فارن پالیسی میگزین نے دنیا کے سو بہترین مفکرین کی فہرست شائع کی، جس میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی : قائد اعظم یونیورسٹی کے محسن

اب ایک اہم موضوع، جس سے شاید کم لوگ آگاہ ہیں۔ 1996 ء میں بے نظیر حکومت میں قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین ، جو طلباء کے مستقبل میں تعلیمی سرگرمیوں کی ضامن ہے، کے خلاف ایک سازش کا آغاز ہوا۔ اس کے تحت یونیورسٹی کی زمین کو ایم این ایز وغیرہ میں نہایت سستے نرخوں بانٹا جانا تھا، اور کسی قسم کے ممکنہ احتجاج یا رکاوٹ سے بچاؤ کی غرض سے یونیورسٹی کے پروفیسرز کو بھی زمینیں دینے کا لالچ دیا گیا۔ بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات بھی زمین کی اس بندر بانٹ میں اپنا حصہ لینے کو قطار میں لگ گئیں۔ یوں یونیورسٹی کی زمین، جس میں ریسرچ کے ادارے، نئے تعلیمی شعبے، کتب خانے اور تجربہ گاہیں تعمیر ہونی تھیں، سنگین خطرے سے دوچار ہو گئی۔ ایسے میں صرف دو اساتذہ، یعنی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر اے ایچ نیر، ایسے تھے جنہوں نے مزاحمت کی اور طلباء کے تعلیمی مستقبل کی حفاظت کی غرض سے تن تنہا حکومت اور دیگر مضبوط لابیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ نے لاہور ہائی کورٹ میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی او ر سخت نامساعد حالات میں اس کیس کو جاری رکھا۔ اس دوران آپ کو ہر طرح کے ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، آپ کو دھمکیوں سہنا پڑیں، یہاں تک کہ پتھر پھینکے جاتے، کھڑکیاں توڑ دی جاتیں اور ہر طرح سے حراساں کیا جاتا۔ اس سارے معاملے میں یونیورسٹی ایک سمسٹر کے لئے بند بھی رہی کیونکہ دیگر اساتذہ پلاٹس کی لالچ میں ہڑتال پر چلے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ ان کے عقائد اور حب الوطنی کے بارے میں سنگین غلط فہمیاں پھیلائی گئیں تاکہ وہ کمزور پڑ جائیں اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے کیس واپس لے لیں۔ صرف طلباء کے مستقبل کی خاطر آپ نے ان سنگین حالات کا سامنا کیا اور بالآخر ڈیڑھ سے دو برس کی اعصاب توڑ جدوجہد کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا کہ یونیورسٹی کی زمین طلباء کی تعلیمی سرگرمیوں کے لئے ہے اور اسے سیاستدانوں یا پروفیسروں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی سطح پر لوٹ مار کے اس منصوبے کو ناکام بنانے پر تمام تر طلباء کو پرویز ہود بھائی اور ان کے ساتھی ستاد عبدالحمید نیرکا احسان مند رہنا چاہئے۔ اس کے علاوہ عابد حسن منٹو بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں، جنہوں نے بلامعاوضہ اس کیس کی پیروی کی۔

یونیورسٹی کی زمین پر قبضے کی مکروہ کوششیں وقتاََ فوقتاََ بعد میں بھی جاری رہیں۔ گزشتہ برس یہ انکشاف ہوا کہ یونیورسٹی کی زمین کے ایک بڑے رقبے پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے، اور یہ کہ اس کے پیچھے ایک نامی گرامی سیاسی شخصیت کا ہاتھ ہے جو سینٹ کے سابقہ چیئرمین رہے ہیں، اور یونیوسٹی کی زمین پر باقاعدہ طور پر ایک محل نما کوٹھی تعمیر کرنے کے بعد اس سے منسلک سڑک کو ’’بخاری روڈ‘‘ کا نام تک دے چکے ہیں۔ اس موقع پر ایک بار پھر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنا کردار ادا کیا اوریونیورسٹی میں احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھی۔ آپ نے اس قضیے پر ایک اہم آرٹیکل لکھا، جس نے اس مسئلے کو مزید اجاگر کیا۔ اس سب کے نتیجے میں معاملہ میڈیا کی زینت بنا اور حکومت وقت اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوئی۔ بالآخر چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے پر سو موٹو نوٹس لے لیا اور اب امید ہے کہ یونیورسٹی کی زمین کا ایک بار پھر تحفظ ہو سکے گا۔ یوں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ایک بار پھر طلباء کے لئے ایک مسیحا کا کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کلمہ حق

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں، جہاں گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں پچاس ہزار سے زائد افراد انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بھلا اس میں کوئی شبہ ہے کہ اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پیچھے ایک قدامت پرست مذہبی بیانیہ کار فرما ہے، جس نے اسلام جیسے سلامتی کے دین کا دامن داغدار کر دیا ہے۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا اور حکومت کی اعلان کردہ تحریک رد الفساد میں اپنا حصہ ڈالنا ہر مسلمان اور ہر دردمند شہری کا فرض ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنا یہ فرض پہلے روز سے بخوبی نبھا رہے ہیں۔

یہ اکتوبر 1994ء کی ایک رات کا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر نسیم بابر، جو قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کے فیکلٹی ممبرتھے، کے گھر ایک نقاب پوش داخل ہوا اور انہیں گولیوں سے بھون دیا۔ ڈاکٹر نسیم بابر کا قصور محض یہ تھا کہ وہ ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔  ٹیچرز کالونی اس قاتلانہ حملے کے فوری بعد ان کی اہلیہ اور کم سن بیٹی کی چیخ و پکار سے گونج اٹھی۔ ایسے میں صرف ایک شخص ان کی مدد کو آگے بڑھا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے خون میں لت پت اور جاں کنی کے عالم میں تڑپتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بابر کو کندھے پر لادا اور اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال کا رخ کیا۔ افسوس کہ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ ان کے جنازے میں بھی سوائے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے کسی اور ٹیچر نے شرکت نہ کی۔ یہ الم ناک سانحہ آپ کے ذہن میں ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا کہ کیسے مذہبی اختلافات کے نتیجے میں ایک جیتے جاگتے شریف النفس انسان اور ایک قابل استاد کی زندگی چھین لی گئی۔

فرقہ وارانہ منافرت ہو کہ طالبان کی دہشت گردی، آپ نے پوری توانائی اور جرات کے ساتھ انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے بیانئے کی مذمت کی ہے۔ آپ انسانی مساوات اور انسانی حقوق کے علم بردار ہیں۔ آپ تمام پاکستانیوں کو برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔ آپ تکفیر کے رویے کی مذؐت کرتے ہیں، جس نے امت مسلمہ میں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی رسم کے ہاتھوں آپس کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا ہے۔ آپ بانی پاکستان، قائداعظم محم علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی مجلس قانون ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی روشنی میں تمام شہریوں کی مذہبی آزادی یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں۔ آپ کے ان نظریات کی مخالفت میں شر پسند اور ان کے ہمدرد آپ سے خائف رہتے ہیں، اور اسی بنا پر آپ کے بارے میں منفی پروپگنڈا کرتے پھرتے ہیں۔ پوری قوم کو ان عناصر سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف یہ بھی یاد رہے کہ تحریک طالبان پاکستان، جو پاکستان میں خود کش حملوں کی بھیانک مہم کی ذمہ دار اور نہتے شہریوں اور فوجیوں کو بے دردی سے شہید کرنے والی دہشت گرد تنظیم ہے، کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پاکستان کی ایک سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما نے اسے’’ شہید ‘‘ قرار دیا۔ اسی طرح پاکستان کے ایک اہم ادارے کے سربراہ تحریک طالبان پاکستان کے دوسرے سرغنہ یعنی بیت اللہ محسود  کو ’’حب الوطن‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ ان افسوس ناک اور تکلیف دہ حالات میں جب کہ دہشت گرد آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو بچوں کو شہید کرنے کے عمل کی بھی مذہبی توجیہات پیش کرتے پھر رہے ہوں ، یہ پوری قوم اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان کے جبر و استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنا یہ فرض ادا کر رہے ہیں، اور ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور اقبال احمد سنٹربرائے تعلیم عامہ

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے پاکستان میں فکری آزادی اور علم و دانش کو فروغ دینے اور نسل نو کو تعلیم اور خرد افروزی سے آراستہ کرنے کے لئے پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ سامراج مخالف، یگانہ روزگار دانشوراقبال احمد کی یاد میں اقبال احمد سینٹر فار پبلک ایجوکیشن کا آغاز کیا۔ آپ نے اس ادارے کے تحت تعلیم عامہ کے لئے بہت سے لیکچرز اور مضامین پیش کئے۔ اس کے علاوہ اس ادارے کے تحت نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور سالانہ انعامی مقابلوں کا انعقاد بھی کرایا گیا، جس کے تحت پاکستان کو بہتر بنانے کے موضوعات پر بہترین ڈاکومنٹریز اور شارٹ فلمز سامنے آ سکیں۔ اقبال احمد سینٹر فار پبلک ایجوکیشن نے کچھ ہی برسوں میں جو خدمات سرانجام دی ہیں،اس کا اعتراف نوم چومسکی جیسے دانشور بھی کر تے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بمقابلہ سُوڈو (جعلی) سائنس

ممکن ہے کہ کچھ قارئین یہ سوچ رہے ہوں کہ ایسی کون سی خاص بات ہے جو ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو طالب علموں میں سائنسی شعور اور معقولیت پسندی (ریشنالٹی) کے استعمال کی دعوت دینے پر مجبور کرتی ہے ، اور یہ کہ وہ کیونکر ایک طویل عرصے سے خود کو اس ضمن میں گویا وقف کئے ہوئے ہیں۔ اس کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم پر غور کرنا پڑے گا۔ ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب طلباء میں سیکھنے کی لگن پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ الٹا وہ طلباء کو تعلیم سے بد دل کرنے کے آلے کے طو ر پر کام کرتا ہے۔ تجسس (کیوراسٹی) کا مادہ جو علم کی جستجو کے لئے لازمی ہے، کو نہ صرف یہ کہ پروان نہیں چڑھنے دیا جاتا، الٹا اسے کچلنے کے لئے گویا معلومات کا ایک انبار ہے جسے طلباء پر لاد دیا جاتا ہے اور وہ اسے رٹنے پر مجبور ہوتے  ہیں۔اس سب کے نتیجے میں سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور کتابوں میں لکھی باتوں کو من و عن تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سائنس کے نصاب میں سائنسی استدلال اور طریقہ کار کی نفی کرتے ہوئے الٰہیات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا تعصب بھی حرکت میں آتا ہے اور طالب علم کو محض اطاعت کرنا سکھایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اسے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بگ بینگ کا نظریہ لامحالہ غلط ہے، یا یہ کہ نظریہ ارتقاء باطل ہے۔ اس نوعیت کے مذہبی رجحانات کے زیر اثر جب سائنس پڑھائی جائے گی یا ایک غیر معیاری نصاب تعلیم ترتیب دیا جائے گا تو ایسے میں سائنسی طرز فکر کو خاک فروغ ملے گا؟

ہم اس مضمون میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سرکاری سرپرستی میں متعارف کرائی گئی نام نہاد ’’اسلامی سائنس‘‘ کا ذکر کر چکے ہیں۔ ہم  بتا چکے ہیں کس طرح سائنس کے نام پر مضحکہ خیز ’’تحقیقی‘‘ کارنامے انجام دئے گئے، جیسا کہ زمین سے جنت کے دور جانے کی رفتار، خدا کا زاویہ، جنات کی آتشی فطرت کو استعمال میں لاتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کی تجویز وغیرہ۔ آئیے اب ایک نظر اس افسوس ناک حقیقت پر بھی ڈال لیں کہ سائنسی طرز فکر کی عدم موجودگی میں کس طرح ہمارے ہاں ایک متوازی مگر غیر معقول طرز کی ’سائنس‘ وجود میں آ ئی ہے، جسے جعلی (سُوڈو) سائنس کہنا بے جا نہ ہوگا۔ آئیے کچھ مثالوں سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

کچھ برس پہلے پاکستان میں ایک دعوے نے راتوں رات پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آغا وقار نامی ایک صاحب کا کہنا تھا کہ وہ پٹرول یا سی این جی کی بجائے محض سادہ پانی سے گاڑی چلا سکتے ہیں۔نہ صرف گاڑی بلکہ ان کی بنائی ہوئی واٹر کٹ سے ریل گاڑیاں بھی چلائی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی دعویٰ تھا اور اس نے فوری طور پر لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔ آغا وقار کو میڈیا میں مہمان خصوصی کے طور پر پزیرائی ملنا شروع ہو گئی۔ عام افراد کے لئے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی کہ اب ان کے توانائی کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میڈیا کے نامی گرامی اینکرز نے آغا وقار کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا۔ یہاں تک کہ سرکاری سطح پر اس موضوع پر اجلاس بھی ہوئے کہ اس قومی اثاثے سے کیسے مستفید ہوا جائے۔ ایسے میں کچھ آوازیں اٹھیں، جن کے مطابق ایسا کوئی بھی دعویٰ حر حرکیات (تھرموڈائنامکس) کے اصولوں سے متصادم ہے اور سائنسی پیمانوں پر پورا نہیں اترتا۔ ان میں سب سے اولین اور سب سے توانا آواز پرویز ہود بھائی کی تھی۔ دوسری طرف آغا وقار سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ ان کا پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ بقائے توانائی کے قانون (لاء آف کنزرویشن آف انرجی) کی نفی کر رہا ہے تو آغا وقار نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ ان کی بنائی ہوئی واٹر کار نے دراصل طبیعات کے اس قانون کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ ایک عام آدمی اور اینکر تو چلئے سائنس دان نہیں ہوتے کہ کسی کے دعویٰ کو ٹھیک طور پہ پرکھ سکیں، مگر اس المیے کو کیا نام دیں کہ کئی نامی گرامی سائنسی شخصیات نے بھی آغاوقار کو ایک مسیحا کے طور پر تسلیم کر لیا اور اپنے علم کا کھوکھلا پن ظاہر کیا۔ ان میں سب سے افسوس ناک مثال ڈاکٹر عبد القدیر خان کی ہے۔ آپ نے ٹی وی پر پورے وثوق سے کہا کہ اس معاملے میں کوئی فراڈ نہیں اور یہ کہ دنیا میں ناممکنات بھی ممکن ہو جاتے ہیں۔ گویا کہ سائنس کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ظاہر ہوتی دیکھنے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ صرف یہ کہ کوئی سوال نہیں اٹھایا بلکہ اس غلط دعویٰ کی توثیق بھی کر دی۔ یہ سب سائنسی طریقہ کار کو نظر انداز کرنے کا لازمی نتیجہ تھا۔ جہاں غور وفکر کئے اور سوال اٹھائے بغیر ظاہری چیزوں کو تسلیم کرنے کی رسم چل پڑے، وہاں سائنسی پسماندگی اپنا ڈیرہ لگا لیتی ہے۔ بعد میں آغا وقار کا ابتدائی دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا اور اس نے خود بھی یہ تسلیم کیا کہ پہلے وہ غلط بیانی کر رہا تھا۔ اسی طرح ایک دوسری مثال دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سازشی نظریے کو تسلیم کرنے والے افراد کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے زلزلے اور سیلاب دراصل بیرونی سازش ہیں، اور یہ کہ امریکہ ہارپ ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے جس کے ذریعے وہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پا چکا ہے وغیرہ۔ اس سازشی نظریہ سے متاثر ہو کر ایچ ای سی کے سابقہ چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمان، جو ایک اچھے سائنسدان ہیں، نے بھی ایک کالم لکھ ڈالا، جس سے عام قارئین میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔ بعد میں اس سازشی نظریے کو جب سائنسی طریقہ کار سے پرکھا گیا تو یہ بھی درست ثابت نہ ہو سکا۔

Courtesy: The Express Tribute

ایسے میں جب سینئر اور نامی گرامی سائنسدان بھی سائنسی طرز فکر کا درست اطلاق نہ کریں، وہاں نوجوانوں کے لئے بھلا کیا رہنمائی میسر آنی ہے؟ کتنے ہی ذہین طلباء، ایک فرسودہ نصاب تعلیم کے ہاتھوں اپنی ذہانت گنوا بیٹھتے ہیں اور سائنس کو اپنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ نوجوان محض اپنے تصورات اور شاعرانہ خیالات کو سائنسی تھیوری سمجھتے ہوئے بڑے بڑے دعویٰ کر ڈالتے ہیں۔ انہیں اپنے دوستوں یا غیر سائنسی حلقوں کی کی طرف سے کچھ حمایت مل جاتی ہے، جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے مگر جب سائنسی پیمانوں پر تولا جائے تو ان کے دعویٰ ریت کی طرح ہاتھوں سے سرک جاتے ہیں۔

Courtesy: Waqt News/ Youtube.

اس ضمن میں ہم ایک اور رجحان کا ذکر کرنا چاہیں گے جو روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کا تعلق مذہبی عقائد اور سائنس کو آپس میں گڈمڈ کرنا ہے۔ ہر شخص جو کوئی بھی مذہبی عقیدہ رکھتا ہوں، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسے درست ثابت کرسکے۔ اس کے لئے وہ اکثر سائنس کا سہارا بھی لے لیتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسا کر کے وہ سائنس کی کوئی خدمت کر رہا ہوتا ہے اور نہ ہی مذہب کی۔  انسان کے مذہبی عقائد کی بنیاد اس کا یقین اورایمان ہوتا ہے، جب کہ سائنس یقین کی بجائے تشکیک سے کام لیتی ہے۔ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا کوئی بھی مذہبی و روحانی عقیدہ رکھے یا نہ رکھے۔ سائنس کسی فرد سے اس کا یہ حق نہیں چھینتی، او ر نہ ہی سائنس شخصی آزادی میں دخل اندازی کی قائل ہے۔ البتہ جب کوئی فرد اپنی عقیدت کے معاملات میں سائنس کو داخل کرے گا، تو ایسے میں سائنس مجبور ہے کہ اس کے دعویٰ کو معروضی طریقہ کار اور استدلال کے ساتھ پرکھے۔ سائنس کسی جذباتی، مذہبی یا روحانی عقیدے کا نام نہیں، بلکہ ایک طرز فکر کا نام ہے جو عقل کی حاکمیت قبول کرتی اور مادی اور معروضی حقائق سے واسطہ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر اکثر لوگ جو سائنس سے گہری واقفیت بھی نہیں رکھتے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآله وسلم) کے سفر معراج کو آئن اسٹائن کے خصوصی نظریہ اضافیت کی روشنی میں دیکھنے لگتے  ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس نظریے کی رو سے کسی مادی جسم کی رفتار میں اضافے سے اس کے لئے وقت آہستہ چلنے لگتا ہے  (ٹائم ڈائلیشن) اور یہ کہ جب اس مادی جسم کی رفتار روشنی کی رفتار کے نزدیک پہنچ جائے تو عملی طور پر اس کے لئے وقت رک جاتا ہے۔ پہلی نظر میں یہ دل کو لبھانے والی دلیل لگتی ہے کہ ہم ایک معجزے کو سائنسی حوالے سے ثابت کرنے جا رہے ہیں، مگر جو شخص سائنس کا طالب علم ہو، وہ نظریہ اضافیت کے ’’جڑواں (ٹوئن) پیراڈاکس‘‘ کی رو سے جانتا ہے کہ اگرچہ تیز رفتاری سے حرکت پزیر مادی جسم کے لئے وقت کی رفتار  ہلکی پڑ جائے گی، مگر جو جسم ویسی رفتار سے حرکت نہیں کر رہا، یعنی زمین یا زمین کے  باشندے،  ان کے لئے وقت نارمل رفتار سے ہی چلتا رہے گا۔ گویا اس حساب سے ہم یہ ثابت نہیں کر سکے کہ زمین پر وقت ساکن ہوا۔ ایسے میں آپ خود فیصلہ کر لیں کہ بلا سوچے سمجھے نظریہ اضافیت کا سہارا لے کر ہم نے کوئی خدمت انجام دی یا خود کو آزمائش میں ڈالا؟

یہاں ایک اصولی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سائنس کا تعلق مادی اور معروضی حقائق سے ہے، نہ کہ روحانیات سے۔ وہ آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب تو دے سکتی یا اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش تو کر سکتی ہے، مگر سائنس کو ’’کیوں‘‘ کا جواب دینے کی مشکل میں نہ ڈالئے کہ یہ اس کا کام نہیں ہے۔ سائنس آپ کو یہ تو بتا سکتی ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی مگر اس سے یہ نہ توقع نہ رکھئے کہ وہ آپ کو اس کا جواب بھی دے کہ یہ کائنات کیوں یا کس ارفع مقصد کے لئے وجود میں آئی۔ جب ہم اپنے مذہبی جذبات کے تابع سائنس کو استعمال کرنا چاہیں تو یہ سائنس کا کام نہیں کہ وہ اپنا طریقہ کار بدل کر ہماری خواہش کی تعمیل کرے۔ اس کے برعکس سائنس ایک معروضی طریقہ کار سے چلے گی اور ایسے میں آپ کو بھی عقلیت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا کرنا دشوار ہے تو ہمیں ان دو معاملات کو باہم ملانے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے۔

اسی طرح اگر آپ مشاہدہ کریں تو دیکھیں گے کہ انٹرنیٹ پر اکثر فوٹو ایڈیٹنگ سافٹ ویئرز یعنی جعل سازی کے ذریعے تصاویر میں رد و بدل کر کے عجیب و غریب دعویٰ پیش کر دیئے جاتے ہیں۔ اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے اس میں مذہبی جذبات کی آمیزش بھی کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کا کام آسان ہے کہ اکثر لوگ عقیدت کے ہاتھوں ایسے دعووں پر یقین کر لیتے ہیں۔ اگر آپ عقلیت اور سائنسی استدلال کا اطلاق نہیں کریں گے تو پھر عین ممکن ہے کہ آپ بھی دھوکہ کھا جائیں۔ ’’حجر معلق‘‘ کی مثال لے لیں۔ فوٹو ایڈیٹنگ ٹولز کی مدد سے زمین پر ٹکے ہوئے ایک چٹان نما پتھر کو یوں پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ ہوا میں معلق ہے۔

Courtesy: Google Search

اب ذرا اوپر کی مثالوں کو جنرل ضیاء الحق کے دور کی ’’اسلامی سائنس‘‘ سے ملا کر پڑھئے۔ اور اسی طرح انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس جواب سے ملا کر دیکھیں کہ ’’(آغا وقار) کوئی فراڈ نہیں کر رہے۔۔۔۔۔ بہت سی چیزیں ایسی لگتی ہیں کہ وہ ناممکن ہیں، مگر وہ ممکنات میں ہو جاتی ہیں‘‘ تو آپ کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ ہو گا کہ کس طرح عقل و استدلال کی عدم موجودگی نے ہمارے معاشرے میں سائنس کو فروغ پانے سے روک رکا ہے۔ دوسری طرف جو شخص اپنے ذہن کا استعمال کرتے ہوئے سوال کرے اور کسی بات کو سمجھنے کے لئے عقل و خرد سے کام لے، تو بہت آسانی سے اس کے ایمان پر سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے اور اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں فکری آزادی اور سائنس کیسے فروغ پا سکتی ہے؟ اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں ہم اپنے زوال سے باہر کیونکر آ سکتے ہیں؟

یہ وہ نظریاتی محاز ہے جس پر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی تن تنہا لڑ رہے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے  کہ سائنس کو اپنے انداز میں ایک خاص طریقہ کار سے کام کر نے دیا جائے اور اسے زبردستی مذہبی لبادہ نہ پہنایا جائے کیونکہ ایسا کرنا سائنس کے ساتھ بھی زیادتی ہے،  اور یہ طرز عمل مذہب کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ آپ عقل اور استدلال سے مظاہر قدرت پر غور و فکر کرنے پر زور دیتے ہیں کہ یہی سائنس میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے، اور قرآن پاک میں بھی تفکر اور تسخیر کائنات پر زور دیا گیا ہے۔

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

اس مضمون میں تفصیل کے ساتھ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی خدمات اور ان کے کام کی اہمیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سائنس کیا ہے، سائنسی طریقہ کار کیا ہے، جعلی (سُوڈو) سائنس سے کیا مراد ہے وغیرہ، جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں یہ بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک اہم آواز ہیں، اور یہ کہ  شر پسند عناصر ان کے بارے میں منفی باتیں پھیلاتے ہیں، جس سے رائے عامہ متاثر ہوتی ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر اکثر نکات کو محض سرسری طور پر سامنے رکھا گیا ہے، البتہ پوری کوشش کی گئی ہے کہ اس مضمون میں مثالوں کی مدد سے اپنی بات واضح کی جا سکے۔ امید ہے کہ اس سب کی روشنی میں ہمیں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی کاوشوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ آپ کی پاکستان سے محبت اور سائنس اور تعلیم کے فروغ کے لیے خدمات کسی سند کی محتاج نہیں ہیں۔ آپ تن تنہا وہ جدوجہد کر رہے ہیں جو دراصل ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے، اور افسوس کہ ریاست اسے ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

ہم نے اس مضمون کے ابتدائی حصے میں ان عظیم سائنسدانوں اور مفکرین کا حوالہ دیا تھا، جنہیں اپنے دور میں بدعتی قرار دے کر ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ آج ہم انہی مشاہیر کو مسلمان دنیا کے بہترین دماغ مانتے اور ان کی علمی خدمات پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کہیں ہم انجانے میں اپنے ہم عصر دانشوروں کے ساتھ بھی ویسا ہی برا سلوک تو روا نہیں رکھے ہوئے؟

دنیا میں ہر سوچ اور نظریئے کے ماننے والے موجود ہیں، اور اس تنوع  سے ہی زندگی کا حسن ہے۔ جو دوست ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے مختلف سوچ رکھتے ہیں، انہیں یقینی طور پر اس کا حق حاصل ہے۔ البتہ اختلاف کو آداب اور حقائق کے دائرے تک ہی محدود رہنا چاہئے اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ شائستگی، احترام، اخلاق، رواداری اور علم دوستی جیسی خوبیاں رکھنے والے افراد دوسروں کے محاسن کا اعتراف کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ مثال کے طور پر احمد جاوید صاحب، جو مذہبی فکر کی نمائندہ ایک بزرگ اور باوقار شخصیت ہیں، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو اپنے پسندیدہ معاصرین میں شمار کرتے ہیں اور ان کے لئے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

Courtesy: “Qissa Ahmad Javaid Sb se Mulaawat ka.” (Danish.pk)

اس خوش آئند رویے کے برعکس سوشل میڈیا میں اکثر پیجز پر ہمارے کچھ نوجوان ایک افسوسناک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے متعلق نازیبا باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا دین بدگمانی سے منع فرماتا ہے، اور حکم دیتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کسی کے بارے میں منفی رائے قائم نہ کرو۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جیسی صاحب علم شخصیت کی کردار کشی کرنا، ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا اور ان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانا ان کے ساتھ تو ناانصافی ہے ہی، مگر پاکستان کے ساتھ بھی زیادتی کے مترادف ہے۔ دعا ہے کہ ہم صاحب علم شخصیات کی قدر کرنا سیکھیں اور ظالموں میں شمار نہ ہوں۔

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

(تحریر: سبز خزاں)

امریکی انتخابات پر ایک مختصر تبصرہ

 انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد کی دنیا الگ ہوتی ہے۔ ایک امیدوار منتخب ہونے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، جیسا کہ جذباتیت کا مظاہرہ کر کے، پاپولر باتیں کر کے یا سہانے سپنے دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور ان کے ووٹ حاصل کرنا۔ البتہ منتخب ہونے کے بعد اس امید وار کو معلوم ہوتا ہے کہ اب اسے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ وہ اب ایک پوری قوم کا سرکاری طور پر نمائندہ ہے، اور یہ کہ ہر رنگ، نسل، مذہب اور پس منظر کے افراد اس کی رعیت ہیں جن کا وہ رکھوالا اور ذمہ دار ہے۔ عوامی اجتماع سے خطاب کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور ایوان اقتدار میں اپنی کابینہ کی مشاورت اور انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں فیصلے کرنا ایک الگ معاملہ۔ یہاں کسی بھی رہنما کے اعصاب کا کڑا امتحان ہوتا ہے اور اسے ایک تکلیف دہ تنہائی (آئیزولیشن) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری پالیسیاں محض چہرے بدلنے سے فوری طور پر تبدیل نہیں ہو جاتیں؛ ان کے پیچھے خوب عرق ریزی شامل حال ہوتی ہے جس کے تحت کوئی بھی ریاست اپنے مفادات کا حصول یقینی بناتی ہے، چاہے اس کے لئے اسے کیسے ہی منفی ہتھکنڈے کیوں نہ استعمال کرنے پڑیں۔

تمام تر تحفظات کے باوجود میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ تمام امریکیوں کی مساوی طور پر نمائندگی کریں اور ایک اچھے حکمران اور منتظم کے طور پر ابھریں۔ ساتھ میں یہ بھی کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ درست خطوط میں تعلقات قائم کریں۔ میں یہ بھی امید رکھتا ہوں کہ ہیلری کلنٹن باوقار انداز میں صدر ٹرمپ کو منتخب ہونے پر مبارک باد دیں اور ملک کے لئے اپنی خدمات دینے کی یقین دہانی کرائیں ۔ یہی ایک دانا قوم اور مہذب جمہوریت کی علامت ہے۔

آخر میں یہ کہ اگر صدر ٹرمپ نے ذمہ دارانہ انداز میں اپنے منصب کا استعمال نہ کیا تو یہ ایک نہایت افسوس ناک بات ہو گی۔ تاریخ کا یہ سبق واضح ہے کہ قومیں بیرونی حملوں سے تباہ نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دراصل اپنے اندر ہونے والی شکست و ریخت کی بنا پر کمزور پڑتی ہیں اور اپنا مقام کھو دیتی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں بیشتر مواقع پر افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کیا، جس کی گونج بہت دور تک سنائی دیتی رہے گی۔ ان کے اور امریکہ کے مستقبل کا فیصلہ اب وقت کے ہاتھوں میں ہے۔ مزید برآں مسلمان معاشروں کے لئے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ جن باتوں اور رویوں کی بنا پر وہ صدر ٹرمپ کو رد کرتے رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ برا رویہ اور سلوک ہمارے ہاں اپنی مذہبی اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات کے ساتھ برسوں سے جاری ہے۔

امریکی انتخابات پر تو ہم سب محض ایک آبزرور کے طور پر ہی تبصرہ کر سکتے ہیں، البتہ ہم پر لازم ہے کہ ہم پہلے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں جو بہر حال ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں تاریخ کا تبصرہ کیا ہو گا، یہ ابھی پردہ میں ہے، تاہم ہمارے اپنے بارے میں تاریخ جو تبصرہ لکھ چکی ہے، وہ سب کے سامنے ہے اور شرمندہ کر دینے کو کافی ہے۔

trump-vs-clinton

وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ بس یوں ہے کہ صدیوں سے کیلنڈر کے ہندسے تو بدلتے چلے آ رہے ہیں مگروہی غلطیاں، وہی ناہمواریاں، وہی خون خرابہ، اور وہی نا انصافیاں روپ بدل بدل کر سامنے آتی رہی ہیں۔ کبھی دنیا کے اِس کونے پرتو کبھی اُس کونے پر، کبھی جغرافیے کے اِس نقطے پر تو کبھی اُس نقطے پر۔ مولانا عبدالستار ایدھی نے ایک بار کہا کہ تاریخ میں دو قومیں آباد رہی ہیں: ایک ظالم اور ایک مظلوم۔ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ تاریخ میں دو قومیں ہر دور میں آباد رہی ہیں: ایک علم دوست اور ایک علم دشمن۔ علم دشمن، ظالم قوم کا روپ دھار لیتے ہیں اور علم دوست، مظلومیت کی چکی میں پستے رہ جاتے ہیں۔

تاریخ کا وہ منظر یاد کیجئے جب منگولوں نے بغداد پر یلغارکی تو علم کے پیش بہا خزانے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو مسمار کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ الکندی کے ذاتی کتب خانے کو ضبط کرنے کے بعد سرِ عام پچاس کوڑوں کی سزا دی گئی۔ الرازی کو سزا کے طور پر اس کے سر پر اس کی اپنی کتاب اس زور سے ماری گئی کہ اس کی بینائی چلی گئی۔ ابن سینا کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے۔ ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا گیا، اس کی قبر کھود کر مسمار کرنے اور اس کی کتابیں جلادینے کی تجویز پیش کی گئی۔ ابن رشد کو جلا وطن کیا گیا اور ان کی کتب قرطبہ چوک میں نذر آتش کی گئیں۔۔۔۔ اسی طرح سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ ارشمیدس کو رومن سپاہی نے قتل کر دیا۔ رومن کیتھولک کلیسا نے سائنسدانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ گلیلیو کو زندان میں پھینک دیا گیا۔ جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر مار ڈالا گیا۔

Ilm-Dost

اگرچہ یہ سب صدیوں پرانی باتیں ہیں اور انسانی تہذیب نے ان برسوں میں کافی ترقی کر لی ہے مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں علم دشمنی کی روایت آج بھی ویسے ہی جاری ہے۔ آئیے اس کی ایک مختصر سی جھلک دیکھ لیتے ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر عبدالسلام کو ان کے اپنے ملک میں کیسے رسوا کیا گیا۔ پاکستان کے بہترین دانشور اقبال احمد کو خلدونیہ یونی ورسٹی کے پراجیکٹ کو مکمل نہیں کرنے دیا گیا۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ متحمل مزاج اسکالر جاوید احمد غامدی کو قتل کی دھمیکوں کے بعد ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ یونی ورسٹی آف سوات کے وائس چانسلر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد فاروق ملک کو ان کے کلینک میں طالبان نے قتل کر دیا۔ امریکہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملک کی خدمت کا جذبہ لے کر آنے والے جنید حفیظ کو ان کی ترقی پسند سوچ کے جرم میں جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرا دیا گیا اور ان کے وکیل راشد رحمان کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت بیرون ملک سے پاکستان آنے والے ڈاکٹر مہدی علی قمر کو مذہبی اختلافات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ملک کی دوسری نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی کی کتاب پر غیر ضروری اعتراضات کئے گئے اور انہیں مذہبی رنگ دے کر اس کم سن لڑکی کی زندگی کو مزید خطرے میں ڈال دیا گیا۔

Ilm-Dost-II

قطع نظر اس کے کہ کیوں ہر دور میں سوال کرنے پر یا نئی سوچ دینے پر یا اپنا ذہن استعمال کرنے پر اس قدر شدید رد عمل سامنے آتا ہے، ایک بات تو واضح ہے کہ کوئی ظلم، کوئی تشدد، کوئی نفرت، کوئی قانون انسانی تجسس اورسوال کے وجود کو ختم نہیں کر سکتا۔ جبر کے تمام تر ہتھکنڈے ماضی میں بھی ناکام ٹھہرے اور حال میں بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں کسی زمانے میں چھاپہ خانوں (پرنٹنگ پریس) پر پابندی تھی، وہاں اب ہر برس ہزاروں کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ اسی طرح وہ جو لاؤڈ اسپیکر میں شیطان کے بولنے کا فتویٰ دیتے تھے، اب اسی لاؤڈ اسپیکر پر تبلیغ کر رہے ہیں۔ ٹرین پر سفر کرنا حرام قرار دینے والے خود ہوائی جہازوں میں یورپ آ جا رہے ہیں۔ تصویر کو حرام قرار دینے والے اپنے ٹی وی چینلز پر درس قرآن دے رہے ہیں وغیرہ۔ ان مثالوں سے واضح ہے کہ زمانہ ایک ایسی چھلنی کی طرح ہے جو کثیف سوچوں کو چھان کر الگ کر مارتا ہے۔

اس لمبی تمہید کا مقصد حال ہی میں ہونے والے کچھ واقعات ہیں جن سے علم اور سوال دشمنی کی روایت کا تسلسل اجاگر ہوتا ہے۔

کچھ دنوں پہلے معروف اداکار اور میزبان حمزہ علی عباسی نے رمضان کے ایک پروگرام میں ایک سوال کیا کر لیا، اس کے اگلے روز مولانا کوکب نورانی نے لائیو ٹی وی پروگرام میں’ غیرت مند‘ مسلمانوں کو اس کے قتل پر اکسانا شروع کر دیا۔ حمزہ کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک ایسی اقلیتی جماعت کے بحیثیت پاکستانی زندہ رہنے کے حق کی بات کر دی، جن کی زندگیوں کی یہاں کے شہریوں اور ریاست کی نظر میں کوئی وقعت نہیں۔ الٹا ان کا سماجی مقاطع اور قتل ثواب کا موجب سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا حمزہ نے ان بارودی سرنگوں پر قدم رکھ دیا جس کے نتیجے میں ایسا ہونا حیرانی کی بات نہیں کہ اسے بھی قتل کی دھمکیاں دی جائیں۔ کیا ایک انسانی جان کی یہی قیمت رہ گئی ہے کہ اسے محض ایک سوال کرنے کے نتیجے میں ختم کر دینے کی دھمکیاں دی جائیں؟

نفرت کا یہ قاعدہ ہمارے ہاں نہ صرف رائج ہے بلکہ اسے پورے جوش و خروش سے پھیلایا جا رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال پاکستانی میڈیا میں اوریا مقبول جان کی موجودگی ہے۔ آپ کا ٹریک ریکارڈ حقائق مسخ کرنے، مبالغہ آرائی اور اس کے نتیجے میں دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر آپ ماضی میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کے خلاف جھوٹ پر مبنی کمپین کے بانی رہے ہیں۔ آپ نے اس نہتی لڑکی پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے جیسا قبیح فعل انجام دیا۔ اس کا جواب سبز خزاں بلاگ پر تفصیل سے دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح آپ مشرق وسطیٰ میں برسر پیکار جہادیوں اور داعش کو کھلم کھلا سپورٹ کر چکے ہیں اور انہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں امام مہدی کے سپاہی تک قرار دے چکے ہیں۔ آپ القاعدہ اور طالبان کے پر زور حامی ہیں اور اسامہ بن لادن کو بڑے فخر سے شہید قرار دیتے ہیں۔ ملا عمر سے اپنی ملاقات کا حال فخر سے بیان کرتے ہیں۔ کالعدم حزب التحریر کے حق میں بات کرتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں اسے کیوں کر پاکستان میں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کی کسی شق پر سوال اٹھانے کو غداری سے تعبیر کرتے ہیں، یہ اور بات کہ خود جمہوریت کے سخت مخالفین میں سے ایک ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف آئے روز کالمز لکھتے ہوئے انہیں آئین کے تقدیس کا خیال نہیں رہتا جو جمہوریت کا ضامن ہے۔  حیرانی کی بات ہے کہ نام نہاد قومی ایکشن پلان کی موجودگی میں اوریا مقبول جان پورے طمطراق سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت کرتے پھر رہے ہیں اور انہیں پورے چاؤ سے میڈیا پر لیا جاتا ہے۔

Orya-shaam

Orya - II

Orya-on-Mullah-Umer

Orya column - VIII

اوریا مقبول جان کے نزدیک ضیاء الحق پر تنقید اور ان کی پالیسیوں کو ملک میں انتہا پسندی اور دہشتگ گردی کا ایک بنیادی سبب جاننا دراصل اسلام پر تنقید ہے۔

Orya-defending-Zia

اوریا مقبول جان، لونڈیوں سے بغیر نکاح جنسی تعلقات کو اسلام کا حکم قرار دیتے ہیں۔ آپ جنگ کی حالت میں دشمن کی عورتوں کو قید کر کے انہیں لونڈیاں قرار دینا آج کے دور میں بھی درست قرار دیتے ہیں۔ آپ اس ضمن میں 1971ء میں پاکستانی افواج کے ہاتھوں بنگلہ دیشی خواتین کی بے حرمتی کو بھی درست قرار دیتے ہیں، یہ اور بات کہ وہ اس کے لئے یہ شرط رکھتے ہیں کہ یہاں پہلے اسلامی حکومت قائم ہو اور اس کے بعد فوجی دشمن کی عورتوں کا جنسی استحصال کرتے پھریں۔

اگر آپ کو حیرانی ہو کہ اوریا مقبول جان نے آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو شہید بچوں کے اوپر کوئی کالم نہیں لکھا، تو اپنی حیرانی بچا رکھیں۔ آپ کی یاد داشت کے لئے ہم بتاتے چلیں کہ معصوم بچوں اور پاکستان کے پچاس ہزار شہریوں کی قاتل تحریک طالبان پاکستان، ڈھائی برس پہلے حکومت سے مزاکرات کے لئے اوریا مقبول جان کو اپنے نمائندے کے طور پر پیش کر چکی ہے۔ یاد رہے کہ ان کے ساتھ ساتھ انصار عباسی کا نام بھی اپنے مزاکرات کار کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جو طالبان اور ان کی دہشت گردی کے کھلم کھلا حمایتی ہیں۔ ان کا مختصر ذکر اسی تحریر میں کچھ دیر بعد آئے گا۔

TTP-and-Orya

اوریا مقبول جان، بانی پاکستان محمد علی جناح پر بھی معترض ہیں کیونکہ آپ کے بقول قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر اسلام سے متصادم ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ وہ یہ حملہ براہ راست قائد اعظم پر کر رہے ہیں، اس کے برعکس اوریا مقبول جان کا استدلال یہ ہے قائد اعظم نے تو سرے سے ایسی کوئی تقریر کی ہی نہیں، اور یہ کہ یہ ‘غیر اسلامی’ تقریر ملک میں بسنے والے سیکولر طبقے (جسے اوریا مقبول جان زیادتی کرتے ہوئے لا دین سمجھتے ہیں) کی سازش ہے۔ گویا یہ ایک جعلی تقریر ہے اور اس کا حوالہ دینے والے قومی جھوٹ بولنے والے ہیں۔

Orya-on-Jinnah-Speech

یہ اوریا صاحب کا ایک دلچسپ کالم تھا جس میں ان کی لا علمی سطر سطر سے عیاں ہوتی رہی۔ آپ جس تقریر کو جھوٹ اور سیکولد حلقوں کی سازش قرار دیتے ہیں اور اسلام سے دور رکھنے کی سازش قرار دیتے ہیں، وہ بنا کسی شک و شبہ کے قائد اعظم کی ہی تقریر ہے۔ مثال کے طور پر آپ یہاں کلک کر کے دوستور ساز اسمبلی کی 11 اگست 1947ء کی پوری سرکاری رپورٹ پڑھ سکتے ہیں جس میں قائد اعظم کی تقریر کے وہ جملے بھی موجود ہیں جو اوریا مقبول کے نزدیک غیر اسلامی ہیں اور تقریر کا حصہ نہیں۔ مذید یہ کہ اس تقریر کے اگلے روز، یعنی 12 اگست 1947ء کو اس وقت کے مشہور اخبار ‘دی ھندو’ نے اسے یوں شائع کیا۔

JInnah-11-Aug-1947-Speech

ابھی کچھ ہی دن پہلے اوریا مقبول جان نے نیو چینل کے بیس جون کے پروگرام ’حرف راز‘ میں سوشل میڈیا کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سیکولر لکھاریوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بنگلہ دیش کا حوالہ دیا جہاں پچھلے کچھ عرصے میں بہت سے بلاگرز کا قتل ہوا ہے۔ گویا آپ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ پاکستان میں ایسے لکھنے والوں کا ایسا انجام ہوسکتا ہے (یا ہونا چاہیئے)۔ اگلے روز، یعنی اکیس جون کے پروگرام میں اسی موضوع پر بات آگے بڑھاتے ہوئے اوریا مقبول جان نے پاکستان میں بسنے والے ملحدین کو آئین کا باغی اور توہین مذہب کا مرتکب قرار دیا۔ اس عمل کی سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان پر تنقید کی آڑ میں اوریا مقبول نے پاکستان کے روشن خیال اور ترقی پسند یعنی پراگریسو دانشوروں اور لکھاریوں پر ملحد ہونے اور پاکستان اور اسلام مخالف ہونے کا الزام عائد کر کے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایسا نہیں کہ اوریا مقبول نے کوئی عمومی بات کی ہو۔ اس کے برعکس آپ نے اپنے الزامات کے ثبوت کے طور پرٹی وی اسکرین پر کچھ لکھاریوں کے نام اور تحریریں بھی دکھائیں۔ ان میں فرنود عالم، اقدس طلحہ سندھیلا، کنور خلدون شاہد اور معروف دانشور وجاہت مسعود شامل تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو تحریریں دکھائی گئیں وہ سب کی سب وجاہت مسعود کے آن لائن میگزین ’ہم سب‘ کی تھیں جو اس وقت انٹرنیٹ پر اردو لکھاریوں کے لئے سب سے معیاری اور متوازن پلیٹ فارم ہے اور جہاں دائیں اور بائیں بازو، دونوں کے نمائندگان کو اپنی رائے کے اظہار کا برابر موقع دیا جاتا ہے۔ جن لکھاریوں کی تحریریں دکھائی گئیں، وہ سب یقینی طور پر مسلمان اور پاکستان کے خیر خواہ ہیں۔ انہیں ملحدین قرار دینا اور اسلام اور پاکستان کا باغی کہنا صریحاََ نا انصافی اور ان کا خون بہانے کی سازش دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام میں فون کال پر بیرون ملک سے ایک پاکستانی بلاگر کو بھی لیا گیا۔ اوریا مقبول سے علمی اختلاف کی پاداش میں اکیس جون کے پروگرام میں ان کی کال کا کلپ چلانے کے فوری بعد قرآن پاک کی ایک آیت چلا کر جس میں اللہ تعالیٰ نے خفگی کا اظہار کیا ہے، یہ تاثر دیا کہ گویا اس آیت کا مخاطب وہ بلاگر اور’ ہم سب‘ کے دوسرے لکھاری ہیں جن کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس پروگرام میں ایک خاتون کا ذکر بھی کئی بار آیا جن پر حال ہی میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ہے۔ گویا اس طرح اوریا مقبول جان کے پروگرام میں یک طرفہ طور پر چھ افراد کا باقاعدہ نام ظاہر کر کے اور انہیں ملحدین اور اسلام و پاکستان دشمن ظاہر کر کے اپنے سننے والوں کو ان کی جان اور عزت و آبرو پر حملہ کرنے کو اکسایا گیا۔ اس کے علاوہ اوریا مقبول نے عمومی طور پر تمام ترقی پسند اور بائیں بازو کے مفکرین کو ملحدین قرار دے کر ان پر زندگیاں تنگ کرنے کی واضح سازش کی ہے۔

یہ معاملہ پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم کے آگے اٹھایا جا چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حمزہ عباسی پر بین لگانے والی پیمرا، اوریا مقبول جان کی اس ہیٹ سپیچ کا کوئی نوٹس لے گی؟

جب معاملہ مختلف آراء کا آئے تو ایک اصول آفاقی ہے اور وہ یہ کہ علم اور مباحثے کی دنیا میں جذبات کا دخل نہیں۔ اونچی آواز دلیل نہیں، غلط حوالے دے کر وقتی طور پر مدمقابل کو چپ کرا دینا کامیابی نہیں۔ اردو زبان پر عمدہ دسترس رکھنے والے، ایک اچھے مقرر اور صاحب مطالعہ ہونے کی اعلیٰ صفات رکھنے کے باوجود بسا اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اوریا مقبول جان ایک غیر متحمل مزاج فکر کے نمائندہ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ اکثر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ اختلاف برداشت کرنے کی اعلیٰ صفت اور سوال کرنے اور غور و فکر کرنے کی آزادی دینے سے عاری ہیں۔ آپ مذہب کے لبادے میں کسی بھی شخص پر کوئی بھی بہتان لگا سکتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے حقائق کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر آپ کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں میزبان اویس اقبال پر بغیر کسی جائز وجہ کے توہین مذہب کا الزام لگا چکے ہیں۔ اس سے پہلے آپ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب کے حقائق اور حوالہ جات بدل کر پیش کر چکے ہیں اور ملالہ پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا چکے ہیں۔

فیس بک پر اوریا مقبول جان کے آفیشل پیج ہونے کے دعوٰی دار، جس پر پانچ لاکھ سے ذئاد فالوورز ہیں اور جہاں آپ کے براہ راست خطاب بھی نشر کئے جاتے ہیں، نے اب ایک نئی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ اس نے سوشل میڈیا پر اپنے پیروؤں (فالورز) کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اپنے اساتذہ کرام کی خفیہ ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں تاکہ ایسے اساتذہ کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے جو بقول اوریا مقبول کے الحاد کی ترویج کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اوریا مقبول کے ہاں ہر جدید سوچ اور غور و فکر کرنے کی ترغیب یا سوال کرنا الحاد کے ذمرے میں آتا ہے۔ اس کی مثال ہم پہلے ہی دے چکے ہیں کہ کیسے آپ نے ’ہم سب‘ کے ترقی پسند لکھاریوں پر الحاد کا الزام لگایا۔ اوریا مقبول کی دی گئی اس ترغیب کے بعد اساتذہ کرام کے خلاف ذاتی عناد نکالنے اور ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہونے کے امکانات واضح ہیں۔

ایسا نہیں کہ اردو پریس میں صرف اوریا مقبول ہی ایک متشدد فکر کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ نظر دوڑانے پر ہمیں ایسے دوسرے کردار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ضمنی طور پر ان میں سے چند ایک کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر دفاعی تجزیہ نگار زید حامد، جو حال ہی میں سعودیہ کے شکنجے سے بمشکل اپنی جان بچا کر آئے ہیں، ایک سخت گیر سوچ کو مسلسل پروان چڑھا رہے ہیں۔ آپ ہر وقوعے کا الزام غیر ملکی ایجنسیوں پر دھرنے کے قائل ہیں اور اس کے لئے کسی ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، بس ان کے سازشی نظریات (کانسپریسی تھیوریز) کا منترہ ہی کافی ہے۔ آپ کئی برسوں سے نوجوانوں کو غزوہ ہند کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ آپ اہل تشیع مسلمانوں پر ہونے والے ظلم (پرسیکیوشن) کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ آپ احمدیوں کو ملک دشمن قرار دے کریہاں سے جلاوطن ہوجانے کا مشورہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں عمر متین نامی ایک شخص کے ہاتھوں ایک کلب میں پچاس افراد کی ہلاکت کو سپورٹ کرتے اور اس پر خوشیاں مناتے پائے گئے ہیں۔

ZH-Hate-Tweets

اسی طرح انصار عباسی کو کون فراموش کر سکتا ہے جو اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کے لئے ّجاہلٗ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کی کتاب پر جھوٹ کی بنیاد پر بدنیتی سے اعتراضات کر کے اس کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کر چکے ہیں، اور اسی ضمن میں ملک کے مایہ ناز دانشور پروفیسر پرویز ہود بھائی کے خلاف ایک لائیو پروگرام میں جرح کر کے ان کی آواز خاموش کرانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ لال مسجد کے تکفیری ٹولے کے حمایتی ہیں۔ انصار عباسی، سوات میں طالبان کی جانب سے ایک نہتی لڑکی کو سر عام کوڑے مارنے کے عمل کا دفاع کرتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں۔

آٹھ سو ناولوں کے خالق اور پاکستان میں بچوں کے ادب میں غیر معمولی مقام اور نام رکھنے والے اشتیاق احمد (مرحوم ) اپنے ناولوں میں اہل تشیع مسلمانوں، ہندئوں، مسیحیوں اور احمدیوں کے خلاف ایک متشددانہ سوچ کو ابھارتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ وہ طالبان سے بھی ہمدردی رکھتے تھے، آپ نے اپنے ایک ناول میں خود کش حملہ آوروں کو بھی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ یہ ایک تکلیف دہ سوچ ہے کہ بچوں میں ہر دل عزیز مصنف نے اپنی مذہبی فکر کو ناپختہ ذہنوں میں ڈال کر ایک ایسی نسل کی بنیاد رکھی جو پاکستان میں جاری دہشت گردی کو جہاد اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا عمل سمجھتی ہو گی۔ میں خود بھی اشتیاق احمد (مرحوم) کے قارئین میں سے ہوں اور ان کے ساڑھے پانچ سو ناول آج بھی میری لائبریری میں موجود ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ اپنی مذہبی رائے کو بچوں کے ناولوں میں شامل کرنے کی بجائے الگ سے کسی تحقیقی کتاب کی صورت میں پیش کرتے تاکہ اس کا علمی انداز میں جائزہ لیا جا سکتا۔

Ishtiaq-Ahmed-Novel-Screenshot

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متنازعہ کردار ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی ایک موقع پر ٹی وی پر تحریک طالبان کی حمایت میں دلائل دیتے نظر آئے (حوالے کے طور پر نیچے دی گئی ویڈیو کو آٹھویں منٹ سے دیکھیں)۔ اسی طرح آپ نے ڈاکٹر عامر لیاقت کے پروگرام میں ایک اقلیتی فرقے کے بارے میں ایسا جملہ بولا جسے مہذب دنیا میں بد ترین تعصب کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی کے غلط دعویٰ کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھے بغیر درست قرار دے چکے ہیں، حالانکہ اس دعویٰ کے مطابق سائنس کے مسلمہ قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی تھی۔

ملک کے طول و عرض میں ایک لاکھ سے ذائد خود کش حملہ آوروں کی موجودگی کا اعتراف کرنے والے مولانا عبدالعزیز کو ان دعوؤں کے باجود ٹی وی چینلز پر پورے ادب و احترام سے بلایا جاتارہا۔ دوسری طرف طالبان کے نمائندگان کو بھی ٹی وی پر ’’آپ، جناب، ہمیں وقت دینے کا شکریہ، آپ سے پھر بات ہوگی ‘‘ وغیرہ جیسے پروٹوکول ملتے رہے ہیں۔

10000-suicide-bombers-claims-Molana-Abdul-Aziz

یہاں ہم نے محض چند ایک مثالیں دی ہیں۔ یہ تمام وہ صاحبان ہیں جن کے چاہنے والے اس معاشرے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ ان کی کہی ایک ایک بات اور ان کے لکھے ایک ایک حرف کا اثر لیتے ہیں۔ جب ان کے سامنے کوئی متشدد بات رکھی جائے گی تو کیا اس سے ہم امن اور یک جہتی کی طرف جائیں گے یا معاشرے میں قطبیت (پولیرٹی) میں مزید اضافہ ہو گا؟ اس کا جواب کوئی ایسا مشکل تو نہیں۔

ایک ایسا ملک جو ایک طویل عرصہ سے مسلسل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، جہاں پچاس ہزار سے زائد شہری انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، جہاں گلی گلی تکفیر کے کارخانے کھلے ہوئے ہیں اور فرقہ واریت کا ناگ اپنا زہر پھیلائے ہوئے ہے وہاں ریاست اور قومی ایکشن پلان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اردو پریس (پرنٹ اور برقی) انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بیانئے کو فروغ دیتا دکھائی دے رہا ہے اور اِس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔

آئیے پھر پیچھے اوریا مقبول جان کی جانب چلتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم اصولی طور پر ان اور دیگر صاحبان کی آزادی رائے کا احترام کرتے ہیں اور ایک ایسے صحتمندانہ مکالمے کو فروغ دینے کے قائل ہیں جس میں تمام فریقین کو اپنی بات کہنے کی پوری اجازت ہو، مگر یہ کسی طور مناسب نہیں کہ وہ جھوٹ اور چرب زبانی کا سہارا لیں، دوسروں کو اپنی بات کہنے کا موقع دینے کے روادار نہ ہوں اوراپنے سے مخالف نکتہ نظر رکھنے والوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلائیں اور ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے پھریں۔ کیا یہ زیادہ مناسب نہ ہو گا کہ مختلف طبقہ ہائے فکر کے افراد کو جینے کا حق دیا جائے اور انہیں اپنے اپنے بیانئے کو مہذب انداز میں پیش کرنے دیا جائے تاکہ غور و فکر کے دروازے کھلیں، علم و آگہی کی فضا استوار ہو اور ایک صحت مندانہ مکالمے کو فروغ دیا جائے۔

اس تحریر کے آغاز میں ہم نے تاریخ کی دو قوموں کا ذکر کیا تھا: علم دوست اور علم دشمن۔ ہم نے ابن رشد، الرازی، ابن سینا اور ابن خلدون وغیرہ کا حوالہ دیا تھا کہ کس طرح ان کی زبان بندی کی کوششیں کی گئیں، کیسے ان کو بدعتی قرار دیا گیا اور ان کی کتب جلا دی گئیں۔ یہ وہ نقطہ تھا جہاں مسلمان بحیثیت مجموعی زوال آشنا ہونا شروع ہوئے۔ دوسری طرف اندھیروں میں ڈوبا یورپ یہیں سے اپنی نشاۃ ثانیہ کی طرف بڑھا۔ اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج وہ کہاں کھرا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔

قرآن الحکیم میں مسلمانوں پر علم حاصل کرنے (تفکر) اور ٹیکنالوجی (تسخیر کائنات) کے حصول کے لئے بار بار زور دیا گیا ہے۔ ہم آج مغربی دنیا سے تعلیم اور ٹیکنالوجی دونوں میدانوں میں صدیوں کے فاصلے پر ہیں اور افسوس یہ کہ اپنی اصلاح کو بھی تیار نہیں۔ اس طرز عمل کی ذمہ داری اس تنگ نظر سوچ پر آتی ہے جو تفکر اور تعقلی آزادی کی مخالف ہے، جو سوال کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والے کا گلہ گھونٹ دینے پر یقین رکھتی ہے، یہ سوچے بغیر کہ ایسا کرنے سے سوال تو نہیں مرتا۔

شاید ایسے ہی افراد کے بارے میں جون ایلیا نے کہا تھا:۔

Jaun_Elia

(تحریر: سبز خزاں)

پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب

اس تفصیلی تحریر کا موضوع پاکستانی میڈیا پر حال ہی میں ایک بار پھر سے چلنے والی ملالہ مخالف مہم ہے۔ اس سے قبل اوریا مقبول جان اور انصار عباسی نے اس ’’کارِشر‘‘ کا آغاز کیا، جس کا بھرپور جواب سبز خزاں بلاگ پر یہاں اور یہاں دیا جا چکا ھے۔ اس کے بعد موسمی حشرات الارض کی طرح کچھ مزید افراد اٹھے اور انہی الزامات کو دہرانے لگے۔ مثلاََ پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر جناب کاشف مرزا نے اپنی ایک تصیف بنام ’’میں ملالہ نہیں‘‘ شائع کی، جس کی تادم ِ تحریر چار بار تقریب رونمائی ہو چکی ہے۔ کاشف مرزا نے ملالہ کی کتاب پر بہت سے اعتراضات لگاتے ہوئے اسے پاکستان کے سکولوں میں ممنوع قرار دیا۔ سبز خزاں بلاگ میں اس اقدام کا بھی بھر پور اور مدلل جواب دیا گیا، جسے آپ یہاں کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں کاشف مرزا کچھ ٹی وی پروگراموں میں مدعو کئے گئے اور وہاں انہوں نے سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی افسوسناک کوشش کی، جس کے نتیجے میں حقائق مسخ ہوئے اور جھوٹ کی مٹی سے ایک ایسی عمارت کھڑی کی گئی جو دور سے تو بڑی مضبوط دکھائی دے، مگر سچ کے مد مقابل وہ ایسے ہی زمیں بوس ہو جائے، جیسے زلزلے سے قد آور عمارتیں۔ سبز خزاں بلاگ، اسے خود پر فرض سمجھتا ہے کہ وہ اپنے قارئین تک تصویر کا سچا رخ پیش کرے اور تاریخ کو مسخ ہونے سے بچائے۔ اس طویل تحریر میں ہم کاشف مرزا کے ان اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیں گے، جو انہوں نے 26 دسمبر 2015ء کو نوجوان تجزیہ کار اور ٹی وی ہوسٹ احمد قریشی کے ساتھ انٹر ویو میں اٹھائے اور جس کا اعادہ کاشف مرزا نے فروری 2016ء کو ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں کیا۔

سب سے پہلے کچھ اصولی سوالات: کیا کسی کی یک طرفہ کردار کشی کرتے پھرنا اور جان بوجھ کر نہ صرف حقائق مسخ کرنا، بلکہ جھوٹ کا سہارا لے کر مصنوعی ’’سچائیاں‘‘ تراشنا ایک قابل قبول عمل ہے؟ اور یہ بھی کہ کیا میڈیا کا کام انتشار پھیلانا اور محض اپنی ریٹنگ یا کسی نا معلوم ایجنڈے کی تکمیل کے لئے شر اور فساد پھیلانا رہ گیا ہے؟ کیا پاکستان کے میڈیا پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو ہوتا ہے یا کوئی بھی اٹھ کر کسی کی بھی پگڑی اچھال کر، کسی پر بھی غداری اور مذہب فروشی کا الزام لگا سکتا ہے؟

گزشتہ برس 26 دسمبر کو کاشف مرزا ایکسپریس نیز کے پروگرام ’’ایٹ کیو — ود — احمد قریشی‘‘ میں مدعو کئے گئے۔ میں نے کاشف مرزا کے تمام تر دلائل کو غور اور دلچسپی سے سنا، اور مایوسی سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی کوئی دلیل عقل و منطق کی کسوٹی پر پوری نہیں اتری۔ کاشف مرزانے آغاز ہی میں مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے جملے بول کر ملالہ یوسف زئی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے کچھ مواقع پر کاشف مرزا کو اپنے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے اکثر دلائل میں وزن نہیں، تاہم انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کاشف مرزا کو بولنے کا موقع فراہم کیا۔ دوسری طرف اپنے ذاتی ٹوئٹر ہینڈل پر بھی احمد نے کاشف مرزا کے دلائل کے بارے میں لکھا کہ ان میں سے کچھ دلائل کمزور ہیں۔ اگر احمد نے ملالہ کی کتاب از خود پڑھی ہوئی ہوتی، تو ہمیں یقین ہے کہ وہ کاشف مرزا کے تمام دلائل کو ہی کمزور سجھتے۔

AQ-Tweet

بہت مناسب ہو گا اگر ہم ان نام نہاد دلائل کا ایک جائزہ لے سکیں۔

احمد قریشی نے کاشف مرزا سے سوال کیا کہ آپ کو اس کتاب پر سب سے پہلا اعتراض کیا ہے، تو جواب میں کاشف مرزا نے فرمایا،۔

۔’’ایک مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ اہم ہے کہ میں سب سے پہلے یہ سوچوں کہ خدا تعالیٰ کی شان میں اس (ملالہ) نے کیا الفاظ استعمال کئے ہیں۔ گاڈ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، لفظ اللہ نہیں۔‘‘۔

ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہئے؟

God-Definition

گویا گاڈ کا لفظ جو انگریزی میں خدا تعالیٰ یا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس پر کاشف مرز کو اعتراض ہے۔ اس مضحکہ خیز اعتراض پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے، مگر ہم کاشف مرزا سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا انجیل مقدس کے وہ نسخے جہاں گاڈ ہی لکھا جاتا ہے، کیا خدا تعالیٰ کی شان میں کمی لانے کی غرض سے ہیں۔ کیا جب مسیحی برادری کے پیشوا پوپ فرانسس اپنے خطبات میں گاڈ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تو کیا وہ توہین ہے؟ اسی طرح کیا تورات یا زبور کے انگریزی نسخوں میں لکھا جانے والا لفظ گاڈ معیوب ہے؟ ہم کاشف مرزا سے ان کا فتویٰ حاصل کرنا چاہیں گے کہ انگریزی تراجم اور تفاسیر میں جب گاڈ کا لفظ لکھا جاتا ہے، تو کیا وہ خدا کی شان گھٹانے کی غرض سے ہوتا ہے؟ اصول ، چاہے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو، بہر حال اس کا اطلاق سب پر ہی ہونا چاہیئے۔ کیا یہ بات سمجھنا کوئی مشکل کام ہے کہ انگریزی قارئین کے لئے لفظ گاڈ ہی شناسا ہے۔

 یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کاشف مرزا نے یہاں صریحاََ جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملالہ کہ کتاب میں گاڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے (جس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں)، مگر ساتھ ساتھ کئی بار اللہ کا اسم مبارک بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ذیل میں ملالہ کی کتاب سے چند اقتباسات پیش کئے گئے ہیں، جن سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کاشف مرزا کے سب سے پہلے اعتراض میں کوئی سچائی نہیں کہ ملالہ کی کتاب میں اللہ کا اسم مبارک نہیں لکھا گیا۔

Allah I

Allah II

Allah III

Allah IV

ضمنی طور پر ہم کاشف مرزا کی اطلاع کے لئے ایک خبر بھی پیش کرتے چلیں، اور وہ یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ملائشیا کی ہائی کورٹ نے مسیحیوں پر اپنے چرچ کے اخبار میں لفظ اللہ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ گویا ایک طرف تو ہم اس پر معترض ہیں کہ غیر مسلم اللہ کا لفظ استعمال نہ کریں، دوسری طرف ہم بضد بھی ہیں کہ وہ اللہ کا لفظ پڑھیں۔

کاشف مرزا، ملالہ کی کتاب پر دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ کتاب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام مبارک کے ساتھ ’’کہیں بھی‘‘ درود و سلام نہیں لکھا ہوا۔

Glossary

یہ الزام بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے برابر ہے۔  کتاب کے پہلے ایڈیشن کی فرہنگ (گلاسری) میں واضح طور پر درودو سلام تحریر ہے۔ ہر وہ شخص جو کتب بینی کا شوق رکھتا ہو، اسے اس پبلشنگ روایت کا علم ہو گا کہ فرہنگ میں لکھی ہوئی بات کا اطلاق پوری کتاب پر ھوتا ہے، یعنی جب فرہنگ میں درود لکھا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کتاب میں جہاں جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر مبارک آیا ہے، وہاں وہاں درود لکھا ہی شمار کیا جانا چاھیئے۔ دوسری بات یہ کہ کتنے ہی مسلمان مصنفین جو مغربی ممالک میں ہماری مذہبی فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں، اسی روایت کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے قاری زیادہ تر غیر مسلم ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اپنے اسوہ حسنہ سے یہ مثال بھی موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدہ تحریر فرماتے ہوئے خود رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیئے تھے کیونکہ فریق مخالف اس پر معترض تھے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ کاشف مرزا اس بات کو سمجھ سکیں کہ چونکہ مغرب میں شائع ہونے والے ایڈیشن کے قاری غیر مسلم ہیں، تو پبلشر نے ان کی سہولت کا خیال کرتے ہوئے درود و سلام صرف فرہنگ میں ڈالنا مناسب سمجھا۔ واضح رہے کہ ملالہ اور ان کے والد بارہا اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ایسا ہر گز قصد اور ارادے سے نہیں، بلکہ پبلشر کی کوتاہی سے ہوا ہے۔ جب کتاب کے ابتدائی ایڈیشن کے بعد کے تمام ایڈیشنز میں اس کوتاہی کی تلافی کر دی گئی ہے، تو کیا اس بات پر لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا کوئی مناسب عمل ہے؟ ایک بات سامنے آئی، ا س کا ازالہ کر دیا گیا، اور وہ بات ختم ہو گئی۔ کیا ہمیں زمین پر ہی عدالت لگا کر دوسروں پر اپنا فیصلہ سنانا چاھیئے یا قرآن پاک کے اپنے حکم کے مطابق بدگمانی سے بچنا چاھیئے؟ اس بات کا جواب کاشف مرزا پر چھوڑا جا رہا ہے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ اضافہ کرنا بھی برمحل ہوگا کہ   شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے خطبات “تجدیدِ فکریاتِ اسلام ” میں بھی درود و سلام یا “پیس بی اپان ہم” نہیں لکھا۔ اس کی تصدیق ان کے خطبات کی انگریزی جلد سے با آسانی کی جا سکتی ہے۔ کیا کاشف مرزا حکیم الامت پر بھی اسی جذبے اور شدت سے معترض ہوں گے، جس شدت سے وہ ملالہ پر فتویٰ صادر کر رہے ہیں؟

Malala-apology

Hamid Mir 7 November 2013

Excerpt from Hamid Mir’s column, dated 7th November 2013

کاشف مرزانے مزید یہ بھی کہا کہ ملالہ کا تسلیمہ تسرین اور سلمان رشدی سے گٹھ جوڑ (نیکسس) ہے اور یہ کہ ملالہ رشدی کی متازعہ کتاب کی حمایت کرتی ہے۔ یہ نہایت سنگین الزامات ہیں جو کاشف مرزا کے اپنے ذہن کی پیداوارہیں، اور جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ کاشف مرزا اپنی دانست میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ تسلیمہ نسرین کے ساتھ ملالہ کی تصاویر موجود ہیں اور یہ بھی کہ تسلیمہ نسرین کا ملالہ کے نام خط بھی پایا جاتا ہے۔

آئیے اب ان اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ حقائق صاف ہو سکیں۔

کاشف مرزاجس ’’خط‘‘ کا حوالہ دے کر شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں، وہ ایک کھلا خط ہے جو تسلیمہ نسرین نے اپنی ویب سائٹ پر ملالہ کے نام لکھا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا میں اپنے بلاگ میں کاشف مرزا کے نام چار سطریں تحریر کردوں۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ کاشف مرزا اور میں ہم خیال ہو گئے ہیں؟ ہر صاحب مطالعہ شخص یہ جانتا ہے کہ کھلا خط اس صورت میں لکھا جاتا ہے، جب انسان دوسرے شخص سے متفق نہیں ہوتا اور اس تک اپنی رائے کسی عوامی فورم کے ذریعے پہنچانا چاہتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب ہم ایک نظر اس خط پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ یہاں کلک کرنے کی صورت میں آپ خط کو خود پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں تسلیمہ اپنے خط میں ملالہ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا نکتہ نظر پیش کررہی ہیں۔ جی ہاں! اختلاف کرتے ہوئے۔

صرف یہی نہیں، ذرا لگے ہاتھوں تسلیمہ کی لکھی ہوئی یہ تحریر بھی پڑھ لیں، جس میں وہ اس بات پر مایوسی کا اظہار کر رہی ہیں کہ یورپی یونین کی تقریب میں تسلیمہ کی موجودگی ملالہ کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ تسلیمہ کہتی ہیں کہ جب اس نے ملالہ کو ایوارڈ وصول کرنے کے بعد مبارک باد دی اور اپنا تعارف کرایا، تو ملالہ نے اس پر کسی گرم جوشی کا کوئی اظہار نہ کیا اور اس کا چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ اور اس بات نے تسلیمہ کو حیران اور مایوس کیا۔

M-17

جن ’’تصاویر‘‘ کا ذکر کاشف مرزا نے کیا، ان کی حقیقت بھی محض یہ ہے کہ یورپی یونین کی انسانی حقوق کے ایوارڈز کی تقریب میں سینکڑوں کی تعداد میں شرکاء میں ایک تسلیمہ بھی موجود تھی۔ اور جب بعد میں سٹیج پر گروپ فوٹو بنائی گئی تو اس میں تسلیمہ، ملالہ سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی، اور بس! ہر تقریب میں ڈھیروں افراد موجود ہوتے ہیں، ان میں کسی کی موجودگی پر اعتراض کرنا ایک بچگانہ سی بات ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اتنی سی بات کا کاشف مرزا نے کیسے افسانہ بنا ڈالا۔

Family picture with Sakharov laureats

یورپی یونین کی اس تقریب میں جرمنی کے سیاست دان اور یورپی یونین کے صدر مارٹن شلز بھی موجود تھے۔ یہ ایک افسوس نام بات ہے کہ پاکستان کی صحافت، چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو کہ برقی میڈیا، اکثر انتہا درجے کی غیر ذمہ داری اور اوچھے ہتھکنڈوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کی مثال آپ نیچے دی گئی تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرتے ہوئے مارٹن شلز کو سلمان رشدی کہہ کر جھوٹا پروپگنڈا کیا گیا۔ ضیاء شاہد، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں، یقیناً اتنے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ انہیں سلمان رشدی کی شکل و صورت تک کا علم نہ ہو، مگر دیکھئے کہ کس مہارت سے وہ جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں اور بغیر کسی خدا خوفی کے ایک نہتی، معصوم بچی پر اتنی بڑی تہمت لگا رہے ہیں۔

M-15

Roznama Khabrain 12-12-14

صرف یہی نہیں، ضیاء شاہد کی اس پر فریب رپورٹنگ کے بعد انہی کے روزنامہ خبریں اخبارمیں اگلے روز، یعنی تیرہ دسمبر 2014ء کو ان کے کالم نگار حامد جلال نے ایک نفرت انگیز اور الف سے یے تک جھوٹ پر مبنی کالم لکھتے ہوئے ضیاء شاہد کے  جھوٹ کے پودے کی مزید آبیاری کی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو میڈیا کس دیدہ دلیری سے جھوٹ اور پروپگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔

Khabrain-column

 راقم الحروف نے روزنامہ اخبار کے ایڈیٹر اور حامد جلال کو ای میلز لکھ کر انہیں حقائق بتائے اور ان سے اس غلط ترین انداز صحافت پر احتجاج کیا۔ یہاں اور یہاں کلک کر کے آپ ان میلز کو پڑھ سکتے ہیں۔ ان میلز کا کوئی جواب دیا گیا اور نہ ہی اپنی غلط ترین رپورٹنگ پر معذرت یا کم از کم اگلے ایڈیشن میں کوئی تصحیح کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ اس مملکت خداداد میں صرف جھوٹ کا سکہ چلتا ہے۔

اب اسی جھوٹ کا سہارا کاشف مرزا لے رہے ہیں۔ ہم س کے سوا انہیں کیا یاد دلا سکتے ہیں کہ کلام الٰہی میں جھوٹے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔

لگے ہاتھوں کاشف مرزا اور ان کے پیش رو یعنی اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کی اس دروغ گوئی کا جواب بھی دے دیا جائے کہ ملالہ کی کتاب میں سلمان رشدی کی حمایت کی گئی ہے۔ یہ اس قدر بے رحم بہتان ہے کہ لگتا ہے ان افراد کے دلوں میں خدا کا کوئی خوف نہیں رہا۔ اس پر مختصراََ یہ کہا سکتا ہے کہ ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔‘‘۔

مجھے اس موقع پر فروری 2008ء کی وہ دوپہر یاد آرہی ہے، جب مجھے عالمگیر شہرت کی حامل مفکر اور مصنف کیرن آرمسٹرانگ کا براہ راست لیکچر سننے کا موقع ملا۔ سن اسی کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے کیرن آرمسٹرانگ نے سلمان رشدی کے متنازعہ ناول کے حوالے سے ایک اہم بات کی، جو کچھ یوں تھی،۔

۔’’اس ناول کی اشاعت کے فوراََ بعد مسلم دنیا میں پر تشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اس کا تجزیہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اگرچہ اس عمل سے مسلم دنیا کا غم وغصہ تو دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے مگر اس سے مسلمانوں کے حق میں دور رس بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ناول کی اشاعت اور اس پر احتجاج کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کے لوگوں کا اسلام کے بارے میں تجسس بڑھا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے کتب خانوں کا رخ کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دانائی کا تقاضہ یہ تھا کہ اس شر انگیز ناول کے مقابلے میں مسلمان علماء اس موقع پر رسول اللہ کی سیرت اور اسلام کی تعلیمات پر کتب لکھ کر مغربی دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ جب (ناول کے رد میں) ایسی کوئی کتاب مغربی دنیا کے سامنے نہیں آئی تو میں نے از خود پیغمبر اسلام پر اپنی کتاب لکھنا شروع کی۔‘‘۔

Karen-Armstrong

ایک غیر مسلم مفکر کے پر خلوص اور فکر انگیز الفاظ سن کر لیکچر ہال کی دیواریں تالیوں سے گونج اٹھیں۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ کسی بھی مسئلے یا سانحے کے جواب میں انسان دو طرح کا رد عمل دکھا سکتا ہے۔ پہلا رد عمل جذباتی جب کہ دوسرا رد عمل تعقل یعنی فکر پر مبنی ہوسکتا ہے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے دوسرے رد عمل کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی بات میں وزن تھا۔

جب میں ملالہ کی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ملالہ کے والد نے بھی رشدی کے متنازعہ ناول کو ناپسندیدہ پایا۔ تاہم ان کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ کسی کے شر انگیزی پر مبنی ناول سے اسلام جیسے دین کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ کیوں نہ ہم قلم کا مقابلہ قلم سے کریں اور اس ناول کے جواب میں اپنی کتابیں لکھیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا وہ درست نہیں کہہ رہے؟

?

میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ رشدی کا پوسٹ مارڈرن فکشن پر مبنی یہ ناول انتہائی لغو اور سراسر شر انگیز تھا۔ اس کے نتیجے میں لازماََ مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہونا تھے اور ان میں غم وغصے کی لہر دوڑنا تھی۔ واضح رہے کہ رشدی کا ناول پاکستان میں بین کردئیے جانے کی بنا پر فروخت کے لئے میسر نہیں تھا، لہٰذا ایک عام پاکستانی کی اس کے مندرجات کے بارے میں معلومات محض اخباری کالمز یا سنی سنائی باتوں تک ہی محدود تھی۔ ملالہ کے والد کی ناول کا قلم سے مقابلہ کرنے کی تجویز ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جیسی کیرن آرمسٹرانگ کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ رشدی کی حمایت ہرگز ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ضیاء الدین یوسف زئی اس کے مقابلے میں جوابی کتاب لکھنے کی تجویز دیتے۔

یہاں ہم کاشف مرزا سے ایک آسان سا سوال پوچھنے کی جسارت کرنا چاہیں گے۔ آپ نے ملالہ کی کتاب سے اختلاف کیا، اور اس کے رد میں اپنی کتاب لکھی۔ کیا کوئی ذی عقل اس سے یہ نتیجہ نکال سکتاہے کہ آپ ملالہ کی کتاب کی حمایت کرتے ہیں، اس لئے آپ نے اس کے جواب میں اپنی کتاب لکھی؟ اگر نہیں، تو ضیاء الدین نے بھی تو رشدی کی کتاب کے رد میں یہی راستہ تجویز کیا کہ جوابی کتاب لکھی جائے۔

نیچے آپ کو اس کتاب کا ٹائیٹل دکھائی دے رہا ہو گا جو سلمان رشدی کے اہانت انگیز ناول کے جواب میں لکھی گئی۔ کیا کاشف مرزا کے نزدیک یہ جوابی کتاب لکھنے والے ڈاکٹر شمس الدین اور اس کتاب کا ترجمہ کرنے والے ڈاکٹر محمد مبارز بھی توہین رسالت کے مرتکب کہلائیں گے اور کاشف مرزا اس بات پر بضد رہیں گے کہ یہ اصحاب دراصل رشدی کی حمایت کرتے تھے، تبھی انہوں نے جوابی کتاب لکھی؟

Rebuttl to SR

تعصب اور تنگ نظری انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھا جاتی ہے۔ ایسا ہی کاشف مرزا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ احمد قریشی کے پروگرام میں کاشف مرزا اپنی طرف سے ملالہ پر ایک اور وار کرتے ہوئے ایک مضحکہ خیز الزام لگاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ملالہ کی کتاب کا اولین جملہ پاکستان اور اسلام مخالف ہے۔ پھر وہ اس جملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں،۔

۔’’اس نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان کی تخلیق راتوں رات ہوئی ہے، کوئی جرم ہوا ہے، اندھیرے میں ہوئی ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ وہ رات، لیلۃ القدر کی رات تھی۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پاکستان کی تخلیق کو اس نے کریٹی سائز (تنقید) کیا۔ آگے وہ کہتی ہے کہ اس پر حملہ دن دیہاڑے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے کتنے بچے ڈرون حملوں کے اندر شہید ہوگئے ہیں، ہمارے نوے ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔ اگر وہ کسی ڈرون حملے میں ماری گئی ہوتی، تو کیا ہم آج یہاں بیٹھ کر اس پر ڈیبیٹ کرتے؟‘‘۔

Midnight

کاشف مرزا اگر خود اپنا مذاق اڑوانا پسند کرتے ہوں، تو ہم ان کی دماغی کیفیت پر افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق آدھی رات کو ہونے کا ذکر ایک جرم ہے۔ پھر اپنی دوسری سانس میں فرماتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق لیلۃ القدر میں ہوئی۔ شاید وہ اس پر غور کرنا بھول گئے کہ لیل کا اپنا مطلب رات ہی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کس روحانی ذریعے سے ان تک یہ القاء ہوا کہ وہ لیلۃ القدر ہی تھی، رسول مہربان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرمان مبارک کے مطابق لیلۃ القدر رمضان المباری کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پائی جاتی ہے۔ کاشف مرزا کو یہ حق نہیں کہ وہ اس فرمان میں تحریف کرتے ہوئے اسے اپنی پسند کی ایک طاق رات میں محدود کریں۔ ضمنی طور پر ہم کاشف مرزا کو تاریخ کا ایک وہ رخ بھی دکھانا پسند کریں گے جنہیں کاشف مرزا جیسے ’’محققین‘‘ دنیا سے اوجھل رکھتے ہیں۔ بہت مناسب ہو گا اگر وہ کبھی قانون آزادیء ہند (انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ) کا مطالعہ کر لیں۔ وہاں پاکستان اور بھارت، دونوں نو مولود ریاستوں کے لئے یوم آزادی کی تاریخ پندرہ اگست 1947 ء تحریر ہے۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ آزادی کا اعلان نصف شب کو ہوا تھا، جب کیلنڈر پر اگلے دن کی تاریخ طلوع ہو چکی تھی۔

Indian Independence Act 1947

انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ملالہ نے یہ کیوں لکھا کہ اس پر طالبان کا قاتلانہ حملہ دن دیہاڑے ہوا۔ حیرانی ہے کہ جب ایک سانحہ ہوا ہی دن کے وقت ہے، تو اسے اور کیا کہا جائے؟ پھر کاشف مرزا اچانک موضوع بدلتے ہوئے ڈرون حملوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ کیا مدلل گفتگو اس طرح ہوتی ہے؟ پھر ستم یہ دیکھئے کہ ڈرون حملوں اور دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والے بچوں اور بے گناہ شہریوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ اگرچہ خود کو ایک نہایت دردمند انسان ظاہر کرتے ہیں، مگر انہیں ہرگز یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ دہشت گردوں اور تحریک طالبان پاکستان کے درندوں کی مذمت میں ایک لفظ ہی کہہ دیتے۔ اس کے برعکس ان کا سارا زور ان ظالموں کے ہاتھوں قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے والی ملالہ ہے، اور وہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ملالہ کو غدار اور مذہب مخالف ثابت کر کے اس پر قاتلانہ حملے کا نہ صرف جائز ثابت کریں بلکہ اس پر مزید حملے بھی کرائیں۔

سچ تو یہ ہے کہ انہیں دہشت گردوں یا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے کسی بچے سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کا اظہار ان کی اپنی زبان سے ادا ہوتے اس جملے سے ہی ہو جاتا ہے، جہاں وہ کہتے ہیں، ’’اگر وہ کسی ڈرون حملے میں ماری گئی ہوتی، تو کیا ہم آج یہاں بیٹھ کر اس پر پروگرام کرتے؟‘‘ یعنی وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بچے کسی توجہ کے حق دار نہیں۔ اور یہ کہ ملالہ کے خلاف ان کا بغض یہ ہے کہ وہ زندہ کیوں کر بچ گئی۔ دوسری طرف ملالہ ڈرون حملوں کے بارے میں جو رائے رکھتی ہے، اس کو امریکی صدر کے سامنے بیٹھ کر پوری دلیری سے بیان کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ یہ حوصلہ ہمارے حکمرانوں تک میں نہیں، جبکہ ملالہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کے باوجود اپنے دشمنوں پر ڈرون حملوں کی خواہش نہیں رکھتی۔

Malala-to-Obama

اگلے جملے میں کاشف مرزا کہتے ہیں، ’’کیا بہادری اس نے کی ہے؟ ملک سے بھاگ گئی۔ بھاگنے والوں کو بہادر نہیں کہتے۔ سکول کے اندر اے پی ایس کا واقعہ ہوا، میرے 144 شہداء کو (مار دیا گیا)۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں ان بچوں کو، ان ٹیچرز کو، جو شہید ہوئے اور جو غازی بھی بنے۔ وہ بچہ پھر اسی سکول میں آیا جس کو آٹھ گولیاں لگیں۔ یہ ہیں وہ بہادر جن کی وجہ سے پاکستان قائم ہے۔ یہاں پر اعتزاز احسن کو کبھی کسی نے ڈسکس کیا ہے، جس نے خود کش حملہ آور کو اپنی جان دے کر روکا۔‘‘ پھر اس سے اگلے جملے میں کاشف مرزا ایک بار پھر بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر یہ ڈرون حملے میں مرتی، تو کیا ہم اسے ڈسکس کرتے؟‘‘۔

لاشوں پر سیاست کرنا تو ہم دیکھتے، سنتے آئے ہیں، جو ہمارے چالاک دماغ سیاستدانوں کا وطیرہ ہے۔ کاشف مرزا کا کمال دیکھئے کہ وہ اپنی سیاست معصوم بچوں کی لاشوں پر چمکا رہے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان کو دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کی موت سے کوئی تسکین ملتی ہے، تبھی وہ بار بار ملالہ کے زندہ بچ جانے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ کس قدر ذہنی افلاس ہے کہ وہ اے پی ایس کے شہید طلباء اور اعتزاز احسن کو ملالہ کے مد مقابل کھڑا کر رہے ہیں۔ اور ملالہ کو بیرون ملک ٹھہرنے پر مطعون کرتے نہیں تھکتے۔ ’’ملک سے بھاگ گئی۔ بھاگنے والوں کو بہادر نہیں کہتے۔ ‘‘ کے الفاظ میں واضح طور پر زہر جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک سے ہجرت اور جلا وطنی کو کاشف مرزا جیسی ذہنیت ہی بھاگنا اور بزدلی قرار دے سکتی ہے۔ کاش کہ وہ یہ نہ بھولتے کہ تاریخ اسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تھی۔ کاشف مرزا کو یہ بھی خبر ہونی چاہیئے کہ اے پی ایس پر حملہ یا باچا خان یونی ورسٹی پر حملہ کرتے ہوئے دہشت گردوں نے پہلے ان بچوں کے نام دریافت نہیں کئے تھے کہ ان میں سے کسی خاص طالب علم کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کے بر عکس ملالہ پر قاتلانہ حملہ مکمل طور پر ملالہ کے اوپر ہی کیا گیا تھا، اور حملہ آور نے سکول وین کو روکنے کے بعد پہلے یہ دریافت کیا تھا کہ ان بچیوں میں ملالہ کون ہے۔ کاشف مرزا اگر اخبار پڑھتے ہوں تو انہیں یہ بھی خبر ہوتی کہ پہلے ناکام حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان بار ہا یہ دھمکی دے چکی ہے کہ وہ ملالہ پر ایک بار پھر قاتلانہ حملہ کرے گی۔ کاشف مرزا کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مطابق ملالہ (اور یہاں تک کہ اے پی ایس) پر حملہ قرآن اور سنت کے مطابق جائز ہے۔ افسوس کہ کاشف مرزا کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ دین کے ساتھ یہ بے رحمانہ سلوک کرنے والے دہشت گردوں کے لئے بھی مذمت کا ایک لفظ بول سکتے۔ الٹا ان کی خواہش ہے تو صرف یہ کہ اپنے سے تین گنا کم عمر کی ایک مظلوم لڑکی کو غدار ثابت کیا جائے اور طالبان کی بلا واسطہ حمایت کی جائے۔

اس کے بعد کاشف مرزا، ملالہ پر ایک اور بہتان لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملالہ نے بیرون ملک جا کر پاکستان کو گالیاں نکالی ہیں۔ پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے کاشف مرزا کی بات کاٹتے ہوئے واضح طور پرکہا کہ یہ الزام درست نہیں۔ اس پر کاشف مرزا جاوید چوہدری کے ملالہ کا لئے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’(ملالہ نے جاوید چوہدری کو کہا کہ) میں پاکستان کو کیوں برا کہوں، پاکستان پہلے ہی بہت بدنام ہو چکا ہے۔‘‘ پھر اسی سانس میں زہر اگلتے ہیں کہ ’’پاکستان اس (ملالہ) کی حرکتوں کے سبب بدنام ہو سکتا ہو گا۔ ‘‘ احمد قریشی نے کاشف مرزا کو یہاں بھی ٹوکتے ہوئے کہا کہ ملالہ نے اس رنگ میں کچھ نہیں کہا۔ اس پر کاشف مرزا اچانک ہی ایک نئے موضوع کو چھیڑ کر ملالہ کو افواج پاکستان کا مخالف ثابت کرنے کے لئے جھوٹ گھڑنے لگے۔

بہت ضروری ہے کہ حقائق سامنے رکھے جائیں اور جاوید چوہدری کے پروگرام میں ملالہ سے مکالمہ من و عن پیش کیا جائے۔ مکمل انٹرویو یہاں کلک کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

جاوید چوہدری: ’’سوشل میڈیا پر جب یہ کمپین چلی آپ کے خلاف، تو ایک سوال بار بار کیا گیا کہ ملالہ یوسفزئی کی وجہ سے پاکستان بہت بدنام ہوا۔ کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ کی وجہ سے پاکستان بدنام ہوا؟‘‘۔

ملالہ: حقیقت یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان پہلے سے ہی بہت زیادہ بدنام ہو چکا ہے۔ اورمیری کمپین کا یہ حصہ ہے کہ میں (دنیا کے) لوگوں کو بتاؤں کہ پاکستان کے لوگ کتنے پر امن ہیں۔ میں تو یہ کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کی رائے سب کے سامنے آ جائے۔ پاکستان کے لوگ دہشت گرد نہیں ہیں، بلکہ پاکستان کے لوگ امن چاہتے ہیں، وہ تعلیم چاہتے ہیں، وہ اپنی بچیوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو مزدوری کرتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اور یہی پاکستان کے اصل لوگ ہیں۔ ہم نے ان غریب، ان پر امن اور ان ایماندار لوگوں کی آواز آگے پہنچانی ہے۔اور یہی میرا کمپین ہے۔ ہم پاکستان کو بدنا م کبھی بھی نہیں کرناچاہیں گے، بلکہ ہم پاکستان کے لوگوں کی آواز آگے پہنچانا چاہتے ہیں۔ ‘‘۔

ایک مثال اکثر دی جاتی ہے کہ قرآن الحکیم میں یہ کہا گیا ہے کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اب اگر کوئی اٹھ کر کوئی یہ کہتا پھرے کہ اللہ تعالی ٰنے نماز کے قریب نہ جانے اور اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، تو آپ ایسے شخص کو کس نام سے پکاریں گے۔ ہم اب یہ صاحب انصاف لوگوں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود یہ پرکھ لیں کہ کاشف مرزا کے جھوٹ پر وہ کیا تبصرہ کرتے ہیں۔

اس کے بعد کاشف مرزا پینترے بدلتے ہیں اور ایک اور جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں، ’’آپ مجھے ایک بات بتائیں، اسے (ملالہ کو) بلڈ (پیش) کہاں سے کیا گیا؟ اس عبدالحئی کاکڑ نے بلاگ کے زریعے کیا نا؟‘‘ پھر فرماتے ہیں، ’’وہ جو بی بی سی کا بلاگر ہے، اس نے یہ ایک پلاننگ کے تحت کیا۔ اپنی کتاب میں وہ خود لکھتی ہے کہ میں بولتی تھی، اور وہ ٹیلی فون پر سن کر لکھتا تھا۔‘‘ پھر اس سے کاشف مرزا بڑے فخر سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’’اب اس(ملالہ نے) یہ مان لیا کہ وہ خود نہیں لکھتی تھی۔‘‘۔

یہ اس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ کاشف مرزا کو ہم پورے خلوص سے مشورہ دیں گے کہ وہ فوری طور پر کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کریں کیونکہ وہ اپنی سوچ سمجھ مکمل طور پر کھو رہے ہیں۔

اگر ایک ٹیچر خود اپنے ہاتھوں سے ایک مضمون لکھے، اور اگلے روز اپنی کلاس میں اس مضمون کو زبانی بولے تاکہ اس کے طلباء اس مضمون کو سن کر اپنی کاپیوں پر لکھیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ٹیچر نے مضمون نہیں لکھا؟ کاشف مرزا کی لغت میں تو ایسا ہی ثابت ہوتا ہے۔ حقیقت حال محض یہ ہے کہ سوات میں ملا فضل اللہ اور ان کے دہشت گرد عوام کا جینا حرام کئے ہوئے تھے، ایک طرف وہ اپنی غیر قانونی ریڈیو نشریات سے لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا، دوسری طرف وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو قتل کرواتا، اور روز سر بریدہ لاشیں سوات کی سڑکوں اور کھمبوں پر پڑی نظر آتیں۔ اپنی دہشت کا سکہ جمانے کے بعد ملا فضل اللہ نے حجام کی د کانوں اور لڑکیوں کے سکولوں کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ سوات کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، وہ فوج کو بلا رہے تھے، اور مولانا فضل الرحمان کی صوبائی حکومت ایسا ہونے نہیں دے رہی تھی۔ طالبان نے لڑکیوں کے سکولوں کو بند کر دیئے جانے کا الٹی میٹم دیا اور پھر سینکڑوں سکول اڑا دیئے۔ ان حالات میں بی بی سی نے سوات کے عوام کے زخم سامنے لانے کے لئے بلاگ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ عبدالحئی کاکڑ نے ملالہ کے والد (جو ایک صاحب کتاب دانشور اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تھے) سے اس سلسلے میں مدد مانگی۔ ملا فضل اللہ کے خوف سے کوئی بلاگ (ڈائری) لکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ ایسے میں ملالہ نے از خود اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آگے بڑھے گی۔ ملالہ نے محض گیارہ برس کی عمر میں اس کٹھن کام کا بیڑا اٹھایا اور بی بی سی کے لئے بلاگ لکھنا شروع کئے۔ ملالہ اپنی کتاب میں کہتی ہے کہ بار بار بجلی کا سلسلہ منقطع ہونے اور انٹرنیٹ کی فراہمی نہ ہونے کے سبب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ٹیلی فون پر اپنے بلاگ زبان سے لکھواتی۔ لہٰذا بی بی سی کے عبدالحئی کاکڑ، ملالہ کے گھر فون کرتے، اور ملالہ (کاغذ پر اپنی لکھی ہوئی تحریر) کو فون پر بولتی جاتی اور وہ لکھتے جاتے۔

Diary

کاشف مرزا اس واضح بات کو جس طرح غلط رنگ دے کر جھوٹ پھیلا رہے ہیں، اس سے واضح ہے کہ ان کی ہمدردیاں دراصل ملا فضل اللہ کے ساتھ ہیں اور انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ ملالہ نے اتنی بڑی دلیری کا کام کر کے طالبان کے ظلم و ستم بے نقاب کیوں کئے۔

احمد قریشی نے میزبان کی حیثیت سے نرم پیرائے میں کاشف مرزا کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ ایک انٹلکچوال ہے اور وہ ڈائری لکھنے سے پہلے بھی تقاریر کیا کرتی تھی اور انسانی حقوق کے لئے متحرک تھی۔ اس پر حسد کے مارے کاشف مرزا فرماتے ہیں کہ ملالہ کوئی انٹلکچوال نہیں، اور یہ کہ ’’(پرائیویٹ سکول) فیڈریشن ایک پیپر بناتی ہے، وہ (ملالہ) اسے پاس کر کے دکھا دے۔‘‘ پھر اس کے بعد ہاتھ نچاتے ہوئے پھر یہ تکرار کرتے ہیں کہ ’’جب وہ خود مان رہی ہے کہ لکھتا وہ تھا، تو پیچھے رہ کیا گیا؟‘‘ اس موقع پر احمد قریشی کے چہرے پر بیزاری اور جھنجھلاہٹ کے آثار نمایاں دکھائی دیئے۔ اقوام متحدہ میں دنیا بھر کے رہنماؤں کے سامنے مکمل اعتماد سے تقریر کرنے اور دنیا بھر میں اردو، پشتو اور انگریزی، ان سب زبانوں میں بہترین انٹر ویوز دینے والی ملالہ کو ایسی بات کہنے والے کاشف مرزا کی ذہنی ساخت کتنی پست اور نیچ ہے، اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد کاشف مرزاکہتے ہیں کہ چونکہ ملالہ کے والد کے لڑکیوں کے سکول تھے، اور ملا فضل اللہ نے لڑکیوں کے سکولوں کو دھماکوں سے اڑانے کی دھمکی دی تھی، لہٰذا ضیاء الدین صاحب کا بزنس خراب ہو رہا تھا، اس لئے وہ طالبان کے خلاف اٹھے۔

۔’’بزنس خراب ہو رہا تھا‘‘؟ افسوس کہ ایک ایسا شخص جو خود آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کا نہ صرف یہ کہ مرکزی صدر ہے بلکہ گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ کا سابقہ مشیرِ تعلیم بھی رہا ہے، کی بصیرت کا یہ حال ہے۔ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ سوات کے بچے، بچیاں تعلیم جیسے حق سے محروم ہو رہی تھیں اور وہاں فضل اللہ کے ظلم و ستم سے گھر گھر خوف کی فضا قائم تھی۔

اس کے بعد کاشف مرزا ایک نیا اعتراض گھرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس (ملالہ) کے باپ نے ایک ای میل کی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر ، جنرل عباس اطہر صاحب کو، کتاب میں اس نے لکھا ہوا ہے کہ میں نے اپنے گیارہ لاکھ روپے وصول کئے۔ کیوں وصول کئے بھئی؟‘‘۔

1.1 million

کاشف مرزا صاحب ! یا تو آپ کی بینائی میں کوئی سنگین مسئلہ ہے کہ آپ کو صرف اپنے مطلب کی بات دکھائی دیتی ہے اور اس کے آگے پیچھے کے جملے پڑھتے ہوئے آپ اندھے پن کا شکار ہو جاتے ہیں، یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ حسد اور نفرت میں اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ آپ کے دل میں خدا کا خوف نامی کوئی شے باقی نہیں رہی، اور آپ کا ضمیر جیتے جی مر چکا ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ 2009ء میں سوات میں آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد دربدر ہوئے اور سوات کا نظام زندگی برباد ہو کر رہ گیا۔ یہ آپریشن ملا فضل اللہ اور ان کے چیلے چانٹوں کے خلاف تھا، جن سے کاشف مرزا کو بظاہر نظریاتی ہمدردی ہے۔ ملالہ کے والد کے سکول بھی بند پڑے رہے۔ طالب علم جب سکول میں نہیں آرہے تھے تو ملالہ کے والد نے ان سے کوئی فیس وصول نہیں کی۔ البتہ آپ کو یہ فکر دامن گیر رہی کہ سکول کے اساتذہ کو تنخواہ کیسے ادا کی جائے۔ واضح رہے کہ کاشف مرزا خود پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ پرائیویٹ سکول والے سکول بند ہونے کے باوجود بھی اپنے طلباء کا خون چوستے اور فیسیں وصول کرتے ہیں، دوسری طرف اپنے ٹیچرز کو چھٹیوں میں شاید ہی تنخواہیں ادا کرتے ہوں۔ خیر، ملالہ کے والد ایک انسان دوست شخصیت ہیں اور وہ اپنے اسٹاف کے بارے میں فکر مند تھے، اور انہوں نے اپنے طلباء سے کوئی فیس بھی نہ لی۔ سوات میں آپریشن کئی ماہ تک جاری رہا۔ اس سے پہلے ایک ملاقات میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عباس اطہر نے ملالہ کے والد کو خود اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر یہ پیشکش کی تھی کی کسی ضرورت یا پریشانی کے موقع پر وہ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ضیاء الدین یوسف زئی صاحب نے عباس اطہر کو ای میل میں اس پریشانی کا ذکر کیا، جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ازراہ شفقت انہیں گیارہ لاکھ روپے دیئے، جس کو استعمال کر کے اساتذہ کرام کی مہینوں کی تنخواہیں وغیرہ ادا کی گئیں۔

یہ سب ملالہ کی کتاب میں واضح لکھا ہے مگر حسد اور نفرت انسان کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ دیتے ہیں، اور یہی کچھ کاشف مرزا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ صاف پتا لگ رہا ہے کہ وہ ملالہ اور اس کے والد سے کسی ذاتی رنجش اور کاروباری رقابت کا بدلہ لے رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ وہ طالبان کے نظریاتی ہمدرد بھی ہیں۔

احمد قریشی نے اس موقع پر کاشف مرزا سے سول کیا کہ آخر وہ ملالہ کے والد کے اس قدر خلاف کیوں بول رہے ہیں، اس کے جواب میں کاشف مرزا فرماتے ہیں،۔

۔’’میں ضیاء الدین صاحب کے اس لئے خلاف ہوں کہ کوئی انسان جو آئین پاکستان، پاکستان، اسلام کے خلاف ہے، جو غدار ہے، میں اس کے خلاف ہوں۔‘‘۔

اپنے جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی اعتراضات، جن کا پول ہم اس تحریر میں کھول ہی چکے ہیں، کے بعد جس انداز میں کاشف مرزا حب الوطنی اور ایمان کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے پھر رہے ہیں، اس سے ہمیں یورپ کے تاریک دور (ڈارک ایجز) کی یاد آرہی ہے جہاں مسیحی پیشوا لوگوں میں جنت کے سرٹیفیکیٹ بیچا کرتے تھے۔ لہٰذا غریب، غربا جنت کا ٹکٹ خریدنے میں ناکام رہتے اور گویا جہنم واصل ہو جاتے۔ مغربی اقوام نے اپنا سبق سیکھ لیا اور اپنی اصلاح کر لی، مگر افسوس کہ مملکت خداد کے نصیب میں کاشف مرزا جیسے نام نہاد دانشور آئے جو جہالت کا بیوپار کرتے پھر رہے ہیں۔

پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے بجا طور پر کاشف مرزا کو یہاں ٹوکتے ہوئے کہا کہ اس طرح کوئی کسی کو ذاتی ناپسندیدگی کی بنا پر غدار قرار نہیں دے سکتا۔ اور یہ کہ غداری ایک قانونی اصطلاح ہے اور اس کا فیصلہ صرف اعلیٰ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔ اس پر کاشف مرزا نے دو دلائل دیئے۔ ایک تو یہ کہ ضیاء الدین نے 1997ء میں پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر بازو پر کالی پٹی باندھی، جس پر عدالت نے ان پر جرمانہ کیا اور دوم یہ ان پر واپڈا نے بھی مقدمہ قائم کیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کاشف مرزامیں فکری بصیرت کی نہ صرف قلت بلکہ شدید قحط کی سی صورتحال ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زندہ معاشروں میں لوگوں کو اپنی رائے دینے اور پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نومبر 2007ء میں پاکستان میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا، تو میری یونی ورسٹی کے طلباء نے سیاہ پٹیاں باندھ کر حکومت سے احتجاج کیا (میں اس احتجاج میں شریک نہیں تھا، میں نے ہنگامی حالت کے نفاذ کی حمایت کی تھی، اور یہ رائے رکھنا میرا حق تھا)۔ مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ سیاہ پٹیاں باندھنے والے طلباء بھی اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے حکومت تک اپنی آواز پہنچا رہے تھے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف ہیں، ان کا شکوہ صرف حکومت سے تھا۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ قیام پاکستان سے اب تک غریب عوام ایک استحصالی نظام کی چکی میں پسے جا رہے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ قائد اعظم مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ الگ رکھنے کے قائل تھے۔ اس ریاست کی بنیاد میں وہ میثاق شامل ہے، جس کی زبان پاکستان کے بانی نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں دی۔ کیا پاکستان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قائد اعظم کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے کے بعد یوم آزادی پر منافقت کا مظاہرہ کر کے بڑے بڑے جشن منائے اوراپنی اصلاح کو تیار نہ ہوں؟

اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس بنا پر عید نہیں منا رہا اور نیا لباس نہیں بنوا رہا کہ اس ملک کے کتنے ہی لوگ غربت اور تنگ دستی کے مارے نیا جوڑا نہیں پہن سکیں گے، تو کیا کاشف مرزا اس سے یہ استنباط کریں گے کہ وہ شخص ایک اسلامی تہوار کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اگر نہیں، تو انہیں بدگمانی کرنے کی بجائے اچھا گمان رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ سیاہ پٹی پاکستان کے خلاف نہیں، بلکہ معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر تھی، اور بتانا یہ مقصود تھا کہ وہ جشن نہیں منا رھے۔ اور جشن نہ منانے کوہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں آزادی یا پاکستان سے محبت نہیں۔

افسوس یہ ہے کہ ملالہ اور اس کے والد کی حب الوطنی کو داغدار کرنے والے کاشف مرزا کو اسی کتاب میں یہ لکھا نظر نہیں آیا جہاں ملالہ کہتی ہے، “مجھے فخر ہے کہ ہمارا وطن، دنیا میں مسلمان ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔” رنج ہوتا ہے کہ کاشف مرزا کو کتاب میں یہ لکھا ہوابھی نظر نہیں آیا، جہاں ملالہ کہتی ہے، ’’میرے والد اضطراب کے عالم میں گھر لوٹے اور کہا کہ اگر لوگ سکول اور سڑکیں تعمیر کرنے کے لئے رضاکارانہ کام کریں اور دریاؤں سے پلاسٹک (اور کاٹھ کباڑ ) صاف کردیں، تو خدا کی قسم ہمارا ملک ایک برس میں ہی جنت جیسا ہوجائے گا۔‘‘ کیا آپ کو ان جملوں میں وطن سے پیار جھلکتا نہیں دکھائی دے رہا؟ کاشف مرزا کی نظروں سے ملالہ کا یہ جملہ بھی اوجھل رہا جہاں لکھا ہے کہ ’’میں نے ڈاکومینٹری بنانے والوں سے کہا کہ وہ (طالبان) مجھے نہیں روک سکتے۔ میں تعلیم حاصل کروں گی، چاہے گھر میں یا سکول میں یا کہیں بھی اور۔ میری دنیا سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے سکولوں کو بچائیں، ہمارے پاکستان کو بچائیں، ہمارے سوات کو بچائیں۔ ‘‘۔

I am Malala - III

اب آئیے کاشف مرزا کے ایک اور جھوٹ کی طرف ۔ موصوف فرماتے ہیں، ’’دوسرے جگہ وہ (ملالہ) لکھتی ہے کہ میرے باپ کے اوپر واپڈا نے میٹر ٹمپرنگ کا کیس کیا، اور اس پر جرمانہ ہوا۔‘‘۔

آیئے ذرا اس کی حقیقت بھی دیکھ لیں۔ ملالہ کی کتاب میں اس کی یاد داشتیں تحریر ہیں۔ ان میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ واپڈا کے میٹر ریڈر نے ضیاء الدین صاحب سے یہ بہانہ لگا کر رشوت طلب کی کہ میٹر درست نہیں ہے۔ ضیاء الدین صاحب نے عمدہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بے ایمان شخص کو رشوت دینے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں میٹر ریڈر نے انہیں لمبا چوڑا بل بنا کر بھجوا دیا۔ اس وضاحت کے بعد کاشف مرزا کا ایک اور دعویٰ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جاتا ہے۔

WAPDA

اس کے بعد کاشف مرزا کچھ جذباتی مگر حقائق سے عاری تقریر جھاڑ کر ملالہ اور ان کے والد کے ایک بار پھر پاکستان مخالف ہونے کی رٹ لگاتے ہیں۔ پھر سانس لیتے ہی یہ کہتے ہیں کہ ضیاء الدین صاحب کو پاکستان ہائی کمشن کے اتاشی کی حیثیت سے یہ بیان دینے کا حق کس نے دیا کہ پاکستان کو ہر حال میں شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنا پڑے گا۔

کاشف مرزا نے یہ دعویٰ کیا تو بہت طمطراق سے، مگر افسوس کہ وہ یہاں بھی مار کھا گئے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ بھی سچ نہیں۔ کاشف مرزا کے قبیلے کے کسی شخص نے مدتوں پہلے یہ جھوٹ میڈیا پر پھیلا دیا تھا، اور اس کے فوری بعد ضیاء الدین صاحب نے اس کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان سے منسوب ایسی تمام خبریں غلط اور جھوٹی ہیں۔

Fake propaganda Clarificaton by ZY

پھر کاشف مرزا فرماتے ہیں، ’’آپ مجھے بتائیں، وہ پاکستان کے خلاف اپنی بچی کو استعمال کر رہا ہے۔‘‘۔

فی الوقت تو اگر کوئی شخص ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے تو وہ کوئی اور نہیں، بلکہ کاشف مرزا خود ہی ہیں، جو کسی ایجنڈے کے تحت پاکستان کی ہونہار اور قابل فخر بیٹی کے خلاف ایک پر فریب مہم چلا رہا ہے، جو ممکنہ طور پر طالبان کے ایماء پر ہو رہا ہے۔

اس کے بعد کاشف مرزا احمد قریشی سے سوال کرتے ہوئے پوچھتے ہیں، ’’آپ میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کتنی بار امریکی سفیر سے براہ راست ملتے ہیں؟ یہ (ملالہ) کس حیثیت میں رچرڈ ہالبروک کو جا کر ملتی رہتی ہے؟‘‘۔

اس موقع پر احمد قریشی انہیں ٹوک کر فوراََ ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رچرڈ ہالبروک کے ساتھ جس ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ دراصل یونی سیف کے ایک پبلک اجلاس کے موقع پر لی گئی تصویر ہے جس میں رچرڈ ہالبروک (انسانی حقوق اور) این جی اوز کے نمائندگان کے ساتھ ملے اور یہ کہ وہ تقریب حکومت پاکستان اور دفتر خارجہ کی اجازت سے منعقد کی گئی تھی اور اس میں ملالہ (اور ان کے والد) نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے رچرڈ ہالبروک سے مدد کی استدعا کی تھی۔

M-18

یہ دیکھنے پر کہ ان کا یہ جھوٹ تو ایک دم ہی پکڑا گیا، کاشف مرزا نے بات کا رخ بدل کر ڈرون حملوں کا ذکر کرنا شروع کر دیا، جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ یہ سب اعتراضات جان بوجھ کر اور بدنیتی کے ساتھ کر رہے ہیں، اور جہاں چوری پکڑے جانے کا اندیشہ ہو، بات کا رخ بدل لیتے ہیں۔ کاش کہ احمد قریشی نے ملالہ کی کتاب کا از خود مطالعہ کیا ہوتا کہ ایسا ہونے کی صورت میں وہ یقینی طور پر ہر نکتے پہ کاشف مرزا کو ٹوک سکتے۔

پروگرام کے آخر میں احمد قریشی نے کاشف مرزا سے کہا، ’’ملالہ یوسف زئی، ایک چھوٹی بچی، جس کو گولیاں لگی ہیں، جس کی وجہ سے اس کا فیس (چہرہ) ڈس فگر (مسخ) ہو گیا، اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا ذرا سا۔ اس کے کمپیریزن (تقابل) میں آپ اپنی کتاب میں ۔۔۔ آپ کا کہنا ہے کہ آپ اس (ملالہ) کی کتاب سکول میں سلیبس نہیں بنا سکتا۔۔۔ مگر یہ بھی تو آپ دیکھیں نا۔۔۔۔ کہ آپ نے اس بیچاری بچی کی تصویر، جس میں اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا ہے، اس کے ساتھ ایک جانور کی تصویر لگائی ہے، جو میں نہیں دکھاؤں گا سکرین پہ۔۔۔ کیونکہ وہ بہت برا ہے۔‘‘۔

Qabeeh-Harkat

سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ کاشف مرزا اس اخلاق باختہ حرکت کی بھی مہمل توجیہات پیش کرتے دکھائی دیئے، اور بغیر کوئی شرمندگی دکھائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اس کا ذمہ دار بھی ملالہ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ملالہ نے اپنی کتاب میں جنرل ضیاء الحق کے لئے ’’پانڈا شیڈو آئیز‘‘ اور ملا عمر کے لئے ’’ون آئیڈ ملا‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں، اس لئے کاشف مرزا کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ ایسی پست حرکت کریں کہ ملالہ کے ساتھ کسی جانور کی تصویر جوڑ دیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ بزعم خود ایک دانشور یہ بات جاننے سے قاصر ہے کہ انگریزی زبان میں انگریزی اصطلاحت ہی استعمال ہوں گی۔ ملا عمر خود کو ملا ہی کہلواتے تھے، اور اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ وہ ایک آنکھ سے محروم تھے، ایسے میں انہیں انگریزی میں ’’ون آئیڈ ملا‘‘ نہ لکھیں تو کیا ٹو آئیڈ ملا کہیں؟ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکوں سے کون واقف نہیں۔ ایسے حلقوں کو پانڈا شیڈو آئیز ہی کہا جاتا ہے۔

کاشف مرزا پھر فرماتے ہیں، ’’اور میں ایک بات بتاؤں۔۔۔ یہ سوشل میڈیا پر ۔۔۔۔ یہ ہم نے نہیں کیا۔۔۔۔‘‘۔

احمد قریشی انہیں پھر احساس دلاتے ہیں کہ ایک ماہر تعلیم کو ایسی حرکت زیب نہیں دیتی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے احمد کے تاثرات واضح تھے کہ وہ ان مضحکہ خیز ’’دلائل‘‘ کو کس مجبوری سے برداشت کر رہے ہیں۔ کاشف مرزا نے اس موقع پر کہا، ’’یہ سوشل میڈیا پر آل ریڈی (پہلے سے) موجود ہے۔۔۔۔ یہ ہم نے نہیں لگائی۔۔۔‘‘۔

کمال است! یعنی کاشف مرزا کی فکری گہرائی اور گیرائی کا مزید اندازہ اس بات سے ہی لگا لیں کہ اپنی ہی شائع کردہ کتاب میں موجود ایک شے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ صاحب، ہم نے نہیں لگائی۔ اور پھر ڈھٹائی دیکھئے کہ کہتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا پر پہلے سے موجود ہے۔ گویا سوشل میڈیا پر پائی جانے والی مغلظات ان کے نزدیک کسی آسمانی سچائی کا نام ہیں۔

مجھے ذات طور پر مایوسی اور صدمہ تھا کہ میں، کاشف مرزا کی کسی ایک بات سے بھی متفق نہیں ہو پا رہا۔ مگر پروگرام کے آخر میں انہوں نے ایک ایسی خوبصورت بات کہی، جس میں ان سے مجھے کوئی اختلاف نہ تھا۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تحریر میں اس کا ذکر بھی کیا جائے۔ آپ نے کہا کہ ’’پاکستان زرخیز ہے۔ خواتین کا بہت اہم، وائٹل (بھرپور) رول (کردار) ہے۔۔۔ خواتین جو ہیں (وہ) مردوں سے زیادہ بہتر پرفارم کر رہی ہیں۔ ‘‘۔

زندہ باد! کیسی کھری اور سچی بات کہی تم نے۔ یقینی طورپر خواتین، مردوں سے بہتر پرفارم کر ہی ہیں۔ اس ضمن میں ملالہ سے بہتر مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟

پروگرام کے اختتام پر کاشف مرزا نے ملالہ اور ضیاء الدین صاحب کو ان الفاظ میں للکارا، ’’میں ملالہ کو، ضیاء الدین کو، اوپن چیلنج کرتا ہوں۔۔۔۔ کہ پوری دنیا میں۔۔۔ اس کو (اگر) ڈر لگتا ہے پاکستان آنے میں۔۔۔ میں پوری دنیا میں کسی بھی جگہ، جہاں وہ اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھتے ہیں، میں آنے کو تیار ہوں۔۔۔۔ وہ اپنی کتاب کے اوپر بھی، اور میری کتاب کے اوپر بھی، دونوں کے اوپر مجھ سے ڈیبیٹ کر لیں، اس کی سچائی کے اوپر۔۔۔ اور میں ان سے کہتا ہوں کہ میرا خون تم پر حلال ہے، اگر تم مجھے غلط ثابت کر دو۔‘‘۔

سچائی! کیا کہا، سچائی! واہ کاشف مرزا، آپ کی حس مزاح بھی خوب ہے۔ یہ لفظ کم از کم آپ کے ہونٹوں پر بہت اجنبی اجنبی سا لگ رہا ہے۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ جس ملالہ نے خود پر قاتلانہ حملہ کرنے اور کرانے والوں کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے درگزرکر دیا اور انہیں تعلیم حاصل کرنے اور امن کی راہ پر چلنے کی دعوت دی، کیا وہ ملالہ ، کاشف مرزا کا خون حلال کرے گی؟

احمد قریشی کے پروگرام میں آدھے گھنٹے تک ٹی وی سکرین پر دروغ گوئی اور نفرت کا پرچار کرنے کے بعد کاشف مرزا کے بھاگ ایک بار پھر جاگے اور 7 فروری کو انہیں ایک اوسط درجے کے اینکر، یعنی ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں اپنا زہر اگلنے کا موقع ملا۔ اب کی بار پہلے سے میچ فکس کرا لیا گیا تھا، یعنی ڈاکٹر دانش، کاشف مرزا کے تمام جھوٹ خوب مرچ مصالحہ لگا کراپنے پروگرام میں پیش کرنے کے لئے پوری طرح تیار یعنی اس جرم میں پوری طرح شریک کار تھے۔

ڈاکٹر دانش اپنے پروگرام کے آغاز میں کہتے ہیں، ’’یہ وہ ملالہ ہے، جس کے والد کا سوات میں پرائیویٹ سکولز کا کاروبار تھا۔‘‘۔

آپ کا تو مجھے معلوم نہیں، البتہ ڈاکٹر دانش کی زبان سے مجھے یہ لفظ ’’کاروبار‘‘ کوئی اچھا محسوس نہیں ہوا۔

اگلی سانس میں ڈاکٹر دانش سوال کرتے ہیں کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر ملالہ نے ایسا کیا کیا ہے کہ اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے؟

اگر کچھ لوگ یا ڈاکٹر دانش خود اس سے لاعلم ہیں تو بہت بہتر ہو گا کہ وہ پہلے اس پر تحقیق کر لیں۔ ان کی بے خبری اس بات کی گواہی نہیں ہو سکتی کہ ملالہ نے کچھ نہیں کیا۔ ان کی بے خبری ان کی اپنی جہالت یا تعصب کی علامت ہے۔

اگلے جملے میں ڈاکٹر دانش کہتے ہیں، ’’کل تک جو لڑکی کہتی تھی، میں وہ کلپ دکھاؤں گا۔۔۔ وہ کہتی تھی۔۔۔ کہ سم لَو ون، سم لَو ٹو۔۔۔ ایک پوئٹری (شاعری) وہ کر رہی ہے۔۔۔۔ آئی لَو ون، دیٹ از یُو۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے تو اس عمر میں یہ بھی نہیں پتا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ وہ ملالہ چند دنوں بعد پوری دنیا میں سپیچ (تقریر) کر رہی ہے۔۔۔۔‘‘۔

ڈاکٹر دانش کا مسئلہ یہ ہے کہ شاید انہیں انگریزی کی سمجھ نہیں، اس لئے ’’پوچھے کوئی الف تو اسے بے بتاتے ہیں‘‘ کی طرح انہیں ملالہ کی کہی بات کی سمجھ تو آئی نہیں، اس کے برعکس جو ڈاکٹر دانش کی عقل میں پڑا، وہ مکمل الٹ تھا۔ مگر اس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے جب ڈاکٹر دانش اپنے دعویٰ کو سچا کرنے کی غرض سے وہ کلپ دکھائیں گے جس میں وہ اپنی کہی بات ثابت کرنے کی ناکام کوشش کریں گے۔

پھر فرماتے ہیں، ’’اس کتاب کے اندر نظریہ پاکستان، اسلامی قوانین، اللہ، رسول اور ایٹمی، نیوکلیر پاکستان کا سٹیٹس، انسٹی ٹیوشنز، پاکستان کی آرمی، آئی ایس آئی اور دنیا بھر کی سٹیٹ منٹس اس کتاب میں موجود ہیں، جو ملالہ نے لکھی ہے۔۔۔ وہ ملالہ جسے چند دن پہلے تک یہ نہیں پتا تھا کہ محبت کس کو کہتے ہیں۔۔۔ میں دکھاؤں گا ۔‘‘۔

یہاں ڈاکٹر دانش نے دوسری بار وہی بات دہرائی ہے، مگر ہم اس کا جواب اپنے وقت پر دیں گے۔ ان کے جملے سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس مکارانہ طور پر ملالہ کو غداری اور توہین مذہب کے کیس میں فریم کرنا چاہ رہے ہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش اپنے مہمانوں کا تعارف کراتے ہوئے کاشف مرزا، فیاض الحسن چوہان اور اجمل وزیر کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ صاحبان ہیں جو ملالہ کے لئے بغض تو رکھتے ہی ہیں، مگر ساتھ ساتھ لا محالہ طالبان کے لئے بھی خصوصی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

پھر ڈاکٹر دانش، اپنی طرف سے ملالہ کی کتاب سے دانستہ طور پر سیاق و سباق حذف کر کے اپنی طرف سے کچھ ’’قابل اعتراض‘‘ اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر دانش ٹی وی سکرین پر کتاب کی سکرین شاٹس دکھانا شروع کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملالہ کو موذن کی آواز پسند نہیں اور وہ صبح اٹھنا پسند نہیں کرتی۔ بعد میں ڈاکٹر دانش ملالہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے ریپ کا شکار عورت پر ’’اسلامی‘‘ قانون کے مطابق چار گواہوں کی شرط پر تنقید کی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر دانش کہتے ہیں، ’’ اس نے اپنی کتاب کے پیج 24 پر اسلام کو لکھا ہے میلیٹنٹ اسلام (عسکری اسلام)۔ ‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دانش ملالہ کے والد پر تنقید کرتے ہوئے رشدی کے ناول کے مد مقابل کتاب لکھنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر دانش اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس کے بعد بڑی بات لکھی ہے اور وہ پیج 72 میں ہے۔‘‘ اس کے لئے ملالہ کی کتاب سے ایک صفحے کا عکس سکرین پر دکھاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ملالہ نے اس بات پر سوال اٹھایا ہے کہ خدا سب کچھ نہیں دیکھ پاتا۔ ڈاکٹر دانش یہ تبصرہ کرتے ہیں ’’میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جملے سے پریشان ہو گیا ہوں۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔ اور کیا یہ چیز ہے کہ کیا خدا سے بھی کوئی چیز مس (نظر انداز) ہو سکتی ہے؟‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دانش کہتے ہیں ’’اس کے بعد پیج 75 ۔۔۔۔ جس میں اس نے احمدیوں کا ذکر کیا ہے۔۔۔‘‘ پھر ڈاکٹر دانش اس صفحے کا عکس دکھاتے ہیں جس میں اس قانون پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ زیادتی (ریپ) کا شکار عورت کو چار مرد گواہ لانا پڑیں گے۔ ڈاکٹر دانش کے مطابق یہاں اسلامی قوانین پر اعتراض کیا گیا ہے۔

یوں کوئی آٹھ منٹ تک ملالہ کی مسلسل کردار کشی اور اس کی کتاب کو سیاق و سباق اور اصل متن سے ہٹا کر پیش کرنے کے بعد ڈاکٹر دانش اپنے مہمان یعنی کاشف مرزا کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں۔

کاشف مرزا نے اپنی مرضی کے ایمپائر کی موجودگی میں جھوٹ اور فریب سے تیار کردہ پچ پر اپنی بیٹنگ کا آغاز یوں کیا، ’’دیکھیں! اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کا احترام ہر مسلمان، مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ‘‘ اور پھر اس کے بعد یہ راگ الاپا کہ ملالہ کی کتاب میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اسی تحریر میں ہم پہلے ہی کاشف مرزا کی جعل سازی کا پول کھول چکے ہیں، لہٰذا اس کو دہرانا غیر ضروری ہے۔ ہم کاشف مرزا کو یاد دلانا چاہیں گے کہ سچ بولنا، مظلوم کا ساتھ دینا، اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور بدگمانی سے بچنا بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات ہیں، جن سے کاشف مرزا کا دور کا بھی واسطہ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہت مناسب ہو گا اگر وہ اپنے گریبان میں بھی جھانکنا سیکھیں۔

اب ہم آتے ہیں ان الزامات کی طرف جو ڈاکٹر دانش نے اپنی تمہیدی خطاب میں اٹھائے اور جن کو کاشف مرزا نے مزید آگے بڑھایا۔

ذیل میں ملالہ کی کتاب کا وہ اقتباس پیش کیا گیا ہے ، جس پر ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے یہ الزام لگایا ہے کہ ملالہ کو موذن کی آواز پسند نہیں۔ ’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔۔ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے‘‘ کے مصداق، یہاں ملالہ نے سرے سے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں۔ اس کے برعکس ملالہ سوات کی زندگی یاد کرتے ہوئے کہتی ہے، ’’مجھے نیند سے اٹھنا پسند نہیں، اور میں (صبح) مرغ کی بانگوں اور موذن کی اذان کے دوران بھی (گہری) نیند سوئی رہتی ہوں۔ ‘‘ پھر وہ بتاتی ہے کہ اسے پہلے اس کے والداٹھانے کی کوشش کرتے تھے اور بعد میں والدہ، یہاں تک کہ وہ اپنی نیند بھگا کر اٹھ جانے میں کامیاب ہو جاتی۔ چھوٹی عمر میں بچوں کی نیند پکی ہی ہوتی ہے اور ان کے لیے صبح اٹھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے، اور یہی بات اس جملے میں لکھی گئی ہے۔ میں اپنے قارئین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا اس میں ایک بھی لفظ قابل اعتراض ہے؟ یقینی طور پر نہیں، مگر کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش، چونکہ یہ ارادہ کر کے آئے ہیں کہ وہ ملا فضل اللہ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اور ملالہ کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ہی دم لیں گے، لہٰذا وہ مسلسل لوگوں کی مذہبی جذبات اکسا رہے ہیں۔

Getting up

اب آگے چلتے ہیں اور ایک مختصر نظر اس الزام پر بھی ڈال لیتے ہیں جہاں بقول ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، ’’اسلامی قوانین‘‘ کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ کوئی بھی عقل، فہم رکھنے والا شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین کو ہم انسان کے بنائے قوانین ہی سمجھیں گے اور کسی بھی مہذب معاشرے میں انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر غور کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاکہ اس میں بہتری لائی جا سکے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی اسی ’’جرم‘‘ کی پاداش میں شہید کر دیا گیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء کے قوانین پر نظر ثانی اور ان میں بہتری لانے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ یاد رہے کہ ان کی بھی پاکستانی میڈیا پر اسی طرح کردار کشی کی گئی تھی، جیسے یہ نام نہاد اینکرز آج ملالہ کی کر رہے ہیں۔ اس ضمنی تبصرے کے بعد ہم اپنے قارئین کو مولانا منور حسن (سابقہ امیر جماعت اسلامی) کا وہ فرمان یاد دلانا چاہیں گے جس میں موصوف نے اپنے ٹی وی انٹرویوکے دوران کہا کہ اگر کوئی لڑکی زیادتی کا شکار ہو جائے تو یا تو وہ چار گواہ پیش کرے یا پھر خاموشی سے اس سانحے کو نظر انداز کر کے چپکے سے اپنے گھر بیٹھ جائے۔ اس پر میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ کہنا مجرمین کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف نہیں اور یہ کہ عدل کا تقاضہ کیا ہے؟ اس پر مولانا منور حسن نے بڑی سہولت سے اپنے فرمان کو قرآن الحکیم کے احکامات کا عکس قرار دیتے ہوئے میزبان پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور اسے کلمہ پڑھ کردوبارہ اسلام قبول کرنے کا حکم دیا۔ یہ ہے وہ ملائیت، جو زہر بن کر ہمارے معاشرے میں سرایت کر گئی ہے، اور جس سے جس قدر جلد پیچھا چھڑا لیا جائے، اتنا ہی مسلم دنیا کے حق میں بہتر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنسی عصمت دری، جسے ریپ یا زیادتی کہا جاتا ہے، ایک قبیح جرم ہے اور ایسا جرم کوئی سرعام نہیں ہوتا کہ مظلوم عورت چار نیک، متقی، پرہیز گار اور صالح گواہوں کو عدالت میں پیش کر سکے۔ واضح رہے کہ اگر کوئی اتنا ہی نیک، پرہیز گار، متقی اور صالح شخص ہو گا تو کیا وہ آگے بڑھ کر جرم ہونے سے روکے گا نہیں؟ کیا ہم اسلام کو ایسا غیر منطقی اور انصاف سے دور سمجھتے ہیں کہ ایک تو کسی عورت کی زندگی برباد کر کے رکھ دی جائے اور اس کے بعد اسے یہ کہا جائے کہ وہ یا تو چار مرد گواہ پیدا کرے یا پھر چپ کر کے گھر میں بیٹھی رہے (اور مجرم معاشرے میں کھلے عام دندناتے پھریں اور اپنی حرکتیں جاری رکھیں)؟ دوسری طرف یہ بھی کہ اگر زیادتی کا شکار عورت مقدمہ درج کرانے جائے، تو انصاف دلانے کی بجائے الٹا اسی کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے کہ وہ اس ’’جرم‘‘ کا اعتراف کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ جنسی فعل ہوا ہے۔ کیا کوئی ذی شعور اس طرح کے قانون کو عدل کے مساوی تصور کر سکتا ہے؟ افسوس کہ ڈکٹر دانش، کاشف مرزا اور مولانا منور حسن کی مذہبی اور عورت مخالف فہم کے مطابق یہ ’’اسلامی‘‘ قوانین ہیں۔ واضح رہے کہ ضیاء الحق کے حدود قوانین کی رُو سے زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو چار مرد گواہ پیش کرنا لازم ہیں۔ اور اگر آپ ہمارے نام نہاد علماء سے فتاویٰ حاصل کریں تو وہ چار مردوں کی شرط سے بھی مطمئن نہیں ہیں، بلکہ کہتے ہیں کہ ان چاروں نے جنسی فعل ایسے ہی سرزد ہوتا دیکھا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی داخل ہوتے دیکھی ہو۔ گویا ریپ کا شکار عورت اس دنیا میں تو کسی صورت انصاف نہیں پا سکتی، الٹا اسے خود سزا دے دی جاتی ہے کہ وہ جنسی فعل کا اعتراف کر رہی ہے۔

یہاں ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے مطالعے اور غور و فکر کے مطابق قرآن الحکیم میں چار گواہوں کی شرط کا تعلق ہرگز ریپ کا شکار عورت کے لئے نہیں ہے۔ ذیل میں ہم سورۃ النور کی آیت کو پیش کر رہے ہیں جہاں چار گواہوں کا ذکر ہے۔ ہم  قارئین سے پوچھتے ہیں کہ یہاں کہاں پر زیادتی کی شکار عورت کا ذکر ہے؟ یہاں تو یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی پاکباز عورت پر کوئی اٹھ کر بدکاری کا الزام لگا دے، تو الزام لگانے والا چار گواہ پیش کرے۔

Surah-Al-Noor

اسی طرح اب ایک نظر سورۃ النساء کی آیت بھی دیکھ لیتے ہیں جہاں چار گواہوں کا ذکر ہے۔ یہاں اُن خواتین کی بات ہو رہی ہے جو بدکاری میں ملوث ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادتی کا شکار عورت ایک مظلوم عورت ہے، اسے بدکار تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا سورۃ النساء کی اس آیت میں بھی ریپ کا ذکر نہیں ہے۔ اس آیت میں بھی یہ امکان کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بھی اٹھ کر کسی عورت کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے، ماسوائے اس کے کہ وہ چار گواہ پیش کر سکے۔

یہ آیات ہماری سمجھ کے مطابق تو خواتین کو کسی جھوٹے الزام سے بچانے اور ان کی معاشرے میں حفاظت یقینی بناتی دکھائی دیتی ہے، جب کہ مولانا منور حسن اور حدود قوانین اسے خواتین کے ساتھ ظلم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے مذہبی دانشور اپنے نفس کی پیروی میں کلام الٰہی کی تشریح میں ملاوٹ سے بھی باز نہیں آتے۔

Surah An-Nisa

اب باری آتی ہے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے اس اعتراض پر کہ ملالہ کی کتاب میں ’’میلیٹنٹ اسلام‘‘ کی اصطلاح کیوں استعمال ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں صرف ایک جگہ پر یہ اصطلاح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں جہاں جہاں اسلام کی تعلیمات کا ذکر آیا ہے، وہاں صرف اسلام ہی لکھا گیا ہے۔ میلیٹنٹ یا عسکری اسلام کی اصطلاح ملالہ کی ایجاد کردہ نہیں، بلکہ یہ تو وہ اصطلاح ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا میں مستعمل ہے۔ اس سے مراد اسلام جیسے جامع اور وسیع القلب دین کی ایسی تنگ نظر اور لہو میں لتھڑی ہوئی غلط تعبیر اور تشریح ہے، جسے دنیا بھر کی مسلمان عسکری تنظیمیں اپنے اپنے مفادات کے فروغ کے لئے پیش کر تی ہیں۔ چاہے وہ بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، فضل اللہ جیسے ظالم ہوں یا بوکوحرام یا داعش کے دہشت گرد، یہ سب جس ’اسلام ‘ کے نام پر کشت و خون کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام نہیں، بلکہ ان کا اپنا مسخ شدہ یعنی عسکری اسلام ہے۔

اس وضاحت کے بعد اب باری آتی ہے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے ایک مضحکہ خیز اعتراض کی طرف، جس میں ڈاکٹر دانش نے یہ الزام لگایا، ’’میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جملے سے پریشان ہو گیا ہوں۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔ اور کیا یہ چیز ہے کہ کیا خدا سے بھی کوئی چیز مس (نظر انداز) ہو سکتی ہے؟‘‘۔

افسوس ہے ان صاحبان کی ذہنیت پر جو ہر شے کو اپنی تنگ نظر کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اس الزام کا جواب دیں، ہم ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے سامنے علامہ اقبال کے کچھ اشعار رکھنا چاہیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ کیا وہ علامہ اقبال پر بھی اللہ کی توہین کا الزام لگائیں گے کہ نہیں! اگر نہیں، تو وہ نہتی ملالہ کے معاملے میں داروغہ بن کر کیوں سامنے آ رہے ہیں؟

ذرا علامہ اقبال کا یہ قطعہ دیکھئے:۔

Iqbal-one

کیا ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا اس بات پر بھی ہنگامہ مچائیں گے کہ اقبال نے اللہ تعالیٰ کو بخیل کہا اور یہ کہا کہ تو ایسا ساقی ہے جس کا پیمانہ خالی ہے؟

لگے ہاتھوں ذرا اقبال کی شہرہ آفاق نظم شکوہ کا یہ شعر بھی دیکھ لیجئے:۔

Iqbal-two

ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کیا اقبال پر بھی فردِ جرم لگائیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہرجائی کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں؟

اقبال کے کلام میں سے ایسی بہت سی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں ، مثال کے طور پر ایک مقام پہ وہ اللہ سے کہتے ہیں کہ تیرا نقش (تخلیق آدم) باطل نکلا۔

Iqbal-three

اور

Iqbal-four

اگر اقبال کی زندگی میں کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش جیسے صاحبان موجود ہوتے اور اگر اس دور میں بھی فضل اللہ جیسے ’میلیٹنٹ اسلام‘ کے نمائندگان موجود ہوتے، تو اقبال بھی کسی خود کش کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے۔ اور اگر اقبال کے دور میں ضیاء الحق کا سکہ چل رہا ہوتا تو اقبال ملاؤں سے اپنی جان پچاتے پھر رہے ہوتے اور ان پر بلاسفمی یعنی توہین مذہب کا مقدمہ چل رہا ہوتا اور وہ کسی روز سلمان تاثیر کی طرح کسی اندھی گولی کا نشانہ بن چکے ہوتے اور ان کا قاتل یہاں قوم کے ایک بڑے طبقے کا ہیرو ہوتا اور اس کا مقدمہ ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب لڑ رہے ہوتے اور عدالت میں اس پر گل پاشی ہو رہی ہوتی۔

امید ہے کہ ڈاکٹر دانش، کاشف مرزا اور ان کے ہم نوا کم از کم اقبال کے معاملے میں اپنی تنگ نظری اپنے تک ہی رکھیں گے۔ یقینی طور پر اقبال ایک نابغہ روزگار اور عظیم شخصیت ہیں اور کسی طور انہوں نے کوئی توہین نہیں کی۔ اس کے برعکس یہ شاعرانہ سچائی (پوئٹک ٹرتھ) کی مثالیں ہیں، جس میں شاعر اپنی بات ایک نئے پیرائے میں پیش کرتا ہے۔

اب ہم آتے ہیں ملالہ کی کتاب کے اس اقتباس پر جسے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے خوب اچھالا اور ملالہ کی کردار کشی جاری رکھی۔ میرے مطابق وہ اس کی کتاب کا ایک خوبصورت اور پر اثر حصہ ہے، جس پر سمجھ بوجھ سے عاری یہ صاحبان بے کار میں انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملالہ کی عمر محض آٹھ، نو سال ہے اور وہ اپنے ارد گرد لوگوں کو مشکلات سہتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ایک بچے کا سہارا اس کے والدین ہوتے ہیں، اور جب ملالہ نے دیکھا کہ اس کے والد بھی بے بسی سے حالات کو دیکھ رہے ہیں اور غمزدہ ہیں تو اس نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ اس کے پاس سوائے اس کے اور کوئی حل نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتی۔ لہٰذا اس نے کاغذ، قلم پکڑا اور اللہ تعالیٰ کے نام خط لکھا،۔

Letter

۔’’پیارے اللہ! میں جانتی ہوں کہ آپ سب کچھ دیکھتے ہیں۔۔۔ مگر بہت کچھ ایسا ہے جو نظر انداز ہو رہا ہے۔۔۔ خاص طور پر افغانستان پر بموں سے حملے۔۔۔۔ لیکن میں نہیں سمجھتی کہ آپ میری سڑک پر کوڑے کے ڈھیر پر زندگی گزارنے پر مجبور بچوں کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔۔۔۔ اے خدا! مجھے طاقت اور ہمت دے اور مجھے کامل بنا دے کیونکہ میں اس دنیا کوبہتر بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ ملالہ۔‘‘۔

یہ دعا کرنے کا کیسا خوبصورت انداز ہے، جس کے حرف حرف سے خدا اور انسانیت سے محبت جھلک رہی ہے۔۔۔۔ اور دوسری طرف ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا بضد ہیں کہ اس میں سے توہین کا پہلو نکالا جائے۔۔۔ جس طرح خوبصوتی اصل میں دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے، ویسے ہی بری سوچ ملالہ کی کتاب پڑھنے والے کے دماغ میں تو ہوسکتی ہے، کتاب میں ایسا کچھ نہیں۔

اب لگے ہاتھوں اس سنسنی خیز الزام پر بھی ایک نظر کہ ملالہ کی کتاب میں احمدیوں کی حمایت کی گئی ہے۔

صورت یہ ہے کہ پوری کتاب میں احمدیوں کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے، اور وہ بھی ایک اقلیت کے طور پر۔ ملالہ لکھتی ہے، ’’ہمارے ہاں دو ملین کے قریب مسیحی اور دو ملین سے زیادہ احمدی رہتے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں جب کہ حکومت انہیں ایسا نہیں مانتی۔‘‘۔

They say

میں اپنے قارئین سے جاننا چاہوں گا کہ اس جملے میں کون سی خلاف واقعہ بات لکھی گئی ہے؟ 1974ء میں ایک آئینی ترمیم کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، جب کہ وہ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی، یعنی ابھی تک خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔ اب چاہے کوئی انہیں ایسا تسلیم کرے یا نہ کرے، یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ یہاں برسبیل تذکرہ ایک مثال ذہن میں آ گئی۔ القرآن الحکیم میں سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ انہیں برا نہ کہیں جنہیں مشرکین خدا کے سوا مدد کے لئے پکارتے ہیں کہ لامحالہ وہ جوابی طور پر اللہ کو برا نہ کہنا شروع کر دیں (کیونکہ وہ اپنی طرف سے جنہیں مدد کے لئے پکارتے ہیں، انہی اپنا معبود ہی سمجھتے ہیں)۔ ہم ڈاکٹردانش اور کاشف مرزاسے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا وہ اس آیت سے یہ استنباط کریں گے کہ معاذ اللہ، قرآن الحکیم میں مشرکوں یا ان کے معبودوں کی حمایت کی گئی ہے؟

ضمنی طور پر ہم یہ اضافہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سبز خزاں بلاگ مذہب کو سیاست میں ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا مخالف ہے اور وہ تکفیر کے عمل کو امت مسلمہ کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں سمجھتا۔

پروگرام میں آگے چلتے ہیں تو ڈاکٹر دانش کی بھرپور آشیر باد سے کاشف مرزا پورے زورو شور سے ملالہ اور اس کے والد کی کردار کشی جاری رکھتے ہوئے وہی الزامات دہراتے ہیں جو اس سے پہلے وہ احمد قریشی کے پروگرام میں بھی پیش کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر کاشف مرزا کہتے ہیں، ’’بنیادی طور پر ملالہ اوراس کا باپ سلمان رشدی سکول آف تھاٹ کے پیروکار ہیں۔ آپ تسلیمہ نسرین کے ساتھ اس کی تصویریں دیکھ لیں۔‘‘۔

ہم اس جھوٹے الزام کا تفصیلی جواب اس تحریر میں پہلے ہی بہت وضاحت سے دے آئے ہیں، لہٰذا پھر دہرانے کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اپنا مکروہ پروپیگنڈا جاری رکھتے ہیں اور احمد قریشی کے پروگرام والے الزامات کی تکرار کرتے ہیں۔ کاشف مرزا، ایک بار پھر وہی راگ الاپتے ہیں کہ ملالہ نے یہ کیوں لکھا کہ یہ ملک نصف شب کو بنا؟ پھر کاشف مرزا اپنی پست سوچ کا اظہار ایک بار پھر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ اگر ملالہ ڈرون حملے میں ماری جاتی، تو وہ اس پر پروگرام نہ کر رہے ہوتے۔ گویا ملالہ کا زندہ بچ جانا، جو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے، پر کاشف مرزا کو سخت رنج ہے۔

پھر کاشف مرزا ان الفاظ میں اپنی دماغی ابکائی کرتے ہیں ، ’’ملالہ اور اس جیسے غدار تو ہوں گے۔۔۔‘‘۔

کوئی نیا الزام نہیں، مذہب کی دنیا میں کسی کو نیچا دکھانے کے لئے کفر کے فتوے اور قومیت پرستی کی دنیا میں دوسروں کو غدار قرار دینا ہمارے معاشرے کا قومی مزاج ہے۔

ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، اس بات پر معترض ہیں کہ ملالہ کی کتاب میں یہ شکوہ کیوں کیا گیا ہے کہ سوات میں طالبان اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر افواج پاکستان ان سے بے خبر رہیں۔ ڈاکٹر دانش کا کہنا ہے کہ یہ اداروں کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان صاحبان کے نزدیک افواج پاکستان اور آئی ایس آئی (جنہیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں راقم الحروف کی مکمل حمایت حاصل ہے) کی مثال کسی ایسی دوشیزہ کی سی ہے، جس پر کسی نے کوئی آواز کس دی یا کسی پرائے کی نظر پڑ گئی تو اس سکی بے حرمتی ہو جائے گی اور وہ چھوئی موئی کی طرح مرجھا جائے گی۔ لگے ہاتھوں ہم ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کو یہ مفت مشورہ دینا چاہیں گے کہ کبھی ہمت کر کے سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا وہ انٹرویو بھی سن لیں جو انہوں نے گزشتہ برس الجزیرہ چینل پر مہدی حسن کو دیا۔ اس کے مندرجات یہاں لکھنے کا موقع نہیں، البتہ اگر ڈاکٹر دانش کو اس قدر اداروں کی بے حرمتی کی فکر لاحق ہے تو ذرا ایک جملہ اسد درانی کی شان میں بھی بول کر دکھائیں۔ جی، صرف ایک جملہ! ہم ان سے پورا پروگرام کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ اور ہاں، ذرا اس بیان پر بھی اپنا تبصرہ فرما دیں جو ملک کی داخلی سلامتی پر انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے سینٹ کی داخلی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے دیا کہ ضیاء الحق کے اثر سے نکلنے میں دس برس لگیں گے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا اس بات پر کیا فرمائیں گے جو سابقہ ڈائرکٹر جنرل آئی ایس پی آر عباس اطہر نے فوجی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کی کہ طالبان کے خلاف جنوبی وزیرستان آپریشن کئی برس پہلے ہی ہو جانا چاہئے تھا۔ لگے ہاتھوں یہ ملالہ مخالف صاحبان ذرا ایک سابقہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ پر بھی تبصرہ کرتے چلیں جس میں وہ اپنے ہی ادارے کے بارے میں نازیبا باتیں لکھ چکتے ہیں۔ اور ہاں، پاکستان میں آگ اور خون کی ندیاں بہانے والے، خود کش حملوں کا ایک ہولناک سلسلہ شروع کرنے والے اور اے پی ایس اور باچا خان یونی ورسٹی پر حملے کرنے والی ٹی ٹی پی کے سرغنوں یعنی پہلے بیت اللہ محسود اور بعد میں ملا فضل اللہ کو جس ٹاپ سیکورٹی آفیسر نے محب وطن قرار دیا، ذرا اس کا نام بھی کسی سے معلوم کرلیں۔ ایک اٹھارہ سالہ نہتی لڑکی پر اوچھے وار کرنا تو بہت آسان کام ہے مگر اگر اداروں کی حرمت اتنی ہی نازک شے ہے اور خطرے میں پڑی ہے، تو درج بالا شخصیات پر بھی ایک تنقیدی پروگرام کرلیں۔

نہیں صاحب! یہاں آپ کے پر جلنے لگیں گے۔

ایک اعتراض جسے بڑی شد و مد کے ساتھ دہرایا گیا، وہ ملالہ کی کتاب میں کرسٹینا لیمب کی بطور شریک مصنف موجودگی ہے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے یہ رٹ لگائی رکھی کہ کرسٹینا لیمب پاکستان اور اسلام مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے وغیرہ۔ ہم ان کو یاد دلانا چاہیں گے کہ کرسٹینا لیمب نے کتاب میں واضح طور پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ، کرنل عابد علی عسکری، میجر طارق اور آئی ایس پی آر کی ٹیم کا کتاب لکھنے کے لئے اپنی پاکستان آمد پر بھرپور شکریہ ادا کیا ہے۔ کیا ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، ان باوردی صاحبان بالخصوص ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کو بھی اس ’’ملک اور اسلام دشمن‘‘ سازش میں شریک کار گردانیں گے؟

Lamb

اپنے پروگرام میں آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر دانش ایک ویڈیو کلپ چلاتے ہیں، جس کا ذکر وہ پروگرام کے شروع میں بھی کر چکے تھے۔ اس کلپ کو چلانے سے پہلے وہ ملالہ کے والد کو غدار کہتے ہوئے یہ سلائیڈ چلاتے ہیں۔

Slide-PROPAGANDA

اس سلائیڈ کے بعد ڈاکٹر دانش 2009ء کی ایڈم بی ایلک کی بنائی ہوئی ڈاکومنٹری ’’کلاس ڈس مسڈ‘‘ (جماعت برخواست) کا ایک مختصر سا کلپ چلاتے ہیں ۔ سلائیڈ میں کئے گئے دعویٰ کے برخلاف کمرے میں نہ تو کوئی کرسی موجود ہے اور نہ ہی کرسی یا کرسی نما کسی بھی چیز پر کوئی جائے نماز۔ ہاں، فرش پر چٹائی سی پڑی دکھائی دے رہی ہے جو لامحالہ نماز ہی کے لئے ہوگی۔ اس کے علاوہ کیمرہ فرش پر جلی ہوئی سگریٹ کے ٹکڑے پر جاتا ہے۔ ضیاء الدین صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ ان کی غیرموجودگی میں کس نے سکول اور اس کمرے کو استعمال کیا، مگر جو کوئی بھی یہاں تھا اس نے صفائی کا خیال نہیں رکھا۔‘‘ امکان ہے کہ اس وقت کمرے میں سگریٹ کی بد بو بھی بسی ہوئی ہوگی۔۔کلک

کاشف مرزا کا فرمانا ہے، ’’جس وقت اس (ملالہ کے والد) نے کہا کہ جو لوگ یہاں رہے، وہ بہت ڈرٹی تھے(ترجمہ)۔۔۔ تو وہ کیا ڈرٹی (گندے) تھے؟ وہ جائے نماز بچھی ہوئی تھی۔۔۔ اس کمرے کو مسجد کا درجہ دیا ہوا تھا۔۔۔ جو اس نے بکواس کی ہے کہ وہ ڈرٹی تھے۔۔۔۔‘‘۔

کاشف مرزا یوں تو ماشاء اللہ کافی وسیع الجثہ اور فربا شخصیت ہیں، مگر اس المیے کو کیا نام دیا جائے کہ ان کی سوچ اسی قدر چھوٹی ہے اور اس سوچ میں فہم بالکل ہی ناپید ہے۔ یہ بات تو انہوں نے چٹائی کی موجودگی میں بظاہر درست ہی کی کہ اس کمرے کو مسجد کا درجہ دیا ہوا تھا، مگر انہیں یہ سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کمرے کو اگر مسجد کا درجہ دیا گیا تھا تو وہ خود ملالہ کے والد نے دیا تھا۔ ہم کاشف مرزا کو یہ بتانا چاہیں گے کہ عام طور پر ہر ادارے میں ایک چھوٹا کمرہ عبادت کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے، جہاں چٹائی بچھی رہتی ہے۔ ہماری سمجھ کے مطابق ایسا ہی ملالہ کے والد کے سکول میں بھی ہوا۔ مگر سکول بند ہونے کی صورت میں جس کسی نے بھی سکول میں داخل ہو کر وقت گزارا (اور وہ فضل اللہ کے دہشت گرد طالبان بھی ہو سکتے ہیں)، وہ اتنے بد اخلاق تھے کہ عبادت کے لئے مختص جگہ پر سگریٹ (نشہ آور شے) استعمال کر کے انہیں اسی مسجد کے فرش پر پھینک کر چلتے بنے۔ لہٰذا ملالہ کے والد کی مایوسی اور غصہ بجا تھا کہ یہاں جو کوئی بھی رہا، اسے صفائی کا کوئی پاس نہ تھا۔

اب ایک مختصر سا تبصرہ اسی کلپ کے دوسرے حصے کا۔ ملالہ وہاں پڑی ایک کاپی اٹھا کر کھولتی ہے اور پڑھتی ہے کہ اس پر کسی نے یہ لکھا ہے کہ وہ پاکستان کی فوج سے ہے اور یہ کہ اسے اپنے سپاہی ہونے پر فخر ہے۔ ملالہ کہتی ہے کہ اس شخص کو تو سولجر کے درست سپیلنگ بھی نہیں آتے۔ وہ بولتی ہے کہ اس نے ایس۔او۔ایل۔جی۔آر لکھا ہوا ہے۔ پھر ملالہ اس کاپی کے ورق پلٹتی ہے، تو وہاں اسے اسی شخص کی (جو سکول بند رہنے کے دوران اندر داخل ہو کر اپنے ساتھیوں سمیت ٹھہرا رہا) ایک اور تحریر ملتی ہے۔ یہاں ملالہ اس تحریر کو پڑھ کر سناتی ہے۔ یہ ایک مختصر اور مشہور انگریزی نظم ہے۔۔۔ ’’سم لؐو ون۔ سم لَو ٹو۔ آئی لو ون۔ دیٹ از یُو۔‘‘ پھر ملالہ کہتی ہے کہ میری سہیلی (جس کی وہ کاپی ہے) کو محبت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں (یعنی یہ سطحی رومانوی نظم اس کی سہیلی نے نہیں لکھی)۔

اب آپ یاد کیجئے وہ جملے جو ڈاکٹر دانش نے پروگرام کے شروع میں کہے تھے۔۔۔ ’’کل تک جو لڑکی کہتی تھی، میں وہ کلپ دکھاؤں گا۔۔۔ وہ کہتی تھی۔۔۔ کہ سم لَو ون، سم لَو ٹو۔۔۔ ایک پوئٹری (شاعری) وہ کر رہی ہے۔۔۔۔ آئی لَو ون، دیٹ از یُو۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے تو اس عمر میں یہ بھی نہیں پتا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ وہ ملالہ چند دنوں بعد پوری دنیا میں سپیچ (تقریر)کر رہی ہے۔۔۔۔ ‘‘۔

ڈاکٹر دانش کی انگریزی خراب ہے کہ نیت، یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔۔۔ ہماری ذاتی رائے میں دونوں ہی خراب ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ملالہ نے اپنی سہیلی کے حوالے سے یہ کہا کہ اسے اس کم سنی میں محبت کا کیا پتا، اور یہ کہ یہ انگریزی تحریر دراصل اس شخص کی ہے جو یہاں ان کی غیر موجودگی میں قیام پزیر رہا۔ دوسری طرف ڈاکٹر دانش یہ جھوٹا پروپگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ نظم ملالہ نے خود کہی ہے، جب کہ اس کا خود یہ کہنا ہے کہ اسے محبت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش فرط جذبات میں کہتے ہیں، ’’وہ تصویر دکھائیں، جو سی آئی اے کے ساتھ یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘۔

اس کے بعد وہی گھسی پٹی پروپگنڈا تصویر سکرین پر دکھائی جاتی ہے جو مدتوں سے سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔۔۔ جس کا جواب ہزار بار دیا جا چکا ہے اور جس پر احمد قریشی نے بھی وضاحت کر دی تھی کہ وہ تصویر یونی سیف کی منعقدہ تقریب سے لی گئی ہے، جس میں رچرڈ ہالبروک باقاعدہ حکومت پاکستان کی منظوری سے شریک ہوئے۔ اس تقریب کا ذکر ایڈم بی ایلیک کی ڈاکومنٹری میں بھی ہے، اور اسی تقریب کے ایک کلپ کو وہاں دکھایا بھی گیا ہے، جس میں گیارہ سالہ ملالہ بہت اعتماد سے رچرڈ ہالبروک سے استدعا کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے مدد کریں۔

آپ نے دیکھا رائی کا پہاڑ بنانا اور جھوٹ تراشنا کیسا گھٹیا عمل ہے کہ وہ ایک احسن بات کو بھی غلط رنگ میں پیش کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، فریب گوئی کی آخری حدوں پر قدم رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔

اورذرا کاشف مرزا کے ان جملوں پر غور کیجئے جہاں وہ برہمی سے فرماتے ہیں، ’’ان جیسے غداروں کی وجہ سے پاکستان بدنام ہے۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’اب آپ ایک بات بتایئے۔۔۔ کہ ان سے بڑا گستاخ رسول اور گستاخ اللہ کون ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ آپ مجھے ایک بتائیں کہ ان جیسے غداروں کی موجودگی میں کیا ہم ایک قوم بن سکتے ہیں؟ ‘‘۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اس موقع پر پروگرام میں کاشف مرزا پر جوش انداز میں چنگھاڑتے ہیں، ’’اس (ملالہ) کی کمپین گورڈن براؤن اور اوبامہ چلا رہا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹر دانش کے استسفارپر فرماتے ہیں کہ ملالہ کے بنک اکاؤنٹ میں 68 بلین ڈالر موجود ہیں۔

ہزار نہیں، لاکھ نہیں، کروڑ نہیں، بلکہ اڑسٹھ ارب!!! اگر آپ اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں بدلیں تو یہ سات کھرب سے زیادہ رقم بنتی ہے۔ چونکہ یہ پاکستانی میڈیا ہے، یہاں دن کو رات کہنے کے لئے صرف زبان کو ہلانا درکار ہے، لہٰذا اتنی رقم کا دعویٰ ویسا ہی درست ہے جیسے یہ دعویٰ کہ دنیا ایک بیل کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے اور جب وہ بیل اسے دوسرے سینگ پر پھینکتا ہے تو یہاں زلزلہ آنے لگتا ہے۔ کاشف مرزا کے اس مضحکہ خیز جھوٹ پر انہیں کسی دماغی امراض کے ماہر کے پاس جانے کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہم ان کی مالی معاونت کرنے کو بھی تیار ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر دانش ایک نہایت ہی اوچھی حرکت کرتے ہوئے اے پی ایس حملے میں زخمی ہونے والے طالبعلم ولید کی تصویر دکھاتے ہیں اور نہایت بے شرمی سے ملالہ اور ولید کا تقابل کرنے لگتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملالہ کو جعلی گولی لگی تھی، جب کہ ولید اصلی گولی کھانے کے بعد بھی پاکستان ہی میں ٹھہرا ہوا ہے۔

Slide-PROPAGANDA-2

دو مظلوموں کا آپس میں یوں مقابلہ کرا کر ایک مظلوم کی کردار کشی کرنا پاکستانی میڈیا کی پستی اور گھٹیا پن کی ایک نئی مثال ہے، جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ملالہ کو طالبان نے باقاعدہ ٹارگٹ کیا تھا، جب کہ ولید اور اے پی ایس کے دیگر معصوم بچوں پر ان کے نام یا کسی فعل کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا۔ ملالہ پر حملے سے پہلے قاتل نے ملالہ کا نام لے کر اپنے ٹارگٹ کی تصدیق کی، اور یہ بھی کہ ملالہ کے زندہ بچ جانے کے بعد بھی تحریک طالبان پاکستان اسے قتل کی دھمکیاں دیتی رہی۔ یاد رہے کہ ملالہ کو اور اس کے گھرانے کو برطانیہ میں منتقل کرنے کا فیصلہ اس وقت کی حکومت اور فوج کا تھا۔ یہ بھی مت بھولئے کہ اس وقت کے آرمی چیف، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے خود اس معاملے میں دلچسپی لے کر اسے یقینی بنایا۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ ملالہ کا ابتدائی آپریشن پاکستان میں فوج کے ڈاکٹروں نے کیا۔

ایسے میں اگر ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا دیدہ دلیری سے سرے سے اس بات کا ہی انکار کر رہے ہیں کہ ملالہ کو کوئی گولی لگی تھی، تو ظاہر ہے کہ ان کے اعتراض کی زد میں افواج پاکستان اور ان کا سپہ سالار تک آ جاتا ہے کہ وہ اس ’’ڈرامے‘‘ میں شامل تھا۔ کیا کوئی عقل مند آدمی اس احمقانہ تھیوری پر یقین رکھ سکتا ہے؟ کاشف مرزا جیسی مضحکہ خیز باتیں کرنے والے فضل اللہ اور طالبان کے حامی تو ضرور ہ سکتے ہیں، پاکستان کے نہیں۔

پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر دانش پروگرام میں شریک فیاض الحسن چوہان اور اجمل وزیر سے انہیں اپنے رائے دینے کا کہتے ہیں۔ یہ دونوں صاحبان نہایت تابع داری سے کاشف مرزا کے جھوٹے پروپگنڈے کی تائید کرتے ہیں اور اس نفرت انگیز پروگرام میں اپنا زہر گھولتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیاض الحسن چوہان، اس سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں جن کے قائد کو تحریک طالبان پاکستان نے اپنے نمائندے کے طور پر حکومت پاکستان سے مذاکرات کے لئے تجویز کیا تھا۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جو طالبان کو پاکستان میں باقاعدہ اپنے دفاتر کھولنے کی دعوت دے چکی ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو 2009ء کے سوات آپریشن میں فوج کی مخالفت میں پیش پیش تھی اور جن کے قائد، ملا فضل اللہ کو ’’انصاف کے لئے جدو جہد کرنے والا‘‘ کہہ چکے ہیں۔ لہٰذا فیاض الحسن چوہان نے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کا نمک خوب حلال کیا۔ اس کے بعد اجمل وزیر نے بھی بہتے گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

Khattak

اور یوں کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش نے باہمی ملی بھگت سے ملالہ اور ان کے والد کی ویسی ہی کردار کشی کی جیسی کچھ برسوں قبل مہر عباسی نے سلمان تاثیر کی کردار کشی کی جو بالآخر ان کی شہادت کا سبب بنی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ سب کوئی اتفاقی یا غیر ذمہ داری کے مظاہرے کے طور پر نہیں، بلکہ باقاعدہ پورے ارادے اور قوت سے کیا جا رہا ہے۔ ملالہ کو ایک منظم کمپین کے تحت یہاں متنازعہ بنایا گیا ہے، اور اس کے لئے لوگوں کو مذہبی اشتعال دلایا گیا ہے، جیسا کہ ان دو پروگراموں میں کیا گیا۔ یہ ایک نہایت ہی مکروہ اور افسوس ناک عمل ہے۔ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ ہمارے میڈیا پر یوں تو دانش، لیاقت اور لقمان جیسے پر مغز نام تو موجود ہیں مگر ان میں کوئی بھی اسم بامسمیٰ نہیں۔

ایک اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ کاشف مرزا، پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر ہیں، اور کچھ عرصہ پہلے تک پنجاب حکومت کے مشیر برائے تعلیم اور کھیل رہے ہیں۔ ایسے تنگ نظر اور دروغ گو شخص کا ریاستی عہدے پر موجود ہونا ایک پریشان کن بات ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ ملالہ اور ان کے والد کو متنازعہ بنا کر، ملالہ کی کتاب کو پاکستان میں بین کروا کر لامحالہ کاشف مرزا اپنے ان مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں جو پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے ان کی دسترس میں ہیں یا آ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیڈریشن پہلے ہی دھروں میں بٹ چکی ہے۔  یہ بھی دھیان میں رہے کہ ملالہ کی تنظیم، ملالہ فنڈ، پاکستان میں تعلیم کے لئے پراجیکٹس شروع کر چکی ہے اور مزید کا ارادہ ہے۔ ملالہ مخالف مہم کی وجہ سے اس سے پہلے بھی ان کے نام سے خیبر پختون خواہ میں یونیورسٹی بنانے کی قراداد اسمبلی میں رد کی جا چکی ہے۔ اگر یہ مہم یونہی چلتی رہی، تو اس کے نتیجے میں ملالہ کی تنظیم کے دیگر تعلیمی منصوبوں پر بھی پاکستان میں عمل درآمد نہیں ہو سکے گا، اور جو منصوبے چل رہے ہیں ان میں کام کرنے والے افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ہی نقصان پہنچے گا اور ملا فضل اللہ کا ایجنڈہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ دوسری طرف پرائیویٹ سکول فیڈرشن کے صدر کاشف مرزا کے مفادات کا تحفظ بھی ہوتا رہے گا۔ ملالہ مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی صورت میں ڈاکٹر دانش اور ان کا چینل، اور اس سے پہلے اوریا مقبول جان اور انصار عباسی، ڈاکٹر دانش اور طلعت حسین بمع دیگر اینکرز اور نام نہاد دانشواران طالبان کی گڈ بکس میں رہیں گے اور ان پر کوئی حملہ نہیں کیا جائےگا۔ اب یہ پاکستانی عوام پر ہے کہ وہ اپنا برا، بھلا پہچانتی ہے یا جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار رہنا پسند کرتی ہے۔

Resolution

جب سر عام سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تاریخ کو اس طرح مسخ کیا جا رہا ہو اور اس کی تصحیح نہ کی جائے تو کچھ عرصہ گزرنے پر وہ جھوٹ دستاویزی صورت اختیار کر کے سچ تصور کیا جانے لگتا ہے۔ سبز خزاں بلاگ نے اس ضمن میں اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم اوریا مقبول جان اور نصار عباسی کے ملالہ مخالف پروپگنڈے کو دلائل اور پوری صداقت کے ساتھ بے نقاب کر چکے ہیں۔ آج ہم نے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کا جھوٹ بھی واضح کر دیا ہے۔ ہم اپنے قارئین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس محنت سے ہم نے یہ تحریر لکھی ہے، اس کا احساس کرتے ہوئے وہ کم از کم اسے ایک بار تسلی سے اور کھلے دماغ سے پڑھیں گے اور اگر وہ ہمارے براہین اور دلائل سے متفق ہوں تو اس تحریر کو آگے پھیلائیں گے تاکہ ہم اس معاشرے میں سچائی کی شمع روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

اور یاد رہے کہ انٹرنیٹ یا ٹی وی پر نشر ہونے والی ہر اطلاع درست نہیں ہوتی۔ سنی سنائی بات پر یقین کرنے سے بہتر یہ ہے کہ پہلے اس کی تصدیق کر لی جائے یا کم از کم اس کے بارے میں تنقیدی ذہن سے غور کر لیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی لاعلمی سے کسی کو نقصان پہنچ جائے اور آپ جانے یا انجانے میں اس کے ذمہ دار ٹھہریں۔

Quran-49-6

(تحریر: سبز خزاں)

اگر ایدھی صاحب نہ ہوتے تو ہمارا کیا بنتا؟

یہ 2008 ء کے اواخر کی بات ہے۔ شام کا وقت تھا اور میں یونی ورسٹی سے تھکا ہارا گھر پہنچا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی چیخ اٹھی۔ دوسری جانب مجھے اسکول کے زمانے کے ایک دوست کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی، جو ان دنوں برطانیہ رہائش پزیر تھا۔

“یار! ابو کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔۔۔۔”

۔’’کیا ہوا، خیریت؟ تسلی سے پوری بات بتاؤ۔‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔

۔’’تجھے تو پتا ہے کہ ابو کی یادداشت کا مسئلہ ہے۔ ہم انہیں اکیلے باہر نہیں نکلنے دیتے کہ وہ راستہ بھول سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک دو بار ایسا ہوا کہ وہ خود سے باہر نکل گئے اور بمشکل واپس پہنچ سکے۔‘‘ دوست نے تفصیل بتانا شروع کی۔

۔’’آج دوپہر کو گھر والوں سے غفلت ہو گئی اور وہ گھر سے باہر نکل گئے۔ اب پاکستان میں شام کا وقت ہو گیا ہے اور ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ ابھی گھر بات ہوئی، امی سخت گھبرائی ہوئی ہیں۔ بھائی آفس سے آر ہا ہے، پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘۔

میں نے یہ سنتے ہی بائیں ہاتھ سے اپنی کن پٹی مسلنا شروع کی ۔ ایسا میں تب کرتا ہوں جب مجھے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کسی مسئلے کا حل سوچنا ہوتا ہے۔

۔’’تو فارغ ہے نا؟ یار، دادی کے ہاں چکر لگا کر میرے چچا سے مل لے۔‘‘۔

۔’’تم فکر نہ کرو۔ میں ابھی وہاں جا کر دیکھتا ہوں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ خیر رکھے گا، انکل مل جائیں گے۔‘‘ میں نے اپنے دوست کو تسلی دے کر فون بند کیا اور گھر سے باہر نکل گیا۔

وہ ایک اعصاب شکن شام تھی۔ میرے دوست کے والد الزائمر کا شکار تھے، یعنی ایک ایسی ہولناک اعصابی بیماری جس میں یادداشت ایسے کھو جاتی ہے کہ انسان اپنی اولاد تک کے بھی نام اور شکلیں بھول جاتا ہے۔ ایسے میں اپنا نام، پتا یاد رکھنا یا کسی کو کچھ سمجھا پانا کارِ ناممکن۔ میں نے ایک کاغذ پر تلاش گمشدہ کا اشتہار بنایا، اس پر تصویر لگانے کے بعد کافی تعداد میں فوٹو سٹیٹس کرا کے انہیں ہوٹلوں اور مساجد کی دیواروں پر چسپاں کر دیا۔ پھر پولیس اسٹیشنز اور ہسپتالوں میں معلوم کرنے کی باری آئی۔ اسی دوران میں نے اپنے علاقے میں موجود ایدھی سنٹر سے بھی معلوم کیا مگر کوئی امید کی خبر نہ مل سکی۔ اس کے بعد میں بوجھل قدموں سے شہر کی سڑکوں پر بے ترتیب چلتا رہا، کبھی ایک موڑ تو کبھی دوسرا موڑ، کبھی ایک سڑک تو کبھی دوسری گلی۔اس کے علاوہ اس وقت اور کیا بھی کیا جا سکتا تھا؟ شام کے چھ بجے سے رات کے ساڑھے گیارہ کا وقت ہو گیا۔ میں اپنے گھر سے کافی دور آ چکا تھا، سوچا کہ اب واپس چلنا چاہئے۔ راستے میں ایک پبلک کال آفس سے دوست کے بھائی کو فون کیا، مگر وہاں سے بھی ناکامی کی خبر ہی آئی۔ پھر میں نے ایدھی سنٹر کے نمبر پر کال ملائی۔

۔’’ذرا ان کی شناختی علامت دہرائیے گا۔ میں ذرا ریکارڈ میں چیک کر لوں۔‘‘ دوسری طرف سے یہ سن کر تھوڑی سی آس جاگی۔

۔’’قد قریب قریب پانچ فٹ، دس انچ۔ باریش ہیں، سفید داڑھی، عمر کوئی پچپن، ساٹھ برس۔۔۔۔‘‘ میں نے عجلت میں جواب دیا۔

۔’’زردی مائل شلوار قمیض؟‘‘ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔

۔’’جی۔۔۔ زرد جوڑا۔‘‘ میں نے دھک دھک دل سے کہا۔

۔’’کوئی ایک گھنٹہ قبل ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن والے سنٹر پر کوئی صاحب ایک بزرگ کو چھوڑ کر گئے ہیں۔ وہ اپنا نام، پتا وغیرہ کچھ بتانہیں پا رہے۔ آپ آ کر دیکھ لیں، شناختی علامات سے بظاہر وہ آپ کے عزیز لگ رہے ہیں۔ ‘‘۔

میں نے فوراََ اپنے دوست کے گھر اطلاع دی کہ وہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایدھی سنٹر پر پہنچیں۔

میں رات سوا بارہ بجے اپنے گھر پہنچا۔ ساڑھے بارہ بجے میرے دوست کے بھائی کی کال آئی جس میں اس نے اپنے والد صاحب کے مل جانے کی خوشخبری دی اور میرا شکریہ ادا کیا۔ آدھے گھنٹے بعد برطانیہ سے دوست نے کال کی۔

۔’’یار اگر تو نہ ہوتا تو کیا بنتا۔۔۔۔‘‘اس نے جذباتی لہجے میں کہا۔

۔’’نہیں! میں نہیں۔۔۔۔ اگر ایدھی صاحب نہ ہوتے تو ہمارا کیا بنتا؟‘‘ میری لبوں سے بے ساختہ نکلا۔

اور یہی سچ ہے کہ اگر ایدھی صاحب نہ ہوں تو ہمارا کیا بنے؟

برسوں پرانا یہ واقعہ اور سوال میرے دماغ میں گزشتہ ایک ہفتے سے گونج رہا ہے، شاید اس لئے بھی کہ انہی دنوں میں نے ایدھی صاحب کی سوانح حیات پڑھی ہے اور یوں بھی کہ ان دنوں آپ کی علالت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

Edhi-biography

میمن برادری سے تعلق رکھنے والے عبدالستار ایدھی 1928ء کو بھارتی گجرات کے قصبے بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور والدہ انسان دوستی کا مظہر تھے، اور یوں آپ کی پرورش ان چھتناور درختوں کی آغوش میں ہوئی جو اپنے، پرائے سب کے لئے اپنا سایہ بانٹنا جانتے تھے۔ آپ کی والدہ انہیں جو پیسے دیتیں، اس پر یہ شرط رکھتیں کہ وہ اس کا نصف کسی ضرورت مند کو دیں۔ اگر کبھی ایسا نہ ہوتا، تو وہ شدید خفا ہوتیں ۔ یوں اپنے بچپن سے ہی انہیں دوسروں کی ضرورت کا احساس اور بانٹنے کا شعور بیدار ہو گیا۔ آپ نے جب قیام پاکستان کے بعد بے سروسامانی میں کراچی کے لئے ہجرت کی، تو اس سفر میں مفلوک الحال مسافروں کے ساتھ بھوک اور تنگ دستی کے اجتماعی تجربے نے انہیں انسانوں کے دکھوں سے مزید آشنا کر دیا۔

پاکستان بن گیا، مگر ایدھی ان خوابوں کو تعبیر میں ڈھلتے نہ دیکھ سکے جس کی آس میں انہوں نے ہجرت کی تھی۔ ایک نوزائیدہ مملکت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں تھی، اور تمام شہریوں کو اس میں ہاتھ بٹانا تھا۔ 1948ء میں ایدھی نے میٹھا در میں قائم ہونے والی بانٹوا میمن ڈسپنسری کے لئے خود کو ایک رضاکار کی حیثیت سے پیش کیا۔ انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ایدھی یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ڈسپنسری کے معاملات درست نہ چلیں، اس میں صرف اپنی برادری کے لوگوں کو سہولیات بہم پہنچائی جائیں اور وہاں کام کرنے والے پیسے کے معاملے میں بدعنوانی سے کام لیں۔ لہٰذا، آپ نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی۔ یہ بات کمیٹی کے ممبران اور دوسرے لوگوں کو ناگوار گزری۔ اس کے رد عمل میں نہ صرف یہ کہ ایدھی کو ڈسپنسری سے نکال دیا گیا بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر دی گئی۔

Memon-dispensary

آپ نے ہمت نہ ہاری اور 1951ء میں اپنی مدد آپ کے تحت میٹھا در میں پگڑی پر دکان لے کر وہاں اپنی ڈسپنسری قائم کردی۔ اس خدشے کے تحت کہ مخالفین ڈسپنسری کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، آپ نہ صرف یہ کہ پورا دن وہاں خود موجود رہتے بلکہ رات کو ڈسپنسری بند کر کے گرمی سردی کی پرواہ کئے بغیر اس کے باہر پڑے بنچ پر ہی سو رہتے۔ آہستہ آہستہ آپ کی ڈسپنسری آگے بڑھتی رہی اور خدا کے فضل سے اس میں میٹرنٹی ہوم اور نرسنگ کورسز کا اہتمام بھی ہو گیا۔ دوسری طرف آپ کی شفیق والدہ بہت کمزور اور بیمار رہنے لگیں۔ پھر ایک روز فالج کے حملے سے ان کے جسم کا بایاں حصہ متاثر ہو گیا۔ ایدھی نے ان کا ویسے ہی خیال رکھا جیسے ان کی والدہ نے ان کی پیدائش کے بعد ان کا رکھا۔ بعد میں ان کی والدہ دماغ کی رگ پھٹنے سے پانچ دن زندگی، موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ایدھی ٹوٹ کر رہ گئے، اور یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا جیسے انہوں نے اپنے والدہ کی خدمت کی ہے، وہ ویسے ہی تمام انسانیت کی بلاتخصیص نسل و مذہب خدمت کریں گے۔ وہ عظیم خاتون اپنی بہترین تربیت سے نوجوان ایدھی کے سینے میں ایک ایسی قیمتی تڑپ پیدا اور ایسا چراغ روشن کر گئیں، جس نے اپنی روشنی کل بنی نوع انسان کو بانٹنی تھی۔

Edhi-Mother-1

Edhi-Mother-2

ذرا سوچئے کہ ان گنت مسخ شدہ لاشیں جنہیں ان کے اپنے پیارے ہاتھ لگانا تو کجا، دورسے دیکھنے کی بھی ہمت نہ رکھیں، ایدھی کے ہاتھوں کفنائی اور دفنائی گئی ہیں۔ ہزار ہا ناقابل برداشت بد بو چھوڑتی لاشوں کو ایدھی نے غسل دیا ہے۔ ایدھی نے دن، رات ایمبولینس چلا کر اب تک اس سے بھی کئی گنا زیادہ فاصلہ طے کر لیا ہو گا جتنا اس زمین کا قطر ہے۔ کتنے ہی ذہنی مریضوں اور عقل و خرد سے بے گانہ مرد و زن کو ایدھی نے چھت اور عزت دی ہے۔ بے شمار لاوارث بچوں کو ایدھی کے سایہء شفقت میں پناہ ملی ہے۔ وہ بچے جو اپنے ماں کے مہربان لمس اور نام تک سے بے خبر ہیں، ان کے لئے دنیا میں اگر کوئی اپنا ہے تو وہ ان کے ’’مولانا ابو‘‘ ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں اگر ایدھی کا جھولا میسر نہ آتا تو بے دردی سے قتل کر دیئے جاتے۔ مساکین اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے اور انہیں باوقار زندگی کے مواقع فراہم کرنے والا کوئی اور نہیں، ایدھی ہی ہے۔ ایدھی صرف انسانوں ہی کے مسیحا نہیں بلکہ بے زبان جانوروں کے لئے بھی سراپا محبت ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے زخمی، بے ٓآسرا مویشیوں کے لئے بھی ہوسٹل اور ویٹرنری رضاکاروں کا انتظام کر رکھا ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کی روزی کا بندو بست کرنے کے لئے آٹو رکشہ روزگار سکیم بھی ایدھی کی مرہون ہے۔ طلباء کو تعلیم کی روشنی دینے کو ایدھی فاؤنڈیشن کے ایلیمنٹری اور پرائمری سکول کا سلسلہ جاری ہے۔ اولاد سے محروم جوڑے ایدھی فاؤنڈیشن کی مدد سے یہ نعمت حاصل کر سکتے ہیں۔ گمشدہ افراد کی تلاش میں بھی ایدھی فاؤنڈیشن پیش پیش ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آزمائش یعنی بھوک مٹانے کو مفت لنگر، معذور افراد کو ہنر سکھانے کو ورکشاپس اور اسی طرح میت خانے وغیرہ، یہ سب ایدھی کی انسانیت کے لئے خدمت کی اک مختصر اور ادھوری سی جھلک ہے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ کسی ناگہانی ضرورت کے موقع پر ایدھی فاؤنڈیشن کی امدادی کاروائیاں بیرون ملک بھی جاری رہتی ہیں۔ اگر ایدھی صاحب نہ ہوتے، تو یہ سب کچھ ممکن نہ ہو پاتا۔

Jhoola

?

ابھی حال ہی میں رونما ہونے والا ایک واقعہ ایدھی صاحب کی بے لوث شخصیت کے مزید پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ 2003ء میں محض گیارہ برس کی عمر میں کسی وجہ سے اپنے والدین سے بچھڑ جانے والی قوت سماعت اور گویائی سے محروم بھارتی بچی، جو غلطی سے سرحد عبور کر بیٹھی، کو لاہور رینجرز نے دریافت کیا اور امانتاََ ایدھی فاؤنڈیشن کے سپرد کر دیا۔ بلقیس ایدھی نے اس کا نام گیتا رکھا۔ گیتا کے والدین کی تلاش کی تمام تر کوششیں بے سود گئیں، اور وہ معصوم تیرہ برس تک ایدھی سینٹر ہی میں قیام پزیر رہی۔ اس کے مذہبی حقوق کے احترام میں اسے باقاعدہ عبادت کے لئے الگ کمرہ دیا گیا، جہاں وہ اپنے طریقے سے پوجا کرسکتی تھی۔

Geeta-with-Edhi

سڑک کنارے جھولی پھیلائے انسانیت کی خدمت کے لئے عطیات کی بھیک مانگتا یہ شخص، جس کا کل اثاثہ محض دو جوڑے کپڑے اور ایک پرانی جوتی ہے، سوچا جائے تو پاکستان کا سب سے امیر شخص ہے۔ اس کی امارت کی اس سے بڑھ کر کیا گواہی ہو سکتی ہے کہ لوگ اس کے ہاتھوں کو چومنا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں، اس کی عظمت اور ایمان داری کی قسم کھاتے ہیں، اور اسے اپنی زندگی تک لگ جانے کی دعا دیتے ہیں۔ یہ بے ربط سی تحریر ایدھی صاحب کی کل زندگی، ان کی بے مثال جدوجہد اور ان کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کی تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ اس کے لئے ایک عمر چاہئے کہ آپ گزشتہ سات سے زائد دہائیوں سے فلاح انسانیت کے لئے مصروف عمل ہیں۔ آپ نے سماجی بہبود کے لئے عملی طور پر اپنی مدد آپ کے تحت اور اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے آغاز کرنے والے ایدھی، مخالفین کے طعنوں اور پروپیگنڈوں کو سہتے ہوئے اپنے کام میں جتے رہے اور اب ایدھی فاؤنڈیشن کے سینکڑوں سینٹرز اور سینکڑوں ایمبولینسیں ملک کے طول و عرض میں دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے چوبیس گھنٹے اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ گزشتہ قریباََ بیس برس سے ایدھی فاؤنڈیشن، دنیا کی سب سے بڑی اور فعال رضاکارانہ ایمبولینس سروس ہے۔ اور یہ سب کچھ اس امداد کے تحت چل رہا ہے جو لوگ ایدھی کے امین ہونے پر یقین رکھتے ہوئے اس فاؤنڈیشن کو دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اور دیگر حکومتوں کی بڑی سے بڑی امداد تک لینے سے انکار کردیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ اعلانیہ یا خفیہ ایسی شرائط وابستہ ہوتی ہیں جو فاؤنڈیشن کے کام میں کسی نہ کسی حوالے سے رکاوٹ یا اعتراض کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کے حکمران اپنی کرپشن اور بیرون ملک بنک اکاؤنٹس میں چھپائے اربوں ڈالر کے اثاثوں سے جانے جاتے ہوں، وہاں ایدھی کا وجود ایک معجزے سے کم نہیں۔

Edhi-bheek-mission

یہ ایک نا انصافی ہوگی اگر اس تحریر میں ایک دوسری شخصیت کا ذکر نہ کیا جائے، جن کے بغیر ایدھی شاید اپنا مشن اس خوش bilquis-edhiاسلوبی اور استقامت سے انجام نہ دے پاتے۔ جی ہاں، بلقیس ایدھی! جیسے انگریزی زبان میں بیوی کو نصف بہتر کہا جاتا ہے، اسی طرح بلقیس، ایک دوسرے پیکر میں ایدھی صاحب کے آدھے وجود سے کم نہیں۔ ہر دکھ، درد میں بلقیس نے آپ کا ساتھ دیا، حوصلہ بڑھایا اور خدمت خلق میں بھرپور ساتھ دیا۔ اسی طرح آپ کے بیٹے اور بیٹیوں اور دیگر رضاکاروں اور عملے کے مخلص افراد نے اس مشن کو آگے بڑھانے میں تن دہی سے کام کیا ہے۔ ان سب کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

اب ایک دردناک سانحہ، جس کا ذکر کئے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔بلال، ایدھی صاحب کا نواسہ تھا، جو محض چار برس کی عمر میں چل بسا۔ ایک ایسی خاتون جس کا دنیا میں اور کوئی نہ تھا اور جو ذھنی طور پر مستحکم بھی نہ تھی، ایدھی سینٹر میں رہ رہی تھی۔ اس نے بلال پر نہلانے کی غرض سے پانی ڈالا اور اپنے ذھنی عارضے کی بنا پر اس بات کا احساس نہ کر سکی کہ وہ پانی ابل رہا تھا۔ معصوم بلال کا بدن جھلس کر رہ گیا۔ کئی ہفتوں تک زندگی، موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ ہمت ہار گیا۔ ایدھی صاحب، بلقیس ایدھی اور بلال کی والدہ کبریٰ کی عظمت دیکھئے کہ انہوں نے نہ صرف اس عورت کو معاف کر دیا بلکہ اس کا علاج بھی جاری رکھا۔ جس روز بلال نے آخری سانسیں لیں، اس روز بھی ایدھی صاحب نے اپنا فرض معمول کی طرح نبھایا۔ یہ ۹ جولائی 1992ء کی بات ہے، بلال جاں کنی کے عالم میں تھا مگر آپ یہ اطلاع ملنے پر کہ گھوٹکی کے مقام پر دو ریل گاڑیوں کا تصادم ہو گیا ہے، فوری طور پر اپنی ٹیم کے ہمراہ نکلے۔ راستے میں انہیں اطلاع دی گئی کہ بلال اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ایدھی صاحب نے اس عالم میں بھی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کو جائے حادثہ کو ہی جانے کو کہا۔

Pilot

Bilal

صرف یہی ایک سانحہ نہیں، آپ کی زندگی کا تو ایک ایک پل جذبہء ایثار سے سجا ہوا ہے۔ جس روز آپ کی شادی تھی، اس روز بھی آپ دوسروں کی مدد کو گھر سے باہر رہے۔ جب آپ کی بیٹی کی شادی تھی، تب بھی آپ نے انسانیت کا فرض نبھایا اور گھر میں موجود نہ رہے۔ آپ نے اپنے گھرانے میں ہمیشہ کفایت شعاری اور بچت کی ترغیب دی۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنی شریک حیات کے میک اپ کرنے کی معصومانہ خواہش اور بچوں کے لیے ٹی وی لانے کی فرمائش تک پر انکار کیا اور یوں اپنے مشن اور فلاح انسانیت کے جذبے کو اپنی ذات اور گھرانے پر ہمیشہ مقدم رکھا۔

Barat

۔1982ء میں جب انڈونیشیا کے صدر سوہارتو کراچی آئے تو ایدھی کو بھی حکومت پاکستان کی طرف سے ان کا استقبال کرنے کے لئے دعوت دی گئی۔ درویش منش ایدھی اپنے معمول کے ملیشیا رنگ کے جوڑے کے ساتھ وہاں پہنچے۔ انہیں ان کے سادہ لباس کی وجہ سے وہاں سے ہٹا دیا گیا کہ کہیں ان کی وجہ سے حکمرانوں کا تاثر مہمان صدر پر ناگوار نہ گزرے۔ اس سرکاری بے قدری پر دکھ ہی کیا جا سکتا ہے۔

Protocol

ایدھی نے ہمیشہ دل کی بات کہی۔ آپ نے اپنے سماجی فلاح کے فلسفے کو جب جب موقع ملا ایوان اقتدار پر براجمان ہمارے نام نہاد مسیحاؤں تک پہنچایا، مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔

Speech

اس تحریر کے اختتام پر میں اس سوچ میں ہوں کہ ہم ایسا کیا کریں کہ اپنی تمام عمر انسانیت کی خدمت کے لئے صرف کرنے والے ایدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ہم کبھی بھی ان کی بے لوث خدمات کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ سماجی بہبود کی اولین ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہماری صدا میں وہ سکت نہیں کہ حکمران اشرافیہ اور مقتدرہ حلقوں کے بلند و بالا محلات کی دیواروں تک پہنچ سکے اور نہ ہی ان کے سینوں میں ایدھی جیسا دل ہے کہ وہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنے کا سوچیں۔ چونکہ ایدھی صاحب نے رنگ، نسل، زبان، مذہب، سرحد اور کسی بھی قسم کے امتیاز کے بغیر انسانیت کی خدمت کی ہے، اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کو نوبل انعام برائے امن کے لئے نامزد کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایدھی صاحب جیسے مسیحا کے سامنے دنیاوی انعامات اور ایوارڈ اور حتیٰ کہ نوبل انعام بھی کوئی وقعت نہیں رکھتا، مگر ہم انہیں یہ وصول کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے اور جس کا نام عالمی خبروں میں عمومی طور پر منفی حوالے سے ہی آتا ہے، اگر اس ملک کے ماتھے پر ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسفزئی کے بعد ایک اور نوبل انعام کا جھومر سج جائے، تو یہ کس قدر خوشی کی بات ہو گی۔ اور یہ بھی کہ اس سے دنیا بھر، بالخصوص ہمارے معاشرے کو، یہ اہم پیغام بھی پہنچ سکے گا کہ انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنانا اور اس کے لئے اپنی زندگی صرف کرنا ہی خدا کی خوشنودی اور دنیا بھر میں حقیقی عزت کا سبب ہے۔

Malala-Abdus-Salam

حال ہی میں عالمی تعلیم کے لئے اقوام متحدہ کے نامزد خصوصی مشیر، ضیاء الدین یوسف زئی صاحب اور ان کی ہونہار بیٹی، دنیائے عالم کی کم سن ترین اور پاکستان کی دوسری نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسف زئی نے اس ضمن میں عملی قدم اٹھایا ہے اور ایدھی صاحب کو نوبل انعام کے لئے نامزد کرنے کے لئے ایک آن لائن مہم کا آغاز کیا ہے۔ وہ تمام احباب جو ایسا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، ان سے استدعا ہے کہ وہ اس لنک پر کلک کر کے آن لائن پٹیشن کے ویب پیج پر جائیں، اور اس پر اپنا ووٹ دیں۔ اس میں محض چند سیکنڈز لگیں گے، مگر ہماری آواز دنیا تک پہنچ جائے گی کہ ہم اپنے محسن اور مسیحا کے لئے محبت اور تکریم کے جذبات رکھتے ہیں۔

Nobel4Edhi

ایدھی کو کہاں کہاں اور کیسے کیسے دکھ نہیں پہنچائے گئے، یہ موضوع ایک الگ تحریر کا تقاضہ کرتا ہے۔ آپ کو سیاسی پریشر گروپ کے ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی بھی سازشیں کی گئیں، جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں آپ کی جان کو خطرات لاحق تھے۔ اس پریشانی سے آپ کو یہ ملک عارضی طور پر چھوڑنا پڑا۔ آپ کو کافر، گمراہ، چور، لالچی، یہودیوں کا ایجنٹ اور جانے کیا کیا نہیں کہا گیا۔ آپ کے خلاف منبر و مینار سے فتاویٰ نشر کئے گئے۔ آپ پر یہ توہین آمیز الزام تک لگایا گیا کہ ایدھی فاؤنڈیشن مردوں کے اعضاء نکال لیتی ہے وغیرہ۔۔۔۔ مگر یہ مردِ درویش اپنی ہی دھن میں مست مخلوقِ خدا کے زخموں پر مرہم رکھتا چلا گیا۔ ایدھی کی ایمبولینس خدا کی سنت پر عمل کرتی ہے۔ جیسے خدا کی نعمتیں کسی تعصب اور تنگ نظری کے بغیر تمام بنی نوع انسان کے لئے ہیں، ویسے ہی ایدھی کی ایمبولینس سروس اور دیگر سہولیات بھی تمام انسانوں کے لئے اپنا دروازہ کھولے رکھتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لوگ اپنے بادشاہوں کو’ظل الٰہی‘ کے لقب سے پکارتے تھے۔ کہاں بے رحم، عیاش پرست بادشاہ اور کہاں یہ لقب۔ یہ لقب تو ایدھی پر جچتا ہے، کیا نہیں؟

Humanity

اس پیغام کو آگے پہنچا کر ایدھی صاحب کو نوبل انعام کے لئے نامزد کرنے میں ہماری مدد کیجئے۔

Nobel4Edhi

(تحریر: سبز خزاں)

کچھ آنسو، کچھ گلے شکوے (اشتیاق احمد کی یاد میں)۔

کچھ آنسو، کچھ گلے شکوے (اشتیاق احمد کی یاد میں)۔

بچوں کے جاسوسی ادب کے نام ور مصنف اشتیاق احمد صاحب بروز سترہ نومبر 2015ء اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ محض سولہ برس کی عمر یعنی 1960ء میں اپنی پہلی کہانی ’’بڑا قد‘‘ اور 1973ء میں اپنے پہلے جاسوسی ناول ’’پیکٹ کا راز‘‘ سے اپنے تحریری کیریئر کا آغاز کرنے والے اشتیاق احمد کا کچھ ھی روز قبل آٹھ سواں (800) ناول شائع ھوا۔ اپنی مصروفیت کے باعث اسے خریدنے جانے کی مہلت بھی نہ مل پائی تھی کہ آج ان کی رحلت کی افسوس ناک خبر سننے کو ملی۔ اگرچہ مجھے ان سے کچھ معاملات میں بھرپور اختلاف تھا مگر یہ خبر دل پر ایک شدید صدمہ بن کر گری۔

Imran-ki-Waapsi

لائبریریاں، راولپنڈی صدر کے اتوار بازار میں سڑک کنارے لگے اسٹالز، پرانی کتابوں کی تمام دکانیں، ٹین ڈبے والی ریڑھیاں اور کباڑ خانے،الغرض ہر وہ مقام جہاں کوئی بھی کتاب مل سکتی ہو، تمام چھان مارنے کے بعد میں گزشتہ بیس برس میں پائی پائی جوڑ کر اور ایک ایک کتاب حاصل کر کے ان کے کل چھ سو ناول جمع کر پایا تھا جنہیں میں بیسیوں دفعہ پڑھ چکا ھوں، مگرپھر بھی دل بھرتا نہیں۔ اگر کسی تحریر سے اتنی محبت ھو، تو اس کے لکھاری سے بھی تو ایک رشتہ بن جاتا ھے۔

آپ نے انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی سیریز لکھیں، جن میں محمود، فاروق، فرزانہ، آفتاب، آصف، فرحت، اشفاق، مکھن اور شائستہ کے علاوہ پروفیسر داؤد، خان رحمان، منور علی خان، بیگم شیرازی، اکرام اور کچھ دیگر کردار شامل ھیں۔ ان کے مخالف کرداروں میں جیرال، سلاٹر، رے راٹا، ابظال، جی موف، سی مون، بگران اور شارا نمایاں ھیں۔ آپ کا سب سے ضخیم ترین ناول ’’غار کا سمندر‘‘ ھے جو دو ھزار (2000) صفحات پر مشتمل ھے۔ دیگر ضخیم ناولز میں پندرہ سو (1500) صفحات کا ’’دائرے کا سمندر‘‘، چودہ سو (1400) صفحات کا ’’سنہری چٹان‘‘اور اس کے علاوہ ’’بادلوں کے اس پار‘‘، ’’جزیرے کا سمندر‘‘ اور ’’قیامت کے باغی‘‘ وغیرہ شامل ھیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے باقاعدگی سے لکھنا اور بالخصوص اپنے ضخیم ناولزمیں اس قدر کرداروں کو کہانی میں ایک متناسب انداز میں سمونا ایک مشقت طلب کام ھے، جو آپ نے بخوبی انجام دیا۔ آپ نے اپنی پہلی تحریر سے آخری تک کسی موڑ پر یہ محسوس نہ ھونے دیا کہ آپ کا قلم جمود کا شکار ھو گیا ھے یا یہ کہ آپ کے تشکیل شدہ پلاٹ میں یکسانیت یا بوریت در آنے لگی ھے۔

کوئی تیرہ برس قبل جب آپ نے اپنے ناولز کی ساتویں سنچری مکمل کی تو میں نے انہیں مبارک باد کا خط لکھا۔ میری خواھش تھی کہ میں ان کی آٹھویں سنچری پر بھی انہیں خط لکھتا اور ان سے اپنے دل کی وہ باتیں کہتا جو میں پچھلی مرتبہ نہ کہہ سکا۔

میں انہیں بتانا چاھتا تھا کہ مجھے ایک بہتر انسان بنانے میں ان کی اولین تحریروں کا اہم کردار ھے۔ ایمان داری، حب الوطنی، خودداری، بڑوں کا احترام، کسی حالت میں ھمت نہ ھارنا، ذھانت کا استعمال وغیرہ، مجھے ان کے ناولز سے یہ سب اوصاف سیکھنے کو ملے۔ میں نے انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا کے کرداروں اور ان کے گھرانوں میں اس جذباتی آسودگی کو ڈھونڈا جس سے میں اپنی حقیقی زندگی میں محروم تھا۔ میں نے ھمیشہ چاھا کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات قائم کر سکوں، مگر ایسا نہ ھو سکا۔ ایسے میں مجھے ان ناولز نے نفسیاتی سہارا دیا۔ میں ایک اچھا بیٹا تو نہ بن سکا مگر مجھے لگا کہ انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا کی صورت میں مجھے وہ رول ماڈل ضرور مل گئے ھیں جو مجھے مستقبل میں خود کو ایک اچھا باپ بنانے میں مدد دے سکتے ھیں۔ البتہ ان سب اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ مجھے ان کے کرداروں میں کچھ خامیاں بھی دکھائی دیں۔ میں انہیں بتانا چاھتا تھا کہ جتنا جلد ممکن ھو، انہیں اپنے کرداروں کی ان خامیوں سے پیچھا چھڑا کر اس کی تلافی کرنی چاھئیے۔

Ishtiaq-Ahmed-Novelsاشتیاق احمد بلاشبہ ایک تاریخ ساز مصنف ھیں مگر ان کے قلم نے کچھ ٹھوکریں بھی کھائیں، جن پر مجھے شدید تحفظات رھے اور جن کا ذکر کئے بغیر یہ تحریر غیر جانب دار نہ ھو سکے گی۔ مجھے خدشہ ھے کہ ان کی بنا پر ان کے ادبی رتبے پر بہر حال ایک سوالیہ نشان ضرور لگ جاتا ھے۔ اس کی وضاحت سے پہلے بہت مناسب ھو گا اگر میں ادب، بالخصوص بچوں کے ادب سے متعلق اپنا نظریہ مختصرطور پر پیش کر سکوں۔

بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے لئے لکھنا نہ صرف بہت کٹھن بلکہ زیادہ ذمہ داری کا کام بھی ھے۔ بچوں کی کردار سازی ھمیشہ آفاقی اصولوں پر ھونی چاھئیے۔ اچھا ادب انہیں بھائی چارہ، خیر سگالی، درگزرکرنا، سچ بولنا اور انسانیت کو مقدم رکھنا سکھاتا ھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اچھا ادب انہیں کچھ چیزیں نہیں بھی سکھاتا۔ مثال کے طور پر وہ انہیں نفرت کرنا، دوسروں کے بارے میں بدگمانی رکھنا، خود کو اوروں سے ارفع سمجھنا اور مذھبی انتہا پسندی نہیں سکھاتا، بلکہ ایسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرتا ھے۔

یہی وہ مقام ھے جہاں انہوں نے ٹھوکر کھائی ھے اور یہ سب کہتے ھوئے میں اپنا دل بھاری ھوتا محسوس کرتا ھوں۔ مسیحیوں، احمدیوں اور شیعہ برادری کے بارے میں اشتیاق احمد صاحب کی مذھبی فکر چاھے کچھ بھی ھو، انہیں اسے رکھنے اور اظہار کرنے کا حق حاصل تھا، مگر اس کے لئے عمدہ پیرائیہ اور مناسب پلیٹ فارم ھونا ضروری تھا۔ جب آپ نے اپنے ناولز کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو اس سے ان کے قارئین کے ناپختہ ذہنوں میں وہ زہر بھرنا شروع ھوا جسے آج آپ فرقہ واریت کہتے ھیں۔ اسی فرقہ واریت کی کوکھ سے انتہا پسندی جنم لیتی ھے۔ جی، وھی انتہا پسندی جس کا اگلا قدم دھشت گردی کی صورت میں ظاھر ھوتا ہے۔ کاش کہ وہ یہ غلطی نہ کرتے۔

میرا گمان ھے کہ اپنے آخری برسوں میں انہیں اس غلطی کا کچھ نہ کچھ احساس ھونا شروع ھو گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ھے کہ پہلے کے مقابلے میں اب ان کے رویے میں بھی لچک آنا شروع ھو گئی تھی۔ مثال کے طور پر آپ نے اپنے ناولز کے سرورق پر ایک بار پھر سے انسانی شکل چھاپنا قبول کر لیا تھا، جسے وہ اس سے قبل اپنی مذھبی فکر کے مطابق درست نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ نے حالیہ برسوں میں ٹی وی کے لئے کچھ مختصر انٹرویو بھی دئیے، جو اس سے قبل انہیں پسند نہیں تھا۔ آپ نے اپنے ایک انٹر ویو میں اس خواھش کا بھی اظہار کیا کہ ان کے ناولز پر بھی فلمیں بنائی جائیں، تو وہ باھر کی انڈسٹری کا مقابہ کر سکتی ھیں۔ آپ کے ناولز میں جدید سائنس اور ٹکنالوجی کا تذکرہ بھی بھرپور طور پر آنے لگا تھا۔ مجھے اس سب سے خوشی ھوئی اور مجھے لگنے لگا کہ اٹلانٹس پبلی کیشنز کے روح رواں، فاروق احمد صاحب، اشتیاق احمد صاحب کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب ھو رھے ھیں۔ میں گزشتہ ایک ھفتے سے اسی سوچ میں تھا کہ فاروق صاحب کو فیس بک پر ایک عدد پیغام لکھ کر ان کی وساطت سے اشتیاق احمد صاحب تک اپنی رائے پہنچا سکوں۔

افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی۔ آٹھ سو ناولز، جو قرین قیاس ھے کہ ایک عالمی ریکارڈ ھے، کے خالق آج اپنے پروردگار کے ھاں لوٹ گئے۔ ان کے مداح، ان سے محبت کرنے والے اور میری طرح کچھ گلے شکوے رکھنے والے قارئین، یہ سب اب بہت پیچھے رہ گئے ھیں۔ یہ خواھش کہ وہ ایک ھزار ناولز پورے کر سکیں تو اب پوری نہیں ھو سکتی، البتہ آٹھ سو ناولز ان کی بچوں کے ادب کے لئے خدمات کا منہ بولتا ثبوت ھیں۔ آپ کا آخری شائع شدہ ناول ’’عمران کی واپسی‘‘ ابن صفی مرحوم کے لئے خراج تحسین تھا، جو انہوں نے فاروق احمد صاحب کے ساتھ مل کر لکھا۔ اس پر فیس بک پر بہت سے احباب نے خوشی اور بہت سوں نے ناگواری کا مظاھرہ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کسی اور کے کرداروں پر لکھنا ’’دو نمبر‘‘ کام ھے۔ مجھے ایسے تبصرات سے دکھ پہنچا۔ شاید اشتیاق احمد نے بھی اسے دل پر لیا ھو۔ مجھے لگتا ھے کہ آپ ’’عمران کی واپسی‘‘ پر اپنے ناقدین کی آراء سے زیادہ ابن صفی مرحوم کے براہ راست تبصرے کے خواھش مند تھے اور شاید اسی لئے خدا نے انہیں وھیں بلا لیا جہاں یہ دونوں عظیم مصنفین اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسروں سے اپنے دل کا حال کہہ سکیں۔

کہا جاتا ھے کہ جب کوئی دنیا سے چلا جائے تو اس کی اچھائیاں یاد کرنی چاھئیں۔ مجھے بھی آج یا کل اپنی تمام تر خطاؤں سمیت اس دنیا سے چلے جانا ھے۔ میں اپنے عزیز مصنف کی کوتاھیوں، غلطیوں اور لغزشوں پر اللہ سے مغفرت طلب کرتے ھوئے ان کے لئے دعا گو ھوں۔

بقول جون ایلیا

لمحہ لمحہ پڑھا کرے انسان ۔۔۔۔ نوحہؑ کُلُّ مَن عَلَیھَا فَانِِ

Verse-3-185

(تحریر: سبز خزاں)

ایک نامور مذھبی شخصیت سے متعلق خبر اور اس سے منسلک تناقضہ پر میرا تبصرہ

 !سب سے پہلے کچھ اصولی سوالات

۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر کوئی بھی ھو، چھ ’’ک‘‘ کی موجودگی اس کی ساکھ کا سبب بنتی ھے؛ کیا، کب، کہاں، کیسے، کیوں اور کس کے ساتھ۔۔۔ یہ وہ بنیادی اصول ھے جسے صحافت کے ھر طالب علم کو مد نظر رکھنا چاھیئے۔ یہ درست ھے کہ ھر خبر میں ان سب اجزاء کا ھونا لازم نہیں مگر خبر کی نوعیت کی مناسبت سے جن ’ک‘ کی ضرورت ھو، اگر وہ بھی ناپید ھوں تو پھر کیا اس خبر کو پیمانہ بنایا جا سکتا ھے؟

۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر خبر رساں ادارہ خود ھی اپنی خبر کو درست قرار نہ دے اور اس پر معذرت کر لے یا اس کی سند پیش کرنے سے قاصر ھو، تو پھر کیا اس خبر کے سچ ھونے پر بضد ھونا درست کہلائے گا؟

۔3۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ایک خبر کسی شخصیت سے متعلق ھو اور اس کی کردار کشی کا سبب بھی بن رھی ھو، تو کیا اس شخصیت کی بھی اس پر رائے پیش کرنا متوازن صحافت کے لئے لازمی نہیں؟

زیر غور مسئلے میں ایک ایسی شخصیت کا معاملہ ھے جن سے مجھے صدھا اختلافات بھی ھیں اور جن کی عیب جوئی اور جگ ھنسائی میرے نفس کی تسکین کا سامان بھی۔ مگر جب میں ان پر لگنے والے الزام اور اس پر ان کا جواب پڑھتا ھوں اور اس سب کو فنِ صحافت اور اخلاقیات کے اصولوں کی کسوٹی پر پرکھتا ھوں، تو انہیں قصور وار نہیں پاتا۔

خبر میں الزام یہ لگایا گیا ھے کہ ان کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں برآمد ھوئیں اور اس کے نتیجے میں انہیں اسلام آباد میں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں انہیں ایک اینکر کی سفارش پر چھوڑ دیا گیا۔

یہ واقعہ کب پیش آیا؟ انہیں اسلام آباد میں کس جگہ گرفتار کیا گیا؟ انہیں کس تھانے میں لے جایا گیا؟ ان پر کس دفعہ کے تحت پرچہ کاٹا گیا، اور اگر نہیں کاٹا گیا تو کیوں؟ کس اینکر کی سفارش پر انہیں چھوڑ دیا گیا اور کس قانون کے تحت؟ کیا اس خبر کو سپورٹ کرنے کے لئے کوئی تصویری یا ویڈیو ثبوت موجود ھے؟ وغیرہ۔۔۔ ان سوالات کے درست جوابات کے بغیر یہ خبر تسلی بخش نہیں کہلا سکتی۔

سوشل میڈیا پر کئی جگہوں پر ایک تصویر پیش کی جا رھی ھے جس میں مولانا کو تھانے میں بوتلوں کے ھمراہ کھڑا دکھایا گیا ھے۔ اس تصویر میں روزنامہ ایکسپریس لاھور کا حوالہ دیا گیا ھے۔ افسوس یہ کہ ایکسپریس کے ایڈیشن چھان مارنے پر بھی بظاھر ایسی کوئی خبر یا تصویر نہیں ملی۔ تصویر فوٹو شاپ کی مرھون دکھائی دے رھی ھے اور اس میں پولیس اھلکاروں کی وردیوں کا رنگ بھی اسلام آباد پولیس کی وردیوں سے مختلف ھے۔ دوسری طرف مولانا، اپنے فیس بک اکاؤنٹ اور ٹوئٹر ھینڈل میں اس الزام کی مسلسل تردید کرتے ھوئے دعویٰ کر رھے ھیں کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے مکہ مکرمہ میں حج کی ادائیگی کے سلسلے میں قیام پزیر ھیں۔ پاکستان علماء کونسل کا دعویٰ ھے کہ اس خبر رساں ادارے نے غلط خبر نشر کرنے پر مولانا سے معافی بھی مانگ لی ھے۔

اب بتائیے کہ انصاف کا کیا تقاضہ ھے؟

چونکہ ان صاحب سے مجھے ھزار ھا اختلاف ھیں، لہٰذا مجھے ان کے خلاف ھی بولنا چاھیئے اور اگلے پچھلے سارے بدلے لینے چاھئیں اور ان کی پگڑی اچھلتے دیکھ کر خوش ھونا چاھیئے یا پھرمجھے انہیں شک کا فائدہ دے دینا چاھیئے؟

اب واقعہ یہ ھے کہ کچھ ماہ قبل فیس بک کے کچھ متعصب ترین اورنفرت انگیز پیجز پر میرے اپنے خلاف ایک نہایت گمراہ کن اور تکلیف دہ پروپگینڈا چلتا رھا ھے جو میرے سینے میں ایک پھوڑے کی طرح آج بھی دکھتا ھے۔ اس لئے میرے لئے یہ معاملہ صرف میرے ممدوح سے متعلق نہیں بلکہ اس میں مجھے اپنے دکھ کی بازگشت بھی سنائی دے رھی ھے۔ لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ میں اپنے حصے کی رائے دیتا چلوں۔

سورۃ المائدہ میں تعلیم دی گئی ھے کہ ’’اے ایمان والو! خدا کے لئے انصاف کی گواھی دینے کے لئے کھڑے ھو جایا کرو، اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف چھوڑ دو۔۔۔‘‘۔

میں آخر میں مولانا کے اُن تاثرات اور الفاظ پر شدید احتجاج کرتا ھوں جس میں انہوں نے ایک مذھبی مکتبہ فکر، اس کے پیشوا اور ماننے والوں کے لئے نہایت غیر مہذبانہ الفاظ ادا کئے ھیں۔ انہیں یہ تو حق تھا کہ وہ خبر شائع کرنے والے چینل یا ادارے پر اپنا غصہ اتارتے اور اپنی بے گناھی ثابت کرتے، مگر ایک اقلیتی طبقے پر بدکلامی اور نفرت کا اظہار انہیں ھرگز زیبا نہیں ھے اور نہ ھی ان کے منصب کے شایان شان۔

Al-Maidah

ممبئی حملے کے چھ برس مکمل ہونے پر آئیے ہم ایک عہد کریں


ٹھیک چھ برس پہلے انہی دنوں پڑوسی ملک بھارت ایک اعصاب شکن مرحلے سے گزر رہا تھا۔ بھارت کا تجارتی مرکز ممبئی دہشت گردی کا نشانہ بن گیا تھا اور ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کی شام انسانی لہو میں لت پت تھی۔ کچھ روز بعد جب کیلنڈر پر ۲۹ نومبر کا ہندسہ طلوع ہوا، تو کم و بیش سو افراد جان کی بازی ہار بیٹھے تھے۔ ہر منظر افسردہ اور توڑ کر رکھ دینے والا تھا۔ پورا بھارت سوگوار تھا۔



ٹھیک چھ برس پہلے کے یہی دن میرے وطن پاکستان کے لئے بھی کم ہولناک نہ تھے۔ پورا بھارتی میڈیا اور سرکار پاکستان کی جانب تلخ لہجہ اپنائے ہوئے تھے۔ ان کے تمام تر الزامات کی انگلی میرے ملک کی جانب اٹھ رہی تھی اور حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے بتایا جا رہا تھا۔ ایک جنگی جنون کی سی کیفیت تھی اور ہر پاکستانی یہی دعا کر رہا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق ان کی سرزمین سے نہ ہو۔

اس سانحے کے فوراََ بعد جو کچھ ہوا، وہ بھی کم پریشان کن نہ تھا۔

ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی تناؤ کا شکار تھے، برطانوی وزیر اعظم کے دورہء پاکستان سےمحض چند گھنٹے قبل، بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی۔


Mumbai-after-effects


 بھارتی حکومت نے لشکر طیبہ نامی پاکستانی تنظیم پر ممبئی حملے کا الزام لگایا اور پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی کاروائی نہ کئے جانے کی صورت میں سرجیکل سٹرائیکس یعنی پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر از خود حملے کرنے کی دھمکی دی۔ ایسا کئے جانا بذات خود ایک جنگی اقدام (ایکٹ آف وار) کہلاتا اور اس کے نتیجے میں دونوں ایٹمی طاقتوں کا براہ راست تصادم ناگزیر ہوجاتا۔

آنے والے دنوں میں حکومت پاکستان نے تحقیقات کے بعد یہ تسلیم کیا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں غیر ریاستی عناصر (نان اسٹیٹ ایکٹرز) نے پاکستان کی سرزمین کو جزوی استعمال کیا ہے۔

اس کے بعد کے حالات تاریخ کا حصہ ہیں جن سے سب ہی آگاہ ہیں۔

ممبئی حملے کے دردناک سانحے، جسے بھارت اپنا نائن الیون (9/11) بھی کہتا ہے، کے چھ برس مکمل ہونے پر ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے ہم درج ذیل سبق سیکھ سکتے ہیں:

۔۱۔ انسانی زندگی سب سے قیمتی ہے۔ اسے کسی مذہب یا قوم اور ملک سے مشروط نہیں کیا جانا چاہئیے۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب یا ملک سے ہو، وہ ایک ضمنی بات تصور کی جانی چاہئیے کیونکہ آپ اپنی جائے پیدائش، والدین یامذہب منتخب کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ آپ سب سے پہلے ایک انسان ہیں۔

۔۲۔ جب تک عالمی سیاسی تنازعات کا حل تلاش نہیں کر لیا جاتا، یہ دنیا جینے کے لئے ایک پر امن جگہ تصور نہیں کی جاسکتی۔

یہ تنازعات عسکریت پسندی کو ایندھن فراہم کرتے ہیں اور غیر ریاستی عناصر کو نظریاتی پختگی حاصل ہونے لگتی ہے۔ وہ ناانصافی، عالمی جبر اور طرح طرح کے سازشی نظریات کی بیساکھی کا سہارا لیتے ہوئے اپنے پیروکاروں اور جوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے نام نہاد جہاد اور قتال میں جھونک ڈالتے ہیں۔صورتحال اس وقت مزید پریشان کن ہو جاتی ہے جب ریاستیں بھی ان عناصر کو اپنی نیابت (پراکسی) کے طور پر اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے لگیں۔

مسئلہء کشمیر ان عالمی تنازعات میں سے ایک ہے جس نے دو جوہری طاقتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا ہوا ہے۔ اسی طرح اگر پانی کی تقسیم کے معاملے کو بھی احسن طور پر حل نہ کیا گیا تو وہ آنے والے برسوں میں صورتحال کو مزید سنگین بنادے گا اور دونوں ممالک باہم دست و گریبان رہیں گے۔

اگردونوں ممالک نے ان تنازعات کے حل کے لئے دیانتدارانہ کوششیں نہ کیں اور آنے والی نسلوں کے لئے پر امن حالات کی بنیاد نہ رکھی تو یہ تناؤ کی سی کیفیت کبھی ختم نہ ہو سکے گی اور ممبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے سانحے جنم لیتے رہیں گے۔

۔۳۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتی۔ جنگ سے کبھی یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ کون درست تھا، جنگ صرف میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں اور اپنے بیٹوں کی یاد میں تڑپتی ہوئی ماؤں کے دردناک منظرکا نام ہے۔

دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں اگرکوئی جنگ چھڑی تو وہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں لڑی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں کیا کیا ممکن ہے، اس کے لئے ہیروشیما اور ناگاساکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

دانائی اسی میں ہے کہ دونوں ریاستیں اور افراد آپس میں اعتماد کی فضا بحال کریں اور تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں تاکہ امن اور ہم آہنگی کا ماحول بنے ۔

۔۴۔ ہمیں اپنی داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر ریاستی عناصر کی سر کوبی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئیے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات ریاستی اداروں اورحکومتوں کے ذریعے ہی ہونے چاہئیں، ان میں غیر ریاستی عناصر کو کئی عمل دخل نہیں ہونا چائیے چاہے وہ اپنی کاروائیاں خود مختار ہوکر کریں یا کسی کی پراکسی بن کر۔

۔۵۔بحرانی حالات میں ایک مضبوط اورصاحب بصیرت قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم کا حوصلہ بلند رکھے اور درست فیصلے کرے۔ مزید یہ کہ حکومت اور فوج کے مابین ہم آہنگی اور ربط ہونا لازمی ہے۔

۔۶۔ ایک ثمر آورجمہوریت اورموثر سفارتکاری (ڈپلومیسی) دنیا میں آگے بڑھنے کا رستہ ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کو سفارتکاری کے میدان میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’کو اگزسسٹنس اور نو اگزسسٹنس‘‘ کا فلسفہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم رکھیں۔ بصورت دیگر عالمی تنہائی ہمارے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

۔۷۔ ہم ماضی کو بدل نہیں سکتے۔ ماضی کی تلخی کو پیچھے چھوڑ آنا ہی بہتر ہے۔ امن کی شاہراہ پر چل کر ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں۔ جب سابق صدر پرویز مشرف بنگلہ دیش کے دورے پر گئے تو انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی یادگار کی گیسٹ بک پر یہ لکھا

Courage needed to reconcile and compromise is far greater than that needed to oppose and confront

پاکستان اور بھارت کو بھی ہمت دکھانا ہوگی، جنگ اور ٹکرانے کی نہیں بلکہ صلح اور امن کے لئے آگے ہاتھ بڑھانے کی ہمت۔ اسی میں دونوں کا بھلا ہے۔



 یہاں یہ لکھنا بھی اہم ہے کہ پاکستان گزشتہ تیرہ برس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہراول دستہ ہے۔ ہم نے اس جنگ میں محض زبانی کلامی حصہ نہیں لیا بلکہ ہم نے دہشت گردوں کے ہاتھوں لگ بھگ پچاس ہزار پاکستانی بھی گنوائے ہیں، جن میں ہزاروں فوجی جوان بھی شامل ہیں۔ زخمی اور معذور ہونے والے ان کے علاوہ ہیں۔عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں کا احساس ہونا چاہئیے اور یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ ایک مستحکم پاکستان اس خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

یہ وہ وقت ہے کہ ماضی کے ڈھانچے کھود نکالنے کا عمل ترک کر دیا جائے اور الزام تراشی اور بے اعتمادی کی روش سے دور رہا جائے۔ بصورت دیگر یہ ایک ایسی قبر کھودنے جیسا عمل ہوگا جس میں ہم اپنی آنے والی نسلیں اتار دیں گے اور وہ قبر گہری ہوتے ہوتے اس خطے اوربا لآخر پوری دنیا کو نگل لے گی۔

ممبئی حملے کے چھ سال مکمل ہونے پر آئیے ہم ان معصوم انسانی جانوں کی یاد میں عہد کریں کہ ہم پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے اپنے ملک اور خطے کو محفوظ اور پر امن بنائیں گے۔



(تحریر: سبز خزاں)

ڈاکٹر عبد السلام! میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں


 آج کا دن یعنی 21 نومبر، بیسویں صدی کے ایک عظیم طبیعات دان اور پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹرعبدالسلام کا یوم وفات ہے جو ہر برس کی طرح یوں خاموشی سے گزر جائے گا جیسے کہ سلام کا وجود اس معاشرے کے لئے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتا۔

پروفیسر عبدالسلام کی کامیابیوں اور ایوارڈز کی طویل فہرست دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پنجاب کے ایک نسبتاََ چھوٹے اور قدرے پسماندہ علاقے میں پیدا ہونے والے بظاہر ایک عام سے شخص میں اس قدر صلاحیتیں ہوسکتی ہیں۔ مگر ہیر اور رانجھا کے مدفن اور صوفی درویش سلطان باہو کی سرزمین جھنگ کی زرخیزی میں بھلا کیا شبہ ہوسکتا ہے، جس نے پاکستان کو پہلا نوبل انعام یافتہ سائنسدان دیا۔ یہ الگ بات کہ فرقہ وارانہ متشدد تنظیموں کی موجودگی، اس کی مٹی میں تعصب اور تنگ نظری کے سیم و تھور کی طرح ظاہر ہو رہی ہیں۔


Salam-1


چودہ برس کی عمر میں میٹرک کے امتحان میں پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر اول آنے والے اور محض اٹھارہ برس کی عمر میں اپنا پہلا تحقیقی پرچہ شائع کرنے والے عبدالسلام جانتے تھے کہ کسی بھی ملک کے آگے بڑھنے کا درست راستہ کیا ہے۔ آپ تیسری دنیا کے ممالک، بالخصوص پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ایک نظریہ رکھتے تھے اور آپ کے نزدیک ایسا سائنس کی ترویج کے ذریعے ممکن ہے۔ آپ نے اس کی تکمیل کے لئے عمر بھر جدوجہد کی۔ مثال کے طور پر آپ نے حکومت پاکستان کے مشیر برائے سائنس کی حیثیت سے کام کیا اور ملک میں سائنس کے انفرا سٹرکچر کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے ایٹمی اور خلائی پروگرام کی بنیاد کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔ آپ نے سپارکو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قیام کے لئے کوششیں کیں اور پاکستان ادارہ برائے جوہری سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے بھی اپنی خدمات سر انجام دیں۔ آپ ایٹم برائے امن کے خواہاں تھے اور آپ کی کاوشوں کے بغیر پاکستان مسلم امہ کا پہلا ایٹمی ملک نہیں بن سکتا تھا۔

یہ سب آپ کی خدمات کی طویل فہرست میں سے محض چند کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا سب سے بڑا خواب پاکستان میں عالمی ادارہ برائے تحقیق کا قیام تھا جس سے پاکستان کے طلباء کے لئے علم و تحقیق کے دروازے کھل جاتے۔ افسوس کہ پاکستان کی حکومتوں اور مقتدرہ حلقوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور بالآخر ڈاکٹر عبدالسلام کو عالمی ادارہ برائے نظری طبیعات اٹلی کے شہر ٹریسٹی میں بنانا پڑا،جس کا نام بعد میں عبدالسلام سینٹر برائے نظری طبیعات رکھ دیا گیا۔

یہ جولائی 2012ء کی بات ہے جب سائنس کی دنیا میں ہگز بوزوسن نامی ذرہ کی دریافت ہوئی۔ یہ ایک عظیم ترین پیش رفت تھی اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ذرہ کو گاڈ پارٹیکل کا نام دیا گیا۔ اس ذرے کی تحقیق اور نظریاتی فریم ورک کی تشکیل میں ڈاکٹر عبدالسلام کا کام بنیادی نوعیت کا ہے۔ لہٰذا اس ذرے کی دریافت کے بعد سائنس کی دنیا میں عبدالسلام کو شد و مد کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مگر دوسری طرف اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ انہیں ان کے اپنے وطن میں کس بے دردی سے رد کیا گیا، یہی وجہ تھی کہ دنیا کے مشہور خبر رساں ادارے سی این این نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عبدالسلام سائنس کی دنیا کا ایک وژنری تھا مگر ان کو اپنے ملک میں نظر انداز کیا گیا اور بھلا دیا گیا۔

یہ بحیثیت قوم ہمارے لئے کیسی شرمندگی کی بات ہے کہ جب پاکستان کا نام اس قدر تکریم سے آیا کہ ایک پاکستانی نے اس عظیم دریافت کے لئے بنیاد فراہم کی ہے، وہیں ہماری بے قدری کا تذکرہ بھی ناگزیر ٹھہرا۔ عبدالسلام نے عمر بھر اس وطن کے لئے اپنی خدمات سر انجام دیں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کا کام پاکستان کی عزت کا باعث بنتا رہا مگر ہمارے علم دشمن رویے نے ان کی بے توقیری کی۔


Salam-3


مہذب دنیا اپنے ہیروز کی پرستش کرتی ہے مگر ہم نے انہیں ٹھکرانا بہتر سمجھا۔ کیا اس قومی جرم کی پردہ پوشی کے لئے کوئی بھی توجیہہ کام آسکتی ہے؟ مجھے تاریخ کا وہ منظر یاد آتا ہے جب منگولوں نے بغداد پر یلغارکی تو علم کے پیش بہا خزانے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو مسمار کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ الکندی کے ذاتی کتب خانے کو ضبط کرنے کے بعد سر عام پچاس کوڑوں کی سزا دی گئی۔ الرازی کو سزا کے طور پر اس کے سر پر اس کی اپنی کتاب اس زور سے ماری گئی کہ اس کی بینائی چلی گئی۔ ابن سینا کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے۔ ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا گیا، اس کی قبر کھود کر مسمار کرنے اور اس کی کتابیں جلا دینے کی تجویز دی گئی۔ ابن رشد کو جلا وطن کیا گیا اور اس کی کتب قرطبہ چوک میں نذر آتش کی گئیں۔اسی طرح سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا، ارشمیدس کو رومن سپاہی نے قتل کر دیا۔ رومن کیتھولک کلیسا نے سائنسدانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے؛ گلیلیو کو نظر بند رکھا گیا، جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر مار ڈالا گیا۔ مگر یہ تو صدیوں پرانی باتیں ہیں، کیا آج کی دنیا میں بھی ایسی علم دشمنی کی کوئی گنجائش باقی ہے؟

کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جب سلام پاکستان واپس آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت اختیار کی تو انہیں ان کے حق سے محروم رکھتے ہوئے سرکاری رہائش گاہ نہیں دی گئی۔ سلام نے جب وزیر تعلیم عبدالحکیم دستی سے رابطہ کیا تو انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ اگر انہیں یہ ملازمت پسند نہیں تو وہ اسے ترک کر کے کہیں اور چلے جائیں۔ سلام نے حالات سے سمجھوتہ کرنے میں عافیت جانی۔ بعد میں سلام کو کالج کے پرنسپل نے ہاسٹل کے سپرانٹنڈنٹ یا کالج کی فٹ بال ٹیم کے انچارج کے طور پر کام کرنے کی دعوت دی۔ مگر یہ سب تو ابتداء تھی۔

اس سب کے باوجود سلام نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر ان کی محنت اور صبر رنگ لائے اور آپ کو طبیعات میں نوبل انعام کا اہل قرار دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے دسمبر 1979ء میں جب سویڈن کے بادشاہ سے نوبل انعام وصول کیا تو آپ سفید پگڑی، سیاہ اچکن، سفید شلوار اور کھسوں میں ملبوس تھے۔ آپ نے اپنی تقریر میں قرآن پاک کی آیات کا بھی حوالہ دیا۔ کیا پاکستان کی اس سے بہتر نمائندگی ممکن تھی؟


Salam-4


Salam-5


پاکستان کو اپنی تاریخ کا پہلا نوبل انعام دلانے والے ڈاکٹر عبدالسلام جب اپنے وطن واپس آئے تو ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے کے لئے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ اگر ان کی جگہ کوئی شو بز کا فنکار، کوئی کھلاڑی یا کوئی سیاستدان ہوتا تو شائد وہاں لاکھوں کا مجمع لگ گیا ہوتا جو آنے والے کا گل پاشی سے استقبال کر رہا ہوتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام افسردہ قدموں سے تنہا ہی وہاں سے چل دئیے۔

اسلامی جمیعت طلبہ کی جانب سے تشدد کی دھمکیوں کے سبب ڈاکٹر عبدالسلام قائد اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد میں اپنا لیکچر دینے بھی نہ جا سکے۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ پاکستان کی دیگر یونی ورسٹیاں بھی ایسے ہی ہنگاموں کے خوف سے انہیں مدعو کرنے سے کتراتی رہیں۔ ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لئے کچھ صحافیوں نے طرح طرح کے افسانے تراش کر انہیں غدار، ملک دشمن ایجنٹ اور وطن فروش سائنسدان قرار دینے کی مہم چلائی اور یہ تشہیر کی کہ آپ نے پاکستان کے جوہری راز بھارت کو فروخت کئے ہیں۔


Salam-7


 ڈاکٹر عبدالسلام کے ذاتی صدمے اسی پر ختم نہیں ہوئے بلکہ انہیں سرکاری سطح پر بھی پریشان کیا گیا۔

یہ 1988ء کی بات ہے جب ڈاکٹر عبدالسلام کو اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملاقات کے لئے بلایا۔ آپ دو دن تک اپنے ہوٹل کے کمرے میں انتظار کرتے رہے مگر آخر میں انہیں فون کر کے اطلاع دی گئی کہ وزیر اعظم کے پاس ملاقات کے لئے فرصت نہیں۔

۔۔90 کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور کی ایک تقریب میں سابقہ قابل فخر طلباء کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت آسانی سے عبدالسلام کو نظر انداز کر دیا۔

افسوس کہ انہیں ان کی وفات کے بعد بھی نہیں بخشا گیا۔

ایک مقامی مجسٹریٹ کے حکم پر ان کی قبر کے کتبے سے ’مسلم‘ کا لفظ کھرچ ڈالا گیا۔ یہ عمل ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ان کی زندگی میں روا رکھے جانے والے سلوک کی تشریح کر دیتا ہے۔ انہیں ان کے عقیدے کی سزا دی گئی۔ ہر شخص کو اپنا عقیدہ رکھنے کا بنیادی حق ہے مگر ہم نے منفی رد عمل کی نفسیات پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے ہیرو کی عمر بھر تذلیل کی بلکہ اس عمل میں اپنے پاؤں پر بھی کلہاڑی ماری۔ اگر ہم آئن اسٹائن یا اسٹیفن ہاکنگ کوعزت دے سکتے ہیں تو سلام کو کیوں نہیں؟ مگر شاید ہم حسد کی ماری ہوئی قوم ہیں جسے اپنے کسی ہیرو کی قدر کرنا نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری نوبل انعام یافتہ ملالہ کو بھی اس کے ہم وطنوں نے طنز اور تضحیک کا نشانہ بنایا۔

اگرچہ ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کے اپنے ملک نے دھتکارا مگر دنیا بھر میں ان کا احترام کیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب انہیں بھارت آنے کی دعوت دی تو نہ صرف انہیں اپنے ہاتھوں سے چائے پیش کی بلکہ ان کے قدموں میں بھی بیٹھیں۔

جینیوا، سوئٹزر لینڈ میں ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے ایک سڑک منسوب کی گئی۔


Salam-8


بیجنگ میں چائنا کے صدر اور وزیر اعظم نے آپ کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور جنوبی کوریا کے صدر نے ڈاکٹر عبدالسلام سے درخواست کی کہ وہ کورین سائنسدانوں سے ملاقات کے لئے وقت نکالیں اور انہیں بھی نوبل انعام جیتنے کی تحریک دیں۔

اس کے علاوہ دنیا بھر میں ڈاکٹر عبدالسلام کو درجنوں اعزازی ڈگریوں اور ڈاکٹریٹ سے نوازاگیا۔

میں سوچتا ہوں اگر ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو قبول کر لیا ہوتا تو شاید ہم آج علم کے میدان میں کافی آگے ہوتے اور سائنسی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتے۔

افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ہم نے انہیں صدموں پر صدمے دئیے اور بالآخر فولادی اعصاب کا مالک سلام ہمت ہار گیا۔ وہ بولنے، چلنے سے محروم ہو کر وہیل چیئر کا محتاج ہو گیا اور ایک روز جلا وطنی کی زندگی میں چل بسا۔

شاید یہ بھی ’ہمت‘ کی بات تھی کہ ان کا تابوت وطن واپس لانے کی حکومتی ’اجازت‘ مل سکی، یہ اور بات کہ ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے بغیر ہوئی۔ یہ بھی ’غنیمت‘ ہے کہ 1988ء میں پاکستانی سائنسدانوں کی سیریز میں عبدالسلام کے نام کا ایک ڈاک ٹکٹ جاری ہوا۔ ہمیں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت اذان اور کلمہ پڑھنے پر قید کی سزا دینے والے آمر ضیاء الحق کا بھی شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے انہیں نشان امتیاز دینے کی زحمت کی۔

یہ سلام کی زندگی کے آخری ایام کی بات ہے۔ ٹریسٹی میں ہونے والی ایک تقریب میں انہیں یونی ورسٹی آف پیٹرزبرگ کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ کانفرنس ہال کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ درجنوں افراد قطار بنائے سلام کو مبارک دینے کا انتظار کر رہے تھے۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگتا رہا۔ پھر ایک پاکستانی طالب علم کی باری آئی۔ اس نے احتراماََ جھکتے ہوئے کہا، ’’سر، میں پاکستانی سٹوڈنٹ ہوں۔ ہمیں آپ پر فخر ہے۔۔‘‘۔


EACPE - Salam


سلام اپنے اعصابی عارضے کے سبب ایک بے جان وجود کی طرح اپنی وھیل چئیر پر بے حس و حرکت اور خاموش بیٹھے تھے۔ اپنے وطن پاکستان کا نام سنتے ہی ان کے کندھوں میں کچھ حرکت کے آثار دکھائی دئیے اور ان کے رخسار پر آنسوؤں کی ایک لکیر سے جھل مل ہونے لگی۔

سلام مزید جی سکتے تھے مگر افسوس کہ توڑ کر رکھ دینے والے ذاتی صدمات نے انہیں مار ڈالا۔ سلام اب کبھی واپس نہیں آئے گا مگر کیا ہم وقت کھو چکے ہیں؟ شاید ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ اگر پوپ جان پال دوئم کیتھولک چرچ کی جانب سے سترہویں صدی عیسوی میں گلیلیو کے ساتھ علم دشمن سلوک کرنے پر معافی کے خواستگار ہو سکتے ہیں تو کیا ہم بھی ایسا نہیں کر سکتے۔

یاد رہے کہ جب تک اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرلیا جائے، اصلاح کی گنجائش ممکن نہیں۔ ہم نے ریاستی امور میں مذہب کی ملاوٹ تو کی ہی، ہم نے سائنس اور علم کی دنیا کو بھی تعصب کے عدسے سے دیکھا۔

سلام! ہم نے آپ کی قدر نہ کی۔ ہم نے آپ کے ساتھ برا سلوک روا رکھا اور نفرت کی آگ میں جلتے رہے۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے مگر میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے آپ سے اس روئیے کی معافی چاہتا ہوں۔


 اسی تحریر کا انگریزی ورژن پڑھنے کے لئے یہاں اور یہاں کلک کیجئے۔ شکریہ۔

(تحریر: سبز خزاں)

نام نہاد پاکستان سکول فیڈریشن کی ملالہ مخالف مہم کا جواب

یہ دس نومبر کی بات ہے جب حسب معمول انٹر نیٹ پر خبریں پڑھتے ہوئے دو سرخیوں نے میری خاص توجہ حاصل کی۔ پہلی سرخی نائجیریا کے ایک اسکول میں ہونے والے خود کش حملے کی تھی جس میں کم و بیش پچاس معصوم طلباء لقمہء اجل بن گئے، جس میں ایک مذہبی شدت پسند تنظیم بوکوحرام کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ دوسری خبر پاکستان اسکول فیڈریشن کی جانب سے منائے گئے ’’اینٹی ملالہ ڈے‘‘ یعنی ردِ ملالہ کے دن سے متعلق تھی جس کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ ملالہ نے ایک نہایت متنازعہ مصنف کی حمایت کرنے کا جرم کیا ہے۔

دوسری خبر مجھے ایک برس پیچھے لے گئی جب پاکستان کے نجی سکولوں کی کسی تنظیم نے ملالہ کی کتاب پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی تھی کہ اس میں اسلام مخالف اور پاکستان مخالف مواد شامل ہے۔

تاریخ سے شغف رکھنے والے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کیا تو عباسی سلطنت کے دور میں قائم ہونے والے ایک عظیم ادارے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو تباہ کر دیا جس میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی لائبریری اور علم و تحقیق کا بیش بہا خزانہ جمع تھا۔ کتاب پر پابندی اور رد ملالہ ڈے کا جان کر مجھے ذاتی صدمہ پہنچا اور میرے دماغ میں بغداد کا منظر گھومنے لگا۔ لائبریریاں اور سکول مسمار کرنا اور کتابیں جلانا یا ان پر پابندیاں لگانا ایک ایسا قومی جرم ہے، جس کی سزا نسلوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ملالہ پر طالبان کے قاتلانہ حملے کے فوراََ بعد سے شروع ہونے والا جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی پروپیگینڈا اب اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ تعلیم سے وابستہ ادارے بھی اس کی تشہیر اور تائید میں آگے آگئے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ایک ہونہار کم سن لڑکی، جس نے اپنی جان کی بازی لگا کر تعلیم کے لئے جدو جہد کی اور پاکستان جیسے معاشرے کو امن کا عظیم الشان نوبل انعام کا تحفہ دیا جسے بصورت دیگر دنیا ایک متشدد اور دہشت گرد معاشرے کے طور پر جانتی تھی، نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو اس کے خلاف اس قدر جھوٹ اور بہتان پر مبنی پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے؟

یوں لگتا ہے جیسے وہ ابھی تک اپنی جانب بڑھنے والی گولیوں سے اپنا آپ بچانے کی کوشش میں ہے، یہ اور بات کہ یہ گولیاں اب طالبان نہیں بلکہ اس کے اپنے ہم وطن چلا رہے ہیں، وہی ہم وطن جن کے لئے وہ دنیا بھر میں جدوجہد کر رہی ہے۔

چونکہ ملالہ کی کتاب پر لگنے والے الزامات کی نوعیت نہایت سنجیدہ ہے، یہ بہت مناسب ہو گا اگر اس کی کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کئے جائیں اور یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ کیا ان سے اسلام اور وطن کی محبت جھلک رہی ہے یا اس میں کوئی منفی لہجہ دکھائی دے رہا ہے۔

ملالہ اپنے قد میں اضافے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے۔

M-1جب ملالہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھی، اس کی والدہ کا قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

M-2

ملالہ کا آیت الکرسی پڑھنا اور بنی نوع آدم کی فلاح کی دعا کرنا۔

M-3

ملالہ کا اپنے ختم القرآن کا خوشی سے ذکر کرنا۔

M-4

ملالہ کا خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنا اور اشکبار ہو جانا۔

M-5

ملالہ کا ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس کے خلاف رائے دینا۔

M-6

ملالہ کا صدر اوبامہ اور پاکستان میں امریکہ کے امیج کے بارے میں اظہار خیال۔

M-7

ملالہ کا سابقہ آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو خراج تحسین۔

M-8

ملالہ پاکستان کا دنیا کی پہلی مسلم ریاست کے حیثیت سے فخر سے ذکر کرتے ہوئے۔

M-9

ملالہ کی مدینہ منورہ میں دعا کرتے ہوئے تصویر۔

 M-10

ملالہ کی بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کے لئے ڈرائنگ۔

M-11

عام تاثر کے برعکس کتاب کے اختتام پر دی جانے والی فرھنگ (گلاسری) کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں رسول اللہ کے ساتھ درود کے اظہار کے لئے ’پیس بی اپان ہم‘ بھی لکھا ہوا ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے دیگر مقامات میں ایسا نہیں ہے۔ پبلشنگ سے وابستہ افراد اس کی وجہ باآسانی جان سکتے ہیں۔ چونکہ یہ کتاب انگریزی میں ہے، لہٰذا اس کی ٹارگٹ آڈینس انگریزی بولنے، پڑھنے والے طبقے یا مغربی دنیا اور یورپ ہے،جو بنیادی طور پر غیر مسلموں پر مشتمل ہے، لہٰذا ایڈیٹر نے وہاں کے پبلشنگ اور ریڈنگ کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے اس صیغے کو صرف گلاسری میں لکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ ملالہ نے اس پر پہلے ہی معذرت کرتے ہوئے یقین دلایا ہوا ہے کہ اگلے ایڈیشنز میں یہ کمی دور کردی جائے گی۔ لہٰذا یہ ایسا کوئی اہم مسئلہ نہیں، جس کو جواز بنا کر اس کے خلاف طوفان مچایا جائے۔

M-12

اب باری آتی ہے پاکستان اسکول فیڈریشن کی جانب سے لگائے گئے سب سے سنگین ترین الزام کی، یعنی سلمان رشدی کی حمایت۔ اس پر مختصراََ یہ کہا سکتا ہے کہ ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘۔

مجھے اس موقع پر 28 فروری 2008ء کی وہ دوپہر یاد آرہی ہے، جب مجھے عالمگیر شہرت کی حامل مفکر اور مصنف کیرن آرمسٹرانگ کا براہ راست لیکچر سننے کا موقع ملا۔ سن اسی کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے کیرن آرمسٹرانگ نے سلمان رشدی کے متنازعہ ناول کے حوالے سے ایک اہم بات کی، جو کچھ یوں تھی

اس ناول کی اشاعت کے فوراََ بعد مسلم دنیا میں پر تشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اس کا تجزیہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اگرچہ اس عمل سے مسلم دنیا کا غم وغصہ تو دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے مگر اس سے مسلمانوں کے حق میں دور رس بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ناول کی اشاعت اور اس پر احتجاج کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کے لوگوں کا اسلام کے بارے میں تجسس بڑھا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے کتب خانوں کا رخ کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دانائی کا تقاضہ یہ تھا کہ اس شر انگیز ناول کے مقابلے میں مسلمان علماء اس موقع پر رسول اللہ کی سیرت اور اسلام کی تعلیمات پر کتب لکھ کر مغربی دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ جب (ناول کے رد میں) سیرت نبوی پر کوئی (نئی) کتاب سامنے نہیں آئی تو میں نے از خود اسے ایک چیلنج سمجھا اور اسے قبول کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کی سیرت پر اپنی کتاب لکھنا شروع کی۔

ایک غیر مسلم مفکر کے پر خلوص اور فکر انگیز الفاظ سن کر لیکچر ہال کی دیواریں تالیوں سے گونج اٹھیں۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ کسی بھی مسئلے یا سانحے کے جواب میں انسان دو طرح کا رد عمل دکھا سکتا ہے۔ پہلا رد عمل جذباتی جب کہ دوسرا رد عمل تعقل یعنی فکر پر مبنی ہوسکتا ہے ۔ کیرن آرمسٹرانگ نے دوسرے رد عمل کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی بات میں وزن تھا۔

جب میں ملالہ کی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ملالہ کے والد اگرچہ آزادی اظہار جیسے بنیادی انسانی حقوق کے حامی تھے مگر انہوں نے بھی رشدی کے متنازعہ ناول کو ناپسندیدہ پایا۔ تاہم ان کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ کسی کے شر انگیزی پر مبنی ناول سے اسلام جیسے کامل اور مضبوط دین کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ کیوں نہ ہم قلم کا مقابلہ قلم سے کریں اور اس ناول کے جواب میں اپنی کتابیں لکھیں۔

میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ رشدی کا پوسٹ مارڈرن فکشن پر مبنی یہ ناول انتہائی لغو اور سراسر شر انگیز تھا۔ اس کے نتیجے میں لازماََ مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہونا تھے اور ان میں غم وغصے کی لہر دوڑنا تھی۔ واضح رہے کہ رشدی کا ناول پاکستان میں بین کردئیے جانے کی بنا پر فروخت کے لئے میسر نہیں تھا، لہٰذا ایک عام پاکستانی کی اس کے مندرجات کے بارے میں معلومات محض اخباری کالمز یا سنی سنائی باتوں تک ہی محدود تھی۔ ملالہ کے والد کی ناول کا قلم سے مقابلہ کرنے کی تجویز ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جیسی کیرن آرمسٹرانگ کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ رشدی کی حمایت ہرگز ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ضیاء الدین یوسف زئی اس کے مقابلے میں کتاب تحریر کرنے کا مشورہ دیتے؟

M-13

مجھے یہ دیکھ کر کے نہایت دکھ ہوتا ہے کہ پاکستان کے کچھ نام نہاد تجزیہ کار اور صحافی، کتاب کا مطالعہ کئے بغیر، محض سی سنائی باتوں پر یا عین ممکن ہے کہ جان بوجھ کر بدنیتی پر مبنی کسی منصوبے کے تحت ملالہ کی کتاب کے بارے میں جھوٹے اور خود تراشیدہ اقتباسات پیش کر تے پھرتے ہیں۔ اس کے ایک مثال پچھلے برس اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کی ایک ٹی وی پروگرام میں ہونے والی وہ جھڑپ تھی، جس میں ڈاکٹر پرویز ھود بھائی یہ کہتے ہی رہ گئے کہ ملالہ کی کتاب میں ایسا کچھ درج نہیں ہے جو اول الذکر صحافی کہہ رہے ہیں۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی مسلسل اس قبیح کوشش میں مشغول رہے کہ وہ ملالہ اور ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کو توھین کے کیس میں الجھا سکیں۔ اوریا اور عباسی کے جھوٹ پر تفصیلی اور مدلل تجزیہ ایکسپریس ٹرائی بیون کے لئے لکھے گئے اس بلاگ اور سبز خزاں ہی پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں مل سکتا ہے۔ (کلک کیجئے اور سچ جانئے)۔

 M-16

اس پروپگینڈے میں سب سے مکروہ کردار اوریا مقبول جان اور انصار عباسی نے ہی ادا کیا۔ واضح رہے یہ وہ دو شخصیات ہیں جو القاعدہ اور طالبان کی حمایت میں کسی بھی حد تک جا تے رہتے ہیں۔ سوات میں ایک مظلوم عورت کو سر عام کوڑے مارے جانے کی ویڈیو کلپ ریلیز ہونے پر جب پورا پاکستان سراپا احتجاج بنا ہوا تھا، یہ انصار عباسی ہی تھے جنہوں نے طالبان کی حمایت میں ٹی وی پر لیکچر دئیے اور کالم لکھتے ہوئے سب کو بتایا کہ طالبان نے یوں کوڑے مار کر شریعت کا فرض ادا کیا ہے اور اس فعل پر انہیں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔

اسی طرح اوریا مقبول جان وہ شخصیت ہیں جو شام میں القاعدہ اور داعش کے ہاتھوں عام شہریوں کے سفاکانہ قتل عام کی حمایت میں لکھ لکھ کر عام مسلمانوں کو باور کرا رہے تھے کہ یہ سب کچھ امام مہدی کے نزول کے اسباب ہیں اور یہ کہ یہ دہشت گرد نہیں بلکہ امام مہدی کے سپاہی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے ان میڈیا نمائندگان سے یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ ایک سولہ سالہ لڑکی کے خلاف کردار کشی کی مہم میں گھٹیا پن پر اتر آئیں اور ایسا ہی ہوا۔ ظاہر یہ کہ یہ لوگ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف کوئی آواز بلند کرے۔

Orya column - VIII

Orya-bigotry-against-Malala

ہم لوگ نفرت، جھوٹ، ڈھٹائی اور بے قدری میں کس قدر گھٹیا درجے پر ہیں، اس کا مظاہرہ نیچے دی گئی تصویر کے کیپشن سے بخوبی ہوجائے گا۔ یہ جھوٹی پوسٹ اس پروپیگینڈے کا حصہ ہے جو ملالہ کے خلاف ایک عرصے سے جاری ہے۔ چونکہ فساد پھیلانا مقصود نہیں، اس لئے اس پر کراس کا نشان لگا دیا گیا ہے۔

M-14

اس میں کئے گئے جھوٹے دعویٰ کے بر عکس ملالہ کے سات کھڑا ہوا شخص ہرگز ہرگز رشدی نہیں ہے بلکہ یہ صاحب مارٹن شلز ہیں جو جرمنی کے ایک سیاست دان اور یورپی یونین کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اس تقریب سے لی گئی ہے جب ملالہ کو یورپی یونین کے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تسلیمہ نسرین کی وہاں موجودگی پر اعتراض کرنا ایک بچگانہ سی بات ہے۔ کسی بھی تقریب میں اگر سینکڑوں مہمان ہوں تو یہ کیا ضروری ہے کہ سب کے سب آپ کی پسند کے ہی ہوں۔

M-15

لگے ہاتھوں ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ تسلیمہ نسرین خود ملالہ کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے۔ امید ہے کہ اس سے ہماری جذبات پرستی کی حس کو کچھ قرار آجائے گا۔

M-17

کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے اصل حقائق کو توڑ مروڑ کر آگے پہنچانا آج کی انفارمیشن وار میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پروپگینڈا ایک مہلک ہتھیار سے کم نہیں، جسے بڑی بے دردی سے کسی کی ساکھ بحال کرنے یا برباد کرنے کئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ میں سے جس نے بھی ملالہ کے اوپر طالبان کے قاتلانہ حملے کے فوری بعد شروع ہونے والے ملالہ مخالف منفی پروپگینڈے کا مشاھدہ کیا ہو گا، اسے یاد ہوگا کہ کیسے سوشل میڈیا پر اس سے برقعے اور داڑھی سے متعلق ایک متنازعہ جملہ منسوب کردیا گیا، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

M-21

یونی سیف کی ایک پبلک تقریب کے دوران رچرڈ ہالبروک کے ساتھ لی گئی تصویر کو یوں پیش کیا گیا جیسے ملالہ کسی سازش میں شریک ہو۔ وہ جھوٹ بھی جلد ہی پکڑا گیا۔

M-18

پھر کچھ عقلمندوں نے یہ تسلیم کرنے تک سے انکار کردیا کہ ملالہ کو گولی لگی بھی ہے۔ بعد میں جب تحریک طالبان پاکستان نے خود اس کی ذمہ داری قبول کرلی تو یہ نظریہ بھی اپنی موت آپ مارا گیا۔M-19

M-22

ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا میں ذیل میں دی گئی پروپگینڈا تصویر گردش میں نظر آئی جس میں کسی شر پسند نے از خود ہی کچھ متنازعہ جملے لکھ کراس کے ساتھ ملالہ کی تصویر لگا کر اس کی کردار کشی کی گھناؤنی کوشش کی۔

Anti-Malala- Propaganda

طالبان پرستوں کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک نہایت ہی مضحکہ خیز پروپگینڈا شروع کیا گیا کہ ملالہ پر حملہ امریکہ کی سازش ہے کیونکہ اس کی آڑ میں پاکستان کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن لانچ کرے۔ یعنی اسامہ بن لادن جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد کی پاکستان میں موجودگی یہ کافی بہانہ نہیں تھا کہ آپریشن شروع کردیا جائے، جو ایک پندرہ سالہ لڑکی کو شہید کرائے جانے کا منصوبہ بنایا جاتا؟ ایسی صورت میں جب کہ تحریک طالبان از خود ملالہ پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری لے چکے ہوں، اس طرح کے پروپگینڈے سے متاثر ہونے والے شاید اپنی عقل سلیپنگ موڈ میں رکھنے کے عادی ہیں۔

Anti-Malala-poster

مگر چلئے سوشل میڈیا پر ایسے جھوٹ پھیلانے والے لوگ تو کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی وابستگی کی بنا پر ایسا کر رہے ہوں گے، ممکن ہے وہ طالبان کے خیر خواہ ہوں یا لڑکیوں کی تعلیم انہیں گراں گزرتی ہو۔ دکھ تو یہ ہے کہ آخر کس بنا پر پاکستان کے سکولوں کی تنظیم اس جھوٹ میں شریک ہوگئی ہے؟ وہ ملالہ کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے نوجوان طلباء کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ سب طالبان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک نئی اور منظم کوشش تو نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ملالہ مخالف تمام پروپگینڈے کے توڑ کے لئے ریاست کی جانب سے سرے سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب ریاست کی رضامندی سے ہورہا ہے۔

میں نے اپنی تحریر کے آغاز میں جس پہلی خبر کا ذکر کیا تھا، وہ نائجیریا میں ایک سکول میں ہونے والا خود کش دھماکہ تھا جس میں بوکو حرام کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ میں سوچتا ہوں کہ پاکستان نے بھی بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیم، تحریک طالبان پاکستان کی کاروائیوں میں پچاس ہزار بے گناہ پاکستانی گنوائے ہیں، پاکستان میں بھی طالبان نے کوئی ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ سکول بم دھماکوں میں اڑائے ہیں۔ مجے دکھ ہے کہ اس سب کا شکار ہونے کے باوجود ہماری نظریاتی ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والی ملالہ کی کردار کشی کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو بے دردی سے ٹھکرانے کے بعد پاکستانی قوم نے جو سلوک اس مظلوم اور نہتی لڑکی کے ساتھ روا رکھا ہے، اس کے بعد مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستانی قوم اس قابل نہیں کہ اسے دنیا میں امن کے نوبل انعام جیسی تکریم سے نوازا جائے، بہتر یہی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے حوالے سے ہی یاد رکھا جائے کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ انتہا پسندی اس قوم کے ڈی این اے میں سرایت کی جا چکی ہے۔

 (تحریر: سبز خزاں)

:مزید پڑھئے

نہتی ملالہ یوسف زئی سے نام نہاد دانشوروں کی محاذ آرائی

ملالہ کے لئے

ملالہ کی ’’سازش‘‘ کیسے ناکام بنائی جائے؟