پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب

اس تفصیلی تحریر کا موضوع پاکستانی میڈیا پر حال ہی میں ایک بار پھر سے چلنے والی ملالہ مخالف مہم ہے۔ اس سے قبل اوریا مقبول جان اور انصار عباسی نے اس ’’کارِشر‘‘ کا آغاز کیا، جس کا بھرپور جواب سبز خزاں بلاگ پر یہاں اور یہاں دیا جا چکا ھے۔ اس کے بعد موسمی حشرات الارض کی طرح کچھ مزید افراد اٹھے اور انہی الزامات کو دہرانے لگے۔ مثلاََ پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر جناب کاشف مرزا نے اپنی ایک تصیف بنام ’’میں ملالہ نہیں‘‘ شائع کی، جس کی تادم ِ تحریر چار بار تقریب رونمائی ہو چکی ہے۔ کاشف مرزا نے ملالہ کی کتاب پر بہت سے اعتراضات لگاتے ہوئے اسے پاکستان کے سکولوں میں ممنوع قرار دیا۔ سبز خزاں بلاگ میں اس اقدام کا بھی بھر پور اور مدلل جواب دیا گیا، جسے آپ یہاں کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں کاشف مرزا کچھ ٹی وی پروگراموں میں مدعو کئے گئے اور وہاں انہوں نے سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی افسوسناک کوشش کی، جس کے نتیجے میں حقائق مسخ ہوئے اور جھوٹ کی مٹی سے ایک ایسی عمارت کھڑی کی گئی جو دور سے تو بڑی مضبوط دکھائی دے، مگر سچ کے مد مقابل وہ ایسے ہی زمیں بوس ہو جائے، جیسے زلزلے سے قد آور عمارتیں۔ سبز خزاں بلاگ، اسے خود پر فرض سمجھتا ہے کہ وہ اپنے قارئین تک تصویر کا سچا رخ پیش کرے اور تاریخ کو مسخ ہونے سے بچائے۔ اس طویل تحریر میں ہم کاشف مرزا کے ان اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیں گے، جو انہوں نے 26 دسمبر 2015ء کو نوجوان تجزیہ کار اور ٹی وی ہوسٹ احمد قریشی کے ساتھ انٹر ویو میں اٹھائے اور جس کا اعادہ کاشف مرزا نے فروری 2016ء کو ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں کیا۔

سب سے پہلے کچھ اصولی سوالات: کیا کسی کی یک طرفہ کردار کشی کرتے پھرنا اور جان بوجھ کر نہ صرف حقائق مسخ کرنا، بلکہ جھوٹ کا سہارا لے کر مصنوعی ’’سچائیاں‘‘ تراشنا ایک قابل قبول عمل ہے؟ اور یہ بھی کہ کیا میڈیا کا کام انتشار پھیلانا اور محض اپنی ریٹنگ یا کسی نا معلوم ایجنڈے کی تکمیل کے لئے شر اور فساد پھیلانا رہ گیا ہے؟ کیا پاکستان کے میڈیا پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو ہوتا ہے یا کوئی بھی اٹھ کر کسی کی بھی پگڑی اچھال کر، کسی پر بھی غداری اور مذہب فروشی کا الزام لگا سکتا ہے؟

گزشتہ برس 26 دسمبر کو کاشف مرزا ایکسپریس نیز کے پروگرام ’’ایٹ کیو — ود — احمد قریشی‘‘ میں مدعو کئے گئے۔ میں نے کاشف مرزا کے تمام تر دلائل کو غور اور دلچسپی سے سنا، اور مایوسی سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی کوئی دلیل عقل و منطق کی کسوٹی پر پوری نہیں اتری۔ کاشف مرزانے آغاز ہی میں مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے جملے بول کر ملالہ یوسف زئی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے کچھ مواقع پر کاشف مرزا کو اپنے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے اکثر دلائل میں وزن نہیں، تاہم انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کاشف مرزا کو بولنے کا موقع فراہم کیا۔ دوسری طرف اپنے ذاتی ٹوئٹر ہینڈل پر بھی احمد نے کاشف مرزا کے دلائل کے بارے میں لکھا کہ ان میں سے کچھ دلائل کمزور ہیں۔ اگر احمد نے ملالہ کی کتاب از خود پڑھی ہوئی ہوتی، تو ہمیں یقین ہے کہ وہ کاشف مرزا کے تمام دلائل کو ہی کمزور سجھتے۔

AQ-Tweet

بہت مناسب ہو گا اگر ہم ان نام نہاد دلائل کا ایک جائزہ لے سکیں۔

احمد قریشی نے کاشف مرزا سے سوال کیا کہ آپ کو اس کتاب پر سب سے پہلا اعتراض کیا ہے، تو جواب میں کاشف مرزا نے فرمایا،۔

۔’’ایک مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ اہم ہے کہ میں سب سے پہلے یہ سوچوں کہ خدا تعالیٰ کی شان میں اس (ملالہ) نے کیا الفاظ استعمال کئے ہیں۔ گاڈ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، لفظ اللہ نہیں۔‘‘۔

ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہئے؟

God-Definition

گویا گاڈ کا لفظ جو انگریزی میں خدا تعالیٰ یا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس پر کاشف مرز کو اعتراض ہے۔ اس مضحکہ خیز اعتراض پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے، مگر ہم کاشف مرزا سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا انجیل مقدس کے وہ نسخے جہاں گاڈ ہی لکھا جاتا ہے، کیا خدا تعالیٰ کی شان میں کمی لانے کی غرض سے ہیں۔ کیا جب مسیحی برادری کے پیشوا پوپ فرانسس اپنے خطبات میں گاڈ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تو کیا وہ توہین ہے؟ اسی طرح کیا تورات یا زبور کے انگریزی نسخوں میں لکھا جانے والا لفظ گاڈ معیوب ہے؟ ہم کاشف مرزا سے ان کا فتویٰ حاصل کرنا چاہیں گے کہ انگریزی تراجم اور تفاسیر میں جب گاڈ کا لفظ لکھا جاتا ہے، تو کیا وہ خدا کی شان گھٹانے کی غرض سے ہوتا ہے؟ اصول ، چاہے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو، بہر حال اس کا اطلاق سب پر ہی ہونا چاہیئے۔ کیا یہ بات سمجھنا کوئی مشکل کام ہے کہ انگریزی قارئین کے لئے لفظ گاڈ ہی شناسا ہے۔

 یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کاشف مرزا نے یہاں صریحاََ جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملالہ کہ کتاب میں گاڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے (جس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں)، مگر ساتھ ساتھ کئی بار اللہ کا اسم مبارک بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ذیل میں ملالہ کی کتاب سے چند اقتباسات پیش کئے گئے ہیں، جن سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کاشف مرزا کے سب سے پہلے اعتراض میں کوئی سچائی نہیں کہ ملالہ کی کتاب میں اللہ کا اسم مبارک نہیں لکھا گیا۔

Allah I

Allah II

Allah III

Allah IV

ضمنی طور پر ہم کاشف مرزا کی اطلاع کے لئے ایک خبر بھی پیش کرتے چلیں، اور وہ یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ملائشیا کی ہائی کورٹ نے مسیحیوں پر اپنے چرچ کے اخبار میں لفظ اللہ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ گویا ایک طرف تو ہم اس پر معترض ہیں کہ غیر مسلم اللہ کا لفظ استعمال نہ کریں، دوسری طرف ہم بضد بھی ہیں کہ وہ اللہ کا لفظ پڑھیں۔

کاشف مرزا، ملالہ کی کتاب پر دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ کتاب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام مبارک کے ساتھ ’’کہیں بھی‘‘ درود و سلام نہیں لکھا ہوا۔

Glossary

یہ الزام بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے برابر ہے۔  کتاب کے پہلے ایڈیشن کی فرہنگ (گلاسری) میں واضح طور پر درودو سلام تحریر ہے۔ ہر وہ شخص جو کتب بینی کا شوق رکھتا ہو، اسے اس پبلشنگ روایت کا علم ہو گا کہ فرہنگ میں لکھی ہوئی بات کا اطلاق پوری کتاب پر ھوتا ہے، یعنی جب فرہنگ میں درود لکھا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کتاب میں جہاں جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر مبارک آیا ہے، وہاں وہاں درود لکھا ہی شمار کیا جانا چاھیئے۔ دوسری بات یہ کہ کتنے ہی مسلمان مصنفین جو مغربی ممالک میں ہماری مذہبی فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں، اسی روایت کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے قاری زیادہ تر غیر مسلم ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اپنے اسوہ حسنہ سے یہ مثال بھی موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدہ تحریر فرماتے ہوئے خود رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیئے تھے کیونکہ فریق مخالف اس پر معترض تھے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ کاشف مرزا اس بات کو سمجھ سکیں کہ چونکہ مغرب میں شائع ہونے والے ایڈیشن کے قاری غیر مسلم ہیں، تو پبلشر نے ان کی سہولت کا خیال کرتے ہوئے درود و سلام صرف فرہنگ میں ڈالنا مناسب سمجھا۔ واضح رہے کہ ملالہ اور ان کے والد بارہا اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ایسا ہر گز قصد اور ارادے سے نہیں، بلکہ پبلشر کی کوتاہی سے ہوا ہے۔ جب کتاب کے ابتدائی ایڈیشن کے بعد کے تمام ایڈیشنز میں اس کوتاہی کی تلافی کر دی گئی ہے، تو کیا اس بات پر لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا کوئی مناسب عمل ہے؟ ایک بات سامنے آئی، ا س کا ازالہ کر دیا گیا، اور وہ بات ختم ہو گئی۔ کیا ہمیں زمین پر ہی عدالت لگا کر دوسروں پر اپنا فیصلہ سنانا چاھیئے یا قرآن پاک کے اپنے حکم کے مطابق بدگمانی سے بچنا چاھیئے؟ اس بات کا جواب کاشف مرزا پر چھوڑا جا رہا ہے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ اضافہ کرنا بھی برمحل ہوگا کہ   شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے خطبات “تجدیدِ فکریاتِ اسلام ” میں بھی درود و سلام یا “پیس بی اپان ہم” نہیں لکھا۔ اس کی تصدیق ان کے خطبات کی انگریزی جلد سے با آسانی کی جا سکتی ہے۔ کیا کاشف مرزا حکیم الامت پر بھی اسی جذبے اور شدت سے معترض ہوں گے، جس شدت سے وہ ملالہ پر فتویٰ صادر کر رہے ہیں؟

Malala-apology

Hamid Mir 7 November 2013

Excerpt from Hamid Mir’s column, dated 7th November 2013

کاشف مرزانے مزید یہ بھی کہا کہ ملالہ کا تسلیمہ تسرین اور سلمان رشدی سے گٹھ جوڑ (نیکسس) ہے اور یہ کہ ملالہ رشدی کی متازعہ کتاب کی حمایت کرتی ہے۔ یہ نہایت سنگین الزامات ہیں جو کاشف مرزا کے اپنے ذہن کی پیداوارہیں، اور جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ کاشف مرزا اپنی دانست میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ تسلیمہ نسرین کے ساتھ ملالہ کی تصاویر موجود ہیں اور یہ بھی کہ تسلیمہ نسرین کا ملالہ کے نام خط بھی پایا جاتا ہے۔

آئیے اب ان اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ حقائق صاف ہو سکیں۔

کاشف مرزاجس ’’خط‘‘ کا حوالہ دے کر شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں، وہ ایک کھلا خط ہے جو تسلیمہ نسرین نے اپنی ویب سائٹ پر ملالہ کے نام لکھا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا میں اپنے بلاگ میں کاشف مرزا کے نام چار سطریں تحریر کردوں۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ کاشف مرزا اور میں ہم خیال ہو گئے ہیں؟ ہر صاحب مطالعہ شخص یہ جانتا ہے کہ کھلا خط اس صورت میں لکھا جاتا ہے، جب انسان دوسرے شخص سے متفق نہیں ہوتا اور اس تک اپنی رائے کسی عوامی فورم کے ذریعے پہنچانا چاہتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب ہم ایک نظر اس خط پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ یہاں کلک کرنے کی صورت میں آپ خط کو خود پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں تسلیمہ اپنے خط میں ملالہ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا نکتہ نظر پیش کررہی ہیں۔ جی ہاں! اختلاف کرتے ہوئے۔

صرف یہی نہیں، ذرا لگے ہاتھوں تسلیمہ کی لکھی ہوئی یہ تحریر بھی پڑھ لیں، جس میں وہ اس بات پر مایوسی کا اظہار کر رہی ہیں کہ یورپی یونین کی تقریب میں تسلیمہ کی موجودگی ملالہ کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ تسلیمہ کہتی ہیں کہ جب اس نے ملالہ کو ایوارڈ وصول کرنے کے بعد مبارک باد دی اور اپنا تعارف کرایا، تو ملالہ نے اس پر کسی گرم جوشی کا کوئی اظہار نہ کیا اور اس کا چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ اور اس بات نے تسلیمہ کو حیران اور مایوس کیا۔

M-17

جن ’’تصاویر‘‘ کا ذکر کاشف مرزا نے کیا، ان کی حقیقت بھی محض یہ ہے کہ یورپی یونین کی انسانی حقوق کے ایوارڈز کی تقریب میں سینکڑوں کی تعداد میں شرکاء میں ایک تسلیمہ بھی موجود تھی۔ اور جب بعد میں سٹیج پر گروپ فوٹو بنائی گئی تو اس میں تسلیمہ، ملالہ سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی، اور بس! ہر تقریب میں ڈھیروں افراد موجود ہوتے ہیں، ان میں کسی کی موجودگی پر اعتراض کرنا ایک بچگانہ سی بات ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اتنی سی بات کا کاشف مرزا نے کیسے افسانہ بنا ڈالا۔

Family picture with Sakharov laureats

یورپی یونین کی اس تقریب میں جرمنی کے سیاست دان اور یورپی یونین کے صدر مارٹن شلز بھی موجود تھے۔ یہ ایک افسوس نام بات ہے کہ پاکستان کی صحافت، چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو کہ برقی میڈیا، اکثر انتہا درجے کی غیر ذمہ داری اور اوچھے ہتھکنڈوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کی مثال آپ نیچے دی گئی تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرتے ہوئے مارٹن شلز کو سلمان رشدی کہہ کر جھوٹا پروپگنڈا کیا گیا۔ ضیاء شاہد، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں، یقیناً اتنے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ انہیں سلمان رشدی کی شکل و صورت تک کا علم نہ ہو، مگر دیکھئے کہ کس مہارت سے وہ جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں اور بغیر کسی خدا خوفی کے ایک نہتی، معصوم بچی پر اتنی بڑی تہمت لگا رہے ہیں۔

M-15

Roznama Khabrain 12-12-14

صرف یہی نہیں، ضیاء شاہد کی اس پر فریب رپورٹنگ کے بعد انہی کے روزنامہ خبریں اخبارمیں اگلے روز، یعنی تیرہ دسمبر 2014ء کو ان کے کالم نگار حامد جلال نے ایک نفرت انگیز اور الف سے یے تک جھوٹ پر مبنی کالم لکھتے ہوئے ضیاء شاہد کے  جھوٹ کے پودے کی مزید آبیاری کی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو میڈیا کس دیدہ دلیری سے جھوٹ اور پروپگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔

Khabrain-column

 راقم الحروف نے روزنامہ اخبار کے ایڈیٹر اور حامد جلال کو ای میلز لکھ کر انہیں حقائق بتائے اور ان سے اس غلط ترین انداز صحافت پر احتجاج کیا۔ یہاں اور یہاں کلک کر کے آپ ان میلز کو پڑھ سکتے ہیں۔ ان میلز کا کوئی جواب دیا گیا اور نہ ہی اپنی غلط ترین رپورٹنگ پر معذرت یا کم از کم اگلے ایڈیشن میں کوئی تصحیح کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ اس مملکت خداداد میں صرف جھوٹ کا سکہ چلتا ہے۔

اب اسی جھوٹ کا سہارا کاشف مرزا لے رہے ہیں۔ ہم س کے سوا انہیں کیا یاد دلا سکتے ہیں کہ کلام الٰہی میں جھوٹے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔

لگے ہاتھوں کاشف مرزا اور ان کے پیش رو یعنی اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کی اس دروغ گوئی کا جواب بھی دے دیا جائے کہ ملالہ کی کتاب میں سلمان رشدی کی حمایت کی گئی ہے۔ یہ اس قدر بے رحم بہتان ہے کہ لگتا ہے ان افراد کے دلوں میں خدا کا کوئی خوف نہیں رہا۔ اس پر مختصراََ یہ کہا سکتا ہے کہ ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔‘‘۔

مجھے اس موقع پر فروری 2008ء کی وہ دوپہر یاد آرہی ہے، جب مجھے عالمگیر شہرت کی حامل مفکر اور مصنف کیرن آرمسٹرانگ کا براہ راست لیکچر سننے کا موقع ملا۔ سن اسی کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے کیرن آرمسٹرانگ نے سلمان رشدی کے متنازعہ ناول کے حوالے سے ایک اہم بات کی، جو کچھ یوں تھی،۔

۔’’اس ناول کی اشاعت کے فوراََ بعد مسلم دنیا میں پر تشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اس کا تجزیہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اگرچہ اس عمل سے مسلم دنیا کا غم وغصہ تو دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے مگر اس سے مسلمانوں کے حق میں دور رس بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ناول کی اشاعت اور اس پر احتجاج کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کے لوگوں کا اسلام کے بارے میں تجسس بڑھا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے کتب خانوں کا رخ کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دانائی کا تقاضہ یہ تھا کہ اس شر انگیز ناول کے مقابلے میں مسلمان علماء اس موقع پر رسول اللہ کی سیرت اور اسلام کی تعلیمات پر کتب لکھ کر مغربی دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ جب (ناول کے رد میں) ایسی کوئی کتاب مغربی دنیا کے سامنے نہیں آئی تو میں نے از خود پیغمبر اسلام پر اپنی کتاب لکھنا شروع کی۔‘‘۔

Karen-Armstrong

ایک غیر مسلم مفکر کے پر خلوص اور فکر انگیز الفاظ سن کر لیکچر ہال کی دیواریں تالیوں سے گونج اٹھیں۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ کسی بھی مسئلے یا سانحے کے جواب میں انسان دو طرح کا رد عمل دکھا سکتا ہے۔ پہلا رد عمل جذباتی جب کہ دوسرا رد عمل تعقل یعنی فکر پر مبنی ہوسکتا ہے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے دوسرے رد عمل کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی بات میں وزن تھا۔

جب میں ملالہ کی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ملالہ کے والد نے بھی رشدی کے متنازعہ ناول کو ناپسندیدہ پایا۔ تاہم ان کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ کسی کے شر انگیزی پر مبنی ناول سے اسلام جیسے دین کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ کیوں نہ ہم قلم کا مقابلہ قلم سے کریں اور اس ناول کے جواب میں اپنی کتابیں لکھیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا وہ درست نہیں کہہ رہے؟

?

میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ رشدی کا پوسٹ مارڈرن فکشن پر مبنی یہ ناول انتہائی لغو اور سراسر شر انگیز تھا۔ اس کے نتیجے میں لازماََ مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہونا تھے اور ان میں غم وغصے کی لہر دوڑنا تھی۔ واضح رہے کہ رشدی کا ناول پاکستان میں بین کردئیے جانے کی بنا پر فروخت کے لئے میسر نہیں تھا، لہٰذا ایک عام پاکستانی کی اس کے مندرجات کے بارے میں معلومات محض اخباری کالمز یا سنی سنائی باتوں تک ہی محدود تھی۔ ملالہ کے والد کی ناول کا قلم سے مقابلہ کرنے کی تجویز ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جیسی کیرن آرمسٹرانگ کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ رشدی کی حمایت ہرگز ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ضیاء الدین یوسف زئی اس کے مقابلے میں جوابی کتاب لکھنے کی تجویز دیتے۔

یہاں ہم کاشف مرزا سے ایک آسان سا سوال پوچھنے کی جسارت کرنا چاہیں گے۔ آپ نے ملالہ کی کتاب سے اختلاف کیا، اور اس کے رد میں اپنی کتاب لکھی۔ کیا کوئی ذی عقل اس سے یہ نتیجہ نکال سکتاہے کہ آپ ملالہ کی کتاب کی حمایت کرتے ہیں، اس لئے آپ نے اس کے جواب میں اپنی کتاب لکھی؟ اگر نہیں، تو ضیاء الدین نے بھی تو رشدی کی کتاب کے رد میں یہی راستہ تجویز کیا کہ جوابی کتاب لکھی جائے۔

نیچے آپ کو اس کتاب کا ٹائیٹل دکھائی دے رہا ہو گا جو سلمان رشدی کے اہانت انگیز ناول کے جواب میں لکھی گئی۔ کیا کاشف مرزا کے نزدیک یہ جوابی کتاب لکھنے والے ڈاکٹر شمس الدین اور اس کتاب کا ترجمہ کرنے والے ڈاکٹر محمد مبارز بھی توہین رسالت کے مرتکب کہلائیں گے اور کاشف مرزا اس بات پر بضد رہیں گے کہ یہ اصحاب دراصل رشدی کی حمایت کرتے تھے، تبھی انہوں نے جوابی کتاب لکھی؟

Rebuttl to SR

تعصب اور تنگ نظری انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھا جاتی ہے۔ ایسا ہی کاشف مرزا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ احمد قریشی کے پروگرام میں کاشف مرزا اپنی طرف سے ملالہ پر ایک اور وار کرتے ہوئے ایک مضحکہ خیز الزام لگاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ملالہ کی کتاب کا اولین جملہ پاکستان اور اسلام مخالف ہے۔ پھر وہ اس جملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں،۔

۔’’اس نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان کی تخلیق راتوں رات ہوئی ہے، کوئی جرم ہوا ہے، اندھیرے میں ہوئی ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ وہ رات، لیلۃ القدر کی رات تھی۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پاکستان کی تخلیق کو اس نے کریٹی سائز (تنقید) کیا۔ آگے وہ کہتی ہے کہ اس پر حملہ دن دیہاڑے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے کتنے بچے ڈرون حملوں کے اندر شہید ہوگئے ہیں، ہمارے نوے ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔ اگر وہ کسی ڈرون حملے میں ماری گئی ہوتی، تو کیا ہم آج یہاں بیٹھ کر اس پر ڈیبیٹ کرتے؟‘‘۔

Midnight

کاشف مرزا اگر خود اپنا مذاق اڑوانا پسند کرتے ہوں، تو ہم ان کی دماغی کیفیت پر افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق آدھی رات کو ہونے کا ذکر ایک جرم ہے۔ پھر اپنی دوسری سانس میں فرماتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق لیلۃ القدر میں ہوئی۔ شاید وہ اس پر غور کرنا بھول گئے کہ لیل کا اپنا مطلب رات ہی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کس روحانی ذریعے سے ان تک یہ القاء ہوا کہ وہ لیلۃ القدر ہی تھی، رسول مہربان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرمان مبارک کے مطابق لیلۃ القدر رمضان المباری کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پائی جاتی ہے۔ کاشف مرزا کو یہ حق نہیں کہ وہ اس فرمان میں تحریف کرتے ہوئے اسے اپنی پسند کی ایک طاق رات میں محدود کریں۔ ضمنی طور پر ہم کاشف مرزا کو تاریخ کا ایک وہ رخ بھی دکھانا پسند کریں گے جنہیں کاشف مرزا جیسے ’’محققین‘‘ دنیا سے اوجھل رکھتے ہیں۔ بہت مناسب ہو گا اگر وہ کبھی قانون آزادیء ہند (انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ) کا مطالعہ کر لیں۔ وہاں پاکستان اور بھارت، دونوں نو مولود ریاستوں کے لئے یوم آزادی کی تاریخ پندرہ اگست 1947 ء تحریر ہے۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ آزادی کا اعلان نصف شب کو ہوا تھا، جب کیلنڈر پر اگلے دن کی تاریخ طلوع ہو چکی تھی۔

Indian Independence Act 1947

انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ملالہ نے یہ کیوں لکھا کہ اس پر طالبان کا قاتلانہ حملہ دن دیہاڑے ہوا۔ حیرانی ہے کہ جب ایک سانحہ ہوا ہی دن کے وقت ہے، تو اسے اور کیا کہا جائے؟ پھر کاشف مرزا اچانک موضوع بدلتے ہوئے ڈرون حملوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ کیا مدلل گفتگو اس طرح ہوتی ہے؟ پھر ستم یہ دیکھئے کہ ڈرون حملوں اور دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والے بچوں اور بے گناہ شہریوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ اگرچہ خود کو ایک نہایت دردمند انسان ظاہر کرتے ہیں، مگر انہیں ہرگز یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ دہشت گردوں اور تحریک طالبان پاکستان کے درندوں کی مذمت میں ایک لفظ ہی کہہ دیتے۔ اس کے برعکس ان کا سارا زور ان ظالموں کے ہاتھوں قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے والی ملالہ ہے، اور وہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ملالہ کو غدار اور مذہب مخالف ثابت کر کے اس پر قاتلانہ حملے کا نہ صرف جائز ثابت کریں بلکہ اس پر مزید حملے بھی کرائیں۔

سچ تو یہ ہے کہ انہیں دہشت گردوں یا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے کسی بچے سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کا اظہار ان کی اپنی زبان سے ادا ہوتے اس جملے سے ہی ہو جاتا ہے، جہاں وہ کہتے ہیں، ’’اگر وہ کسی ڈرون حملے میں ماری گئی ہوتی، تو کیا ہم آج یہاں بیٹھ کر اس پر پروگرام کرتے؟‘‘ یعنی وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بچے کسی توجہ کے حق دار نہیں۔ اور یہ کہ ملالہ کے خلاف ان کا بغض یہ ہے کہ وہ زندہ کیوں کر بچ گئی۔ دوسری طرف ملالہ ڈرون حملوں کے بارے میں جو رائے رکھتی ہے، اس کو امریکی صدر کے سامنے بیٹھ کر پوری دلیری سے بیان کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ یہ حوصلہ ہمارے حکمرانوں تک میں نہیں، جبکہ ملالہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کے باوجود اپنے دشمنوں پر ڈرون حملوں کی خواہش نہیں رکھتی۔

Malala-to-Obama

اگلے جملے میں کاشف مرزا کہتے ہیں، ’’کیا بہادری اس نے کی ہے؟ ملک سے بھاگ گئی۔ بھاگنے والوں کو بہادر نہیں کہتے۔ سکول کے اندر اے پی ایس کا واقعہ ہوا، میرے 144 شہداء کو (مار دیا گیا)۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں ان بچوں کو، ان ٹیچرز کو، جو شہید ہوئے اور جو غازی بھی بنے۔ وہ بچہ پھر اسی سکول میں آیا جس کو آٹھ گولیاں لگیں۔ یہ ہیں وہ بہادر جن کی وجہ سے پاکستان قائم ہے۔ یہاں پر اعتزاز احسن کو کبھی کسی نے ڈسکس کیا ہے، جس نے خود کش حملہ آور کو اپنی جان دے کر روکا۔‘‘ پھر اس سے اگلے جملے میں کاشف مرزا ایک بار پھر بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر یہ ڈرون حملے میں مرتی، تو کیا ہم اسے ڈسکس کرتے؟‘‘۔

لاشوں پر سیاست کرنا تو ہم دیکھتے، سنتے آئے ہیں، جو ہمارے چالاک دماغ سیاستدانوں کا وطیرہ ہے۔ کاشف مرزا کا کمال دیکھئے کہ وہ اپنی سیاست معصوم بچوں کی لاشوں پر چمکا رہے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان کو دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کی موت سے کوئی تسکین ملتی ہے، تبھی وہ بار بار ملالہ کے زندہ بچ جانے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ کس قدر ذہنی افلاس ہے کہ وہ اے پی ایس کے شہید طلباء اور اعتزاز احسن کو ملالہ کے مد مقابل کھڑا کر رہے ہیں۔ اور ملالہ کو بیرون ملک ٹھہرنے پر مطعون کرتے نہیں تھکتے۔ ’’ملک سے بھاگ گئی۔ بھاگنے والوں کو بہادر نہیں کہتے۔ ‘‘ کے الفاظ میں واضح طور پر زہر جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک سے ہجرت اور جلا وطنی کو کاشف مرزا جیسی ذہنیت ہی بھاگنا اور بزدلی قرار دے سکتی ہے۔ کاش کہ وہ یہ نہ بھولتے کہ تاریخ اسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تھی۔ کاشف مرزا کو یہ بھی خبر ہونی چاہیئے کہ اے پی ایس پر حملہ یا باچا خان یونی ورسٹی پر حملہ کرتے ہوئے دہشت گردوں نے پہلے ان بچوں کے نام دریافت نہیں کئے تھے کہ ان میں سے کسی خاص طالب علم کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کے بر عکس ملالہ پر قاتلانہ حملہ مکمل طور پر ملالہ کے اوپر ہی کیا گیا تھا، اور حملہ آور نے سکول وین کو روکنے کے بعد پہلے یہ دریافت کیا تھا کہ ان بچیوں میں ملالہ کون ہے۔ کاشف مرزا اگر اخبار پڑھتے ہوں تو انہیں یہ بھی خبر ہوتی کہ پہلے ناکام حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان بار ہا یہ دھمکی دے چکی ہے کہ وہ ملالہ پر ایک بار پھر قاتلانہ حملہ کرے گی۔ کاشف مرزا کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مطابق ملالہ (اور یہاں تک کہ اے پی ایس) پر حملہ قرآن اور سنت کے مطابق جائز ہے۔ افسوس کہ کاشف مرزا کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ دین کے ساتھ یہ بے رحمانہ سلوک کرنے والے دہشت گردوں کے لئے بھی مذمت کا ایک لفظ بول سکتے۔ الٹا ان کی خواہش ہے تو صرف یہ کہ اپنے سے تین گنا کم عمر کی ایک مظلوم لڑکی کو غدار ثابت کیا جائے اور طالبان کی بلا واسطہ حمایت کی جائے۔

اس کے بعد کاشف مرزا، ملالہ پر ایک اور بہتان لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملالہ نے بیرون ملک جا کر پاکستان کو گالیاں نکالی ہیں۔ پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے کاشف مرزا کی بات کاٹتے ہوئے واضح طور پرکہا کہ یہ الزام درست نہیں۔ اس پر کاشف مرزا جاوید چوہدری کے ملالہ کا لئے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’(ملالہ نے جاوید چوہدری کو کہا کہ) میں پاکستان کو کیوں برا کہوں، پاکستان پہلے ہی بہت بدنام ہو چکا ہے۔‘‘ پھر اسی سانس میں زہر اگلتے ہیں کہ ’’پاکستان اس (ملالہ) کی حرکتوں کے سبب بدنام ہو سکتا ہو گا۔ ‘‘ احمد قریشی نے کاشف مرزا کو یہاں بھی ٹوکتے ہوئے کہا کہ ملالہ نے اس رنگ میں کچھ نہیں کہا۔ اس پر کاشف مرزا اچانک ہی ایک نئے موضوع کو چھیڑ کر ملالہ کو افواج پاکستان کا مخالف ثابت کرنے کے لئے جھوٹ گھڑنے لگے۔

بہت ضروری ہے کہ حقائق سامنے رکھے جائیں اور جاوید چوہدری کے پروگرام میں ملالہ سے مکالمہ من و عن پیش کیا جائے۔ مکمل انٹرویو یہاں کلک کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

جاوید چوہدری: ’’سوشل میڈیا پر جب یہ کمپین چلی آپ کے خلاف، تو ایک سوال بار بار کیا گیا کہ ملالہ یوسفزئی کی وجہ سے پاکستان بہت بدنام ہوا۔ کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ کی وجہ سے پاکستان بدنام ہوا؟‘‘۔

ملالہ: حقیقت یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان پہلے سے ہی بہت زیادہ بدنام ہو چکا ہے۔ اورمیری کمپین کا یہ حصہ ہے کہ میں (دنیا کے) لوگوں کو بتاؤں کہ پاکستان کے لوگ کتنے پر امن ہیں۔ میں تو یہ کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کی رائے سب کے سامنے آ جائے۔ پاکستان کے لوگ دہشت گرد نہیں ہیں، بلکہ پاکستان کے لوگ امن چاہتے ہیں، وہ تعلیم چاہتے ہیں، وہ اپنی بچیوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو مزدوری کرتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اور یہی پاکستان کے اصل لوگ ہیں۔ ہم نے ان غریب، ان پر امن اور ان ایماندار لوگوں کی آواز آگے پہنچانی ہے۔اور یہی میرا کمپین ہے۔ ہم پاکستان کو بدنا م کبھی بھی نہیں کرناچاہیں گے، بلکہ ہم پاکستان کے لوگوں کی آواز آگے پہنچانا چاہتے ہیں۔ ‘‘۔

ایک مثال اکثر دی جاتی ہے کہ قرآن الحکیم میں یہ کہا گیا ہے کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اب اگر کوئی اٹھ کر کوئی یہ کہتا پھرے کہ اللہ تعالی ٰنے نماز کے قریب نہ جانے اور اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، تو آپ ایسے شخص کو کس نام سے پکاریں گے۔ ہم اب یہ صاحب انصاف لوگوں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود یہ پرکھ لیں کہ کاشف مرزا کے جھوٹ پر وہ کیا تبصرہ کرتے ہیں۔

اس کے بعد کاشف مرزا پینترے بدلتے ہیں اور ایک اور جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں، ’’آپ مجھے ایک بات بتائیں، اسے (ملالہ کو) بلڈ (پیش) کہاں سے کیا گیا؟ اس عبدالحئی کاکڑ نے بلاگ کے زریعے کیا نا؟‘‘ پھر فرماتے ہیں، ’’وہ جو بی بی سی کا بلاگر ہے، اس نے یہ ایک پلاننگ کے تحت کیا۔ اپنی کتاب میں وہ خود لکھتی ہے کہ میں بولتی تھی، اور وہ ٹیلی فون پر سن کر لکھتا تھا۔‘‘ پھر اس سے کاشف مرزا بڑے فخر سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’’اب اس(ملالہ نے) یہ مان لیا کہ وہ خود نہیں لکھتی تھی۔‘‘۔

یہ اس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ کاشف مرزا کو ہم پورے خلوص سے مشورہ دیں گے کہ وہ فوری طور پر کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کریں کیونکہ وہ اپنی سوچ سمجھ مکمل طور پر کھو رہے ہیں۔

اگر ایک ٹیچر خود اپنے ہاتھوں سے ایک مضمون لکھے، اور اگلے روز اپنی کلاس میں اس مضمون کو زبانی بولے تاکہ اس کے طلباء اس مضمون کو سن کر اپنی کاپیوں پر لکھیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ٹیچر نے مضمون نہیں لکھا؟ کاشف مرزا کی لغت میں تو ایسا ہی ثابت ہوتا ہے۔ حقیقت حال محض یہ ہے کہ سوات میں ملا فضل اللہ اور ان کے دہشت گرد عوام کا جینا حرام کئے ہوئے تھے، ایک طرف وہ اپنی غیر قانونی ریڈیو نشریات سے لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا، دوسری طرف وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو قتل کرواتا، اور روز سر بریدہ لاشیں سوات کی سڑکوں اور کھمبوں پر پڑی نظر آتیں۔ اپنی دہشت کا سکہ جمانے کے بعد ملا فضل اللہ نے حجام کی د کانوں اور لڑکیوں کے سکولوں کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ سوات کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، وہ فوج کو بلا رہے تھے، اور مولانا فضل الرحمان کی صوبائی حکومت ایسا ہونے نہیں دے رہی تھی۔ طالبان نے لڑکیوں کے سکولوں کو بند کر دیئے جانے کا الٹی میٹم دیا اور پھر سینکڑوں سکول اڑا دیئے۔ ان حالات میں بی بی سی نے سوات کے عوام کے زخم سامنے لانے کے لئے بلاگ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ عبدالحئی کاکڑ نے ملالہ کے والد (جو ایک صاحب کتاب دانشور اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تھے) سے اس سلسلے میں مدد مانگی۔ ملا فضل اللہ کے خوف سے کوئی بلاگ (ڈائری) لکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ ایسے میں ملالہ نے از خود اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آگے بڑھے گی۔ ملالہ نے محض گیارہ برس کی عمر میں اس کٹھن کام کا بیڑا اٹھایا اور بی بی سی کے لئے بلاگ لکھنا شروع کئے۔ ملالہ اپنی کتاب میں کہتی ہے کہ بار بار بجلی کا سلسلہ منقطع ہونے اور انٹرنیٹ کی فراہمی نہ ہونے کے سبب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ٹیلی فون پر اپنے بلاگ زبان سے لکھواتی۔ لہٰذا بی بی سی کے عبدالحئی کاکڑ، ملالہ کے گھر فون کرتے، اور ملالہ (کاغذ پر اپنی لکھی ہوئی تحریر) کو فون پر بولتی جاتی اور وہ لکھتے جاتے۔

Diary

کاشف مرزا اس واضح بات کو جس طرح غلط رنگ دے کر جھوٹ پھیلا رہے ہیں، اس سے واضح ہے کہ ان کی ہمدردیاں دراصل ملا فضل اللہ کے ساتھ ہیں اور انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ ملالہ نے اتنی بڑی دلیری کا کام کر کے طالبان کے ظلم و ستم بے نقاب کیوں کئے۔

احمد قریشی نے میزبان کی حیثیت سے نرم پیرائے میں کاشف مرزا کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ ایک انٹلکچوال ہے اور وہ ڈائری لکھنے سے پہلے بھی تقاریر کیا کرتی تھی اور انسانی حقوق کے لئے متحرک تھی۔ اس پر حسد کے مارے کاشف مرزا فرماتے ہیں کہ ملالہ کوئی انٹلکچوال نہیں، اور یہ کہ ’’(پرائیویٹ سکول) فیڈریشن ایک پیپر بناتی ہے، وہ (ملالہ) اسے پاس کر کے دکھا دے۔‘‘ پھر اس کے بعد ہاتھ نچاتے ہوئے پھر یہ تکرار کرتے ہیں کہ ’’جب وہ خود مان رہی ہے کہ لکھتا وہ تھا، تو پیچھے رہ کیا گیا؟‘‘ اس موقع پر احمد قریشی کے چہرے پر بیزاری اور جھنجھلاہٹ کے آثار نمایاں دکھائی دیئے۔ اقوام متحدہ میں دنیا بھر کے رہنماؤں کے سامنے مکمل اعتماد سے تقریر کرنے اور دنیا بھر میں اردو، پشتو اور انگریزی، ان سب زبانوں میں بہترین انٹر ویوز دینے والی ملالہ کو ایسی بات کہنے والے کاشف مرزا کی ذہنی ساخت کتنی پست اور نیچ ہے، اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد کاشف مرزاکہتے ہیں کہ چونکہ ملالہ کے والد کے لڑکیوں کے سکول تھے، اور ملا فضل اللہ نے لڑکیوں کے سکولوں کو دھماکوں سے اڑانے کی دھمکی دی تھی، لہٰذا ضیاء الدین صاحب کا بزنس خراب ہو رہا تھا، اس لئے وہ طالبان کے خلاف اٹھے۔

۔’’بزنس خراب ہو رہا تھا‘‘؟ افسوس کہ ایک ایسا شخص جو خود آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کا نہ صرف یہ کہ مرکزی صدر ہے بلکہ گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ کا سابقہ مشیرِ تعلیم بھی رہا ہے، کی بصیرت کا یہ حال ہے۔ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ سوات کے بچے، بچیاں تعلیم جیسے حق سے محروم ہو رہی تھیں اور وہاں فضل اللہ کے ظلم و ستم سے گھر گھر خوف کی فضا قائم تھی۔

اس کے بعد کاشف مرزا ایک نیا اعتراض گھرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس (ملالہ) کے باپ نے ایک ای میل کی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر ، جنرل عباس اطہر صاحب کو، کتاب میں اس نے لکھا ہوا ہے کہ میں نے اپنے گیارہ لاکھ روپے وصول کئے۔ کیوں وصول کئے بھئی؟‘‘۔

1.1 million

کاشف مرزا صاحب ! یا تو آپ کی بینائی میں کوئی سنگین مسئلہ ہے کہ آپ کو صرف اپنے مطلب کی بات دکھائی دیتی ہے اور اس کے آگے پیچھے کے جملے پڑھتے ہوئے آپ اندھے پن کا شکار ہو جاتے ہیں، یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ حسد اور نفرت میں اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ آپ کے دل میں خدا کا خوف نامی کوئی شے باقی نہیں رہی، اور آپ کا ضمیر جیتے جی مر چکا ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ 2009ء میں سوات میں آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد دربدر ہوئے اور سوات کا نظام زندگی برباد ہو کر رہ گیا۔ یہ آپریشن ملا فضل اللہ اور ان کے چیلے چانٹوں کے خلاف تھا، جن سے کاشف مرزا کو بظاہر نظریاتی ہمدردی ہے۔ ملالہ کے والد کے سکول بھی بند پڑے رہے۔ طالب علم جب سکول میں نہیں آرہے تھے تو ملالہ کے والد نے ان سے کوئی فیس وصول نہیں کی۔ البتہ آپ کو یہ فکر دامن گیر رہی کہ سکول کے اساتذہ کو تنخواہ کیسے ادا کی جائے۔ واضح رہے کہ کاشف مرزا خود پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ پرائیویٹ سکول والے سکول بند ہونے کے باوجود بھی اپنے طلباء کا خون چوستے اور فیسیں وصول کرتے ہیں، دوسری طرف اپنے ٹیچرز کو چھٹیوں میں شاید ہی تنخواہیں ادا کرتے ہوں۔ خیر، ملالہ کے والد ایک انسان دوست شخصیت ہیں اور وہ اپنے اسٹاف کے بارے میں فکر مند تھے، اور انہوں نے اپنے طلباء سے کوئی فیس بھی نہ لی۔ سوات میں آپریشن کئی ماہ تک جاری رہا۔ اس سے پہلے ایک ملاقات میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عباس اطہر نے ملالہ کے والد کو خود اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر یہ پیشکش کی تھی کی کسی ضرورت یا پریشانی کے موقع پر وہ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ضیاء الدین یوسف زئی صاحب نے عباس اطہر کو ای میل میں اس پریشانی کا ذکر کیا، جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ازراہ شفقت انہیں گیارہ لاکھ روپے دیئے، جس کو استعمال کر کے اساتذہ کرام کی مہینوں کی تنخواہیں وغیرہ ادا کی گئیں۔

یہ سب ملالہ کی کتاب میں واضح لکھا ہے مگر حسد اور نفرت انسان کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ دیتے ہیں، اور یہی کچھ کاشف مرزا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ صاف پتا لگ رہا ہے کہ وہ ملالہ اور اس کے والد سے کسی ذاتی رنجش اور کاروباری رقابت کا بدلہ لے رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ وہ طالبان کے نظریاتی ہمدرد بھی ہیں۔

احمد قریشی نے اس موقع پر کاشف مرزا سے سول کیا کہ آخر وہ ملالہ کے والد کے اس قدر خلاف کیوں بول رہے ہیں، اس کے جواب میں کاشف مرزا فرماتے ہیں،۔

۔’’میں ضیاء الدین صاحب کے اس لئے خلاف ہوں کہ کوئی انسان جو آئین پاکستان، پاکستان، اسلام کے خلاف ہے، جو غدار ہے، میں اس کے خلاف ہوں۔‘‘۔

اپنے جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی اعتراضات، جن کا پول ہم اس تحریر میں کھول ہی چکے ہیں، کے بعد جس انداز میں کاشف مرزا حب الوطنی اور ایمان کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے پھر رہے ہیں، اس سے ہمیں یورپ کے تاریک دور (ڈارک ایجز) کی یاد آرہی ہے جہاں مسیحی پیشوا لوگوں میں جنت کے سرٹیفیکیٹ بیچا کرتے تھے۔ لہٰذا غریب، غربا جنت کا ٹکٹ خریدنے میں ناکام رہتے اور گویا جہنم واصل ہو جاتے۔ مغربی اقوام نے اپنا سبق سیکھ لیا اور اپنی اصلاح کر لی، مگر افسوس کہ مملکت خداد کے نصیب میں کاشف مرزا جیسے نام نہاد دانشور آئے جو جہالت کا بیوپار کرتے پھر رہے ہیں۔

پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے بجا طور پر کاشف مرزا کو یہاں ٹوکتے ہوئے کہا کہ اس طرح کوئی کسی کو ذاتی ناپسندیدگی کی بنا پر غدار قرار نہیں دے سکتا۔ اور یہ کہ غداری ایک قانونی اصطلاح ہے اور اس کا فیصلہ صرف اعلیٰ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔ اس پر کاشف مرزا نے دو دلائل دیئے۔ ایک تو یہ کہ ضیاء الدین نے 1997ء میں پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر بازو پر کالی پٹی باندھی، جس پر عدالت نے ان پر جرمانہ کیا اور دوم یہ ان پر واپڈا نے بھی مقدمہ قائم کیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کاشف مرزامیں فکری بصیرت کی نہ صرف قلت بلکہ شدید قحط کی سی صورتحال ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زندہ معاشروں میں لوگوں کو اپنی رائے دینے اور پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نومبر 2007ء میں پاکستان میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا، تو میری یونی ورسٹی کے طلباء نے سیاہ پٹیاں باندھ کر حکومت سے احتجاج کیا (میں اس احتجاج میں شریک نہیں تھا، میں نے ہنگامی حالت کے نفاذ کی حمایت کی تھی، اور یہ رائے رکھنا میرا حق تھا)۔ مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ سیاہ پٹیاں باندھنے والے طلباء بھی اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے حکومت تک اپنی آواز پہنچا رہے تھے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف ہیں، ان کا شکوہ صرف حکومت سے تھا۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ قیام پاکستان سے اب تک غریب عوام ایک استحصالی نظام کی چکی میں پسے جا رہے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ قائد اعظم مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ الگ رکھنے کے قائل تھے۔ اس ریاست کی بنیاد میں وہ میثاق شامل ہے، جس کی زبان پاکستان کے بانی نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں دی۔ کیا پاکستان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قائد اعظم کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے کے بعد یوم آزادی پر منافقت کا مظاہرہ کر کے بڑے بڑے جشن منائے اوراپنی اصلاح کو تیار نہ ہوں؟

اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس بنا پر عید نہیں منا رہا اور نیا لباس نہیں بنوا رہا کہ اس ملک کے کتنے ہی لوگ غربت اور تنگ دستی کے مارے نیا جوڑا نہیں پہن سکیں گے، تو کیا کاشف مرزا اس سے یہ استنباط کریں گے کہ وہ شخص ایک اسلامی تہوار کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اگر نہیں، تو انہیں بدگمانی کرنے کی بجائے اچھا گمان رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ سیاہ پٹی پاکستان کے خلاف نہیں، بلکہ معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر تھی، اور بتانا یہ مقصود تھا کہ وہ جشن نہیں منا رھے۔ اور جشن نہ منانے کوہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں آزادی یا پاکستان سے محبت نہیں۔

افسوس یہ ہے کہ ملالہ اور اس کے والد کی حب الوطنی کو داغدار کرنے والے کاشف مرزا کو اسی کتاب میں یہ لکھا نظر نہیں آیا جہاں ملالہ کہتی ہے، “مجھے فخر ہے کہ ہمارا وطن، دنیا میں مسلمان ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔” رنج ہوتا ہے کہ کاشف مرزا کو کتاب میں یہ لکھا ہوابھی نظر نہیں آیا، جہاں ملالہ کہتی ہے، ’’میرے والد اضطراب کے عالم میں گھر لوٹے اور کہا کہ اگر لوگ سکول اور سڑکیں تعمیر کرنے کے لئے رضاکارانہ کام کریں اور دریاؤں سے پلاسٹک (اور کاٹھ کباڑ ) صاف کردیں، تو خدا کی قسم ہمارا ملک ایک برس میں ہی جنت جیسا ہوجائے گا۔‘‘ کیا آپ کو ان جملوں میں وطن سے پیار جھلکتا نہیں دکھائی دے رہا؟ کاشف مرزا کی نظروں سے ملالہ کا یہ جملہ بھی اوجھل رہا جہاں لکھا ہے کہ ’’میں نے ڈاکومینٹری بنانے والوں سے کہا کہ وہ (طالبان) مجھے نہیں روک سکتے۔ میں تعلیم حاصل کروں گی، چاہے گھر میں یا سکول میں یا کہیں بھی اور۔ میری دنیا سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے سکولوں کو بچائیں، ہمارے پاکستان کو بچائیں، ہمارے سوات کو بچائیں۔ ‘‘۔

I am Malala - III

اب آئیے کاشف مرزا کے ایک اور جھوٹ کی طرف ۔ موصوف فرماتے ہیں، ’’دوسرے جگہ وہ (ملالہ) لکھتی ہے کہ میرے باپ کے اوپر واپڈا نے میٹر ٹمپرنگ کا کیس کیا، اور اس پر جرمانہ ہوا۔‘‘۔

آیئے ذرا اس کی حقیقت بھی دیکھ لیں۔ ملالہ کی کتاب میں اس کی یاد داشتیں تحریر ہیں۔ ان میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ واپڈا کے میٹر ریڈر نے ضیاء الدین صاحب سے یہ بہانہ لگا کر رشوت طلب کی کہ میٹر درست نہیں ہے۔ ضیاء الدین صاحب نے عمدہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بے ایمان شخص کو رشوت دینے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں میٹر ریڈر نے انہیں لمبا چوڑا بل بنا کر بھجوا دیا۔ اس وضاحت کے بعد کاشف مرزا کا ایک اور دعویٰ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جاتا ہے۔

WAPDA

اس کے بعد کاشف مرزا کچھ جذباتی مگر حقائق سے عاری تقریر جھاڑ کر ملالہ اور ان کے والد کے ایک بار پھر پاکستان مخالف ہونے کی رٹ لگاتے ہیں۔ پھر سانس لیتے ہی یہ کہتے ہیں کہ ضیاء الدین صاحب کو پاکستان ہائی کمشن کے اتاشی کی حیثیت سے یہ بیان دینے کا حق کس نے دیا کہ پاکستان کو ہر حال میں شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنا پڑے گا۔

کاشف مرزا نے یہ دعویٰ کیا تو بہت طمطراق سے، مگر افسوس کہ وہ یہاں بھی مار کھا گئے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ بھی سچ نہیں۔ کاشف مرزا کے قبیلے کے کسی شخص نے مدتوں پہلے یہ جھوٹ میڈیا پر پھیلا دیا تھا، اور اس کے فوری بعد ضیاء الدین صاحب نے اس کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان سے منسوب ایسی تمام خبریں غلط اور جھوٹی ہیں۔

Fake propaganda Clarificaton by ZY

پھر کاشف مرزا فرماتے ہیں، ’’آپ مجھے بتائیں، وہ پاکستان کے خلاف اپنی بچی کو استعمال کر رہا ہے۔‘‘۔

فی الوقت تو اگر کوئی شخص ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے تو وہ کوئی اور نہیں، بلکہ کاشف مرزا خود ہی ہیں، جو کسی ایجنڈے کے تحت پاکستان کی ہونہار اور قابل فخر بیٹی کے خلاف ایک پر فریب مہم چلا رہا ہے، جو ممکنہ طور پر طالبان کے ایماء پر ہو رہا ہے۔

اس کے بعد کاشف مرزا احمد قریشی سے سوال کرتے ہوئے پوچھتے ہیں، ’’آپ میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کتنی بار امریکی سفیر سے براہ راست ملتے ہیں؟ یہ (ملالہ) کس حیثیت میں رچرڈ ہالبروک کو جا کر ملتی رہتی ہے؟‘‘۔

اس موقع پر احمد قریشی انہیں ٹوک کر فوراََ ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رچرڈ ہالبروک کے ساتھ جس ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ دراصل یونی سیف کے ایک پبلک اجلاس کے موقع پر لی گئی تصویر ہے جس میں رچرڈ ہالبروک (انسانی حقوق اور) این جی اوز کے نمائندگان کے ساتھ ملے اور یہ کہ وہ تقریب حکومت پاکستان اور دفتر خارجہ کی اجازت سے منعقد کی گئی تھی اور اس میں ملالہ (اور ان کے والد) نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے رچرڈ ہالبروک سے مدد کی استدعا کی تھی۔

M-18

یہ دیکھنے پر کہ ان کا یہ جھوٹ تو ایک دم ہی پکڑا گیا، کاشف مرزا نے بات کا رخ بدل کر ڈرون حملوں کا ذکر کرنا شروع کر دیا، جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ یہ سب اعتراضات جان بوجھ کر اور بدنیتی کے ساتھ کر رہے ہیں، اور جہاں چوری پکڑے جانے کا اندیشہ ہو، بات کا رخ بدل لیتے ہیں۔ کاش کہ احمد قریشی نے ملالہ کی کتاب کا از خود مطالعہ کیا ہوتا کہ ایسا ہونے کی صورت میں وہ یقینی طور پر ہر نکتے پہ کاشف مرزا کو ٹوک سکتے۔

پروگرام کے آخر میں احمد قریشی نے کاشف مرزا سے کہا، ’’ملالہ یوسف زئی، ایک چھوٹی بچی، جس کو گولیاں لگی ہیں، جس کی وجہ سے اس کا فیس (چہرہ) ڈس فگر (مسخ) ہو گیا، اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا ذرا سا۔ اس کے کمپیریزن (تقابل) میں آپ اپنی کتاب میں ۔۔۔ آپ کا کہنا ہے کہ آپ اس (ملالہ) کی کتاب سکول میں سلیبس نہیں بنا سکتا۔۔۔ مگر یہ بھی تو آپ دیکھیں نا۔۔۔۔ کہ آپ نے اس بیچاری بچی کی تصویر، جس میں اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا ہے، اس کے ساتھ ایک جانور کی تصویر لگائی ہے، جو میں نہیں دکھاؤں گا سکرین پہ۔۔۔ کیونکہ وہ بہت برا ہے۔‘‘۔

Qabeeh-Harkat

سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ کاشف مرزا اس اخلاق باختہ حرکت کی بھی مہمل توجیہات پیش کرتے دکھائی دیئے، اور بغیر کوئی شرمندگی دکھائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اس کا ذمہ دار بھی ملالہ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ملالہ نے اپنی کتاب میں جنرل ضیاء الحق کے لئے ’’پانڈا شیڈو آئیز‘‘ اور ملا عمر کے لئے ’’ون آئیڈ ملا‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں، اس لئے کاشف مرزا کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ ایسی پست حرکت کریں کہ ملالہ کے ساتھ کسی جانور کی تصویر جوڑ دیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ بزعم خود ایک دانشور یہ بات جاننے سے قاصر ہے کہ انگریزی زبان میں انگریزی اصطلاحت ہی استعمال ہوں گی۔ ملا عمر خود کو ملا ہی کہلواتے تھے، اور اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ وہ ایک آنکھ سے محروم تھے، ایسے میں انہیں انگریزی میں ’’ون آئیڈ ملا‘‘ نہ لکھیں تو کیا ٹو آئیڈ ملا کہیں؟ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکوں سے کون واقف نہیں۔ ایسے حلقوں کو پانڈا شیڈو آئیز ہی کہا جاتا ہے۔

کاشف مرزا پھر فرماتے ہیں، ’’اور میں ایک بات بتاؤں۔۔۔ یہ سوشل میڈیا پر ۔۔۔۔ یہ ہم نے نہیں کیا۔۔۔۔‘‘۔

احمد قریشی انہیں پھر احساس دلاتے ہیں کہ ایک ماہر تعلیم کو ایسی حرکت زیب نہیں دیتی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے احمد کے تاثرات واضح تھے کہ وہ ان مضحکہ خیز ’’دلائل‘‘ کو کس مجبوری سے برداشت کر رہے ہیں۔ کاشف مرزا نے اس موقع پر کہا، ’’یہ سوشل میڈیا پر آل ریڈی (پہلے سے) موجود ہے۔۔۔۔ یہ ہم نے نہیں لگائی۔۔۔‘‘۔

کمال است! یعنی کاشف مرزا کی فکری گہرائی اور گیرائی کا مزید اندازہ اس بات سے ہی لگا لیں کہ اپنی ہی شائع کردہ کتاب میں موجود ایک شے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ صاحب، ہم نے نہیں لگائی۔ اور پھر ڈھٹائی دیکھئے کہ کہتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا پر پہلے سے موجود ہے۔ گویا سوشل میڈیا پر پائی جانے والی مغلظات ان کے نزدیک کسی آسمانی سچائی کا نام ہیں۔

مجھے ذات طور پر مایوسی اور صدمہ تھا کہ میں، کاشف مرزا کی کسی ایک بات سے بھی متفق نہیں ہو پا رہا۔ مگر پروگرام کے آخر میں انہوں نے ایک ایسی خوبصورت بات کہی، جس میں ان سے مجھے کوئی اختلاف نہ تھا۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تحریر میں اس کا ذکر بھی کیا جائے۔ آپ نے کہا کہ ’’پاکستان زرخیز ہے۔ خواتین کا بہت اہم، وائٹل (بھرپور) رول (کردار) ہے۔۔۔ خواتین جو ہیں (وہ) مردوں سے زیادہ بہتر پرفارم کر رہی ہیں۔ ‘‘۔

زندہ باد! کیسی کھری اور سچی بات کہی تم نے۔ یقینی طورپر خواتین، مردوں سے بہتر پرفارم کر ہی ہیں۔ اس ضمن میں ملالہ سے بہتر مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟

پروگرام کے اختتام پر کاشف مرزا نے ملالہ اور ضیاء الدین صاحب کو ان الفاظ میں للکارا، ’’میں ملالہ کو، ضیاء الدین کو، اوپن چیلنج کرتا ہوں۔۔۔۔ کہ پوری دنیا میں۔۔۔ اس کو (اگر) ڈر لگتا ہے پاکستان آنے میں۔۔۔ میں پوری دنیا میں کسی بھی جگہ، جہاں وہ اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھتے ہیں، میں آنے کو تیار ہوں۔۔۔۔ وہ اپنی کتاب کے اوپر بھی، اور میری کتاب کے اوپر بھی، دونوں کے اوپر مجھ سے ڈیبیٹ کر لیں، اس کی سچائی کے اوپر۔۔۔ اور میں ان سے کہتا ہوں کہ میرا خون تم پر حلال ہے، اگر تم مجھے غلط ثابت کر دو۔‘‘۔

سچائی! کیا کہا، سچائی! واہ کاشف مرزا، آپ کی حس مزاح بھی خوب ہے۔ یہ لفظ کم از کم آپ کے ہونٹوں پر بہت اجنبی اجنبی سا لگ رہا ہے۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ جس ملالہ نے خود پر قاتلانہ حملہ کرنے اور کرانے والوں کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے درگزرکر دیا اور انہیں تعلیم حاصل کرنے اور امن کی راہ پر چلنے کی دعوت دی، کیا وہ ملالہ ، کاشف مرزا کا خون حلال کرے گی؟

احمد قریشی کے پروگرام میں آدھے گھنٹے تک ٹی وی سکرین پر دروغ گوئی اور نفرت کا پرچار کرنے کے بعد کاشف مرزا کے بھاگ ایک بار پھر جاگے اور 7 فروری کو انہیں ایک اوسط درجے کے اینکر، یعنی ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں اپنا زہر اگلنے کا موقع ملا۔ اب کی بار پہلے سے میچ فکس کرا لیا گیا تھا، یعنی ڈاکٹر دانش، کاشف مرزا کے تمام جھوٹ خوب مرچ مصالحہ لگا کراپنے پروگرام میں پیش کرنے کے لئے پوری طرح تیار یعنی اس جرم میں پوری طرح شریک کار تھے۔

ڈاکٹر دانش اپنے پروگرام کے آغاز میں کہتے ہیں، ’’یہ وہ ملالہ ہے، جس کے والد کا سوات میں پرائیویٹ سکولز کا کاروبار تھا۔‘‘۔

آپ کا تو مجھے معلوم نہیں، البتہ ڈاکٹر دانش کی زبان سے مجھے یہ لفظ ’’کاروبار‘‘ کوئی اچھا محسوس نہیں ہوا۔

اگلی سانس میں ڈاکٹر دانش سوال کرتے ہیں کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر ملالہ نے ایسا کیا کیا ہے کہ اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے؟

اگر کچھ لوگ یا ڈاکٹر دانش خود اس سے لاعلم ہیں تو بہت بہتر ہو گا کہ وہ پہلے اس پر تحقیق کر لیں۔ ان کی بے خبری اس بات کی گواہی نہیں ہو سکتی کہ ملالہ نے کچھ نہیں کیا۔ ان کی بے خبری ان کی اپنی جہالت یا تعصب کی علامت ہے۔

اگلے جملے میں ڈاکٹر دانش کہتے ہیں، ’’کل تک جو لڑکی کہتی تھی، میں وہ کلپ دکھاؤں گا۔۔۔ وہ کہتی تھی۔۔۔ کہ سم لَو ون، سم لَو ٹو۔۔۔ ایک پوئٹری (شاعری) وہ کر رہی ہے۔۔۔۔ آئی لَو ون، دیٹ از یُو۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے تو اس عمر میں یہ بھی نہیں پتا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ وہ ملالہ چند دنوں بعد پوری دنیا میں سپیچ (تقریر) کر رہی ہے۔۔۔۔‘‘۔

ڈاکٹر دانش کا مسئلہ یہ ہے کہ شاید انہیں انگریزی کی سمجھ نہیں، اس لئے ’’پوچھے کوئی الف تو اسے بے بتاتے ہیں‘‘ کی طرح انہیں ملالہ کی کہی بات کی سمجھ تو آئی نہیں، اس کے برعکس جو ڈاکٹر دانش کی عقل میں پڑا، وہ مکمل الٹ تھا۔ مگر اس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے جب ڈاکٹر دانش اپنے دعویٰ کو سچا کرنے کی غرض سے وہ کلپ دکھائیں گے جس میں وہ اپنی کہی بات ثابت کرنے کی ناکام کوشش کریں گے۔

پھر فرماتے ہیں، ’’اس کتاب کے اندر نظریہ پاکستان، اسلامی قوانین، اللہ، رسول اور ایٹمی، نیوکلیر پاکستان کا سٹیٹس، انسٹی ٹیوشنز، پاکستان کی آرمی، آئی ایس آئی اور دنیا بھر کی سٹیٹ منٹس اس کتاب میں موجود ہیں، جو ملالہ نے لکھی ہے۔۔۔ وہ ملالہ جسے چند دن پہلے تک یہ نہیں پتا تھا کہ محبت کس کو کہتے ہیں۔۔۔ میں دکھاؤں گا ۔‘‘۔

یہاں ڈاکٹر دانش نے دوسری بار وہی بات دہرائی ہے، مگر ہم اس کا جواب اپنے وقت پر دیں گے۔ ان کے جملے سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس مکارانہ طور پر ملالہ کو غداری اور توہین مذہب کے کیس میں فریم کرنا چاہ رہے ہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش اپنے مہمانوں کا تعارف کراتے ہوئے کاشف مرزا، فیاض الحسن چوہان اور اجمل وزیر کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ صاحبان ہیں جو ملالہ کے لئے بغض تو رکھتے ہی ہیں، مگر ساتھ ساتھ لا محالہ طالبان کے لئے بھی خصوصی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

پھر ڈاکٹر دانش، اپنی طرف سے ملالہ کی کتاب سے دانستہ طور پر سیاق و سباق حذف کر کے اپنی طرف سے کچھ ’’قابل اعتراض‘‘ اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر دانش ٹی وی سکرین پر کتاب کی سکرین شاٹس دکھانا شروع کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملالہ کو موذن کی آواز پسند نہیں اور وہ صبح اٹھنا پسند نہیں کرتی۔ بعد میں ڈاکٹر دانش ملالہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے ریپ کا شکار عورت پر ’’اسلامی‘‘ قانون کے مطابق چار گواہوں کی شرط پر تنقید کی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر دانش کہتے ہیں، ’’ اس نے اپنی کتاب کے پیج 24 پر اسلام کو لکھا ہے میلیٹنٹ اسلام (عسکری اسلام)۔ ‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دانش ملالہ کے والد پر تنقید کرتے ہوئے رشدی کے ناول کے مد مقابل کتاب لکھنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر دانش اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس کے بعد بڑی بات لکھی ہے اور وہ پیج 72 میں ہے۔‘‘ اس کے لئے ملالہ کی کتاب سے ایک صفحے کا عکس سکرین پر دکھاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ملالہ نے اس بات پر سوال اٹھایا ہے کہ خدا سب کچھ نہیں دیکھ پاتا۔ ڈاکٹر دانش یہ تبصرہ کرتے ہیں ’’میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جملے سے پریشان ہو گیا ہوں۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔ اور کیا یہ چیز ہے کہ کیا خدا سے بھی کوئی چیز مس (نظر انداز) ہو سکتی ہے؟‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دانش کہتے ہیں ’’اس کے بعد پیج 75 ۔۔۔۔ جس میں اس نے احمدیوں کا ذکر کیا ہے۔۔۔‘‘ پھر ڈاکٹر دانش اس صفحے کا عکس دکھاتے ہیں جس میں اس قانون پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ زیادتی (ریپ) کا شکار عورت کو چار مرد گواہ لانا پڑیں گے۔ ڈاکٹر دانش کے مطابق یہاں اسلامی قوانین پر اعتراض کیا گیا ہے۔

یوں کوئی آٹھ منٹ تک ملالہ کی مسلسل کردار کشی اور اس کی کتاب کو سیاق و سباق اور اصل متن سے ہٹا کر پیش کرنے کے بعد ڈاکٹر دانش اپنے مہمان یعنی کاشف مرزا کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں۔

کاشف مرزا نے اپنی مرضی کے ایمپائر کی موجودگی میں جھوٹ اور فریب سے تیار کردہ پچ پر اپنی بیٹنگ کا آغاز یوں کیا، ’’دیکھیں! اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کا احترام ہر مسلمان، مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ‘‘ اور پھر اس کے بعد یہ راگ الاپا کہ ملالہ کی کتاب میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اسی تحریر میں ہم پہلے ہی کاشف مرزا کی جعل سازی کا پول کھول چکے ہیں، لہٰذا اس کو دہرانا غیر ضروری ہے۔ ہم کاشف مرزا کو یاد دلانا چاہیں گے کہ سچ بولنا، مظلوم کا ساتھ دینا، اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور بدگمانی سے بچنا بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات ہیں، جن سے کاشف مرزا کا دور کا بھی واسطہ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہت مناسب ہو گا اگر وہ اپنے گریبان میں بھی جھانکنا سیکھیں۔

اب ہم آتے ہیں ان الزامات کی طرف جو ڈاکٹر دانش نے اپنی تمہیدی خطاب میں اٹھائے اور جن کو کاشف مرزا نے مزید آگے بڑھایا۔

ذیل میں ملالہ کی کتاب کا وہ اقتباس پیش کیا گیا ہے ، جس پر ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے یہ الزام لگایا ہے کہ ملالہ کو موذن کی آواز پسند نہیں۔ ’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔۔ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے‘‘ کے مصداق، یہاں ملالہ نے سرے سے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں۔ اس کے برعکس ملالہ سوات کی زندگی یاد کرتے ہوئے کہتی ہے، ’’مجھے نیند سے اٹھنا پسند نہیں، اور میں (صبح) مرغ کی بانگوں اور موذن کی اذان کے دوران بھی (گہری) نیند سوئی رہتی ہوں۔ ‘‘ پھر وہ بتاتی ہے کہ اسے پہلے اس کے والداٹھانے کی کوشش کرتے تھے اور بعد میں والدہ، یہاں تک کہ وہ اپنی نیند بھگا کر اٹھ جانے میں کامیاب ہو جاتی۔ چھوٹی عمر میں بچوں کی نیند پکی ہی ہوتی ہے اور ان کے لیے صبح اٹھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے، اور یہی بات اس جملے میں لکھی گئی ہے۔ میں اپنے قارئین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا اس میں ایک بھی لفظ قابل اعتراض ہے؟ یقینی طور پر نہیں، مگر کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش، چونکہ یہ ارادہ کر کے آئے ہیں کہ وہ ملا فضل اللہ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اور ملالہ کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ہی دم لیں گے، لہٰذا وہ مسلسل لوگوں کی مذہبی جذبات اکسا رہے ہیں۔

Getting up

اب آگے چلتے ہیں اور ایک مختصر نظر اس الزام پر بھی ڈال لیتے ہیں جہاں بقول ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، ’’اسلامی قوانین‘‘ کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ کوئی بھی عقل، فہم رکھنے والا شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین کو ہم انسان کے بنائے قوانین ہی سمجھیں گے اور کسی بھی مہذب معاشرے میں انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر غور کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاکہ اس میں بہتری لائی جا سکے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی اسی ’’جرم‘‘ کی پاداش میں شہید کر دیا گیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء کے قوانین پر نظر ثانی اور ان میں بہتری لانے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ یاد رہے کہ ان کی بھی پاکستانی میڈیا پر اسی طرح کردار کشی کی گئی تھی، جیسے یہ نام نہاد اینکرز آج ملالہ کی کر رہے ہیں۔ اس ضمنی تبصرے کے بعد ہم اپنے قارئین کو مولانا منور حسن (سابقہ امیر جماعت اسلامی) کا وہ فرمان یاد دلانا چاہیں گے جس میں موصوف نے اپنے ٹی وی انٹرویوکے دوران کہا کہ اگر کوئی لڑکی زیادتی کا شکار ہو جائے تو یا تو وہ چار گواہ پیش کرے یا پھر خاموشی سے اس سانحے کو نظر انداز کر کے چپکے سے اپنے گھر بیٹھ جائے۔ اس پر میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ کہنا مجرمین کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف نہیں اور یہ کہ عدل کا تقاضہ کیا ہے؟ اس پر مولانا منور حسن نے بڑی سہولت سے اپنے فرمان کو قرآن الحکیم کے احکامات کا عکس قرار دیتے ہوئے میزبان پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور اسے کلمہ پڑھ کردوبارہ اسلام قبول کرنے کا حکم دیا۔ یہ ہے وہ ملائیت، جو زہر بن کر ہمارے معاشرے میں سرایت کر گئی ہے، اور جس سے جس قدر جلد پیچھا چھڑا لیا جائے، اتنا ہی مسلم دنیا کے حق میں بہتر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنسی عصمت دری، جسے ریپ یا زیادتی کہا جاتا ہے، ایک قبیح جرم ہے اور ایسا جرم کوئی سرعام نہیں ہوتا کہ مظلوم عورت چار نیک، متقی، پرہیز گار اور صالح گواہوں کو عدالت میں پیش کر سکے۔ واضح رہے کہ اگر کوئی اتنا ہی نیک، پرہیز گار، متقی اور صالح شخص ہو گا تو کیا وہ آگے بڑھ کر جرم ہونے سے روکے گا نہیں؟ کیا ہم اسلام کو ایسا غیر منطقی اور انصاف سے دور سمجھتے ہیں کہ ایک تو کسی عورت کی زندگی برباد کر کے رکھ دی جائے اور اس کے بعد اسے یہ کہا جائے کہ وہ یا تو چار مرد گواہ پیدا کرے یا پھر چپ کر کے گھر میں بیٹھی رہے (اور مجرم معاشرے میں کھلے عام دندناتے پھریں اور اپنی حرکتیں جاری رکھیں)؟ دوسری طرف یہ بھی کہ اگر زیادتی کا شکار عورت مقدمہ درج کرانے جائے، تو انصاف دلانے کی بجائے الٹا اسی کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے کہ وہ اس ’’جرم‘‘ کا اعتراف کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ جنسی فعل ہوا ہے۔ کیا کوئی ذی شعور اس طرح کے قانون کو عدل کے مساوی تصور کر سکتا ہے؟ افسوس کہ ڈکٹر دانش، کاشف مرزا اور مولانا منور حسن کی مذہبی اور عورت مخالف فہم کے مطابق یہ ’’اسلامی‘‘ قوانین ہیں۔ واضح رہے کہ ضیاء الحق کے حدود قوانین کی رُو سے زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو چار مرد گواہ پیش کرنا لازم ہیں۔ اور اگر آپ ہمارے نام نہاد علماء سے فتاویٰ حاصل کریں تو وہ چار مردوں کی شرط سے بھی مطمئن نہیں ہیں، بلکہ کہتے ہیں کہ ان چاروں نے جنسی فعل ایسے ہی سرزد ہوتا دیکھا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی داخل ہوتے دیکھی ہو۔ گویا ریپ کا شکار عورت اس دنیا میں تو کسی صورت انصاف نہیں پا سکتی، الٹا اسے خود سزا دے دی جاتی ہے کہ وہ جنسی فعل کا اعتراف کر رہی ہے۔

یہاں ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے مطالعے اور غور و فکر کے مطابق قرآن الحکیم میں چار گواہوں کی شرط کا تعلق ہرگز ریپ کا شکار عورت کے لئے نہیں ہے۔ ذیل میں ہم سورۃ النور کی آیت کو پیش کر رہے ہیں جہاں چار گواہوں کا ذکر ہے۔ ہم  قارئین سے پوچھتے ہیں کہ یہاں کہاں پر زیادتی کی شکار عورت کا ذکر ہے؟ یہاں تو یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی پاکباز عورت پر کوئی اٹھ کر بدکاری کا الزام لگا دے، تو الزام لگانے والا چار گواہ پیش کرے۔

Surah-Al-Noor

اسی طرح اب ایک نظر سورۃ النساء کی آیت بھی دیکھ لیتے ہیں جہاں چار گواہوں کا ذکر ہے۔ یہاں اُن خواتین کی بات ہو رہی ہے جو بدکاری میں ملوث ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادتی کا شکار عورت ایک مظلوم عورت ہے، اسے بدکار تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا سورۃ النساء کی اس آیت میں بھی ریپ کا ذکر نہیں ہے۔ اس آیت میں بھی یہ امکان کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بھی اٹھ کر کسی عورت کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے، ماسوائے اس کے کہ وہ چار گواہ پیش کر سکے۔

یہ آیات ہماری سمجھ کے مطابق تو خواتین کو کسی جھوٹے الزام سے بچانے اور ان کی معاشرے میں حفاظت یقینی بناتی دکھائی دیتی ہے، جب کہ مولانا منور حسن اور حدود قوانین اسے خواتین کے ساتھ ظلم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے مذہبی دانشور اپنے نفس کی پیروی میں کلام الٰہی کی تشریح میں ملاوٹ سے بھی باز نہیں آتے۔

Surah An-Nisa

اب باری آتی ہے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے اس اعتراض پر کہ ملالہ کی کتاب میں ’’میلیٹنٹ اسلام‘‘ کی اصطلاح کیوں استعمال ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں صرف ایک جگہ پر یہ اصطلاح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں جہاں جہاں اسلام کی تعلیمات کا ذکر آیا ہے، وہاں صرف اسلام ہی لکھا گیا ہے۔ میلیٹنٹ یا عسکری اسلام کی اصطلاح ملالہ کی ایجاد کردہ نہیں، بلکہ یہ تو وہ اصطلاح ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا میں مستعمل ہے۔ اس سے مراد اسلام جیسے جامع اور وسیع القلب دین کی ایسی تنگ نظر اور لہو میں لتھڑی ہوئی غلط تعبیر اور تشریح ہے، جسے دنیا بھر کی مسلمان عسکری تنظیمیں اپنے اپنے مفادات کے فروغ کے لئے پیش کر تی ہیں۔ چاہے وہ بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، فضل اللہ جیسے ظالم ہوں یا بوکوحرام یا داعش کے دہشت گرد، یہ سب جس ’اسلام ‘ کے نام پر کشت و خون کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام نہیں، بلکہ ان کا اپنا مسخ شدہ یعنی عسکری اسلام ہے۔

اس وضاحت کے بعد اب باری آتی ہے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے ایک مضحکہ خیز اعتراض کی طرف، جس میں ڈاکٹر دانش نے یہ الزام لگایا، ’’میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جملے سے پریشان ہو گیا ہوں۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔ اور کیا یہ چیز ہے کہ کیا خدا سے بھی کوئی چیز مس (نظر انداز) ہو سکتی ہے؟‘‘۔

افسوس ہے ان صاحبان کی ذہنیت پر جو ہر شے کو اپنی تنگ نظر کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اس الزام کا جواب دیں، ہم ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے سامنے علامہ اقبال کے کچھ اشعار رکھنا چاہیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ کیا وہ علامہ اقبال پر بھی اللہ کی توہین کا الزام لگائیں گے کہ نہیں! اگر نہیں، تو وہ نہتی ملالہ کے معاملے میں داروغہ بن کر کیوں سامنے آ رہے ہیں؟

ذرا علامہ اقبال کا یہ قطعہ دیکھئے:۔

Iqbal-one

کیا ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا اس بات پر بھی ہنگامہ مچائیں گے کہ اقبال نے اللہ تعالیٰ کو بخیل کہا اور یہ کہا کہ تو ایسا ساقی ہے جس کا پیمانہ خالی ہے؟

لگے ہاتھوں ذرا اقبال کی شہرہ آفاق نظم شکوہ کا یہ شعر بھی دیکھ لیجئے:۔

Iqbal-two

ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کیا اقبال پر بھی فردِ جرم لگائیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہرجائی کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں؟

اقبال کے کلام میں سے ایسی بہت سی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں ، مثال کے طور پر ایک مقام پہ وہ اللہ سے کہتے ہیں کہ تیرا نقش (تخلیق آدم) باطل نکلا۔

Iqbal-three

اور

Iqbal-four

اگر اقبال کی زندگی میں کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش جیسے صاحبان موجود ہوتے اور اگر اس دور میں بھی فضل اللہ جیسے ’میلیٹنٹ اسلام‘ کے نمائندگان موجود ہوتے، تو اقبال بھی کسی خود کش کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے۔ اور اگر اقبال کے دور میں ضیاء الحق کا سکہ چل رہا ہوتا تو اقبال ملاؤں سے اپنی جان پچاتے پھر رہے ہوتے اور ان پر بلاسفمی یعنی توہین مذہب کا مقدمہ چل رہا ہوتا اور وہ کسی روز سلمان تاثیر کی طرح کسی اندھی گولی کا نشانہ بن چکے ہوتے اور ان کا قاتل یہاں قوم کے ایک بڑے طبقے کا ہیرو ہوتا اور اس کا مقدمہ ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب لڑ رہے ہوتے اور عدالت میں اس پر گل پاشی ہو رہی ہوتی۔

امید ہے کہ ڈاکٹر دانش، کاشف مرزا اور ان کے ہم نوا کم از کم اقبال کے معاملے میں اپنی تنگ نظری اپنے تک ہی رکھیں گے۔ یقینی طور پر اقبال ایک نابغہ روزگار اور عظیم شخصیت ہیں اور کسی طور انہوں نے کوئی توہین نہیں کی۔ اس کے برعکس یہ شاعرانہ سچائی (پوئٹک ٹرتھ) کی مثالیں ہیں، جس میں شاعر اپنی بات ایک نئے پیرائے میں پیش کرتا ہے۔

اب ہم آتے ہیں ملالہ کی کتاب کے اس اقتباس پر جسے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے خوب اچھالا اور ملالہ کی کردار کشی جاری رکھی۔ میرے مطابق وہ اس کی کتاب کا ایک خوبصورت اور پر اثر حصہ ہے، جس پر سمجھ بوجھ سے عاری یہ صاحبان بے کار میں انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملالہ کی عمر محض آٹھ، نو سال ہے اور وہ اپنے ارد گرد لوگوں کو مشکلات سہتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ایک بچے کا سہارا اس کے والدین ہوتے ہیں، اور جب ملالہ نے دیکھا کہ اس کے والد بھی بے بسی سے حالات کو دیکھ رہے ہیں اور غمزدہ ہیں تو اس نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ اس کے پاس سوائے اس کے اور کوئی حل نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتی۔ لہٰذا اس نے کاغذ، قلم پکڑا اور اللہ تعالیٰ کے نام خط لکھا،۔

Letter

۔’’پیارے اللہ! میں جانتی ہوں کہ آپ سب کچھ دیکھتے ہیں۔۔۔ مگر بہت کچھ ایسا ہے جو نظر انداز ہو رہا ہے۔۔۔ خاص طور پر افغانستان پر بموں سے حملے۔۔۔۔ لیکن میں نہیں سمجھتی کہ آپ میری سڑک پر کوڑے کے ڈھیر پر زندگی گزارنے پر مجبور بچوں کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔۔۔۔ اے خدا! مجھے طاقت اور ہمت دے اور مجھے کامل بنا دے کیونکہ میں اس دنیا کوبہتر بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ ملالہ۔‘‘۔

یہ دعا کرنے کا کیسا خوبصورت انداز ہے، جس کے حرف حرف سے خدا اور انسانیت سے محبت جھلک رہی ہے۔۔۔۔ اور دوسری طرف ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا بضد ہیں کہ اس میں سے توہین کا پہلو نکالا جائے۔۔۔ جس طرح خوبصوتی اصل میں دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے، ویسے ہی بری سوچ ملالہ کی کتاب پڑھنے والے کے دماغ میں تو ہوسکتی ہے، کتاب میں ایسا کچھ نہیں۔

اب لگے ہاتھوں اس سنسنی خیز الزام پر بھی ایک نظر کہ ملالہ کی کتاب میں احمدیوں کی حمایت کی گئی ہے۔

صورت یہ ہے کہ پوری کتاب میں احمدیوں کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے، اور وہ بھی ایک اقلیت کے طور پر۔ ملالہ لکھتی ہے، ’’ہمارے ہاں دو ملین کے قریب مسیحی اور دو ملین سے زیادہ احمدی رہتے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں جب کہ حکومت انہیں ایسا نہیں مانتی۔‘‘۔

They say

میں اپنے قارئین سے جاننا چاہوں گا کہ اس جملے میں کون سی خلاف واقعہ بات لکھی گئی ہے؟ 1974ء میں ایک آئینی ترمیم کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، جب کہ وہ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی، یعنی ابھی تک خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔ اب چاہے کوئی انہیں ایسا تسلیم کرے یا نہ کرے، یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ یہاں برسبیل تذکرہ ایک مثال ذہن میں آ گئی۔ القرآن الحکیم میں سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ انہیں برا نہ کہیں جنہیں مشرکین خدا کے سوا مدد کے لئے پکارتے ہیں کہ لامحالہ وہ جوابی طور پر اللہ کو برا نہ کہنا شروع کر دیں (کیونکہ وہ اپنی طرف سے جنہیں مدد کے لئے پکارتے ہیں، انہی اپنا معبود ہی سمجھتے ہیں)۔ ہم ڈاکٹردانش اور کاشف مرزاسے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا وہ اس آیت سے یہ استنباط کریں گے کہ معاذ اللہ، قرآن الحکیم میں مشرکوں یا ان کے معبودوں کی حمایت کی گئی ہے؟

ضمنی طور پر ہم یہ اضافہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سبز خزاں بلاگ مذہب کو سیاست میں ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا مخالف ہے اور وہ تکفیر کے عمل کو امت مسلمہ کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں سمجھتا۔

پروگرام میں آگے چلتے ہیں تو ڈاکٹر دانش کی بھرپور آشیر باد سے کاشف مرزا پورے زورو شور سے ملالہ اور اس کے والد کی کردار کشی جاری رکھتے ہوئے وہی الزامات دہراتے ہیں جو اس سے پہلے وہ احمد قریشی کے پروگرام میں بھی پیش کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر کاشف مرزا کہتے ہیں، ’’بنیادی طور پر ملالہ اوراس کا باپ سلمان رشدی سکول آف تھاٹ کے پیروکار ہیں۔ آپ تسلیمہ نسرین کے ساتھ اس کی تصویریں دیکھ لیں۔‘‘۔

ہم اس جھوٹے الزام کا تفصیلی جواب اس تحریر میں پہلے ہی بہت وضاحت سے دے آئے ہیں، لہٰذا پھر دہرانے کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اپنا مکروہ پروپیگنڈا جاری رکھتے ہیں اور احمد قریشی کے پروگرام والے الزامات کی تکرار کرتے ہیں۔ کاشف مرزا، ایک بار پھر وہی راگ الاپتے ہیں کہ ملالہ نے یہ کیوں لکھا کہ یہ ملک نصف شب کو بنا؟ پھر کاشف مرزا اپنی پست سوچ کا اظہار ایک بار پھر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ اگر ملالہ ڈرون حملے میں ماری جاتی، تو وہ اس پر پروگرام نہ کر رہے ہوتے۔ گویا ملالہ کا زندہ بچ جانا، جو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے، پر کاشف مرزا کو سخت رنج ہے۔

پھر کاشف مرزا ان الفاظ میں اپنی دماغی ابکائی کرتے ہیں ، ’’ملالہ اور اس جیسے غدار تو ہوں گے۔۔۔‘‘۔

کوئی نیا الزام نہیں، مذہب کی دنیا میں کسی کو نیچا دکھانے کے لئے کفر کے فتوے اور قومیت پرستی کی دنیا میں دوسروں کو غدار قرار دینا ہمارے معاشرے کا قومی مزاج ہے۔

ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، اس بات پر معترض ہیں کہ ملالہ کی کتاب میں یہ شکوہ کیوں کیا گیا ہے کہ سوات میں طالبان اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر افواج پاکستان ان سے بے خبر رہیں۔ ڈاکٹر دانش کا کہنا ہے کہ یہ اداروں کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان صاحبان کے نزدیک افواج پاکستان اور آئی ایس آئی (جنہیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں راقم الحروف کی مکمل حمایت حاصل ہے) کی مثال کسی ایسی دوشیزہ کی سی ہے، جس پر کسی نے کوئی آواز کس دی یا کسی پرائے کی نظر پڑ گئی تو اس سکی بے حرمتی ہو جائے گی اور وہ چھوئی موئی کی طرح مرجھا جائے گی۔ لگے ہاتھوں ہم ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کو یہ مفت مشورہ دینا چاہیں گے کہ کبھی ہمت کر کے سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا وہ انٹرویو بھی سن لیں جو انہوں نے گزشتہ برس الجزیرہ چینل پر مہدی حسن کو دیا۔ اس کے مندرجات یہاں لکھنے کا موقع نہیں، البتہ اگر ڈاکٹر دانش کو اس قدر اداروں کی بے حرمتی کی فکر لاحق ہے تو ذرا ایک جملہ اسد درانی کی شان میں بھی بول کر دکھائیں۔ جی، صرف ایک جملہ! ہم ان سے پورا پروگرام کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ اور ہاں، ذرا اس بیان پر بھی اپنا تبصرہ فرما دیں جو ملک کی داخلی سلامتی پر انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے سینٹ کی داخلی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے دیا کہ ضیاء الحق کے اثر سے نکلنے میں دس برس لگیں گے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا اس بات پر کیا فرمائیں گے جو سابقہ ڈائرکٹر جنرل آئی ایس پی آر عباس اطہر نے فوجی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کی کہ طالبان کے خلاف جنوبی وزیرستان آپریشن کئی برس پہلے ہی ہو جانا چاہئے تھا۔ لگے ہاتھوں یہ ملالہ مخالف صاحبان ذرا ایک سابقہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ پر بھی تبصرہ کرتے چلیں جس میں وہ اپنے ہی ادارے کے بارے میں نازیبا باتیں لکھ چکتے ہیں۔ اور ہاں، پاکستان میں آگ اور خون کی ندیاں بہانے والے، خود کش حملوں کا ایک ہولناک سلسلہ شروع کرنے والے اور اے پی ایس اور باچا خان یونی ورسٹی پر حملے کرنے والی ٹی ٹی پی کے سرغنوں یعنی پہلے بیت اللہ محسود اور بعد میں ملا فضل اللہ کو جس ٹاپ سیکورٹی آفیسر نے محب وطن قرار دیا، ذرا اس کا نام بھی کسی سے معلوم کرلیں۔ ایک اٹھارہ سالہ نہتی لڑکی پر اوچھے وار کرنا تو بہت آسان کام ہے مگر اگر اداروں کی حرمت اتنی ہی نازک شے ہے اور خطرے میں پڑی ہے، تو درج بالا شخصیات پر بھی ایک تنقیدی پروگرام کرلیں۔

نہیں صاحب! یہاں آپ کے پر جلنے لگیں گے۔

ایک اعتراض جسے بڑی شد و مد کے ساتھ دہرایا گیا، وہ ملالہ کی کتاب میں کرسٹینا لیمب کی بطور شریک مصنف موجودگی ہے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے یہ رٹ لگائی رکھی کہ کرسٹینا لیمب پاکستان اور اسلام مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے وغیرہ۔ ہم ان کو یاد دلانا چاہیں گے کہ کرسٹینا لیمب نے کتاب میں واضح طور پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ، کرنل عابد علی عسکری، میجر طارق اور آئی ایس پی آر کی ٹیم کا کتاب لکھنے کے لئے اپنی پاکستان آمد پر بھرپور شکریہ ادا کیا ہے۔ کیا ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، ان باوردی صاحبان بالخصوص ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کو بھی اس ’’ملک اور اسلام دشمن‘‘ سازش میں شریک کار گردانیں گے؟

Lamb

اپنے پروگرام میں آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر دانش ایک ویڈیو کلپ چلاتے ہیں، جس کا ذکر وہ پروگرام کے شروع میں بھی کر چکے تھے۔ اس کلپ کو چلانے سے پہلے وہ ملالہ کے والد کو غدار کہتے ہوئے یہ سلائیڈ چلاتے ہیں۔

Slide-PROPAGANDA

اس سلائیڈ کے بعد ڈاکٹر دانش 2009ء کی ایڈم بی ایلک کی بنائی ہوئی ڈاکومنٹری ’’کلاس ڈس مسڈ‘‘ (جماعت برخواست) کا ایک مختصر سا کلپ چلاتے ہیں ۔ سلائیڈ میں کئے گئے دعویٰ کے برخلاف کمرے میں نہ تو کوئی کرسی موجود ہے اور نہ ہی کرسی یا کرسی نما کسی بھی چیز پر کوئی جائے نماز۔ ہاں، فرش پر چٹائی سی پڑی دکھائی دے رہی ہے جو لامحالہ نماز ہی کے لئے ہوگی۔ اس کے علاوہ کیمرہ فرش پر جلی ہوئی سگریٹ کے ٹکڑے پر جاتا ہے۔ ضیاء الدین صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ ان کی غیرموجودگی میں کس نے سکول اور اس کمرے کو استعمال کیا، مگر جو کوئی بھی یہاں تھا اس نے صفائی کا خیال نہیں رکھا۔‘‘ امکان ہے کہ اس وقت کمرے میں سگریٹ کی بد بو بھی بسی ہوئی ہوگی۔۔کلک

کاشف مرزا کا فرمانا ہے، ’’جس وقت اس (ملالہ کے والد) نے کہا کہ جو لوگ یہاں رہے، وہ بہت ڈرٹی تھے(ترجمہ)۔۔۔ تو وہ کیا ڈرٹی (گندے) تھے؟ وہ جائے نماز بچھی ہوئی تھی۔۔۔ اس کمرے کو مسجد کا درجہ دیا ہوا تھا۔۔۔ جو اس نے بکواس کی ہے کہ وہ ڈرٹی تھے۔۔۔۔‘‘۔

کاشف مرزا یوں تو ماشاء اللہ کافی وسیع الجثہ اور فربا شخصیت ہیں، مگر اس المیے کو کیا نام دیا جائے کہ ان کی سوچ اسی قدر چھوٹی ہے اور اس سوچ میں فہم بالکل ہی ناپید ہے۔ یہ بات تو انہوں نے چٹائی کی موجودگی میں بظاہر درست ہی کی کہ اس کمرے کو مسجد کا درجہ دیا ہوا تھا، مگر انہیں یہ سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کمرے کو اگر مسجد کا درجہ دیا گیا تھا تو وہ خود ملالہ کے والد نے دیا تھا۔ ہم کاشف مرزا کو یہ بتانا چاہیں گے کہ عام طور پر ہر ادارے میں ایک چھوٹا کمرہ عبادت کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے، جہاں چٹائی بچھی رہتی ہے۔ ہماری سمجھ کے مطابق ایسا ہی ملالہ کے والد کے سکول میں بھی ہوا۔ مگر سکول بند ہونے کی صورت میں جس کسی نے بھی سکول میں داخل ہو کر وقت گزارا (اور وہ فضل اللہ کے دہشت گرد طالبان بھی ہو سکتے ہیں)، وہ اتنے بد اخلاق تھے کہ عبادت کے لئے مختص جگہ پر سگریٹ (نشہ آور شے) استعمال کر کے انہیں اسی مسجد کے فرش پر پھینک کر چلتے بنے۔ لہٰذا ملالہ کے والد کی مایوسی اور غصہ بجا تھا کہ یہاں جو کوئی بھی رہا، اسے صفائی کا کوئی پاس نہ تھا۔

اب ایک مختصر سا تبصرہ اسی کلپ کے دوسرے حصے کا۔ ملالہ وہاں پڑی ایک کاپی اٹھا کر کھولتی ہے اور پڑھتی ہے کہ اس پر کسی نے یہ لکھا ہے کہ وہ پاکستان کی فوج سے ہے اور یہ کہ اسے اپنے سپاہی ہونے پر فخر ہے۔ ملالہ کہتی ہے کہ اس شخص کو تو سولجر کے درست سپیلنگ بھی نہیں آتے۔ وہ بولتی ہے کہ اس نے ایس۔او۔ایل۔جی۔آر لکھا ہوا ہے۔ پھر ملالہ اس کاپی کے ورق پلٹتی ہے، تو وہاں اسے اسی شخص کی (جو سکول بند رہنے کے دوران اندر داخل ہو کر اپنے ساتھیوں سمیت ٹھہرا رہا) ایک اور تحریر ملتی ہے۔ یہاں ملالہ اس تحریر کو پڑھ کر سناتی ہے۔ یہ ایک مختصر اور مشہور انگریزی نظم ہے۔۔۔ ’’سم لؐو ون۔ سم لَو ٹو۔ آئی لو ون۔ دیٹ از یُو۔‘‘ پھر ملالہ کہتی ہے کہ میری سہیلی (جس کی وہ کاپی ہے) کو محبت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں (یعنی یہ سطحی رومانوی نظم اس کی سہیلی نے نہیں لکھی)۔

اب آپ یاد کیجئے وہ جملے جو ڈاکٹر دانش نے پروگرام کے شروع میں کہے تھے۔۔۔ ’’کل تک جو لڑکی کہتی تھی، میں وہ کلپ دکھاؤں گا۔۔۔ وہ کہتی تھی۔۔۔ کہ سم لَو ون، سم لَو ٹو۔۔۔ ایک پوئٹری (شاعری) وہ کر رہی ہے۔۔۔۔ آئی لَو ون، دیٹ از یُو۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے تو اس عمر میں یہ بھی نہیں پتا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ وہ ملالہ چند دنوں بعد پوری دنیا میں سپیچ (تقریر)کر رہی ہے۔۔۔۔ ‘‘۔

ڈاکٹر دانش کی انگریزی خراب ہے کہ نیت، یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔۔۔ ہماری ذاتی رائے میں دونوں ہی خراب ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ملالہ نے اپنی سہیلی کے حوالے سے یہ کہا کہ اسے اس کم سنی میں محبت کا کیا پتا، اور یہ کہ یہ انگریزی تحریر دراصل اس شخص کی ہے جو یہاں ان کی غیر موجودگی میں قیام پزیر رہا۔ دوسری طرف ڈاکٹر دانش یہ جھوٹا پروپگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ نظم ملالہ نے خود کہی ہے، جب کہ اس کا خود یہ کہنا ہے کہ اسے محبت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش فرط جذبات میں کہتے ہیں، ’’وہ تصویر دکھائیں، جو سی آئی اے کے ساتھ یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘۔

اس کے بعد وہی گھسی پٹی پروپگنڈا تصویر سکرین پر دکھائی جاتی ہے جو مدتوں سے سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔۔۔ جس کا جواب ہزار بار دیا جا چکا ہے اور جس پر احمد قریشی نے بھی وضاحت کر دی تھی کہ وہ تصویر یونی سیف کی منعقدہ تقریب سے لی گئی ہے، جس میں رچرڈ ہالبروک باقاعدہ حکومت پاکستان کی منظوری سے شریک ہوئے۔ اس تقریب کا ذکر ایڈم بی ایلیک کی ڈاکومنٹری میں بھی ہے، اور اسی تقریب کے ایک کلپ کو وہاں دکھایا بھی گیا ہے، جس میں گیارہ سالہ ملالہ بہت اعتماد سے رچرڈ ہالبروک سے استدعا کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے مدد کریں۔

آپ نے دیکھا رائی کا پہاڑ بنانا اور جھوٹ تراشنا کیسا گھٹیا عمل ہے کہ وہ ایک احسن بات کو بھی غلط رنگ میں پیش کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، فریب گوئی کی آخری حدوں پر قدم رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔

اورذرا کاشف مرزا کے ان جملوں پر غور کیجئے جہاں وہ برہمی سے فرماتے ہیں، ’’ان جیسے غداروں کی وجہ سے پاکستان بدنام ہے۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’اب آپ ایک بات بتایئے۔۔۔ کہ ان سے بڑا گستاخ رسول اور گستاخ اللہ کون ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ آپ مجھے ایک بتائیں کہ ان جیسے غداروں کی موجودگی میں کیا ہم ایک قوم بن سکتے ہیں؟ ‘‘۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اس موقع پر پروگرام میں کاشف مرزا پر جوش انداز میں چنگھاڑتے ہیں، ’’اس (ملالہ) کی کمپین گورڈن براؤن اور اوبامہ چلا رہا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹر دانش کے استسفارپر فرماتے ہیں کہ ملالہ کے بنک اکاؤنٹ میں 68 بلین ڈالر موجود ہیں۔

ہزار نہیں، لاکھ نہیں، کروڑ نہیں، بلکہ اڑسٹھ ارب!!! اگر آپ اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں بدلیں تو یہ سات کھرب سے زیادہ رقم بنتی ہے۔ چونکہ یہ پاکستانی میڈیا ہے، یہاں دن کو رات کہنے کے لئے صرف زبان کو ہلانا درکار ہے، لہٰذا اتنی رقم کا دعویٰ ویسا ہی درست ہے جیسے یہ دعویٰ کہ دنیا ایک بیل کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے اور جب وہ بیل اسے دوسرے سینگ پر پھینکتا ہے تو یہاں زلزلہ آنے لگتا ہے۔ کاشف مرزا کے اس مضحکہ خیز جھوٹ پر انہیں کسی دماغی امراض کے ماہر کے پاس جانے کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہم ان کی مالی معاونت کرنے کو بھی تیار ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر دانش ایک نہایت ہی اوچھی حرکت کرتے ہوئے اے پی ایس حملے میں زخمی ہونے والے طالبعلم ولید کی تصویر دکھاتے ہیں اور نہایت بے شرمی سے ملالہ اور ولید کا تقابل کرنے لگتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملالہ کو جعلی گولی لگی تھی، جب کہ ولید اصلی گولی کھانے کے بعد بھی پاکستان ہی میں ٹھہرا ہوا ہے۔

Slide-PROPAGANDA-2

دو مظلوموں کا آپس میں یوں مقابلہ کرا کر ایک مظلوم کی کردار کشی کرنا پاکستانی میڈیا کی پستی اور گھٹیا پن کی ایک نئی مثال ہے، جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ملالہ کو طالبان نے باقاعدہ ٹارگٹ کیا تھا، جب کہ ولید اور اے پی ایس کے دیگر معصوم بچوں پر ان کے نام یا کسی فعل کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا۔ ملالہ پر حملے سے پہلے قاتل نے ملالہ کا نام لے کر اپنے ٹارگٹ کی تصدیق کی، اور یہ بھی کہ ملالہ کے زندہ بچ جانے کے بعد بھی تحریک طالبان پاکستان اسے قتل کی دھمکیاں دیتی رہی۔ یاد رہے کہ ملالہ کو اور اس کے گھرانے کو برطانیہ میں منتقل کرنے کا فیصلہ اس وقت کی حکومت اور فوج کا تھا۔ یہ بھی مت بھولئے کہ اس وقت کے آرمی چیف، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے خود اس معاملے میں دلچسپی لے کر اسے یقینی بنایا۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ ملالہ کا ابتدائی آپریشن پاکستان میں فوج کے ڈاکٹروں نے کیا۔

ایسے میں اگر ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا دیدہ دلیری سے سرے سے اس بات کا ہی انکار کر رہے ہیں کہ ملالہ کو کوئی گولی لگی تھی، تو ظاہر ہے کہ ان کے اعتراض کی زد میں افواج پاکستان اور ان کا سپہ سالار تک آ جاتا ہے کہ وہ اس ’’ڈرامے‘‘ میں شامل تھا۔ کیا کوئی عقل مند آدمی اس احمقانہ تھیوری پر یقین رکھ سکتا ہے؟ کاشف مرزا جیسی مضحکہ خیز باتیں کرنے والے فضل اللہ اور طالبان کے حامی تو ضرور ہ سکتے ہیں، پاکستان کے نہیں۔

پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر دانش پروگرام میں شریک فیاض الحسن چوہان اور اجمل وزیر سے انہیں اپنے رائے دینے کا کہتے ہیں۔ یہ دونوں صاحبان نہایت تابع داری سے کاشف مرزا کے جھوٹے پروپگنڈے کی تائید کرتے ہیں اور اس نفرت انگیز پروگرام میں اپنا زہر گھولتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیاض الحسن چوہان، اس سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں جن کے قائد کو تحریک طالبان پاکستان نے اپنے نمائندے کے طور پر حکومت پاکستان سے مذاکرات کے لئے تجویز کیا تھا۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جو طالبان کو پاکستان میں باقاعدہ اپنے دفاتر کھولنے کی دعوت دے چکی ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو 2009ء کے سوات آپریشن میں فوج کی مخالفت میں پیش پیش تھی اور جن کے قائد، ملا فضل اللہ کو ’’انصاف کے لئے جدو جہد کرنے والا‘‘ کہہ چکے ہیں۔ لہٰذا فیاض الحسن چوہان نے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کا نمک خوب حلال کیا۔ اس کے بعد اجمل وزیر نے بھی بہتے گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

Khattak

اور یوں کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش نے باہمی ملی بھگت سے ملالہ اور ان کے والد کی ویسی ہی کردار کشی کی جیسی کچھ برسوں قبل مہر عباسی نے سلمان تاثیر کی کردار کشی کی جو بالآخر ان کی شہادت کا سبب بنی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ سب کوئی اتفاقی یا غیر ذمہ داری کے مظاہرے کے طور پر نہیں، بلکہ باقاعدہ پورے ارادے اور قوت سے کیا جا رہا ہے۔ ملالہ کو ایک منظم کمپین کے تحت یہاں متنازعہ بنایا گیا ہے، اور اس کے لئے لوگوں کو مذہبی اشتعال دلایا گیا ہے، جیسا کہ ان دو پروگراموں میں کیا گیا۔ یہ ایک نہایت ہی مکروہ اور افسوس ناک عمل ہے۔ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ ہمارے میڈیا پر یوں تو دانش، لیاقت اور لقمان جیسے پر مغز نام تو موجود ہیں مگر ان میں کوئی بھی اسم بامسمیٰ نہیں۔

ایک اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ کاشف مرزا، پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر ہیں، اور کچھ عرصہ پہلے تک پنجاب حکومت کے مشیر برائے تعلیم اور کھیل رہے ہیں۔ ایسے تنگ نظر اور دروغ گو شخص کا ریاستی عہدے پر موجود ہونا ایک پریشان کن بات ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ ملالہ اور ان کے والد کو متنازعہ بنا کر، ملالہ کی کتاب کو پاکستان میں بین کروا کر لامحالہ کاشف مرزا اپنے ان مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں جو پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے ان کی دسترس میں ہیں یا آ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیڈریشن پہلے ہی دھروں میں بٹ چکی ہے۔  یہ بھی دھیان میں رہے کہ ملالہ کی تنظیم، ملالہ فنڈ، پاکستان میں تعلیم کے لئے پراجیکٹس شروع کر چکی ہے اور مزید کا ارادہ ہے۔ ملالہ مخالف مہم کی وجہ سے اس سے پہلے بھی ان کے نام سے خیبر پختون خواہ میں یونیورسٹی بنانے کی قراداد اسمبلی میں رد کی جا چکی ہے۔ اگر یہ مہم یونہی چلتی رہی، تو اس کے نتیجے میں ملالہ کی تنظیم کے دیگر تعلیمی منصوبوں پر بھی پاکستان میں عمل درآمد نہیں ہو سکے گا، اور جو منصوبے چل رہے ہیں ان میں کام کرنے والے افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ہی نقصان پہنچے گا اور ملا فضل اللہ کا ایجنڈہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ دوسری طرف پرائیویٹ سکول فیڈرشن کے صدر کاشف مرزا کے مفادات کا تحفظ بھی ہوتا رہے گا۔ ملالہ مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی صورت میں ڈاکٹر دانش اور ان کا چینل، اور اس سے پہلے اوریا مقبول جان اور انصار عباسی، ڈاکٹر دانش اور طلعت حسین بمع دیگر اینکرز اور نام نہاد دانشواران طالبان کی گڈ بکس میں رہیں گے اور ان پر کوئی حملہ نہیں کیا جائےگا۔ اب یہ پاکستانی عوام پر ہے کہ وہ اپنا برا، بھلا پہچانتی ہے یا جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار رہنا پسند کرتی ہے۔

Resolution

جب سر عام سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تاریخ کو اس طرح مسخ کیا جا رہا ہو اور اس کی تصحیح نہ کی جائے تو کچھ عرصہ گزرنے پر وہ جھوٹ دستاویزی صورت اختیار کر کے سچ تصور کیا جانے لگتا ہے۔ سبز خزاں بلاگ نے اس ضمن میں اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم اوریا مقبول جان اور نصار عباسی کے ملالہ مخالف پروپگنڈے کو دلائل اور پوری صداقت کے ساتھ بے نقاب کر چکے ہیں۔ آج ہم نے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کا جھوٹ بھی واضح کر دیا ہے۔ ہم اپنے قارئین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس محنت سے ہم نے یہ تحریر لکھی ہے، اس کا احساس کرتے ہوئے وہ کم از کم اسے ایک بار تسلی سے اور کھلے دماغ سے پڑھیں گے اور اگر وہ ہمارے براہین اور دلائل سے متفق ہوں تو اس تحریر کو آگے پھیلائیں گے تاکہ ہم اس معاشرے میں سچائی کی شمع روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

اور یاد رہے کہ انٹرنیٹ یا ٹی وی پر نشر ہونے والی ہر اطلاع درست نہیں ہوتی۔ سنی سنائی بات پر یقین کرنے سے بہتر یہ ہے کہ پہلے اس کی تصدیق کر لی جائے یا کم از کم اس کے بارے میں تنقیدی ذہن سے غور کر لیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی لاعلمی سے کسی کو نقصان پہنچ جائے اور آپ جانے یا انجانے میں اس کے ذمہ دار ٹھہریں۔

Quran-49-6

(تحریر: سبز خزاں)

8 thoughts on “پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب

  1. Pingback: 20 falsehoods Mirza Kashif Ali and Dr Danish shamefully propagated against Malala | Adelaide Hayes

  2. Pingback: وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں – سبز خزاں

  3. آپ کی ریسرچ کے بعد ہر عاقل کی آنکھیں کھل جانی چاہیئے۔
    آپ کی اس لاجواب کاوش کے لیے میرے پاس اپکو داد دینے کے لیے الفاظ نہیں۔

Leave a comment